ناندیڑ بم دھماکہ:جس کا راز اتفاقاً فاش ہوگیا

سنگھ پریوار کے دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف واضح ثبوتوں کا انبار
آئی بی کے زیر اثر سی بی آئی کی ٹیم کا یہ انتخاب خودد آئی بی کی توقع سے زیادہ کامیاب ثابت ہوا کیونکہ سی بی آئی کی اس ٹیم نے جو کام کیا وہ آئی بی کی توقعات سے بھی بڑھ کر کیا جس پر آئی بی اور برہمنیت نوازوں سمیت ہر ایک شخص حیرت زدہ رہ گیا۔
اپریل 2006کا ناندیڑ بم دھماکہ ایک ایسی گہری سازش کا حصہ تھا، جس کا راز اتفاقاً خود ہی فاش ہوگیا اور اس میں ملوث برہمنی دہشت گرد تنظیموں کے کارکن خود ہی رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ یہ کیس درحقیقت اس طرح طشت ازبام ہوا کہ اس میں آئی بی کو دخل اندازی اور معاملے کو کوئی دوسرا رخ دینے کا مطلق موقع نہیں مل سکا۔ شدید نوعیت کا یہ بم دھماکہ 5اپریل 2006کی آدھی رات کو ناندیڑ میں پی ڈبلیو ڈی کے ایک ریٹائرڈ ایگزیکٹیو انجینئر لکشمن گڈا یا راج کونڈوار کے گھر میں ہوا تھا، جس میں لکشمن کونڈوار کا بیٹا نریش راج اور اس کا ایک ساتھی ہیمانشو پانسے ہلاک ہوگئے۔ ان دو افراد کی ہلاکت کے علاوہ چار افراد ماروتی کیشو واگھ، یوگیش دیش پانڈے (عرف ویدولکر) ، گرو راج ٹوپٹیو ار اور راہل پانڈے بھی زخمی ہوئے۔ اگرچہ پولیس کے سینیرافسران نے خود موقع کا معائنہ کیا، لیکن ایف آئی آر درج کرنے کی ذمہ داری ایک جونیر افسر پر ڈال دی گئی ۔ چنانچہ علاقے کے تھانہ کے ایک اسسٹنٹ پولیس انسپکٹر نے ایک زخمی شخص کے بیان کی بنیاد پر اس کی جو ایف آئی آر درج کی اس میں کہا گیا ہے کہ نریش راج کونڈوار، جو اس دھماکے میں مارا گیا، اپنے گھر سے غیر قانونی طور پر پٹاخوں کی تجارت کرتا تھا۔ دھماکہ کا سبب یہ بتایا گیا مرنے والے دونوں افراد راج کونڈوار اور واگھ پٹاخوں کے ذخیرے کے پاس ہی سگریٹ پی رہے تھے۔ اس بیان سے لگتا یہی تھا کہ یہ محض ایک حادثہ ہے۔ مگر اس کہانی کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے ایک ناقص تدبیر یہ اختیار کی گئی کہ پٹاخوں کی ایک بڑی مقدار کا اسٹاک ، جس کی مالیت 120000روپے تھی، موقع واردات پر رکھا ہوا دکھایا گیا ۔ لیکن کہانی گڑھنے والوں نے اپنی عقل کا اتنا بھی استعمال نہیں کیا کہ جب یہ سادہ سا سوال پوچھا جائے گا کہ اتنے شدید بم دھماکے باوجود اس جگہ بالکل نزدیک پٹاخوں کا اتنا بڑا ذخیرہ محفوظ کیسے رہ گیا اور اس پر اس طاقتور دھماکے کی زد کیوں نہیں پڑی؟ حتی کہ ضلع مجسٹریٹ اور سپرنٹنڈنٹ پولیس نے بھی اخبار نویسوں کے سامنے پٹاخوں کی کہانی دوہرانی شروع کردی۔ اس کہانی میں اتنے سارے جھول موجود تھے کہ لوگ پہلے ہی دن سے اس کی سچائی پر شک کرنے لگے تھے۔ پہلے دن اس واقعہ کو میڈیا نے قطعی نظر انداز کردیا اور واقعہ کی خبر صرف مقامی اخباروں میں ہی شائع ہوئی۔
یہ سمجھ لینا بڑا ہی بچکانہ سا لگتا ہے کہ ایسے معاملے میں جس میں دو افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے، ایف آئی آر کا اندراج، جس میں واردات پر نافذ ہونے والی قانونی دفعات کا تعین بھی شامل ہوتا ہے، اسسٹنٹ پولیس انسپکٹر درجہ کے ایک جونیر افسر کی صوابدید پر چھوڑدیا گیا۔ حالانکہ ناندیڑ ضلع کا صدر مقام ہے اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے علاوہ ضلع کے سپرنٹنڈنٹ پولیس اور رینج کے انسپکٹر جنرل پولیس کے صدر دفاتر بھی اسی شہر میں ہیں۔ علاوہ ازیں آئی بی کے ایک افسر کا دفتر بھی شہر میں موجود ہے۔ ہر شخص یہ قیاس کرسکتا ہے کہ بم دھماکہ جیسے حساس معاملے میں جس میں دو افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے ہوں، عام ضابطے کے مطابق کیا کارروائی ہوئی ہوگی۔ سب سے پہلے ضلع انتظامیہ نے ممبئی میں اپنے اعلیٰ افسران اور حکومت کو اس واقعہ کی رپورٹ دی ہوگی جس میں معاملے کے اجمالی حقائق ، زخمیوں کے بیانات اور اس میں ملوث مشتبہ افراد یا تنظیموں کے حوالے شامل ہوں گے۔ مقامی آئی بی افسر نے بھی ممبئی اور دلی میں اپنے اعلیٰ افسروں کو اس کی رپورٹ دی ہوگی اور فوراً ہی برہمنی لیڈروں نے آئی بی میں ’’اپنے لوگوں سے ‘‘ رابطہ قائم کیا ہوگا اور حکومت کے کسی نتیجہ پر پہنچنے سے قبل ، آئی بی نے ریاستی حکومت کو مطلع کردیا ہوگا کہ اس میں کچھ نہایت حساس امور شامل ہیں اور اس مرحلے پر جلد بازی میں کسی نتیجہ پر پہنچنا خطرناک ہوسکتا ہے۔ اس طرح آئی بی نے یہ پیغام بھی دیا ہوگا کہ ایف آئی آر صرف زخمی افراد کے بیان کی بنیاد پر درج کرلی جائے۔ ساتھ ہی مقامی میڈیا بھی اپنے کام میں لگ گیا ہوگا۔ اس قسم کے معاملوں میں مقامی میڈیا کے خطوط کار اور رویہ تقریباً طے شدہ ہے جس کا پیشگی قیاس کیا جاسکتا ہے ۔ کسی فرقہ وارانہ فساد یا بم دھماکے میں برہمنیت نواز اخبار نویس، جو عام طور پر اکثریت میں ہونے کی وجہ سے مقامی پریس پر حاوی ہیں، پولیس افسروں کو گھیر لیتے ہیں اور ایسے سوالات کرتے ہیں جو بالواسطہ یہ اشارہ کردیتے ہیں کہ اگر پولیس رپورٹنگ میں میڈیا کی تائید وحمایت کی خواہاں ہے تو اس کو کیا لائن اختیار کرنی چاہیے۔ اگر وہ کوئی مختلف لائن اختیار کرے گی، چاہے وہی لائن صحیح بھی ہو، تو رپورٹنگ کا اندازہ کیا ہوگا؟ چونکہ مقامی پولیس افسران جانتے ہیں کہ ان کے سینئر افسران ، حکومت اور عوام میڈیا میں شائع شدہ خبروں کی بنیاد پر اپنی رائے قائم کرتے ہیں، چنانچہ یہ افسران برہمنیت نواز پریس رپورٹروں کی تجویز کردہ لائن اختیار کرنے میں ہی اپنی عافیت جانتے ہیں۔ اس کے ساتھ سینئر برہمنیت نواز صحافی، وزیر اعلیٰ ، وزیر داخلہ اور دوسرے سینیر لیڈروں سے رابطہ قائم کرنے اور انہیں یہ بات ذہن نشین کرانے میں لگ جاتے ہیں کہ حکومت کو کیا اقدام کرنا چاہیے۔ ملک بھر میں علاقائی میڈیا کا رویہ مقامی انتظامیہ کے معاملہ میں اس قدر یکساں ہے کہ ناندیڑ دھماکہ معاملہ میں اس میں کوئی فرق نہیں ہوسکتا۔ مختلف سطحوں پر برہمنیت نوازوں کی منظم و مربوط کوششوں کے نتیجہ میں برہمنیت نواز اپنے ارادے میں اور پٹاخوں کے نظریے کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کرالینے میں کامیاب ہوگئے۔ بہرحال برہمنیت نوازوں کے لیے یہ ایک عارضی کامیابی ثابت ہوئی۔ دھماکے کی شدت ، موقع پر برآمد سامان اور اس دھماکے میں ہلاک شدگان اور زخمیوں کے پس منظر کی وجہ سے ایک معمولی آدمی کو بھی یہ سمجھ لینے میں دیر نہیں لگی کہ یہ معاملہ پٹاخوں میں آگ کے حادثے کا نہیں بلکہ بم دھماکے کا ہے۔ آخر کار ناندیڑ رینج کے آئی جی پولیس کو حقیقت تسلیم کرنی پڑی اور ریکارڈ کو صحیح کرنا پڑا۔ انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ ہلاک شدگان کی لاشوں میں بم کے کچھ ٹکڑے پیوست پائے گئے اور دھماکے کی جگہ پر ایک کار آمد پائپ بم بھی ملا اور یہ کہ پٹاخوں کی کہانی اس دھماکے میں زخمی لوگوں نے پولیس کو گمراہ کرنے کے لیے گڑھی ہے۔
مزید تفتیش سے انکشاف ہوا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد آر ایس ایس اور بجرنگ دل کے سرگرم کارکن تھے۔ وہ مختلف قسم کے بم بنانے اور انہیں استعمال کرنے کی تربیت پائے ہوئے تھے اور اپنی کارروائیوں کو مسلم تنظیموں کی کارروائی ظاہر کرکے مساجد کونشانہ بناتے رہے تھے۔ لکشمن راج کونڈوار، جس کے مکان میں دھماکہ ہوا، آر ایس ایس کا ایک معروف رہنما تھا۔ مزید براں جو ڈائریاں، اہم دستاویزات، مسلمانوں کے کئی مذہبی مقامات کے نقشے اور ٹیلیفون نمبر وغیرہ۔ پولیس کو ملزموں کے گھروں سے ملے، ملزمان کے خلاف مزید ثبوت بن گئے۔ ان ثبوتوں کی بنیاد پر 16 افراد گرفتار کیے گئے اور انہیں پولیس تحویل میں لیا گیا، لیکن حیرت ناک طور پر ان سب کو ایک ایک کرکے ضمانت پرر ہا کردیا گیا۔ جو دوسرے ملزم گرفتار نہیں ہوئے تھے۔ ان کو بھی آسانی سے پیشگی ضمانت مل گئی۔ ایک مہینے تک مقامی پولیس اپنی اہلیت کے مطابق معاملہ کی تفتیش کرتی رہی۔ ایف آئی آر چونکہ پٹاخوں میں آگ لگ جانے سے اتفاقی دھماکے کی کہانی کی بنیاد پر درج کی گئی تھی اس لیے عوام اور بالخصوص اقلیتی فرقہ کی نگاہ میں پولیس کارہا سہا اعتبار بھی جاتا رہا۔ دوسرے یہ کہ ثبوتوں کی بنیاد پر تفتیش کا دائرہ وسیع تر ہوتا نظر آیا، چنانچہ معاملہ کی جانچ مقامی پولیس سے مہاراشٹرا کے انسداد دہشت گردی دستہ (اے ٹی ایس) کو منتقل کردی گئی جس کے سربراہ اس وقت ایڈیشنل ڈی جی پی کے پی رگھو ونشی تھے، جو آئی بی کے اندرونی گروپ اور برہمنیت نوازوں کے ایک معتمد افسر سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے ان عناصر نے اس پہلو سے راحت محسوس کی ہوگی کہ وہ ایسے افسر ہیں جو تفتیش کی ضابطہ کی کارروائی پوری کردیں گے اور جہاں چاہیں گے اس کو روک دیں گے۔
چونکہ موقع واردات پر ملی ہوئی چیزوں، ملزموں اور مشتبہ لوگوں کے گھروں کی تلاشیوں کے دوران جو ڈائریاں، دستاویزات، مسلم عبادت گاہوں کے نقشے، مصنوعی داڑھیاں، مخصوص مسلم طرز کے لباس جیسے شیروانیاں، بہت سے ٹیلیفون نمبر، متعدد موبائل فون اور جو دوسر ی بہت سی چیزیں برآمد ہوئی تھیں، وہ ملزمان کے درمیان ساز باز اور سازش کے ایسے ثبوت تھے جن کو اے ٹی ایس نہ تو نظر انداز کرسکتی تھی اور نہ مسترد کرسکتی تھی، اس لیے ان کوقطعی ثبوت کے طور پر قبول کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ اے ٹی ایس کو ان ملزمان کا نارکو تجزیاتی ٹیسٹ بھی کرانا پڑا جو دھماکے میں بچ گئے تھے۔ مقامی پولیس نے اپنی تفتیش کے دوران جن اہم گواہوں کے بیانات درج کیےتھے، ان کے بیانات بھی ازسرنو لینے پڑے ۔ نتیجے کے طور پر اے ٹی ایس کے پاس مختصر مدت میں بجرنگ دل اور سنگھ پریوار کے اس پورے دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف واضح ثبوتوں کا انبار لگ گیا۔ یہ ثبوت سنگھ پریوار کے وسیع تر دہشت گرد نیٹ ورک کا بھانڈا پھوڑنے کے لیے کافی تھے لیکن 24اگست 2006کو اے ٹی ایس نے جو پہلی فرد جرم داخل کی اس ظاہر ہوا کہ تفتیش کا دائرہ ناندیڑ دھماکہ اور پربھنی، پونا اور جالنا کے 2004-2003بم دھماکوں تک محدود ہے، جن کا سراغ ناندیڑ تفتیش کے دوران اتفاق سے لگ گیا تھا لیکن اس جانچ پڑتال میں آر ایس ایس ، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے وسیع تر دہشت گرد نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس سے ان لوگوں کو کوئی حیرت نہیں ہوئی جو برہمنیت کے علم برداروں کے آئی بی رابطوں اور گہرے تعلق اور آئی پی کے تئیں اے ٹی ایس چیف رگھو ونشی کی جی حضوری کو جانتے ہیں۔
24اگست 2006کو پہلی فرد جرم سات ملزمین کے خلاف داخل کی گئی ، جن کے نام راہل پانڈے، لکشمن راج کونڈوار، سنجے چودھری اور رامداس ملنگے، ڈاکٹر رمیش دیش پانڈے، ہیمانشو پانسے( موت ہوگئی) اور نریش راج کونڈوار( موت ہوگئی) تھے۔
ان ملزمان پر پر تعزیرت ہند کی دفعات 304(غیر ارادی قتل)،286(سنگین لاپروائی کا رویہ)،338(شدید چوٹ پہنچانا)،201(مجرم کو پناہ دینا)،120B(مجرمانہ سازش)، 34(جرم کے لیے مشترکہ ارادہ) اور 109( جرم میں شامل کرنے کے لیے ورغلانا) کے علاوہ دھماکہ خیز اشیا ایکٹ 1908 کی دفعات 3 (ایسے دھماکے کا سامان جمع کرنا جس سے جان، جسم یا جائیداد کو خطرہ لاحق ہو)، 4 (ایسا سامان مہیا کرنا یا بنانا یا ایسا دھماکہ خیز سامان رکھنا، جس سے جان اور مال کو خطرہ پہنچنے کا اندیشہ ہو)، 5(مشتبہ حالات میں دھماکہ خیز اشیا بنانا)، 6 (جرم میں تعاون) اور اسلحہ ایکٹ 1959 کی دفعات 3،25 اور 35 (غیر قانونی طور پر اسلحہ رکھنا) اور غیر قانونی سرگرمیاں(انسداد) ایکٹ 1967(2004 میں ترمیم شدہ ) کی دفعات 18 (دہشت گردانہ کارروائی کی کوشش کرنا یا اس کے لیے اکسانا)، 23 (دہشت گردانہ سرگرمی میں مدد دینے کے ارادہ سے غیر قانونی طور پر بم وغیرہ رکھنا) ایف آئی آر میں لگائی گئیں۔
مزید تفتیش کے بعد اے ٹی ایس نے 11نومبر 2006کو ایک ضمنی فرد جرم داخل کی، جس میں 4مزید ملزموں، ماروتی واگھ، یوگیش ڈی ودولکر، گرو راج جے رام تپٹیوار اور ملند ایکتاتے نام شامل ہیں لیکن اس فرد جرم سے بھی یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اے ٹی ایس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی نیت رکھتی ہے۔
تفتیش میں حاصل شدہ حقائق
اے ٹی ایس کی داخل کی ہوئی دونوں فرد جرم (charge sheets) اور ان کے ساتھ منسلک دستاویزات سے ایسا لگتا ہے کہ تفتیش میں مندرجہ ذیل حقائق کا پتا چلا ہے:
1۔ ناندیڑ میں بم سازی میں ملوث ملزمین، ناندیڑ کے پاس کے دیگر اضلاع میں اس سے پہلے ہونے والے تین دھماکوں میں بھی ملوث تھے۔ یہ دھماکے تھے: محمدیہ مسجد پربھنی (نومبر 2003) ، قادریہ مسجد جالنا (اگست 2004)اور معراج العلوم مدرسہ / مسجد پورنا، ضلع پربھنی (اگست 2004) ان دھماکوں میں انہی ملزمان کا ہاتھ تھا۔
2۔ جو بم5/6اپریل 2006کو ناندیڑ میں آر ایس ایس کے کارکن نریش راج کونڈوار کے گھر پر پھٹے اور جن کا شکار خود ملزمین بن گئے، وہ دراصل اورنگ آباد کی ایک مسجد کو نشانہ بنانے کے لیے تھے۔ ملزمان ہیمانشو پانسے اور ماروتی واگھ مئی 2004میں ہ اورنگ آباد کی مذکورہ مسجد اور آس پاس کے علاقےکا قریب سے جائزہ لے چکے تھے۔
3- ملزمین کے گھر اور ان کے دوسرے ٹھکانوں سے چھاپوں اور تلاشیوں کے دوران جو شواہد پولیس کے ہاتھ لگے ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہیمانشو پانسے ، نریش کونڈوار، ماروتی واگھ، یوگیش ویدولکر (دیش پانڈے) گرو راج تپتے وار، راہل پانڈے ، سنجے چودھری، رام داس ملنگے اور لکشمن راج کونڈوار، آر ایس ایس ، وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے سرگرم کارکن ہیں۔
4- ان تنظیموں نے ان کی اس طرح ذہن سازی کردی تھی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہندووں میں پروپیگنڈے میں لگ گئے اور یہ بات پھیلانے لگے کہ ’’انتہا پسند مسلم تنظیمیں‘‘ اکثر بے قصور ہندووں پر حملے کررہی ہیں۔ اس کام کے لیے ہیمانشو پانسے اور راہل پانڈے نے نوجوانوں کو متحرک و آمادہ کرنے اور انہیں ’’ہندو دھرم‘‘ کے اپنے ہی شدت پسند نظریے کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک جمنازیم شروع کیا۔ مزید برآں ، ہیمانشو پانسے اور ماروتی واگھ نے بجرنگ نگر، ناندیڑ میں سنگھ کی شاکھا بھی قائم کی۔
