مولانا امین عثمانی مرحومؒ: بنیاد کا پتھر، قیمتی اثاثہ ، مجتہد اور مایہ ناز عالم
فقہ اکیڈمی کو خون جگر دینے والی شخصیت کی رحلت
نئی دلی (دعوت نیوز ڈسک ) مولانا امین عثمانی دو ستمبر کی دوپہر خالق حقیقی سے جا ملے۔ وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے فاضل تھے جامعہ ملیہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہیں پنجاب یونیورسٹی سے اسسٹنٹ پروفیسر کا عہدہ پیش کیا گیا لیکن انہوں نے دینی علوم اور ملی امور میں خدمات انجام دینے کو ترجیح دی۔ وہ ان قدماء میں سے تھے جو درحقیقت عظماء اسلام کہلاتے ہیں۔ وہ اسلامی طلباء تنظیم میں ابتداء سے ہی سرگرم رہے تھے اور کٹھن حالات آنے کے باوجود ان کے پایہ ثبات میں لغزش نہیں آئی۔ جب اسلامی فقہ اکیڈمی کے قیام کی تحریک ہندوستان پہنچی تو اس کی ذمہ داری یہاں قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ کے سپرد ہوئی اور انہوں نے اس کاز میں اپنے ساتھ مولانا امین عثمانی ؒ کو شریک کر لیا۔ اس کے بعد جس طرح انہوں نے اس ادارے کو سینچا اس پر انہیں بجا طور پر اس عظیم الشان ادارے کا ثانی اثنین قرار دیا جا سکتا ہے۔ مولانا امین عثمانی اسلامی فقہ اکیڈمی کو موجودہ مقام تک پہنچانے میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح تھے۔ ناسازگار حالات میں امین صاحب نے پیہم جدوجہد کے ساتھ اس ادارے کو ثمر آور بنایا۔ فقہ اکیڈمی کے سیمیناروں کی کامیابی مولانا مرحوم کی سخت محنت کی بدولت ہوتی تھی وہ عنوان منتخب کرنے سے لے کر اس کے لیے مقالے تیار کروانے تک اور پھر نشست گاہ کی تیاری سے لے کر مہمانوں کے قیام تک وہ ساری محنتیں کرتے۔ وہ رات بھر محنت کرتے اور جب شامیانے سج کر اسٹیج تیار ہو جاتا تو وہ اسٹیج پر آنے کے بجائے کسی کمرے میں جا کر سو جاتے، اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا جس سے آج ملک بھر کے دینی ادارے مستفید ہو رہے ہیں اس کے باغبان اور جفاکش مالی مولانا امین عثمانی تھے۔ پرسنل لا بورڈ، جماعت اسلامی قدیم اسلامی طلباء تنظیم اور فقہ اکیڈمی کے پروگرامز میں وہ جہاں بھی کھڑے ہو جاتے ان کے گرد اہل علم و دانش کا ایک حلقہ بن جاتا تھا۔ مولانا امین عثمانی عالمی اسلامی تنظیموں کے نمائندہ تھے۔ وہ الاتحاد العالمی، رابطہ علماء اہلسنّت کے ممبر تھے۔ ہندوستان میں فقہ اکیڈمی کے علاوہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، اسلامی طلباء تنظیم اور جماعت اسلامی کے متحرک اور ذمہ دار ارکان میں سے تھے۔ انہوں نے کئی کتابوں کو لکھوایا۔ کئی علمی پروجیکٹس کی سرپرستی کی۔ وہ ہمیشہ علمی کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ انہوں نے اپنی خاموش تربیت غیر محسوس تعاون اور باعزت اصول پسندی، بامروت اخلاقیات سے کئی افراد کو گرویدہ بنا لیا تھا۔
مولانا امین عثمانی، جماعت اسلامی ہند کے رکن تھے ۔ مرکز جماعت سے کچھ فاصلے پر ان کی رہائش گاہ تھی۔ مقامی جماعت ابو الفضل انکلیو کے ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے کے لیے وہ باقاعد تشریف لایا کرتے تھے۔ جماعت میں ان کا تعارف ایک ذی علم، وجیہ، سنجیدہ، صاحبِ بصیرت اور فقیہ شخصیت کی حیثیت سے تھا۔ اس بنا پر چند برس قبل انہیں جماعت کے تحقیقی ادارے ‘ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی’ علی گڑھ کی مجلس منتظمہ کا تاسیسی رکن منتخب کیا گیا تھا۔ ادارہ کی علمی سرگرمیوں کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور ان میں دل چسپی لیتے تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک ہفتہ قبل 23 اگست 2020 کو ادارہ کی منتظمہ کا اجلاس مرکز جماعت میں منعقد ہوا تو انہوں نے اسپتال سے جب کہ ان کی طبیعت کافی خراب تھی، اجلاس میں شرکت نہ کر پانے کے لیے معذرت خواہی کی اور دعا کی درخواست کی۔ گزشتہ برس جماعت اسلامی ہند نے شرعی امور میں مسلمانوں اور خاص طور پر جماعت کے ارکان و وابستگان کی رہ نمائی کے لیے ‘شریعہ کونسل’ قائم کی تو فقہ اسلامی میں ان کی مہارت اور دست رس کی بنا پر انہیں بھی کونسل کا رکن نام زد کیا گیا۔ انہوں نے نہ صرف رکنیت قبول کی بلکہ متعدد اصحابِ علم کی نشان دہی کی اور انہیں کونسل کا رکن بنانے کا مشورہ دیا۔ کوویڈ-19 پھیلنے کے بعد جب بہت سے نئے مسائل پیدا ہوئے تو انہوں نے شریعہ کونسل کی طرف سے ملت اسلامیہ ہند کی رہ نمائی کے لیے ایڈوائزری جاری کرنے کا مشورہ دیا ۔ان کے مشورے اور رہ نمائی میں شریعہ کونسل کی جانب سے لاک ڈاؤن کے دوران نظام مساجد، جمعہ و عیدین کی نمازوں کے مسائل، کورونا وائرس کی وجہ سے وفات پانے والوں کی تجہیز و تکفین اور دیگر موضوعات پر ایڈوائزری جاری کی گئی۔جماعت اسلامی سے ان کے گہرے تعلق کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قبرستان میں ان کی نماز جنازہ کے لیے صفیں لگ چکی تھیں، ان کے فرزند نے امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی کا انتظار کروایا اور جب وہ آگئے تب انہی سے امامت کروائی۔
امیر جماعت اسلامی ہند نے مولانا امین عثمانی کے انتقال پر اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ مولانا امین عثمانی رحمة اللہ علیہ کی رحلت سے ہم نے امت کا ایک اور قیمتی اثاثہ کھو دیا ہے۔ نہایت خاموشی، سنجیدگی اور استقلال کے ساتھ دین، علوم دینیہ اوراسلامی تحریک کی جو گراں قدر خدمات انہوں نے انجام دی ہیں، بلاشبہ اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ فقہ اکیڈمی کی تاسیس اور استحکام میں تو ان کا کلیدی رول رہا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی احیائے دین سے متعلق بہت سے منصوبے تھے جن سے وہ وابستہ رہے۔ جدید مسائل پر اجتہادی اسپرٹ کے ساتھ غور کرنا اور ان کے حل تلاش کرنا، دنیا بھر کے اصحاب علم و فضل سے مستقل ربط اور ان سے مشاورت و استفادہ، نوجوان اہل علم کی سرپرستی، تحقیق و تصنیف اور ترجمہ و تالیف کے نت نئے میدان ڈھونڈنا اور ان میں ٹھوس کاموں کی تحریک و سرپرستی، یہ اور ان جیسے بے شمار کام ان کی شناخت اور پہچان بن چکے تھے۔ کس موضوع پر دنیا کے کس اہل علم سے مدد مل سکتی ہے یہ سوال جب بھی پیدا ہوتا اس کے جواب کے لیے آسان پتہ امین عثمانی صاحب مرحوم ہی کا تھا۔ وقفے وقفے سے ان کے گراں قدر خطوط ملتے جن میں انتہائی مفید مشورے ہوتے۔ زیادہ تر مشورے علمی کاموں سے متعلق ہوتے۔ لیکن کبھی ملک کے حالات اور تحریک کے دیگر کاموں کے حوالوں سے بھی قیمتی تجاویز سے نوازتے رہتے۔ کبھی مسجد اشاعت اسلام میں مختصر ملاقات ہو جاتی۔ نئی میقات میں اُن سے شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند کی رکنیت قبول کرنے کی درخواست کی گئی تھی جسے انہوں نے نہ صرف قبول کیا بلکہ بہت سرگرمی کے ساتھ کونسل کے کاموں میں حصہ لے رہے تھے اور امید تھی کہ ان کے علم وفضل سے بہت فائدہ حاصل ہوگا لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ ان کی خاموش مخلصانہ مساعی کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور تحریک اسلامی اور امت مسلمہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین