نجکاری : سانپ جتنے تھے خزانے پہ وہ بیٹھے رہ گئے
حکومت کے دل میںکارپوریٹ سیکٹر کے لیے نرم گوشہ مگرمحنت کشوں پر عتاب؟
ڈاکٹر سلیم خان
وزیر اعظم کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ کبھی مدافعانہ اسلوب اختیار نہیں کرتے۔ اپنے اوپر لگنے والے الزام کو تسلیم کر کے اس کی مدد سے مخالف پر چڑھائی کر دیتے ہیں۔ جنوری 2014 میں جب سماج وادی پارٹی کے سکریٹری نریش اگروال نے کہا تھا ایک چائے والا کبھی بھی قومی نظریہ کا حامل نہیں ہو سکتا اور منی شنکر ائیر نے یہاں تک دعویٰ کر دیا تھا کہ اکیسویں صدی میں ایک چائے بیچنے والا اس دیش کا وزیر اعظم نہیں ہوسکتا تو مودی جی نے قومی سطح پر چائے پہ چرچا شروع کردی۔ اسی طرح جب راہل گاندھی نے رافیل کے معاملے میں یہ نعرہ بلند کیا کہ ’چوکیدار چور ہے‘ تو مودی سمیت ساری بی جے پی نے ٹوئٹر ہینڈل پر اپنا ڈی پی بدل کر ’میں بھی چوکیدار‘ لکھ دیا تھا۔ اس قسم کی ڈھٹائی سے ان کا دو مرتبہ فائدہ ہوا اس لیے اب وہ پھر سے اسی حکمت عملی پر گامزن ہیں۔ کسانوں کی تحریک کے بعد سرکار اور سرمایہ دار کا گٹھ جوڑ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اس الزام کو مسترد کرنے یا اپنی صفائی پیش کرنے کے بجائے وزیر اعظم نے کارپوریٹس کی کھلے عام وکالت شروع کردی ہے اور کھل کر ان کی حمایت میں اتر پڑے ہیں۔
وزیر اعظم مودی نے اس مہم کی ابتداء ایوان پارلیمان کے اندر 11 فروری کو بجٹ سیشن میں خطبہ صدارت کا جواب دیتے ہوئے کی۔ اپنی تقریر میں انہوں نے ایک طرف تو کسان رہنماوں کا تمسخر اڑانے کے بعد انہیں طفیلی (parasite) کہہ کر گالی دی لیکن اس کے ساتھ معیشت میں نجی اداروں کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے کہا کہ نجی شعبے کو محض ووٹوں کے لیے ’’گالی دینے‘‘ کا کلچر اب قابل قبول نہیں ہے۔ یعنی نوٹ کے لیے وہ جس کو چاہیں مغلظات سے نوازیں لیکن ووٹ کی خاطر کوئی کسی کو برا بھلا نہ کہیں۔ انہوں نے اپنے چہیتے کارپوریٹس کی تعریف کر کے اس پر ہونے والی تنقید کا جواب دے دیا۔ وزیر اعظم کو سوچنا چاہیے کہ جیسے امبانی اور اڈانی کی مذمت ان کو ناگوار ہے اسی طرح کسان رہنماوں کی توہین بھی کاشتکاروں کو گراں گزرتی ہے۔
لوک سبھا کی اپنی تقریر میں مودی جی نے کہا کہ ’’اگر پبلک سیکٹر اہم ہے تو پرائیوٹ سیکٹر کا کردار بھی اہم ہے‘‘ یہ بات درست ہے مگر ان دونوں سے زیادہ اہمیت کے حامل ملک کے کسان ہیں اس لیے کہ ملک کے دونوں شعبے اناج کے لیے ان پر انحصار کرتے ہیں۔ مودی سرکار نے اپنی رعونت سے پنجاب، ہریانہ اور مغربی اتر پردیش میں اپنے داخلہ پر پابندی لگوا لی ہے مگر یہ ہٹ دھرمی جاری رہی تو ملک بھر میں یہی درگت بنے گی۔ وزیر اعظم کے مطابق دولت پیدا کرنے والے افراد ملک کی ضرورت ہیں کیوں کہ صرف اسی صورت میں غریبوں کی مدد کے لیے دولت کو دوبارہ تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مودی جی نہیں جانتے یہ سرمایہ دار ان کی پارٹی کی ضرورت تو ہوں گے کیونکہ انہی کے چندے سے سارا کھیل چل رہا ہے لیکن وہ ملک کے غریبوں کا خون چوستے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کورونا کی وباء کے دوران ملک کی جی ڈی پی ان سرمایہ داروں نے نہیں بلکہ کسانوں نے سنبھالی اور صنعت کے بجائے زراعت کے شعبے نے مشکل حالات میں دیش کو آتم نربھر (خود کفیل) بنایا ہے۔ اس لیے اقتدار کو سرمایہ دار کے بجائے کاشتکار کا احسان مند ہونا چاہیے۔ قومی شماریاتی دفتر (این ایس او) نے پچھلے سال اعداد و شمار کی روشنی میں یہ تسلیم کیا کہ کورونا لاک ڈاون کے دوران اقتصادی سرگرمیوں کے ٹھپ ہو جانے سے قومی معیشت کو زبردست دھکا لگا تھا۔ اس وقت دنیا کے دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معیشتوں کے مقابلے میں بھارت کی کارکردگی بہت زیادہ خراب تھی۔ گزشتہ مالی سال 2020 کی پہلی سہ ماہی یعنی اپریل تا جون کے دوران اقتصادی ترقی کی شرح منفی 23.9 فیصد ہوگئی تھی۔ اس دوران تعمیرات، صنعت اور تجارت، ہوٹل اور ٹرانسپورٹ کے شعبے سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے کیونکہ ان میں بالترتیب منفی 50.3 فیصد، 39.3 فیصد اور 40.7 فیصد کی ریکارڈ گراوٹ آئی تھی۔ ان مشکل ترین حالات میں صرف زرعی شعبے میں نمو ہوئی تھی۔ زرعی پیداوار اکتوبر تا دسمبر کی چوتھی سہ ماہی میں 6.6 فیصد سے 5..9 فیصد تک بڑھ گئی تھی۔ انگریزی میں ایک محاورہ ہے ’سچا دوست وہ ہوتا ہے جو ضرورت کے وقت کام آئے‘ Friend indeed is friend in need وزیر اعظم زراعت کے مقابلے جس صنعت و حرفت کے شعبے کی وکالت رہے ہیں اس کی یہ کارکردگی یہ تھی کہ ان لوگوں نے تقریباً 12 کروڑ سے بھی زیادہ افراد کو ملازمتوں سے محروم کر دیا تھا۔ ان کے تقریباً 60 فیصد نامور ہوٹلس بند ہوگئے تھے اور دیگر 40 فیصد کی آمدنی 10 فیصد سے بھی کم ہو گئی تھی۔ لاکھوں مزدور پیدل ہی اپنے آبائی وطن جانے کے لیے مجبور کر دیے گئے تھے۔ کاروبار اور صنعتوں کی بحالی کے بعد محنت کشوں کی قلت منہ کھول کر کھڑی ہوگئی کیونکہ ان کو سرکار کے ساتھ ساتھ سرمایہ دار نے بھی دھوکہ دیا تھا۔ اس زمانے میں کرسیل نامی بین الاقوامی ادارے نے ایک رپورٹ شائع کر کےبتایا کہ ہندوستان میں ہوا بازی کے شعبے کو جون تک تین ماہ میں 6 3.6 بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا ہے۔ نو ماہ کے بعد اس سال جنوری تا مارچ سہ ماہی میں معاشی نمو 0.5 فیصد تک پہنچنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ اقتصادی تجزیہ نگار انشومن تیواری نے اس وقت کہا تھا کہ ’’حکومت ابھی تک ایک من گھڑت اور امید افزا ماحول کی تصویر پیش کر رہی تھی لیکن معیشت کی حقیقی تصویر اب سامنے آگئی ہے اور حکومت کی طرف سے کھڑی کی گئی نقلی عمارت ٹوٹ رہی ہے۔‘‘ کورونا کے اثر ات زائل ہوتے ہی سرکار پھر ایک بار اسی ہوا محل کی تعمیر میں مصروف ہو گئی ہے۔
