مغرب اور اسلام میں کشمکش ،نبوتَ محمدیؐ فیصلہ کن مسئلہ‌

اہلِ یورپ اسلام اور مسلمانوں سے خائف ۔دنیا کی قیادت کے لیے مغربی تہذیب کا واحد حریف اسلام

خرام مرادؒ

 

آج جب کہ مغرب مسلسل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف طبل جنگ بجا رہا ہے اور دنیا کو مستقبل میں اسلام اور مغرب کے درمیان ایک زبردست تہذیبی معرکہ برپا ہونے کی خبر دے رہا ہے۔ ساتھ ہی وہ اپنی طرف سے اس جنگ کے لیے پوری تیاریاں بھی کررہا ہے اور جو کچھ پیش قدمی اس وقت کرنا ممکن ہے وہ بھی کر رہا ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ سمجھنا بڑا ضروری ہے کہ وہ اصل مسئلہ کیا ہے جس کے گرد یہ تہذیبی جنگ لڑی جارہی ہے اور اس جنگ میں فیصلہ کن حیثیت کس ایشو اور کس مسئلے کو حاصل ہے؟
کشمکش کا محرک
شاید کم ہی لوگ ہوں گے جنہیں اس بات کا ادراک ہو یا جو اسے آسانی سے تسلیم کرلیں‘ لیکن ہمیں اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ اصل اور فیصلہ کن ایشو اور مسئلہ رسالت محمد ﷺ کی صداقت کا ایشو اور مسئلہ ہے۔
کیا محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں؟
غار حرا میں پہلی وحی آنے کے بعد، روز اول سے یہی سوال نزاع وجدل کا اصل موضوع تھا اور آج بھی یہی ہے۔ اس وقت ہی انسان اسی بات کے ماننے اور نہ ماننے پر دو کیمپوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور ان کے جواب نے قوموں کے مقدر اور تاریخ و تہذیب کے رخ کا فیصلہ کردیا تھا، آج بھی اسی سوال پر مستقبل کا مدار ہے۔ یہ کشمکش تو ازلی و ابدی ہے:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی
مغرب کے معاشی، سیاسی اور تزویراتی مفادات کا مسئلہ بھی یقیناً اہم ہے، تیل کے چشمے بھی اہم ہیں۔ اسی لیے مغربی قیادت نے عالمِ اسلام کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھونپا ہے، مسلمان حکمرانوں کو اپنا باج گزار بنا لیا ہے اور شرق اوسط میں فوجی اڈوں کا جال بچھا لیا ہے۔ مسلمان ملکوں کو کمزور اور بے طاقت کر رہا ہے یا جن سے سرتابی کا شبہ ہے ان کے گلے میں پھندا کس رہا ہے۔ لیکن مفادات کے تنازعات تو امریکا، یورپ، جاپان، چین اور روس کے درمیان بھی ہیں، ان کی بنا پر ان کے درمیان مستقل دشمنی اور ایک دوسرے کی بربادی کے مشورے اور منصوبے نہیں۔ دراصل مسئلہ مفادات کا نہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ مفادات ان لوگوں اور علاقوں میں واقع ہیں جو محمد ﷺ کے نام لیوا ہیں، اور آپ کے دین کے لیے مرنے کو زندگی سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں۔
تہذیبی ایشوز کا معاملہ بھی بہت اہم ہے۔ اسی لیے انسانی حقوق کی دہائی ہے، عورتوں کے مقام، ان کی خود اختیاری (Empowerment) اور آزادی (Liberation) پر اصرار ہے، اسلامی قوانین اور حدود کے خلاف دباؤ ہے اور جمہوریت دشمن ہونے کا الزام ہے۔ لیکن دنیا میں بڑی بڑی آبادیاں اور بھی ہیں جو مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ ان ساری مزعومہ تہذیبی اقدار کی خلاف ورزی کی مجرم ہیں اور ان ‘تحائف، کی مستحق۔