5- انہوں نے ایسے سیمینار اور مذاکرے منعقد کیے اور ایسی تقریروں کا سلسلہ شروع کیا جن کا مقصد مسلم مخالف ماحول بنانا اور اس جھوٹ پر زور دینا اور اس کو پھیلانا تھا کہ مسلمانوں نے ہندووں کے ساتھ شدید ’’نا انصافیاں‘‘ کی ہیں۔ اپنی ان سرگرمیوں کے ذریعہ وہ ہندووں کو اس بات کے لیے آمادہ کرتے تھے کہ وہ ’’ہندوتو‘‘ کے لیے کچھ تو کریں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ ہندووں کے تمام تہوار دھوم دھام کے ساتھ منانے کا اہتمام کرتے تاکہ لوگوں میں مذہبی جوش پیدا ہو اور ان کا رسوخ بڑھے۔
’’انتقام‘‘ لینے کے اپنے نظریے کو موثر طریقہ سے روبعمل لانے کے لیے ملزمان واگھ، پانسے، چودھری اور دیدورکر 2003میں پونا کے پاس قلعہ سنہاگڈا (Sinhagad Fort)کے قریب واقع اکانکشا ریزورٹ گئے جہاں انہوں نے ’’متھن چکرورتی‘‘ نام کے ایک شخص سے پائپ بم سمیت تین طرح کے بم بنانے کی ٹریننگ لی۔ انہیں یہ دکھلانے کے بعد کہ ان بموں کا دھماکہ کیسا کیا جاتا ہے او راس کے عملی مظاہرے کے بعد متھن چکرورتی نے پانسے کو دھماکوں میں کام آنے والا ساز و سامان دیا۔ اس کیمپ سے واپسی کے کچھ ہی مدت بعد انہوں نے پربھنی کی محمدیہ مسجد میں بم دھماکے کیے۔
7- وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل نے بھی ہیمانشو پانسے کو گوا میں دو سال تک گولا بارود بنانے اور چلانے کی تربیت دی۔
8- مذکورہ بالا تربیت کیمپوں کے علاوہ آر ایس ایس اور بجرنگ دل نے ایسے ہی تین مزید کیمپ منعقد کیے جن کا انکشاف پونا کے ایک باشندہ اور مرچنٹ نیوی کے سبکدوش کیپٹن سنت کمار بھاٹے کے ان بیانات سے ہوا جو اس نے 20 اپریل اور 18مئی 2006 کو قلم بند کرائے تھے بھاٹے نے اپنے بیان میں مندرجہ ذیل حقائق کا انکشاف کیا:
الف۔ مارچ یا اپریل 2000میں اسے پونا کے سرسوتی مندر اسکول کی پشت پر واقع بجرنگ دل کے دفتر سے ایک فون کال موصول ہوئی۔ یہ فون بجرنگ دل کے کل ہند شعبہ برائے جسمانی تعلیم (All India Physical Education Wing) کے صدر ملند پراڈے نے کیا تھا اور یہ درخواست کی تھی کہ وہ بجرنگ دل کے کارکنوں کو ، جو ایک کیمپ میں شرکت کے لیے پونا آنے والے ہیں، جلاٹین کی چھوٹی اسٹکس (اک طرح کے بم) کے استعمال کی تربیت دیں۔ ملزم سنت کمار بھاٹے نے یہ اعتراف کیا کہ اس نے اس درخواست کو قبول کرکے کیمپ میں ریاستی سطح کے 50-40 سرگرم کارکنوں نے شرکت کی تھی۔ ہیمانشو پانسے ان کا گروپ لیڈر تھا۔
ب۔ ملند پراڈے نے اس کے بعد بھاٹے سے درخواست کی کہ وہ بھونسالہ ملٹری اسکول ناگپور میں منعقد ہونے والے قومی سطح کے کیمپ میں بھی شرکت کریں اور کارکنوں کو گولا بارود استعمال کرنے کی تربیت دیں۔ اس کیمپ کے لیے پراڈے اور اس کے تین چیلے اپنے ساتھ 300 جیلیٹن اسٹکس لائے۔ یہ 40دن کا کیمپ آر ایس ایس اور بجرنگ دل نے لگایا تھا اور اس میں پورے ملک سے آر ایس ایس، بجرنگ دل اور وی ایچ پی وغیرہ کے 115سرگرم کارکنوں نے حصہ لیا تھا۔ بھاٹے نے بتایا کہ اس نے اس کیمپ میں شرکت کی تھی اور کیمپ کے بیشتر اوقات میں کارکنوں کو جلیٹن بم استعمال کرنے کی تربیت دی تھی لیکن اس کا کہنا تھا کہ وہ کیمپ کے ماحول سے ’’مایوس تھا‘‘ کیونکہ کیمپ کے منتظمین کارکنوں کو ’’گمراہ ‘‘ کررہے تھے۔ مزید برآں اس کیمپ میں دو سابق فوجی افسر اور آئی بی کا ایک سابق سینیر افسر بھی کارکنوں کی تربیت کے لیے موجود تھے۔
ج۔ بھاٹے کو ضلع کولہا پور کے گڑھی نگلا ج مین بجرنگ دل کے ایک کیمپ میں بھی شرکت کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کیمپ کا ناظم اعلیٰ شنکر ویدیہ تھا۔
9۔ پانسے کے گھر کی تلاشی میں بھیس بدلنے کا سامان بھی برآمد ہوا، جیسے نقلی داڑھیاں، مونچھیں اور شیروانیاں جو مسلمانوں کا خاص لباس سمجھی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سامان واردات کے وقت بھیس بدلنے اور مسلمانوں جیسی شکل و صورت اختیار کرنے کے لیے استعمال ہونے تھے۔
10۔ ہیمانشو پانسے کے گھر میں برآمد مندرجہ بالا چیزوں سے اور گواہ انل ونود کامٹی کرکے موبائل 9822297494پر بات چیت کے ریکارڈ سے یہ پتہ چلا کہ واگھ ’’کوئی خاص کام‘’ انجام دینے کے لیے 5اپریل 2006کو اورنگ آباد جانے والا ہے اور اس لیے سچن سریش کدم کی ملکیت والی ’’دھوت موٹرز‘‘ پر ایک موٹر سائیکل تیار رکھی گئی ہے۔
11۔ واگھ کے رام داس رجنیشی کی جیبی ڈائری میں درج کوائف اور اس میں جو نقشہ ملا وہ یہ اشارہ کرتے ہیں کہ ہیمانشو پانسے نے ماروتی واگھ، شریکر سونا وانے اور تین دوسرے لوگوں کے ساتھ مئی 2004میں اورنگ آباد کی مسجد کا تفصیل سے جائزہ لیا تھا۔
12۔ ان شر انگیز سرگرمیوں میں ناندیڑ میں تعینات بی ایس این ایل کے ایک ملازم گووند ناگ اچاریہ پورانک نے بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ وہ آر ایس ایس سے وابستہ تھا اور 2000سے ہی آر ایس ایس کے تربیتی کیمپوں میںشرکت کرتا آرہا تھا۔ اس نے ناندیڑ کی واردات سے قبل اور بعد میں نہ صرف یہ کہ ملزموں کی مالی مدد کی بلکہ ان کی رہنمائی کی اور ان کی آمد و رفت اور قیام وغیرہ کے بندوبست میں بھی مدد کی لیکن اس نے بہت ہی آسانی سے پیشگی ضمانت حاصل کرلی۔
13۔ ناندیڑ کا ایک باشندہ سریکر شیو سامبھا سونوالے ملزمین کا ایک قریبی دوست تھا۔ یہ بات اس کے علم میں تھی کہ ہیمانشو پانسے اور ماروتی واگھ نے نومبر 2003میں پربھنی کی ایک مسجد میں بم دھماکہ کیا تھا لیکن اس نے یہ اہم اطلاع پولیس تک نہیں پہنچائی۔ اگر وہ پولیس کو یہ اطلاع پہنچا دیتا تو دہشت گرد گروہ کو پکڑا جاسکتا تھا اور اس طرح وہ دھماکے جو بعد میں دوسرے مقامات پر ہوئے روکے جاسکتے تھے۔
14۔ ایک ملزم سنجے چودھری نے اپنے نارکو ٹسٹ میں بیان دیا تھا کہ نومبر 2003کے پربھنی دھماکہ سے قبل ہیمانشو پانسے نے اس سے کہا تھا کہ وہ پونا جائے اوروہاں ’’ایک اہم شخص‘‘ سے ملاقات کرے۔ اس کے کہنے کے مطابق سنجے پونا گیا۔ اس کے وہاں پہنچنے کے بعد وہ ’’اہم شخص‘‘ اسے اسٹیشن پر ملا اور اپنی گاڑی میں بٹھا کر خود ڈرائیو کرتا ہوا اسے ’’کشتریہ لاج‘‘ لے گیا جہاں سنجے نے اپنے اصلی نام سے اندراج کرایا اور ہیماانشو کی ہدایا ت کے مطابق وہاں دو تین دن قیام کیا۔ اس کے تمام اخراجات ہیمانشو نے ادا کیے۔
15۔ سنجے نے مزید بیان دیا ہے کہ ہیمانشو اکثر ممبئی میں بجرنگ دل کے بڑے لیڈر بالا جی پکھارے اور آر ایس ایس کے لیڈروں سے رابطہ قائم کیا کرتا تھا اور یہ کہ ہیمانشو کو اپنی ان سرگرمیوں کے لیے ممبئی اور پونا میں بجرنگ دل اور آر ایس ایس کے ذریعہ مالی امداد حاصل ہوتی تھی۔
16۔ سنجے نے پولیس کو یہ بھی بتایا کہ مارچ 2006میں سنکٹ موچن مندر بنارس کے دھماکہ کے بعد ہیمانشو نے اورنگ آباد کی مسجد میں دھماکہ کرنے کی سازش رچی تھی۔ ہیمانشو نے کہا تھا کہ وہ ایک سینئر لیڈر کے فون کا منتظر ہے اور اس لیڈر کے حکم کے بعد ہی اس سازش پر عمل درآمد کرے گا۔ ہیمانشو کے پاس ایک الگ سم کارڈ تھا ، جس کا استعمال وہ اس طرح کے احکامات وصول کرنے کے لیے کرتا تھا۔
17۔ سنجے کو اپنی گرفتاری کے بعد ناندیڑ کے بجرنگ دل لیڈر بالا جی پکھارے کا ایک فون ملا تھا، جس میں پکھارے نے سنجے سے کہا تھا کہ وہ پریشان نہ ہو ، جلد ہی اس کی ضمانت ہوجائے گی۔
18۔ ایک دوسرے ملزم راہول پانڈے نے اپنے نارکو ٹسٹ کے دوران پولیس کو بتایا کہ ہیمانشو کے تخریبی منصوبوں کی تکمیل میں وارڈ کا باشندہ یوگیش، وارانسی کا مکیش اور ناندیڑ کا گووند پورانک اس کی مدد اور تعاون کرتے تھے۔
19۔ راہل نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ وشو ہندو پریشد کے لیڈر پروین توگڑیا اس کے یہاں تقریر کرنے آئے تھے اور ہیمانشو نے ہی توگڑیا کے دورے کے انتظامات کیے تھے۔
20۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ ہیمانشو ایک ’’یوگی‘‘ کے ساتھ ’’سیر سپاٹے ‘‘کے لیے ماہ دسمبر میں گوا بھی گیا تھا۔
اس سے قبل کہ پی رگھو ونشی اور ان کی ٹیم صورت حال کو سمجھ پاتی، ان کے سامنے آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف بڑے ہی پختہ ثبوتوں اور اہم سراغوں کا ایک انبار لگ گیا، لیکن انہوں نے ظاہر ہے کہ کسی خاص وجہ سے نہ تو ان شہادتوں کا صحیح طور پر استعمال کیا اور نہ ان سراغوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے تفتیش کو جاری رکھا جیسا کہ مندرجہ ذیل حقائق سے ثابت ہوتا ہے:
1۔ بھونسالہ ملٹری اسکول ناگپور کے پچھلے ریکارڈ کی کوئی جانچ نہیں کی گئی جہاں 2001ء میں آر ایس ایس اور بجرنگ دل کا قومی سطح کا دہشت گرد تربیتی کیمپ منعقد ہوا۔ نہ ان 115 سرگرم کارکنوں کی تفصیلات معلوم کی گئیں جنہوں نے اس کیمپ میں شرکت کی تھی۔ یہ اسکول اب بھی معمول کے مطابق چل رہا ہے
2۔ پونا کے آرکنکشا ریزارٹ کے مالکین اور منتظمین کے بارے میں بھی کوئی جانچ نہیں کی گئی جہاں 2003ء میں ایک تربیتی کیمپ لگایا گیا تھا۔ دوسری دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ اس کی وابستگی اور تربیت دینے اور پانے والے افراد کے بارے میں بھی کوئی تفتیش نہیں کی گئی۔
’’متھن چکرورتی‘‘ کی شناخت نہیں کی گئی اور نہ اس بات کی جانچ پڑتال کی گئی کہ یہ شخص کون ہے، جس نے نہ صرف یہ کہ آکنکشا ریزارٹ میں ملزموں کو بم بنانے اور چلانے کی تربیت دی تھی بلکہ انہیں گولہ و بارود بھی فراہم کیا تھا۔ جس طرح سے اس کی حقیق شناخت چھپانے کی کوششیں ہوئی ہیں ان سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کوئی انتہائی اہم شخص ہے۔
4۔ بجرنگ دل کے کل ہند شعبہ جسمانی تعلیم کے سربراہ ملند پراڈے کو اس کیس میں ملزم نہیں بنایا گیا حالانکہ اسی نے اب تک کی معلومات کے مطابق سال 2000ء میں سب سے پہلا تربیتی کیمپ لگایا تھا۔ یہ کیمپ پونا میں لگایا گیا تھا۔ پراڈے نے 2001ء میں ناگپور کیمپ میں جلاٹین کی 300 چھڑیوں کے ساتھ شرکت کی تھی۔
