مقابلے کا پہلا میدان آپ کا اپنا نفس
نفس برائی کی طرف دوڑکرجاتا ہے اور نیکی کی طرف اسے گھسیٹ کرلانا پڑتا ہے
شاہانہ خانم حیدرآباد
موجودہ دور میں انسانی زندگی سیکڑوں دشوارگزار مسائل سے دوچار ہے۔ امن وامان اور اعتماد ومحبت کی فضا سے عام طورپر لوگ محروم ہیں، ہر طرف بے چینی ہے ، ہر جگہ ضد اور سرکشی ہے ، لوگ امن وامان سکون کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور ہرسطح پر یہ تلاش جاری ہے۔ مگر افسوس کہ ہر طرح کی سائنسی اور علمی ترقیوں کے باوجود لوگوں کویہ قیمتی جوہردستیاب نہیں ہورہا ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارا اخلاقی معیار ہرلحاظ سے بہت نیچے گرچکا ہے۔ محسن انسانیت محمدؐنے جواخلاقی تعلیم زندگی کو خوش گوار ، اوربامقصد بنانے کے لیے ہمیں دی تھی، اسے ہم یکسر بھول چکے ہیں، بلکہ سچ تویہ ہے کہ اسے ہم قصداً نظرانداز کرنے کے عادی ہوگئے ہیں۔
انسان کی زندگی میں بہت سے ایسے مواقع آتے ہیں ، جب وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اخلاق کا تقاضا کیا ہے، اورکس طرح وہ اپنی بلند اخلاقی کو قائم رکھ سکتا ہے۔
بلاشبہ زبان اگر بے لگام ہوجائے اوراس پر کنٹرول ختم ہوجائے تو بے حساب دشواریاں اورمصیبتیں رونما ہوتی ہیں۔ اسی کی بدولت خاندانوں میں لڑائیاں ہوتی ہیں، اوردشمنی اپنی آخری حد پر پہنچ کردم لیتی ہے۔ قتل و خون کی نوبت آجاتی ہے۔ گھربار اجڑ جاتے ہیں، خاندان اورمعاشرے تباہ ہوجاتے ہیں، اور نہ جانے کیا کیا مصیبتیں آتی ہیں، نبی کریمؐ نے سچائی اور سچ بولنے کی تعلیم دی اورفرمایا کہ سچ بولنے سے گریز نہ کرو، خواہ تم کومحسوس ہو کہ سچ بولنے میں ہلاکت اور تباہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچ بولنا ہی دراصل ہرطرح کی مصیبت سے نجات کا ذریعہ ہے۔غلطی ہرانسان سے ہوتی ہے ،اکثر بلا ارادہ اور کبھی قصداً بھی انسان غلطی کربیٹھتا ہے۔ لیکن اس کی غلطی کومعاف کردینا اور درگزر کرنا بھی ایک بڑی نیکی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں سوسائٹی کوجو تقویت حاصل ہوتی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
ان حالات میں ہم اپنے اندرکے شیطان سے لڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ انسان ان حالات میں شیطان کومات دیتے ہیں۔ ہم جب اچھا کام کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہمارا نفس ہمیں روکنے کی کوشش کرتا ہے وہ ہرگز نہیں چاہتا ہے کہ انسان کوئی ایسا کام کرے جو نیکی کی شکل میں ہو۔ اس اچھائی اور برائی کی جنگ میں ہمارا نفس امارہ کبھی ہارجاتا اور کبھی جیت جاتا ہے اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس کو کبھی ہارنے نہیں دیتے چاہے کتنی ہی تکلیف ہو یا پریشانی اٹھانی پڑے۔
حکایت ایک دن شیطان بیٹھا رسیوں کے پھندے تیار کررہا تھا۔ کچھ موٹے موٹے پھندے اور کچھ باریک اور کمزور رسیوں کے پھندے تھے۔وہاں سے ایک صاحب علم کا گزرہوا تو اس نے شیطان سے پوچھا ’ارے او انسان کے دشمن! یہ کیا کررہا ہے؟‘ ۔ شیطان نے سراٹھا کر دیکھا اوراپنا کام جاری رکھتے ہوئے بولا ،دیکھتے نہیں ہو حضرت، انسانوں کو قابو کرنے کے لیے پھندے تیار کررہا ہوں۔ ان حضرت نے پوچھا،یہ کیسے پھندے ہیں کچھ موٹے کچھ باریک ،یہ پھندے ان لوگوں کے لیے ہیں جو شیطان کی باتوں آسانی سے نہیں آتے۔ لہٰذا مختلف قسم کے پھندے تیارکرنے پڑتے ہیں۔ کچھ خوشنما کچھ موٹے اورکچھ باریک۔ ان حضرت کے دل میں تجسس پیدا ہواتو پوچھا، کیا میرے لیے بھی کوئی پھندا ہے شیطان نے سراٹھا کر مسکراتے ہوئے کہا آپ علم والوں کے لیے مجھے پھندے تیار کرنے نہیں پڑتے۔ آپ لوگوں کو تو میں چٹکیوں میں گھیر لیتا ہوں۔ علم کا تکبر ہی کافی ہے آپ لوگوں کوپھانسنے کے لیے ۔ ان حضرت نے حیرت سے پوچھا توپھر یہ موٹے پھندے کس کے لیے ہیں ۔ موٹے پھندے تواخلاق والوں کے لیے ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں،ان پر قابو پانا مشکل ہوتا ہے، یعنی برائی سے بچنے کے لیے ہمیں ہماری زبان کو کنٹرول کرنا ہوگا۔
برائی کی طرف نفس دوڑکرجاتا ہے اور نیکی کی طرف اسے گھسیٹ کرلانا پڑتا ہے۔شیطان کوگمراہ کرنے کے لیے کوئی دوسرا شیطان نہیں آیا تھا،بلکہ یہی وہ نفس تھا جس نے اس کوابلیس بنادیا۔
مقابلے کا پہلا میدان تمہارا اپنا نفس ہے اپنے نفس سے جنگ کرکے آزمالو، آیا تم آزاد ہویا اس کے غلام ہو۔ یاتم نفس کی تمنا پوری کرنے میں مصروف ہو یا وہ تمہیں برباد کرنے میں ۔’’جب ہمارے نفس کے گلے میں بندھی رسی شیطان کے ہاتھ میں چلی جائے تو، عقل گناہوں کی وکالت پراترآتی ہے‘‘ ۔ تب ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا۔
٭٭٭
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 تا 19 دسمبر، 2020