نوکریوں کا المیہ ۔۔!
بھرتی کے اعلامیے بے روزگاروں سے کمائی کا ذریعہ نوجوانوں میں نفسیاتی مسائل ۔ امنگوں سے کھلواڑ کا سد باب ضروری
زعیم الدین احمد، حیدر آباد
حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے نوکریوں کے خوشنما اعلامیوں کے پیچھے کی حقیقت بڑی وحشت ناک ہے۔ یقیناً سرکاری نوکریوں کا حصول ایک تعلیمی یافتہ نوجوان کی زندگی کا اہم ترین ہدف ہوتا ہے۔ بلا شبہ سرکاری نوکریوں کے حصول میں بڑی کشش ہوتی ہے اس میں ہر طرح کی سہولیات و مراعات ہوتی ہیں چاہے وہ ریاستی سطح کی نوکریاں ہوں یا مرکزی سطح کی یا پھر دوسرے درجہ پر نیم سرکاری نوکریاں ہوں ان تمام طرح کی نوکریوں کا حصول آج کے نوجوان کا دیرینہ خواب بنا ہوا ہے۔ وہ کسی بھی قسم کی نوکری کے لیے جاری ہونے والے اعلامیہ کا بے چینی سے انتظار کرتا ہے اعلامیہ جاری ہو تو اس کے امتحان کی بھر پور تیاری کرتا ہے۔
اکثر ان بھرتیوں کے متعلق الزام لگتا رہتا ہے کہ نوکریوں کو پُر کرنے میں بڑے پیمانے پر رشوت لی جاتی ہے، رشوت کے بغیر کسی بھی نوکری کا حصول ممکن نہیں ہوتا یا پھر اس میں بھی سیاست کی طرح اقربا پروری کا الزام لگتا رہتا ہے، شفافیت نظر نہیں آتی۔
حکومت جب کسی بھی قسم کی نوکریوں کے لیے اعلامیہ جاری کرتی ہے تو مختلف ذرائع سے اس کی ساری تفصیلات جاری کرتی ہے جیسے کتنی جائیدادیں مخلوعہ ہیں کس زمرے میں کتنی نوکریاں ہیں کتنی محفوظ ہیں کیا تعلیمی قابلیت ہونی چاہیے عمر کتنی ہونی چاہیے اس کی فیس کتنی ہوگی کس تاریخ کو امتحان کا انعقاد ہوگا فیس جمع کرانے کی آخری تاریخ کیا ہوگی اور کون سا ادارہ امتحان کا انعقاد کرے گا وغیرہ وغیرہ۔
اب اس کے بعد اصل کھیل شروع ہوتا ہے۔ جیسے ہی امتحان کی فیس جمع کرانے کی تاریخ کا اعلان ہوتا ہے لاکھوں بے روزگار نوجوان اپنی اپنی فیس جمع کراتے ہیں اور اس امید میں اپنے دن بے چین اور بے کل گزراتے ہیں کہ اس امتحان میں کامیابی حاصل کر کے نوکری حاصل کر لیں گے۔ اصل میں امتحان کے لیے جو فیس ہوتی ہے وہ عموماً 250 تا 500 روپے ہوتی ہے۔ ایک فرد کے لحاظ سے یہ رقم چھوٹی نظر آتی ہے لیکن ایک بے روزگار نوجوان کے لیے یہ آسان نہیں ہوتا کہ وہ یہ رقم بھی آسانی کے ساتھ جمع کروا سکے۔ بڑی محنت و مشقت کے بعد اُسے یہ رقم حاصل ہوتی ہے۔ کچھ اعداد و شمار اس ضمن میں پیش کر رہا ہوں اس سے اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ فیس کے نام پر حکومت کے خزانے میں کتنی رقم جمع ہوتی ہے۔ دو مثالوں کے ذریعہ ہم اس کھیل کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔پہلی مثال، مارچ 2019 کو آر آر بی (ریلوے رکروٹمنٹ بورڈ) ین ٹی پی سی یعنی(نان ٹیکنیکل پاپولر کیٹاگیری) کا اعلامیہ جاری ہوتا ہے جو کہ تقریباً 35 ہزار جائیدادوں کو پُر کرنے لئے ہوتا ہے اور اس کی فیس جمع کروانے کی آخری تاریخ 31 مارچ مقرر ہوتی ہے ۔ دوسری مثال،12 مارچ 2019 کو ایک اور اعلان آر آر بی گروپ ڈی کا اعلامیہ جاری ہوتا ہے 12 اپریل فیس جمع کروانے کی آخری ہوتی ہے جس میں تقریباً 1 لاکھ جائیدادیں مخلوعہ ہوتی ہیں۔ ان جائیدادوں کے لیے 1 کروڑ 26 لاکھ 30 ہزار 885 افراد نے آر آر بی، ین ٹی پی سی کا فارم پر کیا اور آرآربی گروپ ڈی کے لیے 1 کروڑ 15 لاکھ 67 ہزار 248 افراد نے فارم پر کیا۔ اگر ہم ان دونوں فارم بھرنے والوں کی تعداد کو ایک جگہ جمع کر دیں تو یہ تعداد 2 کروڑ 41 لاکھ 98 ہزار 133 ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 1 لاکھ 35 ہزار مخلوعہ جائیدادوں کے لیے تقریباً ڈھائی کروڑ افراد نے فارم پر کیا تھا۔ اس اعلامیہ سے بے روزگار نوجوانوں میں امید جاگتی ہے انہیں ان میں اپنا مستقبل نظر آنے لگتا ہے اور وہ بہتر زندگی کا خواب دیکھنے لگتے۔ اس اعلامیہ کی ساری تفصیلات اب بھی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔ اس سے متعلق ہندوستان ٹائمس اور ین ڈی ٹی وی کے رویش کمار نے رپورٹ کی ہے۔
عام زمرے کے لیے پانچ سو روپے فیس مقرر کی گئی اور محفوظ کیٹگری کے لیے دو سو پچاس روپے فیس مقرر کی گئی ہے۔ فرض کیجیے کہ سارے ہی امیداروں نے جنرل کیٹگری میں فیس جمع کی ہے تو یہ تقریباً 12 سو کروڑ روپے کی خطیر رقم بنتی ہے۔ اور اگر محفوظ کیٹگری میں فیس جمع کی ہے تو یہ رقم 6 سو کروڑ روپے ہوتی ہے۔ جب کہ ایسا نہیں ہوتا کہ سارے ہی امیدوار ایک ہی زمرے میں فیس جمع کرتے ہیں ممکن ہے ان کچھ جنرل کیٹگری کے ہوں اور کچھ محفوظ کیٹگری کے۔ تو اس صورت میں ہم بیچ کا عدد لیتے ہیں اور فرض کرتے ہیں ان میں آدھے جنرل کیٹگری اور آدھے محفوظ کیٹگری کے امیدوار ہوں گے تو ان سے جو رقم جمع ہوگی وہ تقریباً 1 ہزار کروڑ روپے کی بنتی ہے۔ گویا اس وقت حکومت کے پاس 1 ہزار کروڑ روپے کی رقم بطور فیس جمع ہے جو اس نے ماہ مارچ و اپریل 2019 میں وصول کیے تھے۔ آخر اتنی خطیر رقم کا حکومت نے کیا کیا؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔
تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج تک یہ امتحان منعقد نہیں ہوسکا۔جب کہ ریلوے نے زیادہ سے زیادہ اسے ماہ ستمبر میں منعقد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ماہ جون 2020 میں ریلوے کی جانب سے پریس کے ذریعہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے امتحان کی ساری تیاریاں کرلی تھیں لیکن کوویڈ-19 کی وجہ اس کے انعقاد میں میں تاخیر ہو رہی ہے۔ یہ ریلوے کی انتہائی بد دیانتی ہے کہ اس نے وعدے کے مطابق امتحان کا انعقاد نہیں کیا اور اب وہ وبائی مرض کا بہانہ بنا رہا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ آخر یہ دو کروڑ نوجوانوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان تمام کو نوکری نہیں مل سکتی لیکن یہ لوگ کم از کم اس بات سے مطمئن تو ہو جائیں گے کہ ان کا امتحان ہو گیا ہے ان میں سے ڈیڑھ لاکھ نوجوان تو روزگار پالیں گے۔