امسال بجٹ سے قبل ایوان پارلیمان میں حکومت نے اپنا اقتصادی جائزہ 21۔2020 پیش کیا جس کے کلیدی نکات چونکا دینے والے ہیں۔ مرکزی وزیر مالیات و کارپوریٹ امور نرملا سیتا رمن نے اقتصادی جائزے کو کووڈ جانبازوں کے نام وقف کرنے کے بعد بتایا کہ مالی سال 2021 کے دوسرے نصف حصے میں امکان ہے کہ برآمدات میں 5.8 فیصد کی کمی آئے اور درآمدات بھی 11.3 فیصد کم ہوں۔ یہ عوام کے قوت خرید میں کمی کا بہت واضح اشارہ ہے۔ اس سے نہ صرف تجارت متاثر ہو گی بلکہ بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوگا۔ مالی سال 2021 میں جی ڈی پی کے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس میں صرف 2 فیصدی اضافہ کا اندازہ قائم کیا گیا ہے۔ ملک میں مجموعی ویلیو ایڈیڈ (جی وی اے) کی منفی شرح مالی سال 2020 میں یہ 3.9 فیصد تھی جبکہ مالی سال 2021 میں یہ ترقی منفی 7.2 فیصد رہی۔ صنعت اور خدمات کے شعبے میں اندازہ ہے کہ ان میں مالی سال 2020 کے دوران 9.6 فیصد کی کمی آئی اور توقع ہے کہ مالی سال 2021 کے دوران 8.8 فیصد کی کمی آئے گی۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ تقریر فرمانے سے قبل عالمی نہ سہی تو کم از کم اپنی سرکار کے جائزے کو ملاحظہ کر لیا کریں۔
وطن عزیز میں زر مبادلہ کا سب سے بڑا وسیلہ سرمایہ دار نہیں ملک کا وہ محنت کش طبقہ ہے جو بیرون ملک اپنے خون پسینے کی کمائی یہاں روانہ کرتا ہے۔ سالانہ جائزہ بتاتا ہے کہ غیر مقیم ہندوستانیوں کے ذریعہ رقومات کی منتقلی پہلے سہ ماہی میں مجموعی طور سے 35.8 ارب امریکی ڈالر رہی جو گزشتہ سال کی اسی مدت سے 6.7 فیصد کم ہے۔ اسی کے ساتھ ستمبر 2020 کے اواخر میں ملک کا بیرونی قرضہ 556.2 ارب امریکی ڈالر تھا جو کہ مارچ 2020 کے اختتام کے مقابلے میں 2.0 ارب (0.4 فیصد) زیادہ رہا۔ اس مایوس کن صورتحال میں جائزے میں یہ خوش کن انکشاف کیا گیا کہ مالی سال 2021 میں زراعت کی وجہ سے قومی معیشت پر کووڈ۔19 کے نقصانات کی بھرپائی ہوئی جس کے تحت 3.4 فیصد کی شرح ترقی ہوئی۔ اس سے زراعت کو صنعت پر حاصل فوقیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ڈی بی آر کی رپورٹ گواہ ہے کہ 2019 کے لیے کاروبار کی آسانی فراہم کرنے میں ہندوستان کا درجہ 2018 کے 77 ویں مقام سے بڑھ کر 2020 میں 63 ویں پر پہنچ گیا لیکن سرکار جو آسانیاں تاجروں کو فراہم کرتی ہے اس سے کسانوں کو محروم رکھنا چہ معنی دارد؟
اپنے چہیتے سرمایہ داروں کی راہ ہموار کرنے کے لیے وزیر اعظم نے اعلیٰ سرکاری افسران کو تختۂ مشق بنانا شروع کر دیا ہے۔ ان کے مطابق قوم کو ’’بابوؤں‘‘ (سرکاری عہدیداروں) کے حوالے کر کے کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ بیوروکریٹس کی سربراہی میں چلنے والے عوامی شعبے (پبلک سیکٹر) کے حوالے سے انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ایک شخص محض آئی اے ایس افسر ہونے کے سبب ائیرلائنس، کھاد اور کیمیائی فیکٹریاں چلا رہا ہے۔ اس سے کیا حاصل ہو گا؟ مودی جی بھول گئے کہ اگر ایک چائے بیچنے والا ملک چلا سکتا ہے تو آئی اے ایس کا امتحان پاس کرنے والا ہوائی کمپنی یا کیمیائی کھاد کی فیکٹری کیوں نہیں چلا سکتا؟ ان کے دوست امبانی اور اڈانی جو دنیا بھر کا روبار کر رہے ہیں کیا آئی ایس افسران سے بہتر صلاحیت کے مالک ہیں؟ مکیش امبانی کی واحد بڑی خوبی یہی تو ہے کہ وہ دھیرو بھائی امبانی کے گھر میں پیدا ہو گیا۔ وہ مکیش سے کیوں نہیں پوچھتے تم ٹیلی کام کی صنعت کیسے چلاتے ہو؟