ظاہر ہے کہ اصل لڑائی ان تہذیبی ایشوز پر بھی نہیں، بلکہ یہ ایشوز تو اس تہذیب کی بربادی کے لیے لاٹھی کا کام کررہے ہیں، جس کی تشکیل و ترکیب اور ترتیب و تکوین، رسالت محمد ﷺ کے دم سے ہے۔
مغرب کو اچھی طرح معلوم ہے، مسلمان آج اتنے کمزور ہیں کہ سیاسی، معاشی اور فوجی لحاظ سے کسی طرح بھی وہ ان کا عشر عشیر بھی نہیں۔ اہل مغرب کو یہ بھی معلوم ہے کہ اگر مسلمان اپنے نظام معاشرت و سیاست اور جرم و سزا کی تشکیل اسلام کے مطابق کریں، حجاب اختیار کریں یا حدیں نافذ کریں، تو بھی مغربی تہذیب کو کوئی گزند نہیں پہنچتا۔ لیکن وہ اس بات کی مسلسل رٹ لگائے جارہا ہے: ’’اسلام کا احیا اور مسلمان ‘‘ (اس کے الفاظ میں فنڈا منٹلزم یا بنیاد پرستی) ’’دراصل مغرب کی تہذیب، اس کے طرز زندگی، اس کی اقدار اور اس کی آج تک کی حاصل کردہ تہذیبی ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے‘‘ ایسا کیوں ہے؟ رسالت محمدی ﷺ کی وجہ سے!
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے یدِ بیضا ہے پیران حرم کی آستیں
عصرِ حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں
الحذر آئین پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفریں
عام مسلمان اگر تہذیبی جنگ کی اس حقیقت سے بے خبر ہیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ جو احیائے اسلام کے علم بردار ہیں وہ بھی اس حقیقت کا پورا ادراک اور احساس نہیں رکھتے۔ اسی لیے رسالت محمدی ﷺ کا ان کے ایجنڈے پر وہ مقام نہیں، جو ہونا چاہیے۔ حالاں کہ تہذیبی جنگ، دل اور زندگی جیتنے کی جنگ ہے۔ دل پہلے بھی خاتم الانبیا محمد ﷺ کی محبت سے مجتمع اور توانا ہوئے تھے، آج بھی اسی محبت سے ایمان، اتحاد اور قوتِ عمل سے سرشار ہوں گے۔ اس کے باوجود رسالت محمدی ﷺ کے لیے انسانوں کے دل اور ان کی زندگیاں مسخر کرنے کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے، افسوس صد افسوس کہ وہ نہیں کیا جارہا۔ یہی کچھ کرنے کا احساس اور جذبہ و فکر پیدا کرنا آج ملت اسلامیہ کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
اس تصادم کا تاریخی سفر
رسالت محمدی ﷺ کےخلاف یورپ کی یہ جنگ کوئی نئی جنگ نہیں ہے۔جب سے اسلام اور عیسائیت کا آمنا سامنا ہواہے، اس وقت سے عیسائیت اور یورپ نے اسلام کے خلاف اپنی جنگ کا مرکز و ہدف ذات محمدی ﷺ اور رسالت محمدی ﷺ کو بنایا ہے۔ محمد ﷺ کے نام لیوا اچانک صحرائے عرب سے نمودار ہوئے اور پلک جھپکتے میں انہوں نے شام، فلسطین، مصر، لیبیا، تیونس اور الجیریا جو عیسائیت کے گڑھ تھے کی زمام کار سنبھال لی۔ نہ صرف انہیں اپنے انتظام میں لیا بلکہ آبادیوں کی آبادیاں بہ رضا ورغبت، رسالت محمدی ﷺ کی تابع بن گئیں۔ یہی نہیں، ہزار سال تک اس کا سورج نصف النہار پر چمکتا رہا اور مسیحی پادریوں کی ہزار بددعاؤں، خواہشوں اور ان کے حکمرانوں کی عملی کوششوں کے باوجود وہ ڈھلنے پر نہ آیا۔