5۔ ملند پراڈے کے ان تین چیلوں کے بارے میں کوئی جانچ پڑتال نہیں کی گئی جو اس کے ساتھ ناگپور کیمپ میں شریک ہوئے تھے۔ اسی طرح ان 40تا 50کارکنوں کے بارے میں بھی کوئی چھان بین نہیں کی گئی جنہوں نے سال 2000ء میں پراڈے کے لگائے ہوئے دہشت گردی کے تربیتی کیمپ میں شرکت کی تھی۔
6۔ ان دونوں سابق فوجیوں کی شناخت کی بھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، جنہوں نے بجرنگ دل کے کارکنوں کو گولہ بارود، بم سازی اور اسلحہ چلانے کی تربیت دینے کے لیے ناگپور کے تربیتی کیمپ میں شرکت کی تھی (بعد میں ہیمنت کرکرے کی سربراہی میں اے ٹی ایس نے انہیں مالیگاوں معاملے میں گرفتار کیا تھا (اگر ان دونوں کو پولیس نے ناندیڑ معاملے میں گرفتار کرلیا ہوتا تو مزید دھماکے روکے جا سکتے تھے)
7۔ اس سابق سینئر آئی بی افسر کی بھی شناخت نہیں کی گئی جس نے ناگپور میں منعقدہ دہشت گردی کے تربیتی کیمپ میں شرکت کی تھی۔ دوسری طرف اس کی شناخت چھپانے کی کوششیں اسی طرح شد و مد کے ساتھ کی گئیں جیسی ’’متھن چکرورتی‘‘ کے نام کو چھپانے کی گئی تھیں۔ ایسا لگتا ہے آئی بی کی مرضی کے بغیر اے ٹی ایس اسے چھو تک نہیں سکتی اور آئی بی اس کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتی۔
8۔ گڑھی نگلاج ضلع کولہا پور میں منعقدہ دہشت گردی کے تربیتی کیمپ کے بارے میں کوئی جانچ پڑتال نہیں کی گئی۔ کس نے اس کا اہتمام کیا، کس نے اس کے لیے فنڈ فراہم کیا، تربیت دینے والوں اور شرکت کرنے والوں کے نام کیا تھے یا انہیں کس قسم کی تربیت دی گئی تھی اور کتنے دنوں تک؟ وغیرہ۔
9۔ شنکر ویدیا کی پچھلی کار گزاریوں کی جانچ نہیں کی گئی جو گڑھی نگلاج میں کیمپ کا سربراہ تھا۔
10۔ اس ساری سازش کے سرغنہ ہمانشو پانسے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے گوا میں دو سال تک تربیت حاصل کی تھی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس بارے میں مفصل جانچ نہیں کی گئی کہ مذکورہ ٹریننگ کس جگہ پر دی گئی۔ اس کا انتظام کس نے کیا، تربیت دینے والے کون تھے اور کن کن لوگوں نے اس کے ساتھ تربیت حاصل کی وغیرہ۔
11۔ گواہ تل کامیٹکر کے موبائل نمبر 9822297494 کے کال ریکارڈ کی کوئی جانچ نہیں کی گئی جسے ملزمین نے استعمال کیا تھا۔ اس جانچ سے ان لوگوں کے ناموں کا پتہ چلتا جن سے ملزم نے دھماکے سے قبل اور اس کے فوراً بعد رابطہ قائم کیا تھا۔
12۔ اتل ونود کامیٹکر جو لگتا ہے کہ ملزمین کے منصوبے کو جانتا تھا، کیس میں ملزم نہیں بنایا گیا۔
13۔ گووند ناگ اچاریہ پرانک کو، جس نے 2000ء سے آر ایس ایس کے کیمپوں میں شرکت کرتے رہنے کا اعتراف کیا تھا اور جس نے ملزمین کی مالی مدد اور حمایت فراہم کی تھی یوں ہی چھوڑ دیا گیا۔
14۔ شریکر شیو سامبھا سونوالے کو بھی ملزم نہیں بنایا گیا جو کہ نومبر 2003ء کے پربھنی مسجد کے دھماکے کی سازش سے باخبر تھا اور ان لوگوں میں بھی شامل تھا جو اورنگ آباد میں بم دھماکہ کے لیے نشان زدہ مسجد کا جائزہ لینے کے لیے گروہ کے سرغنہ ہیمانشو پانسے کے ساتھ گئے تھے۔
15۔ لگتا ہے کہ پونا کے ’’اہم شخص‘‘ کے بارے میں بھی کوئی جانچ نہیں کی گئی جس نے ایک ملزم سنجے چودھری سے ریلوے اسٹیشن پر ملاقات کی تھی۔ کشتریہ لاج کے بارے میں بھی کوئی جانچ نہیں کی گئی جہاں ایک ملزم سنجے کو پربھنی دھماکہ سے قبل ٹھہرایا گیا تھا۔
16۔ گروہ کا قائد ہیمانشو پانسے، ناندیڑ کے بجرنگ دل لیڈر بالاجی پکھارے سے ہدایات حاصل کیا کرتا تھا۔ پکھارے نے سنجے چودھری سے جب وہ پولیس کی تحویل میں تھا، فون پر بات کی تھی لیکن بالاجی پکھارے کو ملزم نہیں بنایا گیا۔
17۔ یہ بات بھی معلوم نہیں کہ وارڈ کے یوگیش اور وارانسی کے مکیش جیسے لوگوں کے بارے میں کیا انکوائری کی گئی، جنہوں نے ایک ملزم راہل پانڈے کے مطابق ہیمانشو پانسے کو اس کے تخریبی منصوبوں پر عمل درآمد کرنے میں مدد دی تھی۔
18۔ وشو ہندو پریشد کے لیڈر پروین توگڑیا کا اس دہشت گرد گروہ کو تخریب کاری پر اکسانے کا سنگین معاملہ روشنی میں آیا لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ اس بارے میں توگڑیا سے پوچھ تاچھ کی گئی یا کم از کم اس کی اشتعال انگیز تقریروں کی سی ڈیز کو ضبط کرنے کا کوئی اقدام کیا گیا ہو،
19۔ ’’یوگی‘‘ کی شناخت کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی، جس کے ساتھ ہیمانشو پانسے ’’سیر سپاٹے‘‘ کے لیے گوا گیا تھا۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ پانسے نے دو سال تک گوا میں بم سازی اور دھماکے کرنے کی سخت تربیت حاصل کی تھی، یوگی کے بارے میں معلومات کا حصول انتہائی اہمیت کا حامل ہے
