نفرت انگیز مہم کے بیچ نظروں سے اوجھل کچھ دل پذیر مناظر کی ایک جھلک!
سچے کورونا واریئرس کی سچی کہانیاں۔۔۔
شجاعت حسینی، حیدرآباد
عالمی وبا کے کٹھن ایام کے دوران انسانیت دوستی کی سچی تصویروں کے ذریعے بھائی چارے اور یکجہتی کا ماحول پیدا ہوسکے، اس مقصد کے پیش نظر ہم نے گذشتہ ہفتے جو سلسلہ شروع کیا تھا، اس کی دوسری کڑی پیش ہے۔ نفرت کے سوداگر چند میڈیا چینلوں کی وجہ سے من گھڑت کہانیوں کی ایک کالی گھٹا سی چھا گئی ہے جس کی تاریکی میں انسانیت دوستی کے دل نواز مناظر نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں۔ ایسے ماحول میں ضرورت ہے کہ عوام کو بتایا جائے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے ہر قوم اپنا اپنا حصہ ادا کر رہی ہے۔
40) ترچی (تاملناڈو) کےنوجوان سید ابو طاہر 2017 بیچ کے گریڈ 2 پولیس کانسٹیبل ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران انھوں نے دیکھا کہ ایک حاملہ خاتون اور اس کا شوہر پیدل شہر کی سمت چلے آرہے ہیں۔ ابوطاہر نے انھیں روکا، تفصیلات معلوم کیں۔ پتہ چلا کہ لاک ڈاؤن کی مجبوریوں کی وجہ سے وہ اس دشوار گھڑی میں پیدل چلنے پر مجبور ہوئے۔ ابوطاہر نے فوراً کوشش کرکے ایک ٹیکسی کا نظم کیا۔ سلوچنا اوران کےشوہر ازوملائی کے ہمراہ وہ بھی اسپتال پہنچے۔ خاتون کو داخل کروایا۔ معلوم ہوا کہ خاتون کو او پازیٹیو خون کی فوری ضرورت ہے۔ خدا کا کرم کہ ابو طاہر کا بلڈ گروپ بھی او پازیٹیو تھا انھوں نے فوراً اپنے خون کا عطیہ پیش کیا۔ کچھ دیر وہ اسپتال میں ہی ٹھہرے رہے، صحت مند نومولود کو دیکھ کر وہ اسپتال سے رخصت ہوئے۔ ازوملائی کہتے ہیں کہ اگر ابو طاہر کی مدد اور ان کے خون کا عطیہ نہ ملتا تو پتہ نہیں ہم کن مشکلوں میں گھرچکے ہوتے۔ ابو طاہر کو ان کی ان بے مثل خدمات کے عوض سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ڈی جی پی نے اعزاز سے نوازا۔ ابو طاہردوبارہ ملاقات کرکے انعامی رقم کا نصف سلوچنا کو میڈیکل اخراجات کے لیے دینا چاہتے ہیں۔ (اکشے ناتھ کی رپورٹ مشمولہ انڈیا ٹوڈے، 18 اپریل، تنوی پٹیل کی رپورٹ، مشمولہ دی بیٹر انڈیا)
41) پربھنی شہر میں واقع صفابیت المال کی لاک ڈاؤن کے دوران خدمات دیکھ کر مقامی تحصیلدار جناب ودیا چرن کڑوکر بہت متاثر ہوئے ۔ ان کی وہ تصویروائرل ہورہی ہے جس میں وہ ڈاکٹر انور علی شاہ کے پیر چھوتے اور ان سے بغل گیر ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایشیا ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ودیا چرن صاحب اس قدر جذباتی ہوگئے تھے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ (سید یوسف کی رپورٹ، ایشیا ایکسپریس)