وہ متحیر، شکست خوردہ اور غیظ و غضب کا شکار تھے۔ مزید غصے کی بات یہ تھی کہ ان کی کرسٹالوجی (سیدنا مسیح علیہ السلام کی ابنیت / ولدیت اور مصلوبیت) اور شریعت کی عدم پابندی کے علاوہ دین اسلام میں کوئی چیز ان کی عیسائیت سےخاص مختلف نہ تھی، بلکہ دونوں میں بڑی یکسانیت تھی۔ وہ حیران و ششدر تھے کہ اس غیر معمولی واقعے کی توجیہ کیا اور کیسے کریں؟ اس کا مقابلہ کیسے کریں؟ عیسائیوں کو مسلمان بننے سے کیسے روکیں؟
ان کو یہی نظر آیا کہ اس سارے فتنے (نعوذ باللہ) کی جڑ، اور ان کی ساری مصیبت کا سبب، محمد ﷺ کی رسالت ہے۔ مسلمانوں کی قوت و شکست کا راز حضور ﷺ پر ایمان و یقین اور آپ کی ذات سے والہانہ محبت اور وابستگی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنا سارا زور یہ بات ثابت کرنے پر لگا دیا کہ :(نعوذ باللہ) حضور ﷺ کا دعوائے رسالت درست نہیں تھا اور قرآن آپ ﷺ کی تصنیف کردہ کتاب ہے، وہ بھی عیسائیوں اور یہودیوں سے مانگ تانگ کر اور مدد لے کر، اور اپنے مضامین و اسلوب اور بے ربطی وتکرار کی وجہ سےکلام الٰہی کہلانے کی مستحق نہیں۔ یا کوئی سنجیدہ، علمی مہم بھی نہ تھی۔ مغرب کا دورِ ظلمت (Dark Age) ہو یا ازمنہ وسطی (Medieval Ages) یا روشن خیالی (Enlightenment) ان کے ہاں اس مقصد کے لیے حضور ﷺ کے کردار پر انتہائی رکیک الزمات گھڑے گئے اور غلیظ الزامات لگائے گئے۔ آپ کی زندگی کے ہرواقعے کو بدترین معنی پہنائے گئے اور اسے مسخ کر کے پیش کیا گیا۔ یہ الزام لگایا گیا کہ تلوار، خون ریزی اور قتل و غارت کے ذریعے اور لوٹ مار اور دنیاوی لذائذ سے لطف اندوزی کی کھلی چھوٹ کا لالچ دے کر آپ ﷺ نے اپنے گرد پیروکار جمع کیے اور ان کے ذریعے دنیا کو فتح کیا۔ یہ سب کچھ کہنے اور لکھنے کے لیے اہلِ مغرب کی جانب سے زبان بھی انتہائی غلیظ استعمال کی گئی۔ اتنی غلیظ کی اس کا نقل کرنا بھی ممکن نہیں۔ ہم نے اُوپر جو کچھ لکھا ہے، یا آگے نقل کریں گے، وہ دل پر انتہائی جبر کر کے، اس لیے کہ نقلِ کفر کفر نہ باشد۔ انہیں نقل کرتے ہوئے ہمارا قلم کانپتا اور روح لرزہ براندام ہوتی ہے، مگر صرف اس لیے یہ جسارت کرر ہے ہیں کہ مسئلے کو سمجھنا ممکن ہو اور خود قرآن نے بھی مخالفین کے الزامات نقل کیے ہیں۔
