سماجی سطح پر بچوں پر ہو رہے مظالم کی درد بھری کہانی
نام کتاب : ناول ۔’اللہ میاں کا کارخانہ ‘
ناول نگار : محسن خان
صفحات : 200
سن اشاعت : 2020 (پہلا ایڈیشن )
مطبع : ایم آر پبلیکیشنز۔ دریا گنج، نئی دہلی
مبصرہ : عالیہ حمیرا، لکھنؤ
ناول ’اللہ میاں کا کارخانہ‘ پر تاثراتی، تجزیاتی و تنقیدی ہر کسی قسم کی تحریریں لکھی جا چکی ہیں۔ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس ناول کا حق محض ایک مضمون لکھ کر ادا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہ ناول صرف فکشن نہیں بلکہ ایک ایسا المیہ ہے جسے محسوس کرنے کے لیے ہمیں اس کی گہرائی تک اترنا ہوگا۔ کہتے ہیں کہ فکشن زندگی کا آئینہ ہوتا ہے اور محسن خان کا یہ ناول ایک ایسا ہی شفاف آئینہ جس میں ہم سب اپنے عکس کی ایک واضح جھلک ضرور دیکھتے ہیں اور ایک اچھا فکشن وہی ہے جس سے قاری خود کو منسلک کر سکے۔
یہ ناول اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ کئی برسوں کے بعد اردو میں ایک ایسا ناول آیا جس نے اوسط اور درمیانی سطح کے قاری کو بھی فکشن کی جانب راغب کیا۔ ورنہ گزشتہ دو دہائیوں سے جو اردو ناول لکھے جا رہے ہیں ان میں علامتی ابہام کے ساتھ اس قدر پیچیدگی ہوتی ہے کہ قاری ان علامتوں اور استعاراتی گتھیوں کو سلجھاتے سلجھاتے ہی ہلکان ہو جاتا ہے اور جب تک وہ مفہوم تک پہنچتا ہے تو کہانی سے اس کا ربط ٹوٹ چکا ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ قصے میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لے پاتا۔ مذکورہ باتوں کا اطلاق اردو ادب کے عام قاری پہ ہوتا ہے۔ ذہین دماغ اور اعلیٰ درجہ کے نقاد و ادیب اس سے مستثنیٰ ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں سے اردو ناول کی مقبولیت میں لگاتار کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ اردو ناولوں کا مطالعہ محض ایک مخصوص حلقے میں مقید ہوکر رہ گیا ہے جس میں ریسرچ اسکالرز، نقاد اور پروفیسر حضرات شامل ہیں۔
محسن خان کے ناول ’اللہ میاں کا کارخانہ‘ نے اس دائرے کو توڑا اور اپنی پرکشش نثر اور سادہ اسلوب کی وجہ سے بہت جلد عوام میں مقبول ہوتا چلا گیا۔ اس پسندیدگی اور مقبولیت کی وجہ قصے کا وہ فطری بیانیہ ہے جو ناول کی بنیاد ہے۔ چھوٹے چھوٹے معصوم مکالمے اور بے ساختہ جملے جنہیں سمجھنے میں کسی طرح کی دقت نہیں ہوتی پلاٹ اور واقعات میں کسی قسم کا الجھاؤ نہیں ہے قصہ بیحد دلچسپ انداز میں آگے بڑھتا جاتا ہے۔ ’اللہ میاں کا کارخانہ‘ میری نظر میں صرف فکشن نہیں بلکہ ایک ٹائم مشین ہے جو آپ کو ناول شروع کرتے ہی آپ کے بچپن میں کھینچ کر لے جائے گا۔ وہاں پتنگ ہے، مانجھا ہے، ڈور ہے، مرغی ہے، چوزے ہیں، کھیل تماشے ہیں۔ غرض یہ کہ ہر وہ چیز ہے جو بچپن میں ہر بچے کو پرکشش معلوم ہوتی ہے۔ یہ وہ قصے ہیں جن سے ہر قاری خود کو بآسانی relate کرلیتا ہے۔ یہ وہ بچپن ہے جو عمر بڑھنے کے ساتھ لا شعور کے ایک حصے میں پروان چڑھتا رہتا ہے اور جہاں موقع ملتا ہے یہ آپ کے شعور پہ حاوی ہو کر کچھ وقت کے لیے آپ کو بچہ بنا دیتا ہے۔ انسان عمر کے کسی حصے میں پہنچ جائے لیکن وہ اپنے بچپن میں ہمیشہ کشش محسوس کرتا ہے چاہے اس کا بچپن کلفتوں میں کیوں نہ گزرا ہو کیونکہ بچپن عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جو غم کی شدت اور اذیت کے احساس سے ماورا ہوتا ہے۔ لہٰذا انسان اس بے فکری کے معصوم دور کو ہمیشہ یاد رکھتا ہے اور اس کی جھلک پانے کے لیے بے قرار رہتا ہے۔ ’اللہ میاں کا کارخانہ‘ کے ذریعے قاری خود کو اسی بچپن سے لطف اندوز ہوتے ہوئے پاتا ہے جس کی تلاش اسے عرصہ دراز سے تھی۔
رات کو میں نے نصرت سے پوچھا، ’’اللہ میاں نے مرغی بنائی تھی تو بلی کیوں بنائی؟
‘‘معلوم نہیں کچھ سوچ کر ہی بنائی ہو گی۔’’ نصرت نے کہا۔
میں نے اماں سے کہا،’’ جب سب کچھ اللہ میاں کی مرضی سے ہوتا ہے تو پھر ابا سے آپ کی پٹری ٹیڑھی کیوں بنوا دی؟‘‘
میں نے اماں سے پوچھا، ’’کیا مرغی اپنے چوزوں کو دودھ نہیں پلاتی؟‘‘
نصرت نے پوچھا، ’’تو کیا سفید مرغی کے انڈوں سے سفید چوزے ہی نکلتے ہیں؟‘‘
یہ وہ تجسس آمیز سوالات ہیں جو ہر بچے کے ذہن میں فطری طور سے پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان سوالات کو پڑھنے کے بعد قاری کے دل میں ان کے جوابات جاننے کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے حالانکہ وہ ان بچکانے سوالات کے منطقی و سائنسی جوابات پہلے سے جانتا ہے لیکن یہی فکشن کا جادو ہے کہ وہ ناول نگار کے جوابات سے محظوظ ہونا چاہتا ہے۔
’اللہ میاں کا کارخانہ‘ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ایک وسیع دنیا ہے جہاں ہر گزرتے دن کے ساتھ تغیر رونما ہوتا ہے۔ خوشی، غم، دکھ سکھ ساتھ ساتھ چلتے ہیں لیکن بچپن میں یتیم ہوجانے والے بچے کا بچپن کس طرح مٹی میں مل جاتا ہے اس کا احساس ناول پڑھنے کے بعد بارہا ہوتا ہے۔ ایک بارہ تیرہ سالہ لڑکی جو چچی کے گھر جا کر آدھے سے زیادہ کام سنبھالنے لگتی ہے اور ایک نو دس سالہ لڑکا جس کے کھیل کود، مدرسہ، ساتھی سب چھوٹ جاتے ہیں والد کو پہلے پولیس دہشت گرد ہونے کے شبے میں پکڑ کر لے جاتی ہے اور ماں حمل کی حالت میں کمزوری، شوہر کےصدمے و بھوک پیاس سے مر جاتی ہے۔ یہ بہت عام صورت حال ہے جو آئے دن رونما ہوتی ہے لیکن ہمیں اس کی شدت کا احساس نہیں ہوتا۔ دیکھیے کس طرح محسن خان نے دکھ کے اس اتھاہ سمندر کو صرف ایک جملے میں
سمیٹ دیا ہے۔
’’ماں کے مرنے کا غم کیا ہوتا ہے، یہ وہی جان سکتا ہے جس کی ماں مر گئی ہو۔‘‘
ناول نگار نے کہیں بھی نہ حکومت پہ طنز کیا ہے نہ براہ راست اس کو ظالم کہا ہے لیکن جس طرح بے بنیاد شبہ کے تحت جبران کے والد گرفتار کر کے جیل بھیجے جاتے ہیں وہ موجودہ حکومت کا منافقانہ چہرا اجاگر کرنے کے لیے کافی ہے۔ ویسے بھی فکشن میں بات کو صراحت سے کہنے کی بجائے اشارتاً کہنا ہی فن ہوتا ہے۔ لیکن محسن خان کے اشارے بھی آسان ہیں۔ ان کی تہہ تک اترنے میں قاری کو کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ناول میں بیک وقت اسٹریٹ فارورڈ اور فلیش بیک تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔ خواب سے شروع ہونے والے اس قصے کا اختتام بھی ایک خواب پر ہوتا ہے جہاں جبران کو اس کی مری ہوئی ماں اپنے ساتھ لے جانے آتی ہے۔ آخری جملے میں چراغ کی روشنی اور تیل ختم ہونے کے استعارے میں ناول نگار نے جبران کی زندگی کا چراغ گل ہو جانے کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔ یہاں جبران کی موت صرف ایک بچے کی موت نہیں بلکہ ذہانت، معصومیت اور بچپنے کی موت کے طور پہ ہمارے سامنے ایک سوالیہ نشان کھڑا کر دیتی ہے کہ اس جیسے ہزاروں لاوارث اور یتیم بچوں کا مستقبل آخر کیسے محفوظ ہو سکتا ہے؟
’اللہ میاں کا کارخانہ‘ ایک سوالنامہ ہے، ایک بچے کا معصوم سوالنامہ جس میں قدم قدم پہ قاری مسکراتا ہے۔ ہنستا ہے اور اداس بھی ہوتا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار چونکہ ایک بچہ ہے اور بچے کا ذہن سوالات کی آماجگاہ ہوتا ہے لہٰذا جبران و نصرت کے کرداروں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ محسن خان کی بچوں کی نفسیات پہ گہری نظر ہے۔ یہ احساسات کا ایسا مرقع ہے جس میں جذبات کی کارفرمائی جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ جبران اور نصرت کے مسائل، ان کی پریشانیاں قاری کو جہاں غم سے دوچار کرتی ہیں وہیں جبران کی شرارتیں لطف اندوز بھی کرتی ہیں۔
اس پورے قصے میں حافی جی واحد ایسے کردار ہیں جو شروع سے آخر تک معاشرے کا مثبت چہرہ پیش کرنے میں مکمل طور سے کامیاب ہوتے ہیں۔ حافی جی جو بچوں کو قرآن پڑھاتے ہیں ان کی باتوں میں کہیں بھی مولویت یا مذہبی متشددانہ پن محسوس نہیں ہوتا۔ وہ جبران اور دوسرے بچوں کے سوالات کا نرمی سے آسان اور واضح جواب دیتے ہیں جن سے بچوں کی تشفی کے ساتھ رہنمائی بھی ہوتی ہے۔ جبران کی ماں کے مرنے کے بعد وہ اس کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے اسے کپڑے جوتے و چشمہ بھی دلاتے ہیں۔ جب چچی اسے گھر سے نکال دیتی ہیں تو وہ اسے اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اس کی دلجوئی بھی کرتے ہیں۔ کہانی کی ابتدا میں یوں محسوس ہوتا ہے گویا حافی جی کوئی سخت گیر قسم کے استاد ہوں گے جو عبرت کی چھڑی سے شرارتی بچوں کو سزا دیتے تھے لیکن کہانی کے ارتقا کے ساتھ ان کا کردار واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔
بہرحال یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ یہ ناول اکیسویں صدی کے فکشن کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوگا جس کے ذریعے ناول میں کہانی پن کا احیا ہوگا اور اردو ناول علامت و تجریدیت کے تارِ عنکبوت سے آزاد ہو کر پھر سے قاری کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہو گا۔ مکالمے واپس آئیں گے اور راست بیانیے کو فروغ حاصل ہوگا۔
***
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا یکم مئی 2021