42) حیدرآباد کے قلب شہر میں واقع خیریت آباد علاقے میں و ینو مدیراج اپنے خاندان کے ساتھ رہتے تھے۔ ٹی بی کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا۔ کووڈ 19 کےخوف سے پڑوسیوں نے دوری اختیار کی۔ مدیراج کے نوعمر بچوں سے ہمسایوں کو یہ شکایت بھی تھی کہ وہ اپنے والد کی نعش گھر کیوں لائے۔ غریب بچے گھر پر نعش رکھ کر سخت پریشان تھے۔ صادق بن سلام کو ان کی مصیبت کا علم ہوا۔ انھوں نے اپنے دوستوں عبدالمقتدر، محمد احمد اور شیخ قاسم کو بلایا۔ پولیس سے پرمیشن حاصل کی اور خیریت آباد سے بنجارہ ہلز تک ان دوستوں نے ارتھی اپنے کاندھوں پر اٹھا ئی اور پسماندگان کی موجودگی میں انھیں کے ذریعے ضروری رسومات انجام دیں۔ (پریتی بسواس کی رپورٹ، مشمولہ دی ٹائمز آف انڈیا، 20 اپریل)
43) بلڈانہ ضلع کے کھام گاؤں شہر میں بھی عین اسی نوعیت کا واقعہ پیش آیا۔ ٹی بی کی وجہ سے ایک شخص کا انتقال ہوگیا۔ کورونا کی دہشت کے مارے کوئی پڑوسی یا رشتے دارنعش کے قریب نہ آیا ۔ مرحوم کی دو معصوم بچیوں نے ایک مقامی درمند بزرگ قمرالدین صاحب کو اطلاع دی۔ وہ نہ صرف آگے آئے بلکہ خود ہی شمشان لے جاکر آخری رسوم ادا کیں۔ یو سی این نیوز نے ایک تفصیلی ستائشی رپورٹ نشر کی۔ قمرالدین صاحب سے جب مقامی صحافی نے اس غیر معمولی خدمت کے متعلق پوچھا ، تو انھوں نے بڑی معصومیت سے کہا کہ آج وہ گئے ہیں کل مجھے جانا ہے، اس لیےایسی کسی خدمت سے لاتعلق ہوجاؤں، میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
(یو سی این انڈیا، 24 اپریل)
عین اسی نوعیت کی خبریں سوشل میڈیا کے توسط سے گجرات، تلنگانہ اور کئی دیگر مقامات سے بھی موصول ہورہی ہیں۔
44) سلطانپور (اتر پردیش) کے متوطن محمد شریف "مردوں کے مسیحا” کہلاتے ہیں۔ بی بی سی ورلڈ سروس نے موصوف کی خدمات پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ ان تمہیدی الفاظ کے ساتھ شائع کی کہ ” محمد شریف(المعروف شریف چاچا) کواپنے بیٹے کی تدفین کا موقع کبھی نہ مل سکا لیکن انھوں نے پچھلے 27 برس دوسرے خاندانوں کے ہزاروں بیٹوں اور بیٹیوں کو دفنانے میں لگائے ۔” ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق انھوں نے تاحال 3000 ہندو نعشوں کا انتم سنسکار اور تقریباً 250 مسلم نعشوں کی تدفین انجام دی ہے۔ (یسریٰ حسین کی رپورٹ،مشمولہ ٹائمز آف انڈیا ، 26 جنوری 2020)
محمد شریف کا لڑکا رئیس 1992 میں فسادات کے دوران قتل کردیا گیا تھا۔ انھیں اپنے لڑکے کی نعش بھی نہ مل سکی۔ شریف چاچا کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے دیکھا کہ کچھ پولیس والے لاوارث نعشیں ندی میں پھینک رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر میں تڑپ گیا۔ عین ممکن ہے کہ میرے لڑکے کی نعش بھی یوں ہی پھینک دی گئی ہو۔ اس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں کسی نعش کو یوں پھینکنے نہیں دوں گا اور غریب اور لاوارث نعشوں کی آخری رسوم باحترام انجام دوں گا۔ ایودھیا کے ڈی ایم انوج کمار جھا کے مطابق اس بزرگ سائکلد میکانیک نے تاحال ڈھائی ہزار سے زائد انتم سنسکار انجام دیئے۔ وہ یہ کام کسی مالی تعاون کے بغیر انجام دیتے ہیں۔ حکومت نے انھیں پدم شری اعزاز سے نوازا۔ ان آزمائشی ایام میں محمد شریف جیسے بےلوث خدمتگار سماج کا انمول اثاثہ ہیں ۔
