نوجوانوں میں بڑھتی جنسی بے راہ روی کا سدباب کیسے؟
بہتر سماج کی تعمیرکے لیے نئی نسل کا فحش سے تحفظ ضروری
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
متعدد مغربی ممالک کے نوجوان جہاں آن لائن پورنوگرافی کی لعنت میں مبتلا ہیں وہیں ہمارے ملک کے نو عمر نوجوانوں میں بھی یہ لعنت وبا کی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔ وہائی مرض کی طرح پنپنے والی آن لائن فحاشی اور ان ویب سائٹس کا بڑھتا استعمال ملک کی نو خیز نسل کو تباہ و برباد کر رہا ہے۔
مغربی ماہرین کے مطابق جنسی تعلیم اور اس کے رازوں کے متعلق جاننا نو عمروں کا محبوب مشغلہ رہا ہے لیکن آج کے مادی و ترقی یافتہ دور میں سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ کی دستیابی نے ان کے لیے اُن پوشیدہ چیزوں کی معلومات تک پہنچنے میں بہت آسانی پیدا کر دی ہے۔ وہ فحش اور گندے ویب سائٹس کے جال میں پھنس کر اپنی ذہنی صحت کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت کو بھی برباد کر رہے ہیں۔
اولاً ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ پورنو گرافی سے انسانی دماغ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس میں مبتلا ہونے کے کیا طبی عوامل ہیں؟ اس لت اور لعنت سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ وہ کیا عوامل ہیں جس کی مدد سے اس دلدل سے نکلا جاسکتا ہے۔
طبی طور پر یہ بات واضح ہے کہ جب بھی انسان بہت زیادہ خوش ہوتا ہے مثلاً اسے اپنا من پسند کھانا مل جائے یا من پسند جگہ پر سیر کرنے کا موقع مل جائے تو اس کے دماغ سے ڈوپامائن نامی ایک ہارمون خارج ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کا سارا جسم خوشی اور مسرت سے بھر جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح سے پورنو گرافی دیکھنے پر بھی یہ کیمیائی مادہ اس کے دماغ سے بڑی مقدار میں خارج ہوتا جس کی وجہ سے اسے لذت حاصل ہوتی ہے۔
ماہرینِ طب کے مطابق انسانی دماغ کے تین حصے ہوتے ہیں۔
پہلا نیوکاٹیکس دوسرا لمبک برین اور تیسرا ریپٹلین برین نیوکوٹیکس کا کام یہ ہوتا ہے کہ انسان اس سے سوچتا ہے غورو فکر کرتا ہے تدبر کرتا ہے اور تحقیق وجستجو کرتا ہے۔
لمبک برین کا کام یہ ہے کہ وہ انسان کے اچھے برے احساسات اور محبت ونفرت کے جذبات کو کنٹرول کرتا ہے۔
ریپٹلین برین انسان کے مادی و حیوانی ضرورتوں کو کیسے پورا کیا جائے یہ حصہ اس میں مدد کرتا ہے۔ اس کا کام یہ بھی ہے کہ جسم کو کیسے فائدہ پہنچائے، خواہشات کی کیسے تکمیل ہو جہاں کہیں سے اسے خوشی ملتی ہو وہ اس طرف مائل ہو جاتا ہے اور دماغ کے دوسرے حصوں کو ماؤف کر دیتا ہے یا انہیں ناکارہ بنا دیتا ہے۔
پورنوگرافی سے دماغ سے بہت زیادہ مقدار میں ڈوپامائن خارج ہوتا ہے۔ ڈوپامائن کا اخراج دماغ کے ریپٹلین حصہ کو انتہائی متحرک کر دیتا ہے جس کے نتیجہ میں دماغ کے دوسرے حصے ماؤف ہو جاتے ہیں اور انسان کے اندر سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی اس کے اندر سے جذبات و احساسات بھی ناپید ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے اس کا سارا جسم اس کے قابو سے باہر ہو جاتا ہے اور اس کے کنٹرول میں نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اس دلدل سے نکل نہیں پاتا وہ ہزار کوششوں کے باوجود اس سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پاتا۔
