عزیز صائب مظاہری
حضرت ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے (اپنی حکمت و رحمت سے ) جس طرح تمہارے درمیان تمہارے حصے کے رزق بانٹ دیے ہیں اسی طرح (اپنی حکمت ورحمت کی سنت کے مطابق ) تمہارے درمیان اخلاق (سیرت و کردار کی صلاحیتیں بھی ) تقسیم فرمادی ہیں۔
دنیا کی نعمتوں کی تقسیم تو اس طرح ہے کہ (وہ اپنی ربوبیت عامہ کے تحت) ہر شخص کو اپنی نعمتیں عطا کرتا ہے خواہ اس بندے کی روش اسے پسند ہو یا نا پسند (حیات دنیا میں اسباب زینت و بقا کسی کو زیادہ یا کم ملنا اس بات کی ہرگز دلیل نہیں کہ وہ بندہ اس کا محبوب ہے یا مغضوب!) البتہ دین یعنی ہدایت، اطاعت ، خیر و تقویٰ کا علم و عرفان، خیر و شر کا باہم امتیاز اور بندگی رب کا حق ادا کرنے کی توفیق اور عاجلہ کے مقابلہ آخرہ کی ترجیح۔ یہ سب کچھ اپنی سنت کے تحت ہر اس شخص کو عطا فرماتا ہے جس کو وہ پسند کرتا اور جس سے محبت کرتا ہے، پس جس کسی کو اللہ نے دین کی مخلصانہ اطاعت و اتباع رسول کی توفیق عطا فرمائی، یقین جانو! کہ اللہ نے اس سے محبت کی۔
اور قسم ہے اس ذات کی کہ جس کی مٹھی میں میری (نبیؐ کی) جان ہے۔ کوئی بندہ اس وقت تک مسلم او رمطیع نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے دل و زبان اللہ کی رضا کے سانچے میں نہ ڈھل جائیں اور کوئی بندہ بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا پڑوسی اس کی طرف سے اپنے جان، مال ، آبرو کی طرف سے مامون اور بے خوف نہ ہو‘‘
معلم اخلاق ﷺ نے اس ارشاد گرامی سے چار اہم ترین حقیقتیں ابن آدم کے دل میں اتارنے کی سعی فرمائی ہے۔
خالق کائنات نے اپنی مخلوق کی رزق رسانی کی ذمہ داری خود اپنے اوپر لی ہے اور اس کی مکمل پالیسی اسی کے ہاتھ میں ہے وہ جس کے رزق میں چاہتا ہے کشائش پیدا فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے۔ قسام ازل نے جس بندے کے لیے جتنا رزق مقدر فرمادیا ہے وہ تو اسے ملے گا، اس میں کوئی شخص اپنی محنت اور قابلیت سے ایک دانہ بھی نہیں بڑھاسکتا اور نہ کسی کا رزق کم کرسکنے پر کسی کو اختیار دیا گیا ہے۔ پھر رزق کی فراوانی نہ کسی کی محبوبیت کی علامت ہے اور نہ رزق کی تنگی کسی کی ناپسندیدگی اور مبغوضیت کی دلیل۔ جیسا کہ انسان کو مغالطہ ہے اور رہا ہے۔
۲۔ دوسری حقیقت یہ بتلائی گئی ہے کہ رزق میں انسان کو اپنی محنت، خواہش اور طلب کا قطعاً کوئی دخل نہیں۔ مگر دین کے بارے میں اللہ کی وہ پالیسی نہیں جو رزق کے بارے میں ہے۔ بندگی ، اطاعت اور حمد و شکر کی توفیق کلیجہ کی تڑپ اور دل کی دھڑکن پر منحصر ہے۔ بندے میں جس قدر احساس بندگی و عاجزی ابھرے گا اسی قدر اطاعت و بندگی کی راہیں اس کے لیے آسان اور وسیع ہوتی چلی جائیں گی۔
حکمت و سنت الہی کا ضابطہ دین کے بارے میں بندہ کی اپنی محنت، اس کی طلب اور تڑپ اور بندہ کے عمل پر منحصر کردیا گیا ہے او ریہ صفات جس میں پیدا ہوجائیں، وہ اس کی محبوبیت کی علامت ہیں۔ ان دونوں حقائق کے عملی نمونے خلیل الہ اور نمرود، موسیٰ اور قارون و فرعون، عبداللہ کا یتیم ، آمنہ کا لال اور ابو جہل اور ابو لہب کی شکل میں واضح اور نمایاں ہیں۔
۳۔ تیسری حقیقت یہ بتلائی گئی ہے کہ دین یا اسلام ۔ چند مراسم عبادت و ثقافت کا نام نہیں بلکہ قلب و نظر کی حوالگی اور سپردگی اسلام کہلاتی ہے:
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
۴۔ چوتھی ایک عظیم اورحاصل کلام حقیقت یہ ہے کہ بندہ کا تعلق جس قدر اپنے خالق و مالک سے مخلصانہ ہوگا اسی قدر اللہ بندہ مومن پر رحیم ہوتا جائے گا۔ ہر شخص کو گویا اپنے ایمان اور اسلام کے ناپنے کا ایک تھرما میٹر دے دیا گیا ہے۔ اگر پھول اپنے ماحول کے لیے جنت اورمشام و دماغ کے لیے فرحت و مسرت کا سبب نہیں بن سکتا تو وہ پھول ہی کیا؟ اس طرح یک مرد مومن اپنے رفتار و گفتا اور وجود سے معاشرہ کے لیے یار شاطر ہے نہ کہ یار خاطر!
مردِ مومن ایک مہکتا اور مسکراتا ہوا پھول ہے نہ کہ انسانوں کے دلوں میں چبھتا ہوا کانٹا۔
***
***
دین یا اسلام چند مراسم عبادت و ثقافت کا نام نہیں بلکہ قلب و نظر کی حوالگی اور سپردگی اسلام کہلاتی ہے:
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 تا 18 دسمبر 2021