(سوامیناتھن نٹراجن کی رپورٹ ، بی بی سی ورلڈ سروس ہندی ، 20 اپریل)
45) وبائی ایام کے دوران افراد کا ایک گروپ جن کی پریشانیاں دوچند ہوگئیں ہیں، وہ ہے ڈائیلاسس کے مریض۔ دیگر مریض عام طور پر صحت مند ہوکرگھر لوٹ جاتے ہیں اور کبھی کبھا ر کنسلٹیشن کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ڈائلاسس وہ تکلیف دہ آزمائش ہے کہ اسپتال دوسرا گھَر بن جاتا ہے۔ لاک ڈاؤن میں ان مریضوں کی مصیبتیں دوہری ہوگئی ہیں۔ اسی ایمرجنسی ضرورت کے پیش نظر جماعت اسلامی ہند ممبئی نے لاک ڈاؤن میں ڈائلاسس مریضوں کی خدمت کے لیے خصوصی ایمبولینس سروس شروع کی ہے۔ سچ یہ ہے کہ فیلڈ ورکرس ہی سماج کی سمجھ اور اس کی ایمرجنسی ضرورتوں کا فہم رکھتے ہیں۔ ممبئی ناظم شہرجناب عبدالحسبہ بھاٹکر کے مطابق گذشتہ ہفتے شروع کی گئی اس سروس میں ضروری طبی سہولتیں اور ہر ممکنہ احتیاط کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔
46) بنگلور کا پریسٹیج گروپ ملک کی پانچ سب سے بڑی تعمیراتی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ شہر کی مخیر شخصیت جناب عرفان رزاق پریسٹیج گروپ کے چیرمین ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران پریسٹیج گروپ روزانہ 50ہزار غذائی پیکٹس مستحقین تک پہنچارہا ہے۔ 20 اپریل تک اس گروپ کے ذریعے 13لاکھ فوڈ پیکٹ تقسیم کیے جاچکے ہیں۔پریسٹیج گروپ حیدرآباد، کوچی،میسور اور چنئی میں بھی اپنی رفاہی خدمات کے ساتھ سرگرم عمل ہے۔ یہاں 12400ہائجین کٹس بھی تقسیم کی گئیں۔ (سی این ٹریویلر ، 21 اپریل) پریسٹیج گروپ نے بگ باس کیٹ اور جے ایل ایل کے اشتراک سے ” فیڈ مائی بنگلور ” پروگرام بھی شروع کیا۔ اس پروگرام سے حوصلہ پاکر ان کی مشر کہ کاوشیں اب دیگر شہروں میں”فیڈ مائی ممبئی ” اور ” فیڈ مائی حیدرآباد” بینر کے تحت شروع ہونے جارہی ہیں۔
(سدھارتھ راؤت، یور اسٹوری پورٹل )
47) لولو گروپ کے چیرمین ایم یوسف علی نے کووڈ کے باعث ابھرے مالی بحران میں 254 اسٹورس کے کرائے کی معافی کا اعلان کیا۔جس کا تخمینہ کئی کروڑ روپیے ہوتا ہے۔ (بزنس لائین ، مارچ 23) مزید 25 کروڑ قومی سطح پر اور 10 کروڑ اپنی ریاست(کیرالا) کے لیے عطیہ دیا۔ عرب امارات میں ہندوستانی ورکروں کی خبرگیری میں بھی لولو گروپ کا مقام اونچا ہے۔ انھوں نے ایک بڑی رقم مالی پریشانیوں کا شکار ہندوستانی ورکرس کے لیے دی۔ (سجیلا سسیندرن کی رپورٹ، مشمولہ گلف نیوز، 11 اپریل)