سینٹ جان آف دمشق (م۷۵۳) حضرت عمر بن عبد العزیزؒ [م ۷۲۰] سے قبل اموی دربار میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھا اور اسلام سے ناواقف نہیں تھا۔ وہ الزام تراشی کرتے ہوئے لکھتا ہے:بنی اسماعیل کی اولاد میں محمد (ﷺ) کے نام سے [معاذ اللہ] جھوٹے نبی نمودار ہوئے۔ وہ تورات و انجیل سے واقف تھے۔ ایک عیسائی راہب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ ان کچی پکی معلومات کے بل پر انہوں نے عیسائیت کی ایک تحریف کردہ شکل وضع کر کے پیش کردی اور لوگوں سے تسلیم کرالیا کہ وہ خدا ترس انسان ہیں۔ پھر یہ افواہ پھیلا دی کہ ان پر آسمان سے کتابِ مقدس نازل ہو رہی ہے۔ عیسی (علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) کی طرح، وہ اپنی وحی کی صداقت پر کوئی گواہ پیش نہ کرسکے، نہ کوئی معجزہ (۱)۔
انہی خطوط پر، خلیفہ مامون کے ایک درباری (ابن اسحاق۔ م: ۸۷۰) نے عبد المسیح الکندی کا قلمی نام اختیار کرکے الرسالہ کے نام سے ایک فرضی مکالمہ لکھا، اور حضور اکرم ﷺ کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا ’’محمد کس طرح سچے نبی ہوسکتے ہیں، جب کہ انہوں نے خوں ریزی کی، اپنی نبوت کی تائید میں کوئی معجزات پیش نہ کیے۔ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے تو وہ کتابِ الٰہی کس طرح ہوسکتا ہے‘‘
سینٹ جان آف دمشق اور عبد المسیح الکندی کے الرسالہ نے بیسویں صدی کے آغاز تک محمد ﷺ کے بارے میں اہلِ یورپ کے رویے اور فکر کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ بارہویں صدی میں الرسالہ کا لاطینی ترجمہ اسپین میں شائع ہوا، پندرہویں صدی میں سوئٹزر لینڈ میں، یہاں تک کہ انیسویں صدی میں سر ولیم میور (م۱۹۰۵) نے اس کا انگریزی ترجمہ لندن سے شائع کرنا ضروری سمجھا۔ ایک ہزار سال کے اس طویل عرصے میں پادریوں اور یورپی دانش وروں نے رسالت محمدی ﷺ کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، وہ بنیادی طور پر مسیح الکندی اور سینٹ جان آف دمشق ہی کی اس یاوہ گوئی کو دہراتے رہتے ہیں:
۱۔ قرآن، یہودیوں اور عیسائیوں سے سیکھ کر وضع کیا گیا، متضاد اور الجھی ہوئی باتوں کا مجموعہ ہے۔
۲۔ اخلاقی الزامات
۳۔ سیاست دانوں اور حکمرانوں کی طرح موقع پرستی اور مکر وفریب کی کارروائیاں،، اعاذنا اللہ من ذالک ونشہد ان محمد عبدہ ورسولہ۔
ان چیزوں کو نقل کرنا، اس لیے ضروری تھا تاکہ یہ بتایا جاسکے کہ آج جب ایک طویل زمانہ گزر چکا ہے اور اب اہلِ مغرب کا مسلمانوں سے روز کا ربط ہے۔ اہلِ مغرب کے ہاں سائنٹیفک انداز فکر، علمیت اور غیر جانب داری کے نعرے بھی ہیں، بلکہ ہمدردانہ اور منصفانہ معاملے کے دعوے بھی لیکن اہلِ یورپ کی روش اور سوچ میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں میں پروفیسر منٹگمری واٹ، کینتھ کریگ اور ویٹی کن (اٹلی میں واقع رومن کیھتولک چرچ کا ہیڈ کوارٹر‘ جسے ۱۹۲۹ٗ سے ریاست کا درجہ حاصل ہے) کی سوچ اور روش میں بھی‘ جو ڈائیلاگ‘ مکالمے‘ فیاضی اور مراعات کی روش کے دعوے دار ہیں‘ ان کے ہاں تال اور سُر بدلے ہیں‘ مگر راگ وہی ہیں۔ بظاہر ان کے الفاظ مہذب‘ ہوگئے ہیں لیکن الزامات وہی ہیں‘ دشنام طرازی بھی وہی ہے‘ مگر ، تہذیب ‘ کے جامے میں ہے۔ زبان اور تعبیرات وہ ہیں جو آج کے زمانے میں قابلِ قبول ہوں‘ مگر تہہ میں بات وہی ہے۔ چنانچہ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہیں۔
