نقطۂ نظر: اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

ابوفہد

بعض اہل علم کا ماننا ہے کہ یہ شعر درست نہیں مگر میرا خیال ہے کہ ایسی کوئی بات فی الواقع نہیں ہے۔ شعر اپنی جگہ درست ہے اور اپنے باطن میں بڑے حقائق چھپائے ہوئے ہے۔ پہلے مصرع میں کہا گیا ہے کہ حضرت حسینؓ کی شہادت اس وقت کے حاکم یزید بن معاویہؓ کے دامن پر ایک بدنما داغ ہے اور ہر طرح کی ذلت ورسوائی کا سبب ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے سوچیں اگر اس معاملے میں یزید بن معاویہؓ کی ذرا سی بھی کوتاہی ثابت ہوجاتی ہے تو یہ چیز ان کے لیے ’’مرگ‘‘ ہی ہے۔ یعنی باعث ذلت ورسوائی ہے، خاص طور پر اس وقت جب یوم حساب میں اللہ کا دربار سجا ہوگا اور ہر ادنیٰ و اعلیٰ اس کے سامنے حیران وپریشان دست بستہ کھڑا ہوگا۔

اس مصرع میں ایک بڑی بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شاعر کے ذہن میں معنون شخص کے لیے ذلت ورسوائی امکانی درجے میں ہو۔ چونکہ وقت کا حاکم ’شہادتِ حسین‘ کے سانحے کو روکنے میں ناکام رہا اور یہ کوتاہی امکانی طور پر اللہ کے نزدیک موجب عتاب ہو سکتی ہے۔ تو شاعر کے ذہن میں بہت ممکن ہے کہ ’’مرگِ یزید‘‘ کا تصور، آج کے دور میں’’مرگ بر امریکہ‘‘ جیسے ایران کے سیاسی ایوانوں سے بلند ہونے والے لعنتی اور سرتا سر منافرت پر مبنی نعرے جیسی نہ ہو بلکہ آخرت میں اس کوتاہی کے نتیجے میں ملنے والی امکانی جزا وسزا کے تصور پر مبنی ہو۔

شعر میں اس کی بڑی گنجائش ہوتی ہے کہ اس میں ایک سے زاید معانی نکالے جاسکیں، اور ایسی صورت میں شاعر کی ذہنی افتاد جانے بغیر قاری اپنے ذہن سے کسی ایک معنیٰ کا تعین نہیں کرسکتا اور اگر کسی ایک معنیٰ کا تعین قرائن کی بنیاد پر یا شعر کی اندرونی شہادتوں کی بنیاد پر کر بھی لے تو اس کے لیے یہ کسی بھی صورت میں درست نہیں کہ وہ اس پر اصرار بھی کرے۔ بیشک شعر دل کا ترجمان ہوتا ہے اور شاعر کے عقیدے اور تصور کا غماز بھی۔ غالب نے کہا ہے:

کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ

شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے

تو شعر دل کے معاملات ومقدمات کا ترجمان ہوتا ہے لیکن پھر بھی دوسرا آدمی شعر کے کوئی ایک ہی متعین معنیٰ پر اصرار نہیں کر سکتا۔واقعہ کربلا کے منظر وپس منظر کی پوری داستانِ خونچکاں کے حوالے سے میں تو یہاں تک سوچتا ہوں کہ جب نواسہ رسولﷺ میدان میں آگئے تھے اور مسلمانوں سے اپنے ہاتھ پر بیعت چاہتے تھے تو مسلمانوں کو ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے میں کوئی بھی عذر مانع نہیں ہونا چاہیے تھا حتیٰ کہ حاکم وقت کا خوف بھی بیعت سے مانع نہیں ہونا چاہیے تھا اور نہ ہی مصلحت اندیشی کے محرکات کوئی قابل قدر عذر ٹہرنے چاہیے تھے۔ ایسی صورت حال میں کسی دوسرے مسلمان کی یہ مجال ہی نہیں ہونی چاہیے تھی کہ وہ ان کے مقابل میں کھڑا رہے، حتیٰ کہ اس وقت بھی نہیں جب بیشتر مسلمان برضا ورغبت اس کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہوں، تب بھی اس کے لیے یہ اس طرح سے سزاوار اور نفع کا سودا تھا کہ وہ نواسہ رسول کے لیے کرسی خالی کر دیتا، ان کی دست بوسی کرتا اور بصد ادب واحترام عرض کرتا کہ اے حضور عالی مقام!اے خانوادۂ رسول کے چشم وچراغ! منصب امارت کے سب سے زیادہ آپؓ ہی حقدرا ہیں، تمام مسلمانوں سے زیادہ، حتیٰ کہ خود مجھ سے بھی زیادہ، میں آپ کے حق میں امارت سے دستبردار ہوتا ہوں۔

بیشک نواسہ رسول کی اطاعت نبیﷺ کی اطاعت کی طرح لازم نہیں پھر بھی نواسہ رسول کے زمانے کا کوئی بھی مسلمان ان سے برابری کیسے کر سکتا تھا؟ علم وعمل میں، زہد وتقویٰ میں اور دانشمندی وسوجھ بوجھ میں آخر کون سے پہلو سے برابری کر سکتا تھا؟ کیا ’المؤمن ینظر بنوراللہ‘ کا مصداق نواسۂ رسول سے بڑھ کر کوئی اور مسلمان ہوسکتا تھا؟ بیشک رسول اللہﷺ نے امارت وسیادت کو اپنے خاندان میں جاری نہیں فرمایا تاہم عام مسلمانوں کو عمومی طور پر اور حکمراں طبقے کو خصوصی طور پر اپنے خاندان کے افراد کا خیال رکھنے کا حکم دیا اور انہیں کسی بھی طرح کی اذیت نہ دینے کے بیان کو باربار جاری فرمایا۔ ان کی عظمتیں بیان کیں، ان میں سے بیشتر افردا کے جنتی ہونے کی بشارتیں دیں، بلکہ یہ فرمایا کہ جنت میں بھی ان کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام متعین ہیں۔ کیا رسول اللہﷺ کے خاندان کے ایسے افراد اس لائق نہیں تھے کہ وہ دنیا میں بھی مسلمانوں میں عزت ووقار کی زندگی گزارتے اور دین ودنیا ہر دو میدانوں میں ان کی رہنمائی فرماتے بلکہ قیادت فرماتے۔ بیشک وہ اس لائق تھے۔

دوسرا مصرع ہے:

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

یہاں ’کربلا‘ کا لفظ علامتی معنیٰ مں استعمال ہوا ہے نہ کہ حقیقی معنیٰ میں؟ اور اس کی شہادت لفظ ’کربلا‘ کے ساتھ ’ہر‘ کا لا حقہ بہم پہنچا رہا ہے۔ اور یہاں ’ہر کربلا‘ سے مراد ’ہر ایک آزمائش اور ہر قربانی‘ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اہل ایمان پر جب بھی برا وقت آتا ہے وہ اپنے ایمان کے حوالے سے مزید زود حس ہوجاتے ہیں۔ اسلام کے تئیں ان کے سوئے ہوئے جذبات بیدار ہو جاتے ہیں اور اللہ سے کمزور پڑتے ہوئے رشتوں میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ شہادت حسینؓ نے اپنے بعد والوں کے لیے یہی چیز چھوڑی ہے کہ جب جب بھی وہ اس واقعے کو یاد کریں تو ایمان واسلام کے حوالے سے جوش وخروش سے بھر جائیں اور اپنی کوتاہیوں اور نارسائیوں کو پیچھے چھوڑ کرحق کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔ اور یہی اسلام کے زندہ ہونے سے مراد ہے۔ اسلا کے زندہ ہونے سے یہ مراد نہیں ہے کہ کربلا سے پہلے اسلام مردہ ہوگیا تھا اور کربلا کے واقعے نے اسے زندہ کر دیا۔ جیسا کہ کئی لوگوں کا خیال ہے، وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا کربلا کے بعد کوئی دوسرا اسلام پیدا ہوگیا تھا۔ بیشک دوسرا اسلام پیدا نہیں ہوا تھا مگر اس بڑی آزمائش کے بعد عام مسلمانوں میں عزم وحوصلے اور شہادت وقربانی کے جذبات بیدار ہوئے اور انہوں نے جانا کہ اللہ کے دربار میں اور دنیا بھی میں عام مسلمانوں کی نظر میں سرخ رو ہونے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے۔ اور ’’کلمۃ حق عند سلطان جائر‘‘ سے آگے بڑھ کر جام شہادت نوش کرنے کے اقدامات کے آپشن بھی ہیں۔ ایسا ہی ہر بڑی آزمائش کے بعد ہوتا ہے کیونکہ آزمائشیں مسلمانوں کو پست ہمت نہیں بناتیں بلکہ ان کے عزم وحوصلے کو مزید جواں کر دیتی ہیں۔

سید صادق حسین نے کہا ہے:

تندیٔ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

 یہ تو معلوم ہی ہے کہ سرنامے والا مشہور و لافانی شعر کسی عام شخص کا نہیں ہے۔ یہ اپنے وقت کے عبقری شخص، مجاہد آزادی، دفینِ بیت المقدس مولانا محمد علی جوہر کا شعر ہے۔ وہ علم کا بہتا ہوا سمندر تھا، جو اپنے عقیدے میں پختہ اور صائب الرائے تھا، محبت رسول ﷺ اسے اس کی گھٹی میں پلائی گئی تھی، وہ دین کی فکری وعملی بنیادوں سے واقف تھا اور جس کی ساری زندگی جدوجہد سے عبارت تھی۔ اس ایسے شخص نے جب یہ شعر کہا ہے تو اپنے وسیع مطالعے اور غور وفکر کے بعد ہی کہا ہے۔ بیشک خطا کے امکان سے مفر نہیں مگر یہ شعر ہر طرح سے معرکۃ الآرا شعر ہے۔ اسی عبقری شخص کے مزید دو اشعار دیکھیں:

توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے

یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے

کیا ڈر جو ہو ساری خدائی بھی مخالف

کافی ہے اگر ایک خدا میرے لیے ہے