جب انسانی دماغ کا حیوانی حصہ دوسرے حصوں پر غالب آجاتا ہے تو اس سے حیوانی کام ہی سرزد ہونے لگتے ہیں۔ اس سے انسانی خصوصیات جیسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت، جذبات و احساسات کم ہونے لگتے ہیں۔ وہ بس اسی دھن میں رہتا ہے کہ جسمانی خواہشوں کو جائز و ناجائز کی تمیز کیے بغیر کیسے پورا کیا جائے۔ اگر اس کے پاس جائز راستہ موجود ہو تو ٹھیک لیکن اگر موجود نہ ہو تو وہ ناجائز راستے سے جنسی خواہش کی تکمیل میں لگ جاتا ہے۔ نفسیاتی ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ جنسی جرائم میں مبتلا ہونے کی اہم وجہہ فحش بینی ہے۔ خوف اور خطرے کی بات یہ ہے کہ آن لائن فحش ویب سائٹس تک آسانی سے رسائی کی وجہ سے نوجوان خطرناک حد تک جنسی بے راہ روی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں اور ٖفحاشی کی طرف مائل ہو رہے اور اسی وجہ سے وہ جنسی جرائم بھی میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں نوجوانوں کی آبادی پینتیس کروڑ چھ لاکھ ہے یہ خطرہ اور بھی بڑھ گیا ہے۔ نئی دہلی کے فورٹس اسپتال میں منٹل ہیلت اینڈ بی ہیوئرل سائنس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سمیر پاریکھ کا کہنا ہے کہ پورن گرافی کی وجہ سے نوجوانوں کی ازدواجی زندگی پر بھی گہرے اثرات پڑ رہے ہیں ان کی شادی شدہ زندگی شدید طور پر متاثر ہو رہی ہے۔
بھارت کے ممتاز ماہر جنسیات ڈاکٹر پرکاش کوٹھاری کے مطابق ’’فحش بینی ایک لت ہے جو کسی بھی فرد کی خواہشات کو بے قابو کر دیتی ہے چنانچہ اس کے طرز عمل میں بھی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے‘‘۔ جب کوئی نوجوان اس مرحلے تک پہنچ جاتا ہے تو اسے فوری طور پر علاج اور اس کی کونسلنگ کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ وہ نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے اور دماغی طور پر مفلوج ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ جنسی جرائم کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔
ایسا ہی ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر سمیر پاریکھ کہتے ہیں کہ سومت اگروال (نام تبدیل کیا ہوا) جس کی عمر 26 سال ہے وہ شادی شدہ ہے اور روزآنہ تین سے سات گھنٹے تک پورن فلمیں دیکھتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سومت اپنی بیوی سے دوری اختیار کرتے ہوئے اپنا زیادہ تر وقت صرف فحش بینی میں ہی گزارنے لگا تھا جس کی وجہ سے اس کے اور بیوی کے درمیان اختلافات بڑھتے چلے گئے ان کے تعلقات میں بگاڑ کے ساتھ اس کی جسمانی صحت پر بھی بڑے گہرے اثرات مرتب ہونے لگے تھے۔
نئی دلی کے میکس سپر اسپیشالیٹی اسپتال میں شعبہ منٹل ہیلت اینڈ بی ہیوئرل سائنس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سمیر ملہوترا اس بات سے اتفاق کرتے ہیں ’’فحش بینی کسی فرد کے طرز عمل کی عکاس ہوسکتی ہے‘‘۔