اب ان توجیہات کی جگہ ایسے نفسیاتی‘ سماجی‘ معاشی اور سیادی عوامل نے لے لی ہے‘ جن سے جدید ذہن زیادہ آشنا ہے۔ مثلاً راڈنسن‘ سگمنڈ فرائڈ (م۱۹۳۹)کی رہنمائی میں‘ حضور ﷺ کی نفسیاتی تحلیل کرتا ہے۔ پروفیسر منٹگمری واٹ‘ سوشیالوجی (سماجیات) کے اوزار سے لیس، اس سرچشمے کا سراغ عرب کی ریگستانی اور بدویانہ زندگی میں ‘ جاہلیت کی خرابیوں میں‘ مکہ میں عیسائی اور یہودی تعلیمات و اثرات میں ‘ اور اہل عرب کی سیاسی ضرورت میں پاتا ہے۔ کینتھ کریگ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ’’ رسالت نے کہاں جنم لیا‘‘ اور خود جواب دیتا ہے’’: محمد( ﷺ) کی اس جستجو اور آرزو میں کہ عرب متحد ہوں اور اس یقین میں‘ کہ ایک کتاب الٰہی ہی‘ ایک عربی قرآن ہی‘ ان کو اتحادو تشخص دے سکتا ہے‘‘۔ یہ ایقان کیوں کر پیدا ہوا: ’’عیسائیوں اور یہودیوں کو دیکھ کر‘ کہ وہ بھی اہل کتاب تھے۔‘‘
پھر کوئی بھی ’ہمدردانہ‘ تحریر ایسی نہیں‘ جو (نعوذ باللہ) وحی الٰہی میں خارجی مداخلت ثابت کرنے کے لیے شیطانی ہفوات کے واقعے‘ سیاسی مفاد اور دنیا داری کے ثبوت کے لیے نخلہ کے واقعے (رجب ۲ ھ) خون آشامی کی شہادت کے طور پر بنو قریظہ کے قتل کے واقعے (شوال ۵ ہجری) اور اخلاقی سطح کو زیر بحث لانے کے لیے حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کے واقعے سے خالی ہو۔
جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے مخاطب تھے وہ ان کے سخت دشمن اور رسالت کے منکر تھے۔ جو آپ کے خلاف ہجو کہتے پھرتے تھے‘ وہ بھی اخلاق سے اتنے عاری نہ تھے کہ محمد ﷺ پر کوئی اخلاقی الزامات لگائیں۔ اگر چہ‘ جاہلیت عرب کا انکار‘ جاہلیت جدیدہ کے انکار رسالت سے کچھ بھی مختلف نہ تھا۔ وہی الزامات‘ وہی اعتراضات نعوذ باللہ : شاعر ہیں‘ جن آگئے ہیں‘ جادوگر ہیں‘ خود کلام گھڑتے ہیں‘ اور اسے اللہ کی طرف منسوب کردیتے ہیں وغیرہ۔
’’ایک جھوٹ ہے جو انہوں نے گھڑ لیا ہے‘ اور اس میں دوسرے لوگوں نے ان کی مدد کی ہے۔ یہ گزرے ہوئے لوگوں کے قصے ہیں جن کو انہوں نے لکھ لیا ہے‘ اور یہ ان کو صبح و شام لکھوائے جاتے ہیں‘‘۔
(النحل ۱۶: ۱۰۳)
کہتے ہیں کہ ان کو تو یہ سب کچھ ایک آدمی سکھاتا ہے‘ لیکن یہ جس کی طرف اشارہ کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اور یہ عربی مبین ہے۔ یورپ کی ہزار سالہ مخالفت پر نظر ڈالیں تو بے اختیار نگاہوں کے سامنے یہ تصویر نظر آتی ہے:
’’یوں ہی ہوتا رہا ہے‘ ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون۔ کیا ان سب نے آپس میں اس پر کوئی سمجھوتہ کر لیا ہے؟ نہیں‘ بلکہ یہ سب سرکش لوگ ہیں‘‘۔:(الذاریات:۵۱:۵۲،۵۳)۔
