مولانا یوسف اصلاحی: ایک داعی، مربی، اور رہنما
ہر دلعزیز شخصیت جس نے علم وعمل کی شمع روشن رکھی
ایچ عبدالرقیب، چنئی
تحریک اسلامی سے پچاس سال سے زیادہ وابستگی کے دوران الحمدللہ جماعت کے تمام بڑے رہنماوں سے میں نے تفصیلی ملاقاتیں کی ہیں ان سے بہت کچھ سیکھا ہے اور استفادہ بھی کیا ہے لیکن پانچ ایسی شخصیات ہیں جن سے میرے تعلقات بہت قریبی تھے اور ان سے بے تکلف گفتگو اور تبادلہ خیال کا موقع بھی ملتا رہا ان میں نمایاں طور پر مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ ، مولانا سید حامد حسین صاحب، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر عبدالحق انصاری مرحوم اور مولانا یوسف اصلاحی مرحوم کے نام شامل ہیں۔ اب ان میں صرف نجات اللہ صدیقی بقید حیات ہیں اور فی الوقت کیلیفورنیا امریکہ میں مقیم ہیں اور علیل ہیںاور زیرعلاج بھی۔
مولانا یوسف اصلاحی مرحوم سے میرے قریبی تعلقات تھے ،کئی امور و مسائل پر بے لاگ گفتگو ہوتی تھی انہوں نے کئی بار دعوت بھی دی کہ میں رامپور آکر جامعۃ الصالحات کو دیکھوں اور اس کے کام اور کاز پر معلومات حاصل کروں لیکن بدقسمتی سے اس کا موقع نہیں ملا۔ گزشتہ سال نمائندگان اور مرکزی شوریٰ کی نشستوں میں میری سرسری ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے بتایا کہ ان کے فرزند ڈاکٹر سلمان اسعد، دہلی وقف بورڈ کے قانونی مشیر ہوگئے ہیں۔ میں نے وعدہ کیا کہ ڈاکٹر سلمان سے ملاقات کرکے انہیں اپنے نئے تقرر پر مبارکباد دوں گا اور دوسرے ان کی سرگرمیوں سے واقفیت حاصل کروں گا لیکن کووڈ کے بعد میری نقاہت اور مرکز کی مسجد میں گرنے کے بعد چلنے میں تکلیف کی وجہ سے فوراً وطن واپس ہونا پڑا جس کی وجہ سے نہ مولانا سے ہر بار کی طرح تفصیلی گفتگو ہوئی اور نہ ڈاکٹر سلمان سے ملاقات کا موقع مل سکا۔ مولانا یوسف اصلاحی نوجوانی ہی میں جماعت کے رکن ہوگئے ۔ آپ شہر رامپور کی جماعت کے بھی امیر مقامی رہے جب کہ وہاں مولانا ابو سلیم عبدالحی صاحب اور مولانا عروج قادری صاحب بھی رکن کی حیثیت سے شامل تھے۔ اس کے بعد متعدد بار حلقہ اترپردیش کے مجلس شوریٰ کے رکن اور مرکز کے مجلس نمائندگان کے اور مرکزی مجلس شوریٰ بھی منتخب ہوتے رہے اور تادم حیات ان مجلسوں میں اپنا فعال کردار کرتے رہے۔ مولانا محترم کی غیر متنازعہ شخصیت اور ہر دل عزیزی کی وجہ سے کئی بار مجلس نمائندگان میں امیر جماعت کے انتخاب کے مجالس کی صدارت فرمائی اور اسے اپنی خدا داد صلاحیت اور صالحیت کی وجہ سے اسے کامیابی کے ساتھ چلایا۔ مولانا محترم اپنے گھر والوں سے بھی شدید محبت کرتے تھے۔ معلوم ہوا کہ روزانہ صبح اپنے بیٹیوں اور بیٹوں سے فون سے رابطہ قائم کرکے ان کی خیر خیریت دریافت کرتے اور اہم باتوں کی طرف متوجہ کراتے۔
