نئے زرعی قوانین: دہلی کی سرحد پر کسانوں کا احتجاج دسویں دن میں داخل، مرکز اور کسانوں کے درمیان مذاکرات کا پانچواں دور آج
نئی دہلی، دسمبر 5: زراعت سے متعلق نئے قوانین کے خلاف دہلی کی سرحد پر جاری کسانوں کا احتجاج ہفتہ کے روز دسویں دن میں داخل ہوگیا۔
اب تک مرکز اور کسانوں کے مابین ہونے والی بات چیت غیر نتیجہ خیز رہی۔ بات چیت کا پانچواں دور آج ہوگا۔
Delhi: Fifth round of talks between the central government and farmers to be held today; visuals of protesting farmers stationed at Singhu border (Delhi-Haryana border). pic.twitter.com/2RZQbYn01L
— ANI (@ANI) December 5, 2020
کسانوں نے 8 دسمبر کو بھارت بند کا مطالبہ کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ وہ ٹول پلازوں کو بند کردیں گے۔
بھارتیہ کسان یونین کے جنرل سکریٹری ہریندر سنگھ لکھوال نے کہا کہ کسان مرکزی حکومت اور کارپوریٹ ہاؤسز کے خلاف احتجاج کریں گے اور آج ان کے مجسمہ کو نذر آتش کریں گے۔
انھوں نے مزید کہا کہ 7 دسمبر کو متعدد کھلاڑی بھی کسانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے اپنے تمغے حکومت کو واپس کریں گے۔
جمعرات کو ہونے والے مذاکرات کے اختتام پر ایک کسان رہنما نے امید ظاہر کی تھی کہ اگلی میٹنگ میں اس معاملے کو ’’حتمی شکل دی جائے گی‘‘۔
وہیں حکومت نے کہا ہے کہ اس میں ’’کوئی انا‘‘ نہیں ہے اور وہ ’’کھلے ذہن کے ساتھ معاملہ نمٹا رہی ہے۔‘‘
ہندوستان ٹائمز کے مطابق وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے نئے قوانین کا جائزہ لینے اور کسانوں کے مطالبات کو حل کرنے میں ضرورت پڑنے پر ’’ترمیم کرنے‘‘ پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم کسان تینوں متنازعہ قوانین کی مکمل واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ گذشتہ دس دنوں سے کسان لگاتار دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ سڑک کی ناکہ بندی کے پیش نظر سپریم کورٹ میں ایک پی آئی ایل بھی دائر کی گئی ہے جس میں مظاہرین کسانوں کو سرحدی علاقوں سے ہٹانے کے لیے کہا گیا ہے۔
متنازعہ قوانین پر کسانوں اور تاجروں نے الزام لگایا ہے کہ حکومت اصلاحات کے نام پر ایم ایس پی کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ انھیں خوف ہے کہ یہ قوانین انھیںٰ کارپوریٹ طاقتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے۔ جب کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ نئے زرعی قوانین سے کسانوں کو بہتر مواقع میسر آئیں گے اور زراعت میں نئی ٹیکنالوجیز کا آغاز ہوگا۔