اس بات کو نارمن ڈینیل (Norman Daniel) نے یوں لکھا ہے:’’ ہم انتہائی غیر جانب دار اسکالر کی تحریر بھی پڑھیں ‘ تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ قدیم عیسائیت نے (اسلام اور محمد) کے بارے میں کیا انداز فکر و گفتگو اختیار کیا تھا۔ وہ انداز ہمیشہ ہر اس مغربی ذہن کا لازمی جزو رہا ہے‘ اور آج بھی ہے‘ جو اس موضوع پر سوچتا اور بات کرتا ہے۔ (۲)
رسول اللہ ﷺ سے دشمنی کے اسباب
محمد رسول اللہ ﷺ ‘ قرآن مجید اور رسالت کے خلاف عیسائیت اور اہلِ مغرب کی اس شدید دشمنی کے اسباب کیا ہیں؟
چند تاریخی‘ سیاسی اور نفسیاتی اسباب کی طرف ہم اشارہ کرچکے ہیں۔ ان کی نظر میں‘ ان پر اسلام کی صورت میں جو تباہ کن آفت نازل ہوئی تھی‘ اس کی حیرت انگیز قوت و شوکت اور غلبے کا راز رسالت محمدی ﷺ پر ایمان اور حضور ﷺ کی ذات سے محبت و وابستگی میں مضمر تھا۔ اس سے مقابلے کا راستہ اس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا کہ قوت اور زندگی کے اس منبع کو ہی ختم کیا جائے۔ اس کو ختم کرنے کا طریقہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ حضور ﷺ کو نعوذ باللہ جھوٹا نبی‘ قرآن کو آپ کی خود ساختہ تصنیف اور آپ کے کردار کو غیر معیاری ثابت کیا جائے‘ خواہ اس جھوٹ کے لیے تہذیب و معقولیت کی ہر حد پھلانگنا پڑے۔
آج یہ بات کھلم کھلا تو نہیں کہی جارہی‘ لیکن اس کا واضح اعتراف موجود ہے۔ ہفت روزہ اکانومسٹ ‘ لندن نے لکھا ہے:
دنیا کی قیادت کے لیے مغربی تہذیب کا حریف ایک ہی ہوسکتا ہے وہ ہے اسلام۔ اس سے مغرب کا تصادم ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ اسلام ایک آئیڈیا ہے‘ آج کی دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد آئیڈیا۔ یہ آئیڈیا انسانی تجربے اور مشاہدے سے ماورا حق کے وجود پر یقین کا مدعی ہے! اس کے نزدیک ‘ یہ وہ حق ہے جو ۱۴ سو سال پہلے محمد (ﷺ) پر نازل ہوا ‘ اور قرآن کی صورت میں محفوظ و موجود ہے۔ ایک تہذیب کی قوت اور غلبے کے لیے ایسے الحق پر یقین کی قوت کے برابر کوئی قوت نہیں۔ اسی لیے اہلِ یورپ اسلام اور مسلمانوں سے خائف ہیں۔ انہیں خطرہ ہے کہ ایک نئی سرد جنگ آرہی ہے‘ جو غالباً،سرد‘ نہ رہے گی۔
اسی لیے آج بھی رسالت محمدی ، مغرب کے حملوں کا سب سے بڑا ہدف ہے۔ جہاں موقع ملے‘ ذات گرامی پر بھی گندگی ڈالنے سے اجتناب نہیں‘ لیکن اب یہ کام بالعموم مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے والے گنتی کے چند سلمان رشدی (بھارتی نژاد شاتم رسول( اور تسلیمہ نسرین (بنگالی نژاد دریدہ دہن) قسم کے لوگوں کے سپرد کردیا گیا ہے۔ اپنا اسلوب بدل گیا ہے۔
