پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
جاریہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ملکی تاریخ کی بدترین تنزلی تقریباً 24 فیصد درج کی گئی مگر دوسری سہ ماہی جولائی تا ستمبر کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کی گروتھ میں 7.5 فیصد کی گراوٹ نے تمام ریٹنگ کے اندازوں کو غلط ثابت کر دیا۔ کیونکہ ملکی اور غیر ملکی ریٹنگ ایجنسیوں نے 8 سے لے کر 11 فیصد کی تنزلی کا اندازہ لگایا تھا۔ نومبر کے آخری ہفتہ میں آر بی آئی نے پہلی بار معاشی سُستی کی ٹیکنیکل تعریف کی اور بتایا کہ جب معیشت میں کسی مالی سال کی لگاتار دو سہ ماہیوں تک گراوٹ ہو تو اسے سُستی کہا جاتا ہے۔ دراصل مارچ کے اخیر میں مرکزی حکومت کی طرف سے بغیر منصوبہ کے کورونا قہر کو قابو میں کرنے کے لیے لاک ڈاون کا سخت نفاذ کیا گیا جس سے ہماری معیشت بالکل ہی تھم گئی۔ 16 سے 20 لاکھ کروڑ روپوں کا نقصان ہوا۔ آمدنی میں اس نقصان کی وجہ ہے صنعت، مہمان نوازی، سفرو سیاحت اور خردہ دکان کا لمبے عرصے تک بند رہنا۔ طلب میں بڑی کمی کی وجہ سے دیگر شعبوں میں پیداوار اور روزگار میں کٹوتی کرنی پڑی۔ سب سے زیادہ مار غیر منظم نجی شعبوں پر پڑی جس میں چھوٹے اور متوسط کاروبار بھی شامل ہیں۔ ان شعبوں کے خسارہ کا اندازہ بعد میں ہی ہو سکے گا کیونکہ اعداد و شمار بڑی اور منظم شعبوں کی کمپنیوں کی طرح کے کارپوریٹ معاملات متعلقہ وزارت میں خود بخود جمع نہیں ہوتے ہیں۔ سابق اسٹیٹسٹ پرنب سین نے واضح کیا ہے کہ چھوٹے اور درمیانی صنعتی بھی بری طرح متاثر ہو سکتی ہیں جس سے تیسری اور چوتھی سہ ماہیوں میں جی ڈی پی کا خسارہ ہو سکتا ہے۔ اس بارے میں بعد میں پتہ چلے گا کیونکہ ملک کی صنعتی پیداوار میں اس شعبہ کا 45 فیصد حصہ شامل ہے۔ حکومت نے چھوٹے اور متوسط صنعتوں کے لیے جو قرض گارنٹی کی راحت دی گئی اسے مکمل طور سے چھوٹے صنعت کار اور کاروباریوں نے منظور نہیں کیا کیونکہ چھوٹے کاروباری دیوالیہ ہونے کے خوف سے زیادہ قرض لینے سے کترا رہے ہیں۔ پہلے دیے نقد قرض بھی ڈوبنے کے قریب ہیں اور اس سے بینکوں پر غیر پیداواری اثاثہ (این پی اے) کا بوجھ بڑھ رہا ہے اس کے علاوہ خاص شعبے پٹرولیم، انجینئرنگ، کیمیکلس، جیمس اینڈ جیولری کے برآمدات میں بھی گراوٹ درج کی گئی جبکہ جاریہ مالی سال کے پہلے 8 ماہ میں تجارتی خسارہ 42 ارب ڈالر کا رہا ہے۔ ایک سال قبل اسی مدت میں 11.34 ارب ڈالر تھا۔ صرف نومبر میں ملک کا تجارتی خسارہ 9.87 ارب ڈالر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ملکی برآمدات بھی 8.74 فیصد گھٹ کر 23.52 ارب ڈالر رہ گئی ہے کیونکہ مذکورہ اشیا کے برآمدت میں تنزلی آئی ہے۔
قومی آمدنی کے نقصان کے علاوہ روزگار میں بھی کمی کی پریشانیاں منہ کھولے کھڑی ہیں۔ ملک کے ورک فورس کا ۹۰ فیصد حصہ غیر منظم سیکٹرس سے منسلک ہے اور یہ محنت کش، صحت انشورنس، پنشن و دیگر فوائد سے بھی محروم رہ کر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے صحیح حالات کا اندازہ لگانا بہت ہی مشکل ہے۔ اس کا ایک ذریعہ سی ایم آئی ای کے دفتر سے جاری ہونے والا ہفتہ سروے ہے۔ اپریل میں جب لاک ڈاون کا اثر بہت ہی سخت اور تکلیف دہ تھا تو 2.20 کروڑ افراد بے روزگار ہو گئے تھے۔ لاکھوں مزدور کسمپرسی کے عالم میں شہروں کو چھوڑ کر اپنے آبائی وطن لوٹنے پر بھی مجبور ہوئے۔ تشویش کی بات یہ بھی ہے کہ بہت سے محنت کش خصوصاً عورتیں مزدور ورک فورس سے باہر ہوگئی ہیں مگر ہمیں محنت کشوں کی حصہ داری میں مرد و خواتین دونوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ مرد تو یہاں وہاں جاکر کام کر لیتے ہیں لیکن عورتوں کی اکثریت روزگار سے فارغ کر دی گئی ہے۔ اس سے خاندانوں کی آمدنی کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ منظم شعبہ کے محنت کشوں سے متعلق مستقبل کی منصوبہ بندی دفتر کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس شعبہ میں روزگار میں کمی آ رہی ہے۔ سی ایم آئی ای نے بتایا تھا کہ منظم شعبہ میں جولائی تک تقریباً ۲ کروڑ ملازمتیں چلی گئی تھیں۔ گزِشتہ سہ ماہی میں ان میں سے کچھ کو پھر سے روزگار ملا ہوگا۔ آکسفورڈ اکانومک ریسرچ آرگنائزیشن کے مطابق ملک کی ممکنہ شرح ترقی گر کر 4.5 فیصد ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل قریب میں مالی خسارہ بڑھنے کے اشارے آ رہے ہیں۔ ابھی مالی خسارہ کی شرح 7 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ امکان ہے کہ یہ زیادہ ہی بنی رہے گی۔ اناج اور سبزیوں کی قیمت فصل کٹنے کے بعد گر سکتی ہے مگر دھات، سمنٹ، تیل اور کیمیکلز کے ساتھ مختلف اشیا کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ واضح رہے کہ ۲تا ٤ دسمبر کے درمیان آر بی آئی کی مانیٹری پالیسی کی میٹنگ ہوئی تھی اس میں آر بی آئی نے اصولی شرحوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ مگر یہ واضح کیا ہے کہ مہنگائی کی شرح ابھی بھی اونچائی پر بنی رہے گی۔ حالانکہ سسٹم میں اتنی رقیقیت ہے کہ اس سے کوئی پریشان نہیں ہوگی۔ بھارتی معیشت امسال تاریخی تنزلی کے دور سے گزر رہی ہے۔ آر بی آئی کا کہنا ہے کہ اس پورے مالی سال میں معیشت میں تنزلی کا شکار رہ سکتی ہے۔ حکومت دو طرح کی مہنگائی کی شرح جاری کرتی ہے۔ خردہ اور ٹھوک مہنگائی کی شرح۔
خردہ مہنگائی کی شرح خردہ اشیا کی بنیادوں پر طے کی جاتی ہے۔ خردہ کا مطلب ہے روز مرہ کی زندگی میں کام آنے والی اشیا۔ مثلاً دال، سبزی، انڈے، مچھلی، گوشت، مصالحے، پان، تمباکو وغیرہ۔ حکومت اپنا منصوبہ بناتے وقت اور آ ربی آئی مالی ضابطہ طے کرتے وقت خردہ مہنگائی کی شرح کو ہی اہمیت دیتی ہے۔ خردہ مہنگائی شرح بڑھنے کا راست مطلب ہے کہ مہگنائی کی مار عام آدمی پر ہی ہوتی ہے۔ دوسری طرف مالی منصوبہ کے آر بی آئی کے حالیہ اعلان کے مطابق موجودہ شرح سود نچلی سطح پر بنی ہوئی ہے جو فی الوقت 4 فیصد ہے۔ مگر آر بی آئی بھی مالی خسارہ کے دباؤ کے بڑھنے پر کافی تشویش میں ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ معاشی ترقی کو تحریک دینے کے لیے آر بی آئی اپنے معاون ضابطوں کو حسب ضرورت جاری رکھے گا۔ اس لیے بھی نقد فراہمی اونچی سطح پر رہے گی اور قرض سستا رہے گا لیکن وہ مالی خسارے کے معاملے میں بہت ہی محتاط ہے۔ مزید کہنا ہے کہ جی ڈی پی میں بہتری کے اشارے مل رہے ہیں مگر مالی خسارہ سرمایہ کی فراہمی کو کم کرنے کا تقاضہ کرتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آر بی آئی گومگو میں ہے۔ بہت زیادہ نقد شیئر بازار میں اچھال پیدا کر رہی ہے۔ اس کے ذریعے بڑی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں نے جولائی تا ستمبر کی سہ ماہی میں اچھا خاصہ منافع بھی کمایا ہے۔
ایک ہی وقت میں مہنگائی اور سستی خال خال نظر آتی ہے۔ جب طلب نیچے ہے تو فطری طور سے قیمتیں پستی میں جاتی ہیں۔ پیداوار جب زیادہ صلاحیت سے بازار میں آتی ہے تو کارخانہ دار اپنے مال میں کچھ چھوٹ بھی دیتا ہے جب طلب کم ہوتی ہے تو فطری طور سے قیمتیں بھی پستی میں جاتی ہیں لیکن طلب اور سپلائی میں رکاوٹ آ جاتی ہے جیسا کہ لاک ڈاون ہوا تو ممکنہ شرح ترقی گر جاتی ہے تو اسے حالات میں سُستی اور مہنگائی بالواسطہ مالی خسارے کی مشکلیں ایک ساتھ آ جاتی ہیں۔ اس سے نکلنے کے لیے راحتی پیکیج کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ خریداروں کے خرچ میں اضافہ ہو۔ معیشت کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے لیے سرمایہ چاہیے۔ مہنگائی اور مالی خسارہ کی تقسیم بہت احتیاط اور ہوشیاری سے ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ حکومت کو آمدنی کی عادلانہ تقسیم پر بھی توجہ مرکوز کرنا ہوگا تاکہ نا برابری کو کم کیا جا سکے۔ حالات کا تقاضہ ہے کہ فضول خرچی کو روکا جائے۔ ملک کی 11 ریاستوں میں ہنگر واچ کے سروے کے مطابق 55 فیصد گھروں کے حاشیہ پر بڑے طبقوں کی آمدنی نہیں کے برابر رہی۔ لاک ڈاون کے بعد کھانے کے لیے کافی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 3 ہفتوں سے جاری دلی سرحد پر کسانوں کا احتجاج حکومت کے اڑیل رویے کی وجہ سے طول پکڑتا جا رہا ہے۔ روزانہ کروڑہا روپوں کا خسارہ ہو رہا ہے۔ اگر حکومت نے اس ظالمانہ قانون کو واپس نہیں لیا تو معیشت کو پٹری پر لانے کی کوششوں کو شدید جھٹکا لگ سکتا ہے۔
3 ہفتوں سے جاری دلی سرحد پر کسانوں کا احتجاج حکومت کے اڑیل رویے کی وجہ سے طول پکڑتا جا رہا ہے۔ روزانہ کروڑہا روپوں کا خسارہ ہو رہا ہے۔ اگر حکومت نے اس ظالمانہ قانون کو واپس نہیں لیا تو معیشت کو پٹری پر لانے کی کوششوں کو شدید جھٹکا لگ سکتا ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 دسمبر تا 2 جنوری 2020-21