20۔ نریش راج کونڈوار کے موبائل فون سے کی جانے والی اور اس پر وصول کی جانے والی کالوں کے سلسلے میں لگتا ہے کہ کوئی جانچ نہیں کی گئی۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ کیا اس خصوصی سم کارڈ کو ضبط کرنے کی کوئی کوشش کی گئی جس پر ہیمانشو پانسے دھماکے جیسی سنگین وارداتوں کے بارے میں اپنے ’’بڑے لیڈروں‘‘ سے احکام حاصل کیا کرتا تھا؟ اگر وہ سم کارڈ ضبط کیا گیا تو کیا اس کے ذریعے آنے اور جانے والی کالوں کی تفصیلات (بھونسالہ ملٹری اسکول، آکنکشا ریزارٹ، متھن چکرورتی اور سینئر سابق آئی بی افسر کے بارے میں مزید تفصیل ممبئی پر حملہ کے بعد مالیگاوں دھماکہ کی تفتیش سے متعلق باب 8 میں دی گئی ہے)
اوپر مذکورہ سنگین اور نمایاں فروگزاشتوں کے علاوہ کے پی رگھوونشی کی سربراہی میں اے ٹی ایس نے ان سے بھی زیادہ سنگین فروگزاشت اس وقت کی جب اس نے مہاراشٹر ایڈیشنل چیف سکریٹری (امور داخلہ) کو خط لکھ کر ان 21 ملزمین میں سے ‘‘ جن کو اے ٹی ایس نے گرفتار کیا تھا‘‘ صرف سات پر مقدمہ چلانے کی منظوری طلب کی حالانکہ صرف تین ہفتہ قبل 29جولائی 2006ءکو اس نے کلکٹر ناندیڑ سے تمام 21گرفتار شدگان پر مقدمہ چلانے کی اجازت مانگی تھی۔ بعد میں ان میں سے 11 کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 169کے تحت یہ کہہ کر چھوڑ دیا گیا کہ ان کے خلاف کافی ثبوت نہیں ہیں۔ یہ بات بہر حال حیران کن ہے کیونکہ صرف تین ہفتہ قبل اے ٹی ایس نے کلکٹر کو ایک رپورٹ بھیجی تھی اور یہ اجازت مانگی تھی کہ ان کے خلاف اسلحہ ایکٹ اور دھماکہ خیز مادہ ایکٹ کے تحت فرد جرم داخل کی جائے اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف کافی ثبوت موجود ہیں۔ ایسے معاملہ میں اے ٹی ایس کا اس طرح رخ بدل لینا، سیاسی دباو کے تحت نہیں ہو سکتا، جیسا کہ عام طور پر خیال کیا گیا۔ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ رہا کیے گئے تمام ملزمین کا تعلق سنگھ پریوار سے تھا جو اس وقت ریاست، نیز مرکز میں حکمراں اتحاد کی اصل اپوزیشن پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کی جنم داتا ہے۔ واحد نتیجہ جو اخذ کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ ملزمین کٹر برہمنیت نواز تھے اور اس لیے برہمنیت نواز آئی بی افسران نے انہیں چھوڑ دینے کے لیے رگھو ونشی پر دباو ڈالا۔
رگھو ونشی کا عمل ’’اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا‘‘ ثابت ہوا۔ چونکہ پولیس اور اے ٹی ایس کے جانب دارانہ رویہ کے خلاف سیکولر طاقتوں اور مسلم تنظیموں کی طرف سے پر زور احتجاج ہورہا تھا، اس لیے سرکار کے پاس اس معاملہ کو سی بی آئی کے حوالے کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہ بات برہمنیت نوازوں اور آئی بی کے لیے بہت تشویش کا باعث تھی، اس لیے کہ برہمنیت نوازوں اور آئی بی کو اندیشہ تھا کہ سی بی آئی، جس پر ذات پرستی یا فرقہ وارانہ جانب داری کا گمان نہیں کیا جاتا، اس معاملہ کی گہرائی سے جانچ کرکے پوری سازش کو بے نقاب کرسکتی ہے۔ لیکن آئی بی اتنی آسانی سے اپنے عزائم میں ہار ماننے والی تنظیم نہیں ہے۔ اگرچہ بحیثیت ایک تنظیم سی بی آئی نظریاتی دراندازی سے محفوظ ہے لیکن انفرادی دراندازی کے چند واقعات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بعد کے حالات اور واقعات سے ظاہر ہوگیا کہ آئی بی نے وزیراعظم کے دفتر میں اپنے اثر و رسوخ سے اور اپنی اکثر استعمال کی جانے والی گمراہ کن اصطلاحات مثلاً خفیہ کارروائی‘‘، ’’دہشت گردی مخالف کارروائی‘‘ اور ’’بین الاقوامی تعلقات‘‘ وغیرہ کو استعمال کرکے اس معاملے کی جانچ کے لیے اپنی پسند کی ٹیم کو نامزد کرانے میں کامیابی حاصل کرلی۔
آئی بی کے زیر اثر سی بی آئی کی ٹیم کا یہ انتخاب خود آئی بی کی توقع سے زیادہ کامیاب ثابت ہوا کیونکہ سی بی آئی کی اس ٹیم نے جو کام کیا وہ آئی بی کی توقعات سے بھی بڑھ کر کیا جس پر آئی بی اور برہمنیت نوازوں سمیت ہر ایک شخص حیرت زدہ رہ گیا۔ اس نے مندرجہ ذیل فرو گزاشتوں کے ذریعے معاملے کو بڑی حد تک ہلکا کر دیا:
۱۔ سی بی آئی نے اس معاملہ کی ایک وسیع دہشت گردانہ سازش کے طور پر جانچ نہیں کی جس میں سنگھ پریوار کی پوری پوری حمایت سے بجرنگ دل کارکنوں کا نفرت انگیز نیٹ ورک ملوث تھا۔ اس نے ناندیڑ، پربھنی، جالنا اور پونا کے بم دھماکوں کو یک جا نہیں کیا۔ جب کہ یہ پہلے ہی معلوم ہوچکا تھا کہ یہ دھماکے اسی دہشت گرد گروپ کے کیے ہوئے تھے۔ اس کے بجائے اس نے ناندیڑ معاملہ کو ایک الگ معاملہ کے طور پر دیکھا اور فرد جرم داخل کرتے وقت تعزایرت ہند کی دفعہ 120B (سازش) اور غیر قانونی سرگرمیاں (انسداد) ایکٹ کی دفعات کو حذف کردیا، جو اس سے قبل اے ٹی ایس نے لگائی تھیں۔