اب کچھ لوگ حضور ﷺ کو پیغمبر تسلیم کرنے کے دعوے دار ہیں‘ لیکن تورات کے اسرائیلی انبیاء کی طرح کا پیغمبر۔ کچھ لوگ وحی کی حقیقت اور نوعیت ہی کو مکالمہ اور مفاہمت کے نام پر بدلنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ کچھ سینٹ پال (م ۶۴ ( کی طرح کے ’’مصلح‘‘ کے ورود (از قسم ‘ مرزا غلام احمد قادیانی۔ م۱۹۰۸)کے متمنی ہیں جو اسلامی شریعت سے نجات دے۔کچھ چاہتے ہیں کہ قرآن کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے: ایک حصہ‘ عقائد و اخلاق کی تعلیم پر مبنی‘ اس کو کلام الٰہی مان لیا جائے۔ دوسرا حصہ، زندگی بسر کرنے کے ضوابط پر مشتمل ‘ ان کو حضور ﷺ کی تصنیف قرار دیا جائے‘ جو قابلِ تغیر وتبدل ہے۔ اسی ذیل میں کچھ دور اندیش‘ عناصر کسی دینی بحث میں نہیں پڑنا چاہتے‘ لیکن وہ انسانی حقوق‘ عورت کے مقام اور جمہوریت کے نام پر وہ چیزی دل و دماغ میں اتار رہے ہیں‘ اور امت محمدی کی زندگی اور عمل کو ایسے سانچے میں ڈھال رہے ہیں‘ جو رسالت پر ایمان اور ناقابل تغیر و تبدل حق پر یقین کو خود بخود بے معنی اور غیر مؤثر کرکے رکھ دے۔
ہفت روزہ اکانومسٹ ، لندن نے صحیح لفظوں میں اعتراف کیا ’’آج رسالت محمدی پر یقین و ایمان ہی مغربی تہذیب کے لیے واحد حریف اور سب سے بڑا خطرہ ہے‘ اور یہی ایمان مسلمانوں کے لیے بے پناہ قوت کا سرچشمہ ہے‘‘
۱۔ مغربی تہذیب اور جدیدیت ( Modernism) کی بنیاد یہ ہے ‘ کہ انسان اب بالغ ہو چکا ہے۔ کسی ماورائے انسان وجود یا ذریعے سے علم اور راہنمائی لینے کا محتاج نہیں۔ وہ مستغنی ہے‘ خصوصاً خدا اور وحی جیسے ان ذرائع و تصورات سے‘ جن کو اس نے اپنے عہد طفولیت میں اپنے سہارے اور تسلی کے لیے گھڑ لیا تھا۔ رسالت محمدی اس کے برعکس‘ یہ علم اور یقین بخشتی ہے کہ خالق کا وجود حقیقی ہے۔ وہ علوم کا رشتہ بھی اس کے نام سے جوڑتی ہے‘ زندگی کا بھی۔ وہی خالق حقیقی کھانا بھی کھلاتا ہے‘ شفا بھی بخشتا ہے‘ اختیار و قدرت بھی صرف اس کو حاصل ہے‘ زندگی بسر کرنے کا صحیح راستہ بھی وہی دکھاتا ہے۔ انسان ہر لحاظ سے اس کا محتاج‘ فقیر اور غلام و بندہ ہے۔
۲۔ مغربی تہذیب کے فلسفہ علم (Epistemology) کی بنیاد یہ ہے ‘ کہ علم کا ذریعہ صرف: انسانی حواس اور عقل ہے‘ تجربہ ومشاہدہ ہے‘ سائنسی طریقہ ہے مگر یہ سارا علم بھی ظنی ہے جو آج صحیح ہے وہ کل غلط ہوسکتا ہے‘ بلکہ غلط ثابت ہونے کا امکان زیادہ ہے کیونکہ وہ علم ہے ہی نہیں‘ ایک عقیدہ ہے۔ قطعی اور یقینی علم کے نام کی کوئی چیز دنیا میں پائی ہی نہیں جاتی‘ جو معیار حق ہو‘ جس کے آگے لوگ سر تسلیم خم کریں‘ جس کے لیے کوئی کسی سے مطالبہ کر سکے کہ اس کو مانو اور اس پر چلو۔ اس کے برعکس‘ رسالت محمدی اس شعور سے معمور کرتی ہے کہ علم یقینی کا وجود ہے اور اس کا سرچشمہ وحی الٰہی اور حضور ﷺ کی رسالت ہے۔ زبردستی کسی پر نہیں کی جاسکتی‘ لیکن جو مان لیں انہیں اس علم کے آگے سر تسلیم خم کرنا چاہیے‘ جہاں اختیار ہو‘ وہاں اس علم کے مطابق چلنا اور چلانا چاہیے۔ مغرب نے حق اور باطل کے الفاظ کو متروک بنا دیا ہے‘ اور ان کا استعمال تہذیب و فیشن کے خلاف۔ رسالت محمدی کے ماننے والوں کے لیے یہ الفاظ آج بھی سچائی اور زندگی سے بھر پور ہیں‘ اور ہمیشہ رہیں گے۔
۳۔ مغرب کے نزدیک اخلاق و اقدار ہوں یا قوانین و ضوابط‘ ہر چیز مفید ہے یا مضر‘ جیسا اپنا اپنا احساس اور نقطہ نظر ہو۔ حقیقت کا انحصار دیکھنے والوں کی پوزیشن پر ہے۔ چنانچہ ہر چیز اضافی (relative) طور پر صحیح یا غلط ہوتی ہے‘ کوئی چیز فی نفسہ حق اور باطل نہیں ہوسکتی۔ رسالت محمدی کے ماننے والوں کے نزدیک ان چیزوں کی جو حقیقت وحی نے طے کردی ہے‘ اسے کسی کی رائے پسند و ناپسند یا تجربے و دلیل سے بدلا نہیں جاسکتا:
لَامُبَدِّل لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ [الانعام : ۶: ۳۴]
اللّٰہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے۔
۴۔ مغربی تہذیب کے نزدیکعلوم غیبی ،اللہ فرشتے‘ وحی‘ زندگی بعد موت کے نام کی کوئی چیز کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ اس کے برعکس رسالت محمدی کے ماننے والوں کے نزدیک‘ زندگی کے معنی و مقصد اور انسان کی حقیقت کا علم صرف علوم غیبی ہی سے ہوسکتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ حقائق، جن کی تعلیم رسالت محمدی نے دی ہے جیتے جاگتے حقائق ہیں:
یُؤمِنُونَ بِالغَیبِ [البقرہ: ۲:۳] وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔
۵۔ دنیا اور دنیا کی زندگی سے رسالت محمدی کے ماننے والوں کو اتنی ہی گہری اور بھرپور دل چسپی ہے جتنی اہلِ مغرب کو۔ لیکن مغرب کی دل چسپی کا ہدف یہیں دنیا میں انسان کی خوشی‘ راحت‘ لذت اور زندگی کی کیفیت و معیار ہے‘ کہ وہی مقصود ہیں۔ اس کے برعکس ‘ رسالت محمدی کے ماننے والوں کی دل چسپی دنیا میں اہلِ دنیا کی بھلائی اور آخرت میں اپنی بھلائی کے لیے ہے۔ اس کے نتیجے میں دو بالکل مختلف قسم کی شخصیتیں اور معاشرے وجود میں آتے ہیں:
لَا یَستَوِیٓ اَصحٰبُ النَّارِ وَاَصحٰبُ الجنَّۃِ [الحشر: ۵۹: ۲۰]
دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں ہوسکتے۔
رسالت پر ایمان کا ایجنڈا
آج کے تہذیبی معرکے میں رسالت محمدی کے مسئلے کو جو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے‘ اس کا پورا ادراک ان سب کو ہونا چاہیے جو دین سے محبت رکھتے ہیں‘ جو غلبہ دین کی تمنا رکھتے ہیں یا اس کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس ادراک کی روشنی میں انہیں اپنی ترجیحات پر بھی نظر ڈالنا چاہیے‘ اور حکمت عملی پر بھی۔ اسلیے:
۱۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ‘ہمارا یہ زمانہ اگرچہ عہد نبوی ﷺ سے ۱۴ صدیوں کے فاصلے پر ہے‘ اور ہم جن تمدنی حالات میں اسلامی زندگی اور اس کے غلبے کے لیے کوشاں ہیں‘ وہ اس عہد سے بہت مختلف ہیں‘ لیکن یہ ہے اسی عہد نبوی کا حصہ اور تسلسل۔ کیوں کہ نبی کریم ﷺ کسی قوم کی طرف نہیