میر واعظ عمر کو نظر بندی سے رہا کرنے کے مطالبے نے پکڑا زور

سرینگر، فروری 3:دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد پہلی بار اعتدال پسند حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظ عمر فاروق کو جامع مسجد میں مذہبی فرائض ادا کرنے کی اجازت دینے کے لیے ان کی نظربندی سے رہائی کے لیے زور و شور بڑھ رہا ہے۔

جامع مسجد مولانا احمد سید نقشبندی کے امام نے میر واعظ کی مسلسل نظربندی پر تشویش کا اظہار کیا۔

انھوں نے کہا ”میر واعظ کشمیر کے مسلمانوں کا مذہبی سربراہ ہے۔ ان کو میرواعظ کی حیثیت سے اپنے مذہبی فرائض کی انجام دہی سے روکنا اور جمعہ کی نماز ادا کرنے سے روکنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔”

میر واعظ کو 5 اگست کو اس وقت نظربند کردیا گیا جب مرکز نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور ریاست کو دو مرکزی علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا۔

در حقیقت کشمیر کی پوری سیاسی قیادت کو 5 اگست کو جیل بھیج دیا گیا۔ بغیر کسی الزام کے جیل میں بند ہونے والوں میں تین سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی، عمر عبد اللہ اور فاروق عبد اللہ بھی شامل ہیں۔ حکومت کا موقف ہے کہ کشمیری رہنماؤں پر پابندیوں کی ضرورت تھی تاکہ وہ لوگوں کو مشتعل نہ کرسکیں، جس سے خطے میں امن و امان کو خراب کیا جاسکتا ہے۔

جامع مسجد کے امام نے کہا "کشمیری عوام کے بنیادی انسانی اور مذہبی حقوق پر پابندی عائد ہے۔ حکام کو فوری طور پر میر واعظ کو رہا کرنا چاہیے اور انہیں جامع مسجد میں جماعت کی رہنمائی کرنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔” امام نے کہا کہ حکام کو ان تمام قیدیوں کو بھی رہا کرنا چاہیے جو ہندوستان میں مختلف جیلوں میں بند ہیں۔

واضح رہے کہ 5 اگست کے بعد سے جامع مسجد مسلسل 19 ہفتوں تک بند رہی۔ اس دوران نہ تو مسجد میں اذان دی گئی اور نہ نماز کا اہتمام ہو سکا۔

ادھر جموں و کشمیر حکومت نے نیشنل کانفرنس کے چار مزید رہنماؤں کو نظربندی سے رہا کیا ہے۔ ابوالمجید لارمی، غلام نبی بھٹ، محمد شفیع اور محمد یوسف بھٹ کو ایم ایل اے ہاسٹل سے رہا کیا گیا۔ ان کی رہائی کے باوجود ابھی بھی مختلف سیاسی جماعتوں کے 17 رہنماؤں جن میں پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد لون اور 2010 کے آئی اے ایس ٹاپر اور جموں و کشمیر پیپلز موومنٹ کے صدر شاہ فیصل کو بھی ایم ایل اے ہاسٹل میں نظربند رکھا گیا ہے۔