48) حیدرآبا دکی آئرن لیڈی محترمہ خالدہ پروین اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ شہر کےسماجی کارکنان، مذہبی حلقے، حکومتی عہدے دار اور سیاست دان سبھی خالدہ پروین صاحبہ کو ان کے ہمہ جہت ایکٹوزم کے حوالے سے جانتے ہیں۔ خالدہ باجی نے غریب مزدوروں کی خبر گیری کا کام اس وقت شروع کردیا تھا جب لوگ لاک ڈاؤن کے شاک کو سمجھ پائے تھے نہ سنبھل پائے تھے۔ لاک ڈاؤن میں حالات کے مارے ایک جوڑے نے خودکشی کی کوشش کی تو خالدہ باجی کی بروقت رسائی، لمبی کونسلنگ اور رقمی مدد نے انھیں بچالیا ۔
وہ اپنے معاونین کے ساتھ روزانہ ایسے کئی انوکھے کام انجام دیتی ہیں جہاں عام نظریں پہنچ نہیں پاتی۔ امومت سوسائٹی لوگوں کی کونسلنگ اور مدد کرتی ہے۔ ان کا وسیع نیٹ ورک، سیکڑوں کارکنان اورسماج کے مختلف طبقات کے رضاکاروں سے تعلقات، ٹوئیٹر اور فیس بک کا موثر استعمال، ہر کیس کی نہ صرف جان کاری بلکہ حسب ضرورت متعلقہ وزراء، شعبوں، افسروں اور رضاکاروں کو ٹیگ کرکے تیزی سے مسائل حل کرنا، خالدہ باجی کی خاص صلاحیت ہے۔ ان کی سرگرمیاں متنوع، تخلیقی اور تیز رفتار ہوتی ہیں۔ لاک ڈاؤن کے آغاز کے ساتھ پہلے دن اپنے گھر کے کچن اور اپنی جیب سے انھوں نے بھوکوں کی مدد کا جو سلسلہ شروع کیا آج وہ پھیل کر کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ آج ان کے کچن میں سادگی اور پاکیزگی کے ساتھ تیار کیے جانے والی سحری و افطاری بھی شامل ہیں۔ خالدہ باجی کا فیس بک پیج اور ان کا ٹوئیٹر ہینڈل ان کی ہمہ جہت خدمات کے آئینہ دار ہیں۔ ان کی خدمات میں ہر مذہب کے لوگوں کا تعاون شامل ہے۔
49) کاروان میگزین پورٹل نے مختلف سماجی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کیرالا کے میڈیا ٹیم رکن ٹی شاکر کا بیان رقم کیا۔ موصوف کہتے ہیں کہ کوزی کوڈ شہر میں 300 بستروں پر مشتمل اسپتال (شانتی) وبائی خدمات کے لیے حکومت کے حوالے کردیا گیا۔ جماعت اسلامی ہند 1000 بستروں کی گنجائش کے حامل مزید پانچ اسپتال بھی دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ نیز 90 اسکول، 25 کالج عمارتیں اور 400 مدارس بھی حسب ضرورت استعمال کے لیے دئیے جاسکتے ہیں۔
(کاروان میگزین پورٹل ، 27 مارچ)
پونے کے اعظم کیمپس کی مسجد میں جس سلیقے سے قرنطینہ اور متعلقہ سہولیات کا شاندار نظم کا گیا ہے وہ دید نی ہے۔ 60 صاف ستھرے اورایک دوسرے سے کافی فاصلے پر رکھے بیڈس کی تصویریں مراٹھی لوک ستا نے اپنے پورٹل پر باہتمام شائع کیں۔
50) کنگ جارج میڈیکل یونیورسٹی مائکروبائیلوجی ڈپارٹمنٹ کے سائنس داں دانش نصر خان کی بےمثل اور انتھک خدمت کے باعث ڈپٹی چیف منسٹر سمیت پورا میڈیا انھیں فخر ہندوستاں کہہ کر احسان مندی کا اظہار کررہا ہے۔ دانش نصرنےدو ماہ قبل ڈپارٹمنٹ میں کرونا تحقیق کی ذمہ داری سنبھالی تھی۔ انھوں نے 3 مارچ سے اس ریسرچ کا بیڑہ اٹھایا اور اس دن سے آج تک وہ گھر نہ گئے اور تقریباً دو ماہ سے وہ جنگی پیمانے پر مسلسل وائرولوجی لیبارٹری میں اپنے کام میں جٹے ہوئے ہیں۔ ڈپٹی سی ایم نے کہا کہ جو ادارے وائرولوجی کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تھے وہی ادارے دانش کی انتھک محنت اور مسلسل ٹریننگوں کے سبب پی سی آر پر کام کرنے کے قابل ہوسکے انھوں نے دانش کو "کورونا وارئیر ” قرار دیا ۔
( لوک ستا ڈاٹ کام، 27 اپریل، سیاست ڈاٹ کام ، 28 اپریل۔ راسیہ ہاشمی کی رپورٹ)
51) کرنول (آندھرا پردیش) کے سینئر اور مقبول ڈاکٹر کے ایم اسماعیل حسین اپنے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے کووڈ-19 مرض کا شکار ہوگئے اور انتقال فرماگئے۔ دی نیوز منٹ نے موصوف کی خدمات پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی۔ ڈاکٹر اسماعیل مقبول اور ایک دردمند ڈاکٹر تھے۔ انھوں نے کرنول میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس اور ایم ڈی کیا تھا۔ اور 40 سالہ وسیع تجربے کے حامل سینئرعوامی ڈاکٹر تھے۔ شہر کے جین اور مارواڑی طبقات میں بھی وہ اپنے موثر علاج کی وجہ سے خاصے مقبول تھے۔ ڈاکٹر اسماعیل تلنگانہ، کرناٹک اور آندھرا پردیش کے کئی اضلاع میں معروف تھے۔ ان کے اکثر مریضوں کا تعلق غریب طبقات سے ہوتا تھا ۔ شہر کے معروف تاریخ داں کالکرا چندر شیکھر کہتے ہیں کہ ” کئی مستحق مریضوں سے وہ کوئی فیس نہ لیتے اور بقیہ افراد سے بھی برائے نام 10 یا 20 روپیہ فیس لیتے تھے۔” 90 کی دہائی میں وہ اپنی دردمندانہ خدمات کے باعث ” و روپیہ ڈاکٹر ” کے نام سے معروف رہے۔ کرنول کے ایک شہری نے کہا کہ اگر یہ وبائی ایام نہ ہوتے تو کم ازکم آدھا شہر ان کی تدفین میں شریک ہوتا۔ (جھانوی ریڈی کی رپورٹ مشمولہ دی نیوز منٹ، 22 اپریل)
52) جہانگیر پوری (دہلی) کے تبریز خان کورونا بحران میں ایک ہیرو بن کر ابھرے ہیں۔ وہ کورونا پازیٹیو قرار پائے تھے۔ انھیں قرنطینہ بھیج دیا گیا تھا۔ وہ وہاں سے صحت مند ہوکر لوٹے۔ اور پلازما تھیراپی کے ذریعہ کورونا علاج کی امید جگانے کا ذریعہ بنے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ فی الحال پلازما تھیراپی کورونا مرض کا واحد ممکنہ علاج ہے۔ جو کورونا سے صحت یاب ہونے والے فرد کے خون سے نکالے گئے پلازما سے ممکن ہے۔ یہ دو گھنٹے پر مشتمل عمل ہے۔ کسی مریض کا صحت یاب ہوجانا اس بات کی علامت ہے کہ اس کے جسم نے اس مرض سے لڑنے کے لیے درکار اینٹی باڈی پیدا کرلیے ہیں۔ پلازما ڈونیشن انھیں ہتھیاروں (اینٹی باڈی) کے ڈونیشن کا نام ہے۔ اسی لیے دہلی کے آئی ایل بی ایس اسپتال نے تبریز سے ربط کیا کہ پلازما تھیراپی کا اولین تجربہ کیا جائے۔ تبریز نہ صرف تیار ہوئے بلکہ فورا ً انھوں نے پلازما ڈونیٹ کیا۔ پلازما ڈونیشن نے امید جگائی۔ آئی ایل بی ایس کے لیور اسپیشلسٹ ڈاکٹر سرین نے یہ کامیاب تجربہ کیا۔ دو افراد ان کے پلازما سے صحت یاب ہورہے ہیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ اولین تجربہ کامیاب نظر آرہا ہے۔
(وگنیش ماتھر اور راجیو کی رپورٹ، نشر کردہ نیوز 24 یو ٹیوب چینل۔ شرد شرما کی رپورٹ ، این ڈی ٹی وی پورٹل ،26 اپریل)
53) اسی تجربہ سے حوصلہ پاکر اب صحت یاب کرونا مریضوں کی صورت میں اس مایوس ماحول میں امید کی کرن نظر آرہی ہے۔ ذرا یاد کیجیے، نفرتوں کو ہوا دینے والے اینکروں کے شرپسندانہ ٹاک شوز، اور اب ذرا اس پیش کردہ خبروں کے تسلسل کو پڑھیے اور سمجھ لیجیے کہ سازشیں کہاں گھڑی جارہی ہیں اور انسانیت کے پھول کہا ں مہک رہے ہیں۔
• "علاج کے لیے پلازما عطیہ کے لیے ہم تیا ر ہیں۔ "آندھرا اور تلنگانہ
کے متعدد تبلیغی رضاکارپلازما ڈونیشن کے لیے تیا ر ہیں۔
(دی ہندو ،حیدرآباد ، 26 اپریل)
• "سیکڑوں صحت یاب تبلیغی کارکنوں نے پلازما ڈونیٹ کیا۔ ”
(آؤٹ لک 27 اپریل۔ قیصر علی کی رپورٹ) تملناڈو میں 450 سے
زائد کورونا صحت یاب تبلیغی رضاکاروں نے پلازما ڈونیشن کے لیے
رجسٹرکیا۔
• ” تبلیغی جماعت کے صحت یاب کارکن کووڈ 19 مریضوں کے لیے پلازما
عطیہ کریں گے”(دی وائر ، 27 اپریل) دہلی کے وزیر اعلی نےجونہی
پلازما عطیے کی اپیل کی، 300 تبلیغی کارکن آگے آئے۔ یکم رمضان کو ان
کے پلازما کے حصول کا عمل شروع ہوا۔
• "سپر اسپریڈرس کی حیثیت سے برینڈ کیے گئے صحت یاب تبلیغی
رضاکاروں نے سیریس مریضوں کے لیے پلازما کی پیشکش کی "۔
(رنجن شرما ، سی این این نیوز 18 ، 27 اپریل)
• ہندوستان ٹائمز، دکن ہیرالڈ، ٹائمز آف انڈیا اور این ڈی ٹی وی نے بھی
ان خبروں کو باہتمام شائع کیا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ لاک ڈاؤن اور مایوسی سے پر ماحول میں ملک کے کئی شہروں میں وہ لوگ مسیحا بن رہے ہیں جنھیں بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چولڑی گئی تھی۔ واضح رہے یہاں بس جھلکیاں پیش کرنا مقصود ہے۔ ہر اسٹوری کی تفاصیل پیش کردہ حوالوں سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ کوشش کی گئی ہے کہ تمام خبریں مصدقہ ذرائع سےہوں اور ان کا خلاصہ شامل کیا جائے۔ان دوستوں کا شکر گزار ہوں جنھوں نے ان دل پذیر تصویروں تک پہنچنے میں تعاون کیا۔ ان تصویروں میں سماج کے ہر طبقے اور ہر مذہب کے دردمند لوگ مسلسل رنگ بھر رہے ہیں۔ ان تمام خیر پسند افراد کی انسانیت دوستی کے ہم قدر دان اور ممنون ہیں۔ یہ وہ تصویروں ہیں جو میڈیا کی نفرت انگیزمہم کے بیچ محبت اور خدمت کی خوشبو سے پورے سماج کو مہکارہی ہیں۔ امید ہےکہ آئندہ دنوں میں میں ایسی اور بھی ہزاروں خوب صورت تصویریں ہر جانب اپنے جلووں سے ماحول کو روشن اور معطر کریں گی۔ ***