مفسرین ومترجمین قرآن کا تعارف سیریز-1

معروفمترجم قرآن شاہ رفیع الدینؒ

ڈاکٹر سید وہاج الدین ہاشمی

 

شاہ رفیع الدین، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے دوسرے صاحبزادے تھے۔ ۹ ذی الحجہ ۱۱۶۳ھ م ۱۹ نومبر ۱۷۵۰ ء بروز منگل کو پیدا ہوئے۔ آپ کا پورا نام رفیع الدین عبد الوہاب تھا۔ (۱) آپ کا خاندان علم و تقویٰ کے اعتبار سے شہرت رکھتا تھا۔ ابتدائی تعلیم ۱۳ سال کی عمر تک بالخصوص حدیث کی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی جو اپنے زمانے میں بہت بڑے محدث مانے جاتے تھے۔ ۱۸۷۶ء میں والد کی وفات کے بعد ثانوی تعلیم اپنے بڑے بھائی شاہ عبدالعزیز سے حاصل کی۔ آپ حافظ قرآن بھی تھے۔ ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد حدیث کلام اور اصول کی طرف خصوصی توجہ دی۔ آپ نے مقدمۃ العلم، کتاب التکمیل، اسرارالمجتہ، رسالہ عروض، رسالہ شق القمر، راہ نجات لکھا ہے۔ بیس سال کی عمر میں مفتی اور مدرس کے منصب پر فائز ہوئے۔ خیالات کی لطافت اور اسلوب کی بلاغت میں ان کی بڑی تعریف کی جاتی ہے۔ آپ سے بیس کتابیں منسوب کی جاتی ہیں۔(۲) آپ کے تین نکاح ہوئے۔ ۳ شوال ۱۲۳۳ھ م ۹ اگست ۱۸۱۸ء کو طاعون کے مرض میں وفات پائی۔
برصغیر میں آپ کی شہرت اردو زبان میں قرآن مجید کے پہلے مکمل لفظی ترجمے کی وجہ سے ہے، جو کہ آپ کا عظیم کارنامہ ہے۔ شاہ رفیع الدین نے اردو زبان کا یہ جامع اور سب سے پہلا ترجمہ ۱۷۷۶ء / ۱۲۰۰ھ کے آخر میں مکمل کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے ایک تفسیر بھی لکھی جو تفسیر رفیعی کے نام سے مشہور ہوئی۔ (۳) شاہ رفیع الدین نے اس ترجمہ میں متن کی بڑی پابندی کی ہے۔ اس ترجمہ کی پہلی اشاعت ۱۸۳۹-۱۸۳۸ء میں کلکتہ میں ہوئی اور دوسری ۱۸۴۹-۱۸۵۰ء میں ہوئی۔ (۴) اس ترجمے کی متعدد اشاعتوں میں سے [۱۸۶۶ء سے ما بعد زمانہ تک کے لیے] Catalogue of Hindustani printed books in the library of the British Museum. By J.F. Blumhardt ۱۸۸۹ء اور اسی کتاب کا تکملہ ۱۹۰۹ء ص۔۴۰۳ پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ اس ترجمے کو شاہ رفیع الدین کے شاگرد سید نجف علی نے دوران سبق قلم بند کیا تھا جسے شاہ رفیع الدین نے ملاحظہ فرمایا تھا۔ اس تفسیر کو نجف علی کے فرزند میر سید عبدالرزاق نے ۱۲۷۲ھ میں مطبع نقش بندی سے طبع کرایا اور اس کے حاشیہ پر مولانا یعقوب چرخی کی تفسیر فارسی بھی شائع کرائی۔ میر سید عبدالرزاق کے بقول، ”ان کے والد نے شاہ رفیع الدین سے تمام کلام اللہ کی تفسیر اسی طرح لکھی جس میں سورہ بقرہ کا حصہ زیادہ مفصل اور مشرح تھا۔“ (۵) اس سلسلے میں تذکرہ مفسرین ہند کے مصنف محمد عارف اعظمی لکھتے ہیں: ”غالب گمان یہ ہے کہ شاہ رفیع الدین کا ترجمہ قرآن جو مطبوع متداول ہے ان ہی سید نجف علی کا قلم بند کیا ہوا ہے اور اسی کا ایک حصہ تفسیر ہے۔ شاہ رفیع الدین کی یہ تفسیر ۲۰۸ صفحات پر مشتمل ہے“۔ (۶) خانوادہ شاہ ولی اللہ میں ان کا مرتبہ مصنف سے زیادہ مدرس اور واعظ کی حیثیت سے مشہور ہے۔ تاہم کئی لحاظ سے یہ اسی فکر کے شارح تھے جس کے بانی شاہ ولی اللہ تھے۔ (۷) خاندان شاہ ولی اللہ میں شاہ رفیع الدین کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ وہ دینیات کے ساتھ معقولات پر بھی غیر معمولی دسترس رکھتے تھے، نیز شعر وشاعری سے بھی ان کو شغف تھا جس میں انہوں نے فلسفیانہ اسرار ورموز کو نظم کیا ہے۔ ان کی کتاب ’اسرارالمحبتہ‘کے بارے میں محسن ترھتی نے لکھا ہے’ شاید ہی کسی اور مصنف نے اس موضوع کو اس آب وتاب کے ساتھ لکھا ہو۔ قدما میں ابو نصر فارابی اور بوعلی سینا کے بارہ میں یہ ذکر ملتا ہے کہ انہوں نے اس موضوع کو اپنایا ہے لیکن ان کی کتابیں دستیاب نہیں ہیں‘۔(۸) شاہ رفیع الدین کے متعلق مولانا سید عبدالحی حسنی لکھتے ہیں: ”وہ بہت بڑے شیخ، امام، عالم کبیر، علامہ دہر، محدث، متکلم، ماہر اصول، اپنے دور کی منفرد اور نابغہ روزگار شخصیت تھے۔“ (۹) شاہ رفیع الدین نے اپنے والد اور بڑے بھائی شاہ عبدالعزیز کی طرح درس وتدریس کے ساتھ قرآن مجید کے ترجمہ وتفسیر کی خدمت انجام دی، تاہم ان کی تفسیری کاوش عوام الناس کو قرآن مجید سے متعارف کرانے تک محدود تھی۔ بیس برس کی نو عمری میں تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے والد کے مدرسہ میں درس وتدریس اور افتاء کی ذمہ داری سنبھالی۔ ان کے بڑے بھائی شاہ عبدالعزیز نے ناسازی صحت کی بنا پر جب تدریس کا سلسلہ موقوف کر دیا تو موصوف ان کے اسباق بھی پڑھاتے۔ تقریباً نصف صدی سے زائد عرصہ تک درس وافتاء کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ ہزاروں تلامذہ ان سے مستفید ہوئے۔
شاہ رفیع الدین کی تفسیر رفیعی میں آیت نور کی تفسیر کے بارے میں شاہ عبدالعزیز نے اس طرح اظہار خیال کیا ہے،’’ولعمری لقد اتی فی ھذا الباب بالعجب العجابومیز القشر عن اللباب ونور مصابیح زجاجات القلوب وروح الارواح ببدیع الاسلوب‘‘
ترجمہ: ”بخدا اس باب میں مصنف نے حیرت انگیز کمالات دکھائے ہیں، گودے سے چھلکے کو الگ کرکے آئنیہ قلوب اور روح کو مسرور کیا ہے اور لطیف پیرایہ بیان کا استعمال کیا ہے“۔ (۱۰) تفسیر آیت نور ۱۹۶۴ء میں مولانا عبدالحمید سواتی کی کوشش سے پاکستان کے گجرانوالہ سے شائع ہو چکی ہے۔ اس میں حقائق اشیاء سے بحث کرنے والے حکما کے اقوال و آراء کا ذکر کر کے شاہ ولی اللہ کے موقف کی وضاحت کی گئی ہے۔ بقول مولانا عبیداللہ سندھی ”یہ رسالہ شاہ ولی اللہ کے سطعات کی تکمیل ہے“ (۱۱) چونکہ یہ ترجمہ تحت اللفظی ہے اس لیے اس میں روانی نظر نہیں آتی البتہ قرآن فہمی کے لیے نہایت مفید ثابت ہوا ہے۔ اس سلسلہ میں ’’برصغیر پاک وہند میں قرآن فہمی اور تفسیر خدمات کا علمی وتنقیدی جائزہ‘‘ کے مقالہ نگار حبیب اللہ قاضی لکھتے ہیں، ”عوام کے لیے مولانا رفیع الدین نے قرآن عظیم کا لفظی ترجمہ ہندی میں کیا۔ شاہ ولی اللہ کے تمام بلند مرتبہ صاحبزادگان اپنے والد کے مشن کی تکمیل کے تحت ہر قدم اٹھاتے تھے اور اس اصلاحی اور دعوتی تحریک کی تکمیل ان تمام حضرات کا اولین فرض تھا تو پھر اس ترجمہ کی غرض ہماری سمجھ میں آسکتی ہے اور وہ یہ کہ بڑے بھائی کے سامنے قرآن کریم کی زبان عربی سے مسلمانوں کو قریب کرنا تھا اور چھوٹے بھائی کے سامنے قرآنی پیغام کو عوام کے دلوں میں اتارنا تھا“۔ (۱۲) لیکن ان کی تفسیر کے متعلق محمد عارف اعظمی لکھتے ہیں ’’ان کا تفسیری ذوق اپنے والد ماجد اور برادر بزرگ کے مانند تھا“۔ (۱۳)
شاہ عبدالقادر کے مقابلے میں شاہ رفیع الدین کے سامنے ترجمہ قرآن کا یہ مقصد معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی زبان سے لوگ قریب تر ہوں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے تحت اللفظی ترجمہ کیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا اخلاق حسین قاسمی لکھتے ہیں ”شاہ رفیع الدین صاحب نے شاہ عبدالقادر صاحب کے ساتھ ساتھ ہی اپنا ترجمہ املا کرایا ہے۔ زمانہ ایک ہی ہے لیکن شاہ رفیع الدین صاحب کے ہاں تمام الفاظ آسان اور عام فہم ہیں۔ کہیں کوئی لفظ مشکل ہندی اور سنسکرت کا نظر نہیں پڑتا۔ تحت اللفظ ہونے کی وجہ سے عبارت ثقیل ضرور ہے مگر الفاظ میں ثقالت اور گرانی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ شاہ رفیع الدین صاحب کے ہاں ہندی کی خاص ضمیر جمع غائب ’’وے‘‘ بھی کہیں استعمال نہیں کی گئی ہے“۔ (۱۴) شاہ رفیع الدین کا ترجمہ اردو زبان اور قرآن کے تراجم کی تاریخ میں ایک اہم ترین سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ایک طرف اردو زبان ارتقائی دور میں داخل ہو رہی تھی تو دوسری جانب قرآن مجید کے اردو تراجم تاریخ کے ابتدائی مراحل طے کر رہے تھے۔ شاہ رفیع الدین کا ترجمہ لفظی تھا شاید ترجمہ میں روانی نہ ہونے کی وجہ سے بعد کے دور میں جو شہرت شاہ عبدالقادر کے بامحاورہ ترجمہ کو حاصل ہوئی وہ شاہ رفیع الدین کے ترجمہ کو نہیں ہوسکی۔ اس ترجمہ کو ہوئے آج لگ بھگ سوا دو سو سال کا عرصہ بیت چکا ہے اور اس کے نسخے بھی محدود کتب خانوں میں پائے جاتے ہیں۔
لہٰذا آج اس بات کی ضرورت ہے کہ شاہ رفیع الدین کے ترجمہ وتفسیر کو اسی طرح ازسر نو مرتب کیا جائے جس طرح مولانا اخلاق حسین قاسمی نے شاہ عبدالقادر کے موضوع قرآن کو ’مستند موضح قرآن‘ کے نام سے ازسر نو مرتب کیا ہے۔ قرآن مجید کے اولین مترجم ہونے کے ناطے قرآنی تراجم اور موضوعاتِ قرآنی پر تحقیق کرنے والوں کو شاہ رفیع الدین کی قرآنی خدمات پر مزید تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
حوالے :
۱۔ عبدالحئی حسنی، نزہتہ الخواطر،ج ۷،ص۔۱۸۲
۲۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ،جلد ۱۰،ص۔۳۱۸
۳۔ محمد عارف اعظمی: تذکرہ مفسرین ہند،ص۔۱۹۳، دار المصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ، انڈیا
۴۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ، جلد ۱۰،ص۔۳۱۹
۵۔ بحوالہ محمد عارف اعظمی: تذکرہ مفسرین ہند، ص، ۱۹۳،دار المصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ، انڈیا
۶۔ ایضاً
۷۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ،جلد ۱۰،ص۔۳۱۹
۸۔ عبدالحئی حسنی ،نزہتہ الخواطر،ج ۷،ص۔۱۸۳، مشمولہ تذکیرہ مفسرین ،ص۔۱۹۲
۹۔ ایضاً،ص، ۔۱۸۳
۱۰۔ ایضاً ،ص۔۱۸۳، مشمولہ تذکیرہ مفسرین ،ص۔۱۹۲
۱۱۔ مولانا عبید اللہ سندھی: شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک ،ص۔ ۱۲۱، کتاب خانہ پنجاب، لاہور ۱۹۴۲ء
۱۲۔ حبیب اللہ قاضی: برصغیر پاک وہند میں قرآن فہمی اور تفسیر خدمات کا علمی وتنقیدی جائزہ،ص۔۱۶۲
۱۳۔ محمد عارف اعظمی: تذکرہ مفسرین ہند، ص۔۱۹۳
۱۴۔ مولانا اخلاق حسین قاسمی: مستند موضح قرآن،ص۔۲۶،ایچ۔ایم سعید کمپنی،کراچی،۱۹۹۵
***

قرآن مجید کے اولین مترجم ہونے کے ناطے قرآنی تراجم اور موضوعاتِ قرآنی پر تحقیق کرنے والوں کو شاہ رفیع الدین کی قرآنی خدمات پر مزید تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 7 فروری تا 13 فروری 2021