وزیر اعظم جب یہ سوال کرتے ہیں کہ ’’اگر ہمارے بابو ملک سے تعلق رکھتے ہیں تو ہمارے نوجوان بھی ایسا ہی کرتے ہیں‘‘ تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بابو بھی ملک کے نوجوانوں میں سے ہی ہوتے ہیں اور کوئی بابو بھی صنعتکار کی طرح نوجوانوں کے تعاون سے صنعت چلاتا ہے۔ وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ معاشی ترقی کے لیے حکومت کو نجی شعبے کا احترام کرنا ہوگا اور اس کو مناسب نمائندگی بھی دینی ہوگی۔ وزیر اعظم ساری دنیا میں گوتم اڈانی کو اپنے ساتھ لے کر جاتے رہے۔ فرانس میں رافیل خریدنے کے لیے تو انل امبانی کو اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔ اب اس سے زیادہ کیا احترام ہو سکتا ہے کہ نریندر مودی اسٹیڈیم میں پویلین اینڈ گوتم اڈانی کے نام پر ہے اور میڈیا اینڈ کو امبانی کے نام کر دیا گیا ہے۔ ایک طرف تو ہندوستان کے دبے کچلے لوگوں کو ریزرویشن سے محروم کرنے کی سازش آئے دن سامنے آتی ہے اور دوسری جانب نجی شعبے کو مناسب نمائندگی دینے کی نصیحت کی جاتی ہے۔
کیا یہ تضاد کی انتہا نہیں ہے؟
وزیر اعظم نے خوردنی تیل کی درآمد پر انحصار کم کرنے کے لیے کسانوں کو تلسی اگانے کا مشورہ تو دے دیا لیکن اگر وہ اس بابت واقعی ملک کو خود کفیل بنانا چاہتے ہیں تو ان کو یہ جاننا ہو گا کہ آزادی سے قبل تیل برآمد کرنے والا یہ ملک اپنی 70 فیصد ضرورت کے لیے بیرون ملک درآمد پر منحصر کیوں ہو گیا؟ 1970 سے قبل 95 فیصد خوردنی تیل کی ضرورت ملک کی داخلی پیداوار سے پوری ہو جاتی تھی۔ اس کے بعد 1986 کے تک ملک میں تلہن کی پیداوار ایک کروڑ ٹن پر رکی رہی لیکن تیل کی کھپت میں اضافہ ہوتا رہا اس لیے درآمد پر انحصار بڑھتا چلا گیا۔ یہی زمانہ تھا جب گجرات میں نونرمان تحریک چل پڑی تھی اور مودی جی سیاست میں قدم رکھ چکے تھے۔ 1977 میں جے پرکاش نرائن کے مکمل انقلاب نے مرارجی دیسائی کو ملک کا وزیر اعظم بنا دیا اور ان کے زمانے یعنی 1977 تا 1980 کے درمیان درآمد کی شرح 70 فیصد پر پہنچ گئی۔ 1977 میں اس وقت کے وزیر مالیات ایچ ایم پٹیل نے ایک سرکاری عہدے دار ڈاکٹر ورگھیز کورین کو تیل کے بحران پر قابو پانے کی ذمہ داری سونپی تھی۔ 1988 میں راجیو گاندھی نے امول کے طرز پر دھارا نام کا پروجکٹ شروع کروایا تھا۔ اس سے ملک میں تلہن کی پیداوار تقریباً دوگنا ہوگئی اور درآمد 2 فیصد پر آگئی۔ یہی وجہ ہے کہ 1990 تا 1994 کو اس شعبے کا سنہری دور کہا جاتا ہے جو پبلک سیکٹر کی مدد سے آیا تھا۔