فحش بینی ایک ایسی لت ہے جس سے کوشش کے باوجود چھٹکارا نہیں ملتا اس لت میں مبتلا لوگ انٹرنیٹ پر زیادہ سے زیادہ وقت گزار رہے ہوتے ہیں۔ فحش بینی کی عادت کسی نشہ کی طرح ہوتی ہے جو اس لت میں مبتلا ہوتا ہے اس کی خواہشات میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ فحش بینی میں مبتلا نوجوان فحش دیکھنے میں دن کا بیشتر حصہ بغیر کسی تردد کے ضائع کرتا چلا جاتا ہے۔ فحش بینی کی لت میں مبتلا افراد کے ذہن میں غیر حقیقی و غیر فطری خیالات جنم لیتے رہتے ہیں۔
جب نوجوان فحش بینی کے عادی ہو جاتے ہیں تو ان کی توجہ زندگی کے مختلف پہلوؤں سے ہٹ جاتی ہے جیسے پڑھائی یا کسی اور کام میں ان کی دلچسپی باقی نہیں رہتی، وہ تنہائی پسند ہوتے چلے جاتے ہیں، دوستوں سے یا خاندان کے کسی فرد سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتے۔ درحقیقت پورن گرافی ان کے کام اور تعلقات کو بُری طرح متاثر کر دیتی ہے۔ اس میں مبتلا فرد کے اندر انتہائی چڑچڑا پن، غصہ اور بات بات پر مشتعل ہو جانا جیسی خرابیاں پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں۔
آخر اس سے نجات کا کیا راستہ ہے اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے اس کو جاننے کی کوشش کریں گے۔انسان چونکہ مادیت اور روحانیت کا امتزاج ہے ان دونوں کیفیتوں میں توازن بے انتہا ضروری ہے اور یہی اسلامی تعلیمات بھی ہیں۔ جب کبھی ان میں عدم توازن پیدا ہوگا تو تباہی اور بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ اس سے بچاؤ کےطریقوں میں سب سے پہلے اسے اپنی نگاہوں کو اپنے قابو میں کرنا ہوگا۔ اپنی نظروں کو، اپنی نگاہوں کو فحش بینی سے بچانا ہوگا۔ ہر وہ راستہ بند کرنا ہوگا جس سے انسان کی نگاہیں فحش بینی کر سکتی ہوں۔ خصوصیت کے ساتھ نوخیز نسل کو جب تک کے وہ والدین کے کنٹرول میں رہتے ہیں ان پر ہر سطح پر نگرانی رکھی جائے خاص طور پر انٹرنیٹ کے استعمال کے اوقات متعین کیے جائیں انہیں اس کی تباہ کاریوں سے آگاہ کیا جائے۔ اس سے ہونے والی اخلاقی و مادی تباہی سے ڈرایا جائے۔
اس سلسلے میں سماجی سطح پر بھی کام ہونا چاہیے، والدین اور سماج کے باشعور افراد حکومت سے یہ مطالبہ کریں کہ انٹرنیٹ سے وہ سارا مواد ہٹا دیا جائے جس سے نوخیز نسل اس لت میں مبتلا ہو رہی ہے۔ ایسے ٹی وی سیریلس کو، فلموں کو سنسر کر دیا جائے جسے دیکھ کر نوجوان نسل جنسی بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے اور وہ جنسی جرائم میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ہر سطح پر اس کے خلاف آواز اٹھائی جانی چاہیے۔ ہر شخص کا ایک دائرہ اثر و اختیار ہوتا ہے وہ اپنے دائرہ اثر میں اس کو روکنے کی بھر پور کوشش کرے اپنے گھروں میں، محلے میں خطیب حضرات مساجد میں اور اہل علم اپنے زورِ قلم سے اپنی نوخیز نسل کو اس لعنت سے بچانے کے لیے کوششیں کریں تو یقینی طور پر ان آوازوں کا، ان کوششوں کا اثر ہوگا اور ایک اچھا اور جرائم سے پاک معاشرہ تشکیل پا سکے گا۔
ہر شخص کا ایک دائرہ اثر و اختیار ہوتا ہے وہ اپنے دائرہ اثر میں اس کو روکنے کی بھر پور کوشش کرے اپنے گھروں میں، محلے میں خطیب حضرات مساجد میں اور اہل علم اپنے زورِ قلم سے اپنی نوخیز نسل کو اس لعنت سے بچانے کے لیے کوششیں کریں تو یقینی طور پر ان آوازوں کا، ان کوششوں کا اثر ہوگا اور ایک اچھا اور جرائم سے پاک معاشرہ تشکیل پا سکے گا۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020