ان اعداد وشمار سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت میں بے روزگاری کی شرح کیا ہوگی۔ اندازاً اس وقت بھارت میں تقریباً 10 کروڑ نوجوان بے روزگار ہیں۔ اگر وہ کچھ کما بھی رہے ہیں تو ان کی آمدنی روزآنہ دو سو روپے بھی نہیں ہوگی جو مہینہ بھر میں چھ ہزار روپے بھی نہیں کما پاتے جب پٹرول و ڈیزل اسّی روپے ہوگیا ہے مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ روزمرہ کی چیزیں عام آدمی کی دست رس سے باہر ہوتی جا رہی ہیں ایسی صورت میں ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بے روزگاروں کے لیے پانچ سو روپے کی فیس جمع کروانا کتنا مشکل ہوگا۔ پھر اس کے بعد ان سے کہا جاتا ہے کہ اندازاً آپ کا امتحان جون سے ستمبر کے درمیان ہوگا۔
یہ صرف ایک محکمہ کی صورت حال ہے اور کم و بیش یہی کیفیت ہر محکمہ کی ہے کہ یا تو ان میں مخلوعہ جائیدادیں پُر ہی نہیں ہوتیں اگر ہوتی بھی ہیں تو اعلامیہ جاری ہونے کے دو تین سال گزرنے کے بعد ہوتی ہیں۔ ریاستی سطح کی نوکریوں کے لیے بھی یہی صورت حال ہے۔ نوکریوں کا اعلان تو ہوتا ہے فارم بھی داخل کیے جاتے ہیں لیکن امتحان فارم داخل کرنے کے کئی مہینوں بعد منعقد کیا جاتا ہے۔ اکثر اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ امتحان کے انعقاد میں عدم شفافیت کو لے کر لوگ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں اور وہاں یہ مسئلہ برسوں لٹکا ہوا رہتا ہے اور اس طرح نوکریوں پر بر وقت تقررات نہیں ہو پاتے۔
اس تاخیر سے بے روزگار نوجوانوں کے اندر جو اس جیسے امتحانات کی تیاریوں میں اپنے رات دن ایک کیے رہتے ہیں بڑی بے چینی پائی جاتی ہے۔ وہ یہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں ان کے ساتھ اس طرح کا مذاق کیوں ہو رہا ہے۔ اس تاخیر نے ان کو نفسیاتی طور پر کمزور کر دیا ہے ان میں سے اکثر نوجوانوں کے اندر خود کشی کے رجحانات نے جنم لے لیا ہے وہ انتہائی کرب و اذیت میں مبتلا ہیں۔ اس شدید بحران میں ان کی کوئی دادرسی کرنے والا نہیں حکومت کی عدم توجہی اور خاموشی اس کی بے حسی کو عیاں کرتی ہے۔ مختلف محکمہ جات میں ہزاروں جائیدایں مخلوعہ ہیں لیکن حکومت ہے کہ ان میں تقررات نہیں کر رہی ہے جب کہ اگر ایک بھی ایم یل اے، ایم یل سی یا پارلیمنٹ کی ایک بھی نشست خالی ہوتی ہے تو فوری اس کو پُر کر لیا جاتا ہے۔ اسمبلی اجلاس کا انعقاد بھی ہوجاتا ہے، ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت بھی ممکن ہوجاتی ہے، آن کی آن میں کسی ریاستی حکومت کو ختم کر کے اسے مرکزی زیر انتظام علاقے میں تبدیل کرلیا جاتا ہے، راتوں رات کوئی بھی بل منظورہو جاتا ہے لیکن ملک کے بے روزگار نوجوانوں کے لیے روزگار فراہم کرنے اور ان کے مسائل کو حل کرنے میں ذرا بھی دل چسپی نہیں لی جاتی نہ کوئی اس معاملے میں کوئی سنجیدگی پائی جاتی ہے اور نہ کوئی ان کے مسائل کو سمجھنا چاہتا ہے نہ انہیں حل کرنا چاہتا ہے۔