’نئی منزل‘ اسکیم کے لیے سمت سفر کا تعین ضروری

کیا اس اسکیم سے فائدہ اٹھا پاتے ہیں مدارس کے تین کروڑ طلبہ؟۔غیر سرکاری تنظیموں پر بھی لگ رہا ہے مالی خرد برد کا الزام

افروز عالم ساحل

 

ورلڈ بینک کی مالی مدد سے شروع ہوئی تھی مودی حکومت کی ’نئی منزل‘ اسکیم، جو اپنے طے شدہ وقت کے پورا ہونے کے باوجود ابھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ پائی ہے۔ اس اسکیم کے منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دینے کی کہانی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ حکومت ملک کی اقلیتوں سے کس قدر ہمدردی رکھتی ہے اور سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ میں اقلیتیں بالخصوص مسلمان کہاں کھڑے ہیں۔ وزارت اقلیتی امور سے حق اطلاعات ایکٹ (آر ٹی آئی) کے تحت ملے اہم دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ روایتی اسکولی تعلیم ترک کرنے والے طلبا کو ہنرمند بنانے لیے شروع کی گئی اسکیم ’نئی منزل‘ اپنے مقرر ہدف کو پورا نہیں کر سکی ہے۔ اس اسکیم کے بجٹ میں اضافہ ضروری تھا لیکن اس کا بجٹ ہر سال کم ہی کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ اس اسکیم کے تحت اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے 650 کروڑ روپے اگلے 5 سالوں کے لیے منظور کیے گئے ہیں۔ لیکن گزشتہ پانچ سالوں یعنی 31 دسمبر 2020 تک صرف 371 کروڑ 76 لاکھ روپے ہی خرچ کیے جا سکے ہیں۔ جب کہ ورلڈ بینک کی ایگریمنٹ کے مطابق اس اسکیم کو 30 جون 2021 کو ختم ہو جانا چاہیے۔
آر ٹی آئی کے دستاویزات کے مطابق مالی سال 2020-21 میں ’نئی منزل‘ اسکیم کے لیے 120کروڑ روپے کا بجٹ طے کرنے کے باوجود صرف 60 کروڑ روپے ہی منظور کیے گئے اور 31 دسمبر 2020 تک محض 31 کروڑ 89 لاکھ روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔ سال 2019-20میں اس اسکیم کے لیے 140 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا لیکن 100 کروڑ روپے ہی جاری کیے گئے اور اس رقم میں صرف34کروڑ 44 لاکھ روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔ اس سے قبل سال2018-19میں اس اسکیم کے لیے 140 کروڑ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا 120 کروڑ روپے جاری کیے گئے اور اس رقم میں سے93 کروڑ 73 لاکھ روپے ہی خرچ کیے گئے۔ سال 2017-18میں تو اس اسکیم کے لیے سب سے زیادہ 175کروڑ 95 لاکھ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا لیکن 95 کروڑ 39 لاکھ روپے ہی جاری کیے گئے اور اس سال بھی کروڑ 73 لاکھ روپے ہی خرچ کیے جا سکے۔ 2021-22 کے لیے اس اسکیم کا بجٹ گزشتہ سال کے مقابلے گھٹا کر صرف 87 کروڑ روپے رکھا گیا ہے۔ روایتی اسکولی تعلیم اسکول چھوڑ دینے والے طلبا کو ہنر مند بنانے کے لیے یہ اسکیم ’نئی منزل‘ 8 اگست 2015 کو پٹنہ میں لانچ کی گئی تھی۔ اس اسکیم کا مقصد ایسے اقلیتی نوجوانوں کو فائدہ پہونچانا ہے جن کے پاس اسکول چھوڑنے کا سرٹیفیکٹ نہیں ہوتا یا ایسے طلبہ جو کمیونٹی تعلیمی اداروں مثلاً مدرسوں سے تعلیم حاصل کرنے والوں کے زمرہ میں ہیں، ان کو روایتی تعلیم اور ہنر سے آراستہ کرنا اور منظم شعبہ میں بہتر روزگار حاصل کرنے کے قابل بنانا ہے تاکہ وہ مرکزی دھارا کی مالی سرگرمیوں کے ساتھ جڑ سکیں اور بہترین زندگی گزار سکیں۔ اس اسکیم کے تحت 30 فیصد سیٹیں خواتین اور 5 فیصد سیٹیں اقلیتی طبقے سے متعلق جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے مختص ہیں۔ مختلف طبقات کی یکجہتی کو پرجوش کرنے کے لیے غیر اقلیتی طبقات کے بی پی ایل خاندانوں سے وابستہ 15 فیصد امیدواروں پر بھی غور کیا جائے‌ گا۔ اگر اس اسکیم کے تحت اس حد تک مقررہ محفوظ زمرے خالی رہتے ہیں تو ان خالی سیٹوں کو غیر محفوظ سمجھا جائے‌ گا۔ اس اسکیم کے تحت دسویں پاس کرنے والے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ہر ماہ ایک ہزار روپے اور اسکیل ڈیولپمنٹ اسکیم کے تحت ہر ماہ پندرہ سو روپے دیے جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر ایک درخواست گزار کو دسویں جماعت مکمل کرنے اور اسکل پلاننگ کورس کرنے کے لیے دس ہزار ہانچ سو روپے کی مالی مدد دی جاتی ہے۔
وزارت اقلیتی امور کا وعدہ تھا کہ اس اسکیم کے ذریعے مدارس سے فارغ التحصیل طلباء کو برج کورس کی سہولت فراہم کرائی جائے گی تاکہ دنیاوی اور پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ خود کو تیار کر سکیں اور جو بچے کاروبار کرنا چاہتے ہیں وزارت اقلیتی امور انہیں اسکل ڈیولپمنٹ کی تربیت دے کر روزگار کے لیے قرض بھی فراہم کرائے گی۔ اس طرح سے اس اسکیم کا مقصد کم از کم 70 فیصد نوجوانوں کو ملازمت فراہم کرنا ہے جو اس اسکیم کی مدد سے تربیت یافتہ ہوئے ہیں، تاکہ انہیں کم سے کم وہ اجرت مل سکے جو ان کو مناسب زندگی گزارنے کے قابل بنائے۔ اس کے ساتھ ہی ان کے لیے معاشرتی تحفظ کی اسکیم ’ایمپلائز اسٹیٹ انشورنس (ای ایس آئی) اور پی ایف وغیرہ کے فوائد فراہم کرانا بھی اس اسکیم کے مقاصد میں شامل ہے۔ زیر تربیت امیدوار کی عمر 17 سے 35 سال کے درمیان ہونی چاہیے۔ دیہاتی اور شہری دونوں علاقوں میں خط غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے والے نوجوان اس اسکیم کے تحت تربیت حاصل کرنے کے اہل ہیں۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملک بھر میں تقریباً تین لاکھ چھوٹے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 23 مئی تا 29 مئی 2021