راجیو گاندھی نے یہ کارنامہ سام پٹروڈا اور ورگھیز کورین نامی بابو لوگوں کی مدد سے انجام دیا تھا۔ وزیر اعظم کے آبائی صوبے گجرات میں یہ کام ہوا مگر ان کو نظر نہیں آتا۔ اس لیے ملک کو خود کفیل بنانے کا خواب بیچنے والے مودی جی کو سرکاری عہدیداروں کا مذاق اڑانے کے بجائے ان سے کام لینے کا فن سیکھنا چاہیے۔ بی جے پی کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے پبلک سیکٹر کو چلانے کے لیے کسی پر بھروسہ نہیں ہے۔ اس کو تو ریزرو بنک کا گورنر بنانے کے لیے ایک ڈھنگ ماہر معاشیات نہیں ملتا۔ جس کو وہ لاتے ہیں وہ بہت جلد بیزار ہو کر بھاگ جاتا ہے۔ اس لیے اصل مسئلہ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کا ہے۔ 1994 تک یہ ملک خوردنی تیل کے معاملے میں خود کفیل ہو گیا تھا اس کے بعد 1997 میں بی جے پی سرکار بنی اور پچھلے 23 سالوں میں 13 سال اس کی حکومت کرتی رہی اس کے باوجود ایسا کیوں ہوا؟ خود ان کے دور حکومت میں خوردنی تیل کی در آمد 40 لاکھ ٹن سے بڑھ کر 100 لاکھ ٹن پر پہنچ گئی؟ اس کے لیے دوسروں پر الزام تراشی کرنے کے بجائے خود کا احتساب کرنے کی ضرورت ہے لیکن انتخابی مہمات سے فرصت ملے تو اس جانب توجہ دی جائے۔
مستقل مزاجی سے نجکاری کی مہم کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیر اعظم نے ایک ویبنار میں کہا کہ حکومت کے کنٹرول میں بہت ساری صلاحیت سے کم استعمال ہونے والی بلکہ غیر استعمال شدہ جائیداد ہے۔ اس لیے انہیں مونیٹائز کیا جائے گا یعنی نجی اداروں کو بیچ دیا جائے گا۔ ان کے مطابق جو سرکاری شعبے خسارے میں ہیں ان کی مدد ٹیکس دہندگان کے ذریعہ ادا کیے جانے والے سرمایہ سے کرنی پڑتی ہے۔ اس سے غریبوں اور بھرپور خواہشات کے حامل نوجوانوں کی حق تلفی ہوتی ہے اس لیے وہ ادارے معیشت بوجھ بن گئے ہیں۔ وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ سرکاری اداروں کو صرف اس لیے نہیں چلاتے رہنا چاہیے کہ وہ برسوں سے چل رہے ہیں۔ ایسے میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ خسارے میں چلنے والے سرکاری ادارے آخر نجی ہاتھوں میں جاتے ہی منافع کیسے کمانے لگ جاتے ہیں؟ ماضی میں یہ الزام لگتا رہا ہے کہ سرکاری کارخانوں کو بیچنے کے لیے انہیں جان بوجھ کر خسارے میں ڈالا جاتا ہے۔
اس کی ایک مثال پبلک سیکٹر انٹرپرائز ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ (ایچ اے ایل) ہے جس کو تباہ کرنے کے لیے رافیل جنگی طیارہ سودے میں آفسیٹ کا کام اس کو نظر انداز کر کے ایسی نجی کمپنی کو دے دیا گیا جس کا مالک انل امبانی دیوالیہ ہو گیا۔ حکومت کے اس فیصلے کے منفی اثرات ایچ اے ایل کے ہزاروں ملازمین کو جھیلنے پڑے۔ حکومت جس طرح نجی اداروں کی سرپرستی کر رہی ہے اگر یہی رویہ اپنے اداروں کے ساتھ روا رکھا جاتا تو ایچ اے ایل کی یہ درگت نہیں بنتی۔ اسی طرح کا سلوک حکومت نے منافع بخش سرکاری کمپنی او این جی سی کے ساتھ کیا۔ اس سلسلے میں او این جی سی مزدور سبھا نے وزیر اعظم مودی کو خط لکھ کر الزام لگایا کہ ان کی حکومت نے فائدہ میں چلنے والے اس پی ایس یو کو خسارے میں دھکیل دیا اور ایسا وقت بھی آیا کہ اس کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہ دینے کا پیسہ بھی نہیں رہا اور اسے اوور ڈرافٹ کے ذریعے اپنے تنخواہ کی ادائیگی کرنی پڑی۔