2۔ سی بی آئی نے اس معاملہ میں ملوث ملزموں کے اور آر ایس ایس ، بجرنگ دل ، وشوہندو پریشد کے درمیان رشتوں کے حوالے سے جانچ سے بھی جان بوجھ کر اجتناب کیا۔
3۔ لکشمن راج کونڈوار کا نام، ناندیڑ میں جس گھر میں دھماکہ ہوا تھا اور جہاں سے بہت سے مشتبہ کاغذات اور دوسرا سامان مصنوعی داڑھیاں اور شیروانی وغیرہ برآمد ہوئے تھے، ملزمین کی فہرست سے حذف کر دیا گیا۔ حالانکہ اے ٹی ایس کی پہلی فرد جرم میں اسے ملزم بنایا گیا تھا۔
4۔ بھونسالہ ملٹری اسکول یا آکنکشا ریزارٹ یا دوسری جگہوں کے بارے میں کوئی جانچ نہیں کی گئی جہاں بجرنگیوں کو بم بنانے ان کے دھماکے کرنے اور اسلحہ چلانے کی تربیت دی گئی تھی۔
5۔ اس بات کی جانچ نہیں کی گئی کہ کیا اس قسم کے تربیتی کیمپ سازش کے وسیع تر حصے کے طور پر ملک کے دوسرے مقامات پر بھی منعقد کیے گئے۔
6۔ اے ٹی ایس کی طرح سی بی آئی نے بھی جان بوجھ کر، سابق فوجی افسر، متھن چکرورتی اور اس سابق آئی بی افسر کے بارے میں جانچ پڑتال سے گریز کیا جس نے بجرنگ دل کے کارکنوں کو آتشیں اسلحہ اور دھماکو خیز مادوں اور آلات کے استعمال کی تربیت دی تھی۔
7۔ سی بی آئی نے راکش دھواڈے کو بھی گرفتار کرنے سے اجتناب کیا، جس نے آکنکشا ریزارٹ میں تربیتی کیمپ کے لیے سہولیات فراہم کی تھیں۔ اس کو بعد میں ہیمنت کرکرے کی سربراہی میں اے ٹی ایس نے مالیگاوں بم دھماکوں کے معاملہ میں 2008ء میں گرفتار کیا۔ سی بی آئی نے غالباً اس کو اس اندیشہ سے گرفتار نہیں کیا تھا کہ وہ ’’متھن چکرورتی‘‘ کا راز فاش کردے گا۔ مزید برآں اے ٹی ایس کے گرفتار کرلینے کے بعد جب اس نے جالنہ پولیس کو بتایا کہ پونا کے دو پروفیسروں ڈاکٹر شرد کنٹے اور پروفیسر دیو نے بھی دہشت گرد تربیتی کیمپ میں شرکت کی تھی، لیکن اس سراغ کے باوجود سی بی آئی نے ان دونوں کے بارے میں مزید کوئی تفتیش و تحقیق نہیں کی۔ اس سلسلہ میں کرشنا کمار ۔۔۔ (3 جنوری2009ء) میں لکھتے ہیں : ’’ناندیڑ دھماکہ کی جانچ پڑتال میں سی بی آئی کی سستی اور ڈھیلا پن بے نقاب ہورہا ہے۔ مالیگاوں دھماکہ کے ملزم راکیش دھواڈے کے حالیہ انکشاف کے باوجود سی بی آئی نے پونا میں کیمسٹری کے دو اساتذہ کے بارے میں تفتیش نہیں کی۔ دھواڈے نے جالنہ پولیس کو بتایا تھا کہ پونا کالج کے دو اساتذہ (کنٹے اور دیو) نے کس طرح مشتبہ ہندوتو دہشت گردوں کو بم سازی کی تربیت دی تھی۔ سی بی آئی اس معاملہ میں اقدام سے گریز کرتی رہی‘‘
کوئی بھی شخص بہرحال یہ بات سمجھ جائے گا کہ سی بی آئی کی طرف سے یہ فروگزاشتیں سیاسی دباو کے تحت نہیں تھیں۔ کیونکہ ریاستی اور مرکزی دونوں حکومتوں کی سربراہ کانگریس تھی اور کیونکہ یہ ملزمین خاص اپوزیشن پارٹی بھاجپا کی مادر تنظیم سنگھ پریوار سے تعلق رکھتے تھے اس لیے کانگریس کو ملزموں کی پشت پناہی سے کوئی سیاسی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں تھا۔ واحد منطقی نتیجہ یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سی بی آئی ٹیم نے جس کا انتخاب آئی بی کی پسند پر کیا گیا تھا، آئی بی اور اس کے برہمنی آقاوں کی ہدایت پر عمل کیا۔
بہرحال ایک افسر ایسا بھی تھا جو آئی بی کے چشم و ابرو کے اشارے پر نہیں چلا اور اس کی چالوں میں نہیں آیا۔ وہ تھا اے ٹی ایس کا سربراہ ہیمنت کرکرے جو جنوری 2008ء میں رگھو ونشی کی جگہ اس منصب پر فائز ہوا تھا اور جو مالیگاوں بم دھماکہ کی تفتیش کرتا رہا تھا۔ کرکرے کو شک تھا کہ ناندیڑ دھماکہ معاملہ 2006کی جانچ پڑتال میں بہت سی خامیاں ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ سی بی آئی نے بہت سے سراغوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا مثلاً ملزمین کے اقبالیہ بیانات، ان کے گھروں سے خاص طرز کی گول ٹوپیوں، شیراوانیوں اور مصنوعی داڑھی مونچھوں وغیرہ کی برآمدگی اور نریش راج کونڈو وار اور ہیمانشو پانسے کے موبائل فونوں سے کی گئی کالوں کی جانچ پرتال وغیرہ۔ چنانچہ انہوں نے 25نومبر 2008کو اپنی ایک ٹیم سی بی آئی صدر دفتر دلی بھیجی تاکہ ناندیڑ بم دھماکہ معاملہ سے متعلق جمع شدہ ریکارڈ کی چھان بین کی جائے۔ وہ ’’متھن چکرورتی‘‘ کی پراسرار شخصیت اور آئی بی کے اس سابق سینئر افسر کا سراغ لگانے کے لیے پرعزم تھے جنہوں نے دہشت گرد گروپ کو تربیت دینے کے لیے کیمپوں میں شرکت کی تھی لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنا کام پورا کر پاتے بد قسمتی سے انہیں 26/11 کے ممبئی دہشت گرد حملے کے دوران قتل کر دیا گیا۔
***

 

***

 نوٹ:
سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس ایم مشرف کی تصنیف کردہ کتاب’’کرکرے کے قاتل کون؟‘‘ کے اقتباسات قارئین دعوت کے مطالعہ کے لیے پیش ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  9 اکتوبر تا 15 اکتوبر 2022