غذا بغیر روغن اور تیل مسالوں کے سادہ استعمال کرتے اور وہ بھی مختصر مقدار میں ۔ ایک مرتبہ چنئی میرے گھر تشریف لائے تو مرغن سالنوں سے پرہیز کیا اور معمولی کھانوں پر اکتفا کیا۔لباس بھی سادہ لیکن نفیس انداز کا ہوتا تھا جو ان کی شخصیت کو دلآویز بنادیتا تھا۔ ٹوپی بھی عمدہ فرکیپہنتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ اصلی فر کی ہے۔ مجھے سب سے زیادہ ان کے بہترین سلے ہوئے waistcoatسے دلچسپی تھی۔ تراش خراش اتنی عمدہ کہدیکھنے والا دیکھتا رہ جائے۔ میں نے ایک بار مولانا سے کہا مجھے یہ بہت اچھی لگتی ہے حالانکہ اب تک میں نےکبھی اس کا استعمال نہیں کیا تھا۔ مولانا نے کہا اگر پسند ہوتو میں اتار دیتا ہوں ورنہ رام پور آنا ایک عمدہ صدری تمہارے لیے بھی سلوادیتا ہوں۔
امتیازی خصوصیات
مولانا محترم ایک اچھے قاری تھے اور ان کا قرآن پڑھنے کا ایک منفرد انداز تھا۔ مرکز جماعت کی مسجد میں مغرب اور عشا کی نماز بارہا ان کی امامت میں نماز ادا کرنے کا موقع ملا۔ قرآن کی مخصوص سورتوں اور آیات کا انتخاب کرتے مثلاً سورہ ق ، سورہ المدثر وغیرہ جنت اور دوزخ کا تذکرہ جیسے ہم اپنی آنکھوں سے یہ منظر اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ نماز پڑھنے والا، ان مناظر میں کھوجاتا اور اپنے آپ کو وہاں موجود پاتا۔
مولانا اعلیٰ درجے کے مقرر اورخطیب بھی تھے لیکن اپنی تقریر میں مشکل الفاظ استعمال نہیں کرتے بلکہ الفاظ سہل، لہجہ شیریں، انداز مشفقانہ اور مربیانہ ۔ اپنے ہاتھوں کا استعمال بھی مخصوص انداز میں کرتے جس سے خطاب میں زور بیاں بھی آجاتا۔
مولانا نے 1980میں پہلی مرتبہ امریکا کا سفر کیا۔ تقریباً چالیس سال سے دنیا کے مختلف ملکوں کا دورہ کرتے رہے۔ امریکہ ، آسٹریلیا ، جاپان کے دوروں میں وہاں کے مسلمانوں میں ان ممالک میں رہتے ہوئے اپنے اسلامی شعار کی حفاظت کی تلقین کرتے ہوئے آئندہ آنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام خاص طور پر خواتین کے رول پر موثر اور مفید لیکن سادہ اور شیرین انداز میں اپنا پیغام پہنچایا۔ مولانا کے انتقال کے بعد دنیا کے مختلف ملکوں میں جو تعزیتی اجلاس ہوئے اور جس والہانہ انداز میں ان کا ذکر کیا گیاہے وہ ان کے لیے توشہ آخرت ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ تحریک اسلامی ہند کے کسی ذمہ دار کو بیرون ملک اتنی پذیرائی جو مولانا کو ہوئی وہ کسی اور کو نصیب ہوئی ہو۔ مولانا نے نہ صرف تحریک اسلامی کا تعارف کرایا بلکہ اسلام کا حیات بخش پیغام مغرب میں مقیم لاکھوں مسلم مرد وںاور عورتوں کو پہنچایا اور ان کی دعوتی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی۔ ذکریٰ کے فائلوں میں ان کے اسفار پر مضامین اس کے شاہد ہیں۔
جامعۃ الصالحات
جامعۃ الصالحات میں اپنی تعلیم و تربیت کے بارے میں فاطمہ، زہرا صالحاتی لکھتی ہیں: جب وہ اپنی بہنوں کے ساتھ جامعہ میں داخل ہوئیں تو عمارت اور بورڈنگ کے اصول میں تبدیلیاں دیکھ کر میں حیران ہوگئیں۔ ہر سال چچا میاں (مولانا یوسف اصلاحی) نے ہماری فاضلہ دوم کی الوداعی پارٹی میں بنفس نفیس شرکت کی۔ ہم تمام طالبات کے روبرو قرآن کا درس دیا اور گراں بہا نصیحت و ہدایت فرمائی کہ آپ کا نمبروں والا امتحان ختم ہوگیا اب کل سے اصل امتحان کا آغاز ہونے والا ہے۔ اس میدان عمل میں آپ کو کامیاب ظفر یاب ہونا ہے‘‘
جامعہ سے فراغت کے کئی سال بعد اپنی ملاقات کے دوران مولانا محترم نے ان سے جو گفتگو کی ہے وہ بہت سبق آموز ہے۔ آپ نے فرمایا۔ قیامت کے دن اللہ کے حضور حساب کتاب کے لیے مجھے پیش کیا جائے گا میں نجات کے لیے جامعہ کی ان بچیوں کو پیش کردوں گا‘‘۔
مزید لکھا: چچا میاں ، قدیم صالح اور جدید نافع کو دوش بدوش رکھنے کے قائل تھے۔ روز اول سے ہی ان کی سعی و جہد رہی کہ طالبات فارغ ہونے کے بعد فی بین الناس اجنبی بن کر نہ رہیں۔ نئی سوچ پیدا کرنے اور نئی راہیں تلاش کرنے کی جستجو و لگن پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کیا کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ کار ڈرائیونگ اور علم طب کے شعبوں کےآغاز کی تادم آخر حتی الامکان کوشش کی۔
(حوالہ: ہادیہ ای میگزین فاطمہ زہرا صالحاتی فروری 2022)
مجھے فاطمہ زہرا صالحاتی کا یہ مضمون پڑھ کر افسوس ہوتا ہے کہ مولانا مرحوم کے دور میں ان کی خواہش کے باوجود جامعۃ الصالحات کا سفر کرنے اور اس کیپیش رفت کو دیکھنے کا موقع نہیں مل سکا۔ اللہ کرے کہ نئے ناظم جامعہ ڈاکٹر سلمان اسعد کے دور میں اسے دیکھنے اور اس سے inspiration حاصل کرنے کا موقع ملے۔
ماہنامہ ذکری اور کتابیں
مولانا محترم نے تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی بڑا کام کیا۔ تفسیر سورہ یٰسین، سورہ صف قرآنی تعلیمات، آسان فقہ ، داعی اعظم، شعور حیات، روشن ستارے وغیرہ۔ لیکن ان کی سب میں مقبول ترین کتاب، آداب زندگی، ہے جس کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے اور کئی ممالک میں اس کو مدارس کے نصاب میں اور سینکڑوں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ ہر روز اس کا ایک چاپٹر اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔
پہلے زمانے میں والدین اپنی بچیوں کو شادی کے بعد رخصتی کے وقت قرآن مجید کے علاوہ بہشتی زیور از حضرت مولانا اشرف علی صاحب مرحوم کا دیا کرتے تھے اب زیادہ تر والدین آداب زندگی کا نسخہ بطورخصوصی تحفہ پیش کرتے ہیں کہ یہ ان کی زندگی کو خوش خرم رکھنے میں مددگار ثابت ہو گا۔
مولانا نے ماہنامہ ذکریٰ جاری کیا جس میں قرآن و حدیث کے درس اور مختلف عنوانات کے تحت سبق آموز مضامین شامل ہوتے تھے۔ اس کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ مولانا محترم اور مدیر دنیا بھر کے جرائد سے اہم مضامین منتخب کر کے اس کو گلدستہ کی شکل دیتے تھے۔ مولانا سید ابوالحسن ندوی کا مرتب کردہ دعاؤںکا مجموعہ’’ دنیائے خیر البشر‘‘ جومکتبہ ذکر یٰ سے شائع ہوا تھا مولانا یوسف اصلاحی نے مجھے تحفے میں دیا تھا۔مجھے بچپن ہی سے قرآنی و نبوی دعائیں جو مختصر اور اپنے معانی و مطلب کے لحاظ سے کارآمد ہوں اس کو حاصل کرنے او راسے اپنی روزانہ کی دعاوں میں شامل کرنے کا شوق تھا۔ دعائے خیر البشر میں ایک چھوٹی سی دعا ہے (صفحہ ۳۱)
اللهمَّ إنِّي أسألُك مِن فَجْأةِ الخيِر وأعوذُ بك مِن فَجْأةِ الشَّرِّ ’(اے اللہ میں تجھ سے غیر متوقع بھلائی مانگتا ہوںاور ناگہانی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں )
کون ہے جو اچانک اور غیر متوقع خیر اور بھلائی کا طالب نہ ہو اور اچانک اور غیر متوقع آفت و برائی سے بچنا نہیں چاہتا جب بھی یہ دعا مانگتا ہوں ۔ مولانا محترم کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے کہ نہ صرف اپنی تصنیفات کو بلکہ دوسروں کی مفید اور موثر کتابوں کی اشاعت کا بھی اہتمام کیا۔
مسلم خواتین کے تعلق سے موقف
islamic center of north america (ICNA) کے انٹرویو میں مسلم خواتین کے بارے میں مولانا سے سوال کیا گیا تو فرمایا ’ دور رسالت میں خواتین کا جو مقام تھا اس کو جاننے کے لیے عبدالحلیم ابو شفعہ کی کتاب تحریر المرا فع فی عہد الرسالہ کو پڑھنا چاہیے جو چھ جلدوں میں شائع ہوئی ہے جس میں عہد رسالت میں خواتین کا کیا مقام تھا ۔ قرآن و حدیث کے حوالوں کے ساتھ اس میں جمع کردیا گیا ہے اور مزید فرمایا کہ خواتین پر کسی طرح کی پابندی نہیں ہے وہ اسلام کا لباس اور اسلام کا پردہ اوڑھ کر اسے اپنا کر سوسائٹی میں جو کرنا ہے چاہیں کریں۔ سوسائٹی میں ان کا زندہ رول اور ان کا ایک اثر ہونا چاہیے۔
یہ اسلام کا مطالبہ ہے۔ البتہ پردہ کسی کلچر کا نہیں ہونا چاہیے بلکہ پردہ قرآن و سنت کا ہونا چاہیے۔ پردہ میں رہ کر خواتین سوسائٹی میں سارے کام کرسکتی ہیں۔2010نومبر میں ارکان جماعت کا اجتماع مرکز کے کیمپس میں ہورہا تھا۔ اسٹیج پر سابق امیر جماعت مولانا جلال الدین عمری اور دیگرکے ساتھ مولانا یوسف اصلاحی صاحب مرحوم بھی براجمان تھے ۔ موجودہ سکریٹری جماعت برائے خواتین عطیہ صدیقہ نے اسٹیج ہی سے تمام شرکا اجتماع کو خطاب کیا۔ موضوع تھا ’عصر حاضر میں خواتین کو درپیش چیلنجز اور تحریک اسلامی‘۔عطیہ صاحبہ نے مدلل اور پرجوش انداز میں تقریر کی اور تمام سامعین اس سے متاثر ہوئے۔ مولانا محترم نے ان کی ستائش کی اور اپنی مطبوعات کا ایک بڑا پیکٹ تحفۃً پیش کیا۔
نوجوانوں کی تربیت
ڈاکٹر احمد اللہ صدیقی مقیم امریکہ کو جب میں نے مولانا کی رحلت کی خبر پہنچائی تو موصوف نے بتایا کہ طلبا و نوجوانوں کی تنظیم جب علی گڑھ میں بنی تھی۔ مولانا ان کی تربیت اور رہنمائی کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے اور جب خصوصی کیمپ جو کبھی ایک ہفتہ عشرہ کے لیے منعقد ہوتے تھے تو مولانا کیمپ میں اپنی تقریر کے علاوہ نوجوانوں میں اپنی موجودگی سے انہیں آئندہ کام کے بارے میں بتاتے تھے۔
مال کی اہمیت
میں نے جب انڈین سنٹر فار اسلامک فائنانس (ICIF) کے قیام کے بعد تکوین ثروت (addition wealth ) بچت (Saving) اور تقسیم دولت (distribution of wealth ) اور مالیاتی آگہی (financial literacy) کو اپنی گفتگو کا موضوع بنایا تو مولانا محترم نے ایک موقع پر فرمایا کہ قرآن میں اللہ کی راہ میں جہاد کی بات ہوئی ہے اس میں بیشتر جگہوں پر انفس اور مال کے ذکر میں اولاً مال کی قربانی کی ہی بات ہوئی ہے۔
تجارت سے دلچسپی
ایک مرتبہ جب وہ تمل ناڈو آئے تو دوران گفتگو یہ بات کہی کہ وہ ماضی میں تمل ناڈو کے مشہور شہر سوا کاسی اپنے کاروبار کے سلسلہ میں آتے رہے۔ اس پر تفصیلی معلومات حاصل نہیں ہوئی۔ ان کی رحلت کے بعد میں نے ان کے فرزند ڈاکٹر سلمان اسعد سے پوچھا تو انہوں نے کہا ۔
مولانا نے اپنے ابتدائی دور میں برگ آبنوس (بیڑی کے پتوں) کی تجارت کی تھی اور کافی نفع بھی کمایا لیکن ان کی اہلیہ محترمہ (سلمان صاحب کی والدہ) کو یہ کاروبار پسند نہیں تھا۔ انہوں نے ایک بار مولانا سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے بچوں کو بھی بیڑی پینے کی اجازت دیں گے تو مولانا نے اپنی اہلیہ کی بات کو تسلیم کیا اور اس نفع بخش کاروبار کو خیرباد کہہ دیا۔ اس کے بعد ان کے خسر کے ماچس کے کاروبار میں شریک ہوئے اور سوا کاسی اس سلسلہ میں آنا جانا ہوتا تھا لیکن وہ بھی انہیں راس نہیں آئی۔ آخر کار کتابوں کی تجارت شروع کی جو آخر وقت تک چلتی رہی۔
جناب ریاض الحق صاحب بنگلورو کہتے ہیں کہ 1972میں مولانا یوسف اصلاحی نے ذکری کا اجرا کیا وہ بڑے سائز کا ہوتا تھا اور اپنی کتابوں کی اشاعت کے لیے اسلامی کتب اشاعتی اسکیم شروع کی اور ہر کتاب کی اشاعت کے لیے اس کی لاگت کا تخمینہ لگاتے اور اس کی سرمایہ کاری میں حصہ داری کی اسکیم چلاتے تھے جو پانچ ہزار سے دس ہزار روپے ہوتی تھی۔ جو احباب اس میں سرمایہ لگاتے انہیں اصل رقم کے علاوہ نفع میں 50فیصد کی حصہ داری بھی دیتے تھے۔ موصوف نے بتایا کہ وہ بھی اس اسکیم میں شریک تھے اور مولانا نے اصل رقم کے ساتھ ہی منافع بھی انہیں دیا تھا۔
ایک یادگار سفر
میں مولانا محترم کے ساتھ چنئی سے ملک کے اولین اور اہم نومسلموں کے تعلیم و تربیت کے ادارہ اسلامک سنٹر ویلور کے سفر میں شریک تھا جس کے دیکھنے کے لیے مولانا محترم اعجاز اسلم صاحب نے مولانا کو کئی مرتبہ دعوت دی تھی۔ یہاں سنٹر کے معائنہ کے بعد اپنے تاثرات مولانا نے تحریر فرمائے ہیں وہ نقل کررہا ہوں۔
میں نے یہاں جو کچھ دیکھا اور سنا وہ میری زندگی کا ایک انقلابی واقعہ ہے۔ ایک انجانے خوش کن مستقبل کا تابناک چہرہ اور انتہائی سرور بخش خوشبو محسوس ہوئی۔ اللہ کا کوئی عظیم منصوبہ ہے جس تک انسان کی نگاہیں نہیں پہنچ سکتیں۔ کنعان کے اندھیرے کنویں سے مصر کا تاریخی تخت جس رب العزت نے پیدا فرمایا کیا عجب کہ اس چھوٹے سے ادارے سے اللہ تعالیٰ تاریک اور پریشان حال ہندوستان کی قسمت بدل دے۔ یہاں کے چھوٹے چھوٹے بچوں نے قرآن کی آیات سنائیں اسلام کی قبولیت کی وجوہ بتائیں۔
خواتین نے بھی قرآنی آیات سنائیں چھوٹی چھوٹی بچیوں نے قرآن پاک کی آیات سنائیں۔ ان نو مسلموں میں کئی قرآن و حدیث کے عالم بھی ہوگئے او ران میں کے بہت سے اسلام کی دعوت کے جذبے سے سرشار ہیں۔ بظاہر تو یہ ایک چھوٹا سا مدرسہ ہے مگر یہ عنداللہ دوسرے تمام مدرسوں سے مختلف قسم کا مدرسہ ہے۔ یہ اللہ کے کسی بڑے انقلابی منصوبے کا جز ہے۔ اس انقلاب کے منصوبے میں رنگ بھرنے کے لیے جو خوش نصیب بھی آگے بڑھ کر دامے، درمے، سخنے مدد کرنے کی سعادت پائیں گے۔ اللہ کا ان پر کرم ہوگا اور وہ آنے والے انقلاب میں حصہ دار ہوں گے‘‘ (۱۷ دسمبر ۱۹۹۴)
یہ چند یادیں ہیں جو ذہن میں ابھر کر آرہی ہیں
مولانا ایک مربی، داعی اور رہنما تھے جو ملک ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ملکوں کے مردوں، عورتوں ، نوجوانوں اور خاص طور پر بچیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک روشنی کا مینار تھے۔
اللہ کرے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا ہو اور ہمیں ان سے ملاقات کی توفیق حاصل ہو۔
***
مولانا نے 1980میں پہلی مرتبہ امریکا کا سفر کیا۔ تقریباً چالیس سال سے دنیا کے مختلف ملکوں کا دورہ کرتے رہے۔ امریکہ ، آسٹریلیا ، جاپان کے دوروں میں وہاں کے مسلمانوں میں ان ممالک میں رہتے ہوئے اپنے اسلامی شعار کی حفاظت کی تلقین کرتے ہوئے آئندہ آنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام خاص طور پر خواتین کے رول پر موثر اور مفید لیکن سادہ اور شیرین انداز میں اپنا پیغام پہنچایا۔ مولانا کے انتقال کے بعد دنیا کے مختلف ملکوں میں جو تعزیتی اجلاس ہوئے اور جس والہانہ انداز میں ان کا ذکر کیا گیاہے وہ ان کے لیے توشہ آخرت ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ تحریک اسلامی ہند کے کسی ذمہ دار کو بیرون ملک اتنی پذیرائی جو مولانا کو ہوئی وہ کسی اور کو نصیب ہوئی ہو۔ مولانا نے نہ صرف تحریک اسلامی کا تعارف کرایا بلکہ اسلام کا حیات بخش پیغام مغرب میں مقیم لاکھوں مسلم مرد وںاور عورتوں کو پہنچایا اور ان کی دعوتی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 27 فروری تا 05مارچ 2022