او این جی سی کو ڈبونے کے لیے سرکار نے اسے ڈوبتی ہوئی کمپنی گجرات اسٹیٹ پٹرولیم کارپوریشن (جی ایس پی سی) کو سہارا دینے کے لیے اس کے حصص خریدنے پر مجبور کیا۔ اس کام پر آٹھ ہزار کروڑ روپے ادا کرنے کے بعد او این جی سی پر اقتصادی دباؤ بن گیا اور اس کی حالت دن بہ دن بگڑتی چلی گئی بالآخر فائدے میں چلنے والی ملک کی سب سےبڑی تیل پیداواری کمپنی خسارے میں چلی گئی۔ مودی جی جب گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو جی ایس پی سی کے بارے میں دعویٰ کیا کرتے تھے کہ کاویری، گوداوری کے ساحل پر وافر تیل کے ذخائر ہیں اور اس کو نکالنے کے بعد ملک کا معدنی تیل کی درآمدات پر انحصار ختم ہو جائے گا۔ اب چونکہ جی ایس پی سی کے ساتھ او این جی سی کا بھی بیڑہ غرق ہو چکا ہے اس لیے مودی جی فرماتے ہیں کہ ’کاروبار کرنا حکومت کا کام نہیں ہے اور ان کی حکومت اسٹریٹجک شعبوں میں کچھ پبلک سیکٹر کو چھوڑ کر باقی انٹرپرائز کی نجکاری کے لیے پرعزم ہے۔ اپنے قریبی سرمایہ داروں کو سرکاری اثاثہ بیچنے کے لیے اس سے اچھی منطق اور کیا ہوسکتی ہے؟
مودی جی کے مطابق حکومت کی توجہ عوامی فلاح و بہبود پر ہونی چاہیے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر اس نے بیروزگاری کو بامِ عروج پر پہنچا کر کسانوں کو 100 روزہ احتجاج پر مجبور کر دیا ہے۔ موجودہ حکومت کا ارادہ 100 سرکاری اثاثوں کو بیچ کر ڈھائی لاکھ کروڑ روپے اکٹھا کرنے کا ہے۔ آگے چل کر حکومت چار اسٹریٹجک شعبوں کے علاوہ باقی تمام عوامی شعبے اداروں کی نجکاری کے لیے پرعزم ہیں۔ اس طرح حکومت اپنے سارے اثاثوں کو بیچ کر 150 لاکھ کروڑ روپے سرکاری خزانے میں لائے گی۔ اس رقم میں 111 لاکھ کروڑ روپیہ نئی قومی انفراسٹرکچر پروجیکٹس پر خرچ کیا جائے گا۔ خدا کرے کہ اس رقم سے کوئی فلاح وبہبود کا کام ہو لیکن اس کا امکان کم ہے اس لیے موجودہ حکمرانوں کو انتخاب جیت کر اقتدار پر فائز رہنے کے علاوہ کسی شئے میں دلچسپی نہیں ہے۔ یہ دلچسپ صورتحال ہے کہ اقتدار کی کرسی پر ناگ سانپ بن کر بیٹھنے والے سیاستداں سرکاری عہدیداروں کو خزانے پر بیٹھا سانپ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ایسے میں راحت اندوری کا یہ شعر یاد آتا ہے ؎
سانپ جتنے تھے خزانے پہ وہ بیٹھے رہ گئے
مال جتنا تھا وہ چوکیدار لے کر اڑ گیا
***
یہ ایک حقیقت ہے کہ کورونا کی وبا کے دوران ملک کی جی ڈی پی ان سرمایہ داروں نے نہیں بلکہ کسانوں نے سنبھالی، صنعت کے بجائے زراعت کے شعبے نے مشکل حالات میں دیش کو آتم نربھر (خود کفیل) بنایا ہے۔ اس لیے اقتدار کو سرمایہ دار کے بجائے کاشتکار کا احسان مند ہونا چاہیے۔ قومی شماریاتی دفتر (این ایس او) نے پچھلے سال اعداد و شمار کی روشنی میں یہ تسلیم کیا کہ کورونا لاک ڈاون کے دوران اقتصادی سرگرمیوں کے ٹھپ ہو جانے سے قومی معیشت کو زبردست دھکا لگا تھا۔ اس وقت دنیا کے دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معیشتوں کے مقابلے میں بھارت کی کارکردگی بہت زیادہ خراب تھی۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 7 مارچ تا 13 مارچ 2021