ملک کی انتخابی سیاست اور مسلمان

موجودہ حالات میں سمتِ نَو کا تعین اور نیا لائحہ عمل ناگزیر

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد، حیدرآباد

 

آزادی وطن کے 72 سال بعد جب ہم ملک میں چل رہی انتخابی سیاست پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو یہ بات بلا کسی شک و شبہ کے محبان وطن کے سامنے آتی ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کا مستقبل دن بہ دن تاریک ہوتا جا رہا ہے۔ جمہوریت کے نقاب میں یہاں فسطائی طاقتیں اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کرنا چاہتی ہیں۔ 2014 کے عام انتخابات میں جب پہلی مرتبہ بی جے پی بھر پور اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے میں کا میاب ہوئی تھی تو اس نے اپنے پہلے پانچ سالہ دور میں عوام کو سوائے وعدوں اور دلاسوں کی سوغات کے اور کچھ نہیں دیا۔ پھر جب 2019 کے پارلیمانی الیکشن کا مر حلہ آیا تو یہ سمجھا گیا کہ عوام کا سیاسی شعور جاگ گیا ہے اور اب فرقہ پرستی کا زور نہیں چلے گا لیکن قوم پرستی کے جذباتی نعروں نے پھر ہندوستانی رائے دہندوں کو بی جے پی کا اسیر بنا دیا اور دوبارہ یہ پارٹی راج سنگھاسن پر قابض ہو گئی۔ اس ملک کا انتخابی سسٹم ہی کچھ اس طرح کا ہے کہ جہاں بڑی آسانی کے ساتھ سیاست داں عوام کو بیوقوف بنا کر اپنا الّو سیدھا کر لیتے ہیں۔ اسی لیے شاعرِ مشرق کی یہ بات صد فیصد سچ ہے کہ جمہوریت میں سَروں کو گِنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا۔ ذات پات، زبان اور علاقہ اور مذہب کے نام پر رائے دہندوں کو خانوں میں بانٹ کر سیاسی پارٹیاں اپنی سیاسی دوکانیں چمکانے میں کامیاب ہوتی رہی ہیں۔اس ملک میں سماج کے مختلف طبقے اپنی سیاسی حیثیت کو منوا چکے ہیں۔ وہ طبقے جو کل تک تعلیم اور روزگار میں تحفظات کے مطالبات کر رہے تھے آج ملکی سیاست میں ایک اہم عنصر بن چکے ہیں۔ دلتوں کو ناراض کر کے کوئی سیاسی پارٹی اقتدار پر آنے کا خواب نہیں دیکھ نہیں سکتی۔ اسی طرح ملک میں اور بھی ایسے گروہ ہیں جو ملک کی سیاست پر ہمیشہ اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔
مسلمان، ہندوستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 14 فیصد ہیں۔ 20 تا 25 کروڑ کی یہ آبادی ملک کے تقریباً ہر علاقہ میں بستی ہے۔ ملک کی انتخابی سیاست میں مسلمان کیوں بے وزن ہو گئے؟ وہ کیا پیمانے ہیں جس کو اختیار کر کے مسلمان اس ملک کی سیاست پر اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ ملک کا موجودہ منظر نامہ جس تیزی سے بدلتا جا رہا ہے ایسے وقت یہ سوالات غیر اہم ہو جاتے ہیں کہ آیا مسلمانوں کو سیاست میں سر گرم حصہ لینا چاہیے یا نہیں؟ سیاست اب ہندوستانی مسلمانوں کی ناگزیر ضرورت بن گئی ہے۔ ملک کی انتخابی سیاست میں مسلمانوں کی شمولیت ان کے ملّی اور مذہبی تشخص کے تحٖفظ کے لیے ضروری ہے۔ ملک کے موجودہ حالات کے پسِ منظر میں انتخابی سیاست سے دستبرداری یا اس سے عدم دلچسپی ملت اسلامیہ کو ایک ایسے گردابِ بلا میں ڈال دے گی جہاں سے نکلنا ان کی آنے والی نسلوں کے لیے بھی ممکن نہ ہوگا۔ جمہوری ملک میں ایک اصولی امت کو ملک کی انتخابی سیاست میں کیسے حصہ لینا ہے اس پر گفتگو کی گنجائش ہے۔ طریقہ کار میں اختلافِ رائے ہو سکتا ہے، اس پر بھی بات ہو سکتی ہے کہ مسلمان سیکولر پارٹیوں کا ساتھ دیں یا پھر خود اپنے بل بوتے پر میدانِ سیاست میں آئیں۔ الیکشن ملک میں پرامن تبدیلی لانے کا ایک نہایت موزوں اور بہتر طریقہ ہے۔ ملک میں نظامِ عدل و قسط کو قائم کرنے، سماجی بگاڑ کو ختم کرنے، اخلاقی برائیوں کا خاتمہ کرنے میں اور ملک کی ایک بڑی آبادی کو اپنے مقصدِ حیات سے واقف کرانے میں مسلمانوں کی سیاست میں شرکت اس ملک کی عوام اور مسلمانوں کے حق میں سود مند ثابت ہوگی۔ اس لیے اس وادیِ پُرخار سے گریز دانشمندی نہ ہوگی۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال اس بات کی متقاضی ہے کہ مسلمان اس جمہوری ملک میں ایک نا قابلِ تسخیر سیاسی قوت بن کر ابھریں۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جس کو قبول کیے بغیر وہ اس ملک میں اپنا کوئی قائدانہ رول ادا نہیں کر سکتے۔ سیاسی قوت کے حصول کے لیے ان تمام ذرائع کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے جن کے بغیر سیاسی محاذ پر کا میابی ممکن نہیں ہے۔ مسلمان اس چیلنج سے گھبرا کر دور بھاگ جائیں تو اس ملک میں ظلم و بربریت کا دور چلتا رہے گا اور امن و امان کا قیام ایک سراب بن کر رہ جائے گا۔ اکثر یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ آزادیِ ہند کے بعد ملک میں کوئی مضبوط سیاسی قیادت وجود میں نہیں آئی۔ یہ بات کچھ حد تک صیحح بھی ہے لیکن قیادت نہ آسمان سے اُترتی ہے اور نہ زمین سے اُبلتی ہے۔ قیادت انسانوں کے درمیان سے ہی ابھرتی ہے۔ مسلمان ایک بیدار مغز، دور اندیش، حوصلہ مند اور مخلص قیادت کو ملک کے سیاسی افق پر لانے میں کیوں ناکام ہو گئے یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنا بڑا تلخ تجربہ ہوگا۔ آزادی کے 72 سالوں کے دوران ملک کے مختلف علاقوں سے مسلم قیادت ابھرتی رہی۔ آج بھی ایسی قیادت موجود ہے۔ لیکن قومی سطح پر مسلمانوں کا کوئی ایسا قائد ابھی بھی نہیں ہے جس کی ایک آواز پر سارے ملک کے مسلمان لبیک کہہ سکیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک کی سیکولر پارٹیوں نے ایک بے لوث مسلم قیادت کو ابھرنے کا موقع نہیں دیا۔ تحریک آزادی کے دوران مسلمان کانگریس کے پرچم تلے جمع ہوئے اور اپنی قربانیوں کے ذریعہ ملک کو آزاد کرایا۔ ملک میں جب آزادی کا سورج طلوع ہوا، مسلمان یہی سمجھے کہ اب اس ملک میں ان کی جان و مال، عزت و آ برو محفوظ ہو گئی ہے لہٰذا انہیں الگ سے اپنی سیاسی شناخت بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کانگریس نے ہندوستان کے مسلمانوں کو قومی دھارے (National Mainstream) اور قومی یکجہتی (National Integration) کا ایسا سبق پڑھا دیا تھا کہ مسلمان اپنی اسلامی تہذیب اور روایات کو بھی فراموش کر بیٹھے اور نام نہاد ہندوستانی تہذیب کے اتنے خوگر ہو گئے کہ مشترکہ تہذیب کے نام پر ہندو تہذیب کے رنگ میں رنگتے چلے گئے۔ آج مسلمانوں سے ہندوتوا طاقتیں یہی مطالبہ کر رہی ہیں وہ اپنے اقدار اور کلچر سے دستبردار ہو کر ہندو کلچر میں ضم ہو جائیں۔ اور جب تک وہ ایسا نہیں کریں گے ان کی ملک سے وفادری مشکوک رہے گی۔ قومی یکجہتی کا راگ الاپ کر مسلمانوں میں عدم تحفظ کا اتنا گہرا احساس پیدا کر دیا گیا کہ انہوں نے ملک میں ایک سیاسی قوت بننے کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیا۔ انہیں باور کرایا گیا کہ تمہاری سیاسی زندگی کا انحصار صرف کانگریس کا ساتھ دینے میں ہے۔ چنانچہ ایک طویل عرصہ تک مسلمان کانگریس کے غلام بے دام بنے رہے۔ ہر الیکشن میں کانگریس مسلمانوں کو اپنے ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتی رہی۔ 1992میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد کانگریس کا سیکولرازم بے نقاب ہو گیا اور مسلمان پارٹی سے اتنے متنفر ہوئے کہ کانگریس کو دس سال تک سیاسی بن باس لینا پڑا۔ سونیا گاندھی کی بڑی منت سماجت کے بعد مسلمانوں نے کانگریس کو معاف کرتے ہوئے 2004 کے لوک سبھا انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب کیا۔ دوبارہ پھر پانچ سال کے لیے اقتدار کانگریس کے ہاتھوں میں آیا۔ اپنے دس سالہ دورِ اقتدار میں کانگریس نے مسلمانوں کے ساتھ کوئی فراخدلانہ سلوک نہیں کیا اور نہ ان کے جائز حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے ساتھ انصاف کیا۔ مسلمانوں کو طفل تسلی دینے کے لیے ایک کمیٹی جسٹس راجندر سچر کی قیادت میں قائم کر دی۔ اس کمیٹی کی سفارشات پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ طرفہ تماشا یہ کہ کانگریس نے بی جے پی کے سخت ہندوتوا کے مقابلے میں نرم ہندوتوا کی پالیسی اپنائی تاکہ ہندوؤں کو اپنا ہمنوا بنایا جا سکے۔ یہ کانگریس کا سیکولرازم تھا جس نے ہندوتوا کے لیے راستہ ہموار کیا۔
ملک کی دیگر سیکولر پارٹیوں کا حال بھی کچھ الگ نہیں ہے۔ ملک کے وہ سیاستداں جو کل تک سیکولرازم کے چمپیئن کہلاتے تھے ہندتوا کے سب سے بڑے علمبردار بن کر سامنے آئے۔ رام ولاس پاسوان، نتیش کمار یا پھر سبرامنیم سوامی وغیرہ۔ یہ تمام لیڈر ماضی میں سیکولر قائدین کی حیثیت سے جانے جاتے تھے لیکن سیاسی مفادات نے انہیں ہندوتوا کی گاڑی میں سوار کرا دیا۔ ایک ایسے وقت جب کہ ملک میں سیاسی اقدار اور نظریات بے معنی ہوتے جا رہے ہیں کیا مسلمانوں کو مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ وہ ہر حال میں سیکولر پارٹیوں سے اپنے آپ کو وابستہ رکھیں؟ اور اس ملک میں سیکولرازم کا تحفظ کرنا کیا صرف مسلمانوں کی ذمہ داری ہے؟ خوف و ہراس کی ایک فضا تیار کرکے مسلمانوں کو جتایا جاتا ہے کہ اگر تم نے سیکولر پارٹیوں سے دامن چھڑا لیا تو تمہاری خیر نہیں ہے۔ ایک طرف سیکولر پارٹیوں کی مسلمانوں سے بے اعتنائی اور دوسری طرف ہندوتوا کا خوف ہندوستان میں مسلمانوں کو سیاست کی ایسی بند گلی میں لا کھڑا کر تا ہے جہاں سے نکلنا مسلمانوں کے لیے بہت دشوار محسوس ہوتا ہے۔ ملک کے اس سیاسی پس منظر میں مسلمان سیاست سے نہ کنارہ کش ہو سکتے ہیں اور نہ بے دھڑک سیاست میں کود سکتے ہیں۔ اس کے لیے مسلمانوں کو ایک مبسوط سیاسی حکمتِ عملی اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہندوتوا کے طوفانِ بَلا خیز کا مقابلہ کرنے کے لیے ملک کی ساری سیکولر پارٹیوں کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ اپنے انتخابی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس جارحانہ فرقہ پرستی کے خلاف متحد ہو جائیں۔ اگر یہ پارٹیاں اپنے اتحاد کا ثبوت دیتی ہیں تو ہندوتوا کے بھوت کو پھر سے بوتل میں بند کرنا کوئی مشکل کام نہ ہوگا۔ کانگریسی قیادت کے ایک گوشے سے اب آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لیے کانگریس اپنے دیرینہ اصولوں پر جم جائے تاکہ ملک کے تمام طبقوں کا پھر سے وہ اعتماد حاصل کر سکے۔ ملک کی بائیں باوز کی پارٹیاں بھی ملک میں سیکولرازم کی بقا چاہتی ہیں۔ مغربی بنگال کی ترنمول کانگریس، تلنگانہ کی ٹی آر ایس، یو پی کی سماج وادی پارٹی اور بہار کی آر جے ڈی اب بھی سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ اگر یہ پارٹیاں مسلمانوں کے مفادات کا سودا نہیں کرتی ہیں تو ان کا ساتھ دیتے ہوئے ملک سے فرقہ پرستی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس میں مسلمانوں کے رول سے زیادہ ان پارٹیوں کے قائدین کی دیانتداری کا امتحان ہے۔ سابقہ تجربات بتاتے ہیں کہ سیکولر پارٹیاں کبھی بھی اپنا رخ بدل سکتی ہیں۔ ان پر مکمل انحصار مسلمانوں کے سیاسی مقدر کو بدل نہیں سکتا۔ حالات کے اس تناظر میں یہ بات بھی پورے زور و شور سے سامنے آ رہی ہے کہ مسلمان خود اپنی سیاسی پارٹی بنا کر اپنے سیاسی حال اور مستقبل کو شاندار بنا سکتے ہیں۔ اس نظریے پر ایقان رکھنے والوں کا ادعا ہے کہ آ خر کب تک مسلمان سیکولر پارٹیوں کا پرچم ڈھوتے رہیں گے اور کب تک ان سے دھوکہ کھاتے رہیں گے۔ لیکن بعض کا خیال ہے کہ اس سے قومی کشمکش بڑھے گی اور ہندوتوا طاقتوں کی جڑیں اور مضبوط ہو جائیں گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ملک کا ہر طبقہ اپنی سیاسی پارٹی بنا سکتا ہے تو پھر کیا مسلمانوں کی سیاسی پارٹی بننے سے ہی آسمان پھٹ پڑے گا؟ ایک قابل عمل مشورہ یہ بھی دیا جاتا ہے خالص مسلمانوں کی سیاسی پارٹی کے بجائے ملک کے محروم اور مظلوم طبقات کو ساتھ لے کر سیاست میں مسلمان اپنا رول ادا کریں۔ یہ حکمتِ عملی ہی موجودہ حالات میں زیادہ کارگر ثابت ہوگی۔ اگر اس ملک کے دلتوں، پچھڑے طبقوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ مسلمانوں کا سیاسی اتحاد قائم ہو جاتا ہے تو ملک سے ہندوتوا کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کوئی طاقت حائل نہیں ہوگی۔ اس کے لیے ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے سیاسی عزم کے ساتھ سیاسی بصیرت کا بھی ثبوت دینا ہوگا۔
آئینِ نَو سے ڈرنا طرزِ کہن پر اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
***

ملک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال اس بات کی متقاضی ہے کہ مسلمان اس جمہوری ملک میں ایک نا قابلِ تسخیر سیاسی قوت بن کر ابھریں۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جس کو قبول کیے بغیر وہ اس ملک میں اپنا کوئی قائدانہ رول ادا نہیں کر سکتے۔ سیاسی قوت کے حصول کے لیے ان تمام ذرائع کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے جن کے بغیر سیاسی محاذ پر کامیابی ممکن نہیں ہے۔ مسلمان اس چیلنج سے گھبرا کر دور بھاگ جائیں تو اس ملک میں ظلم و بر بریت کا دور چلتا رہے گا اور امن و امان کا قیام ایک سراب بن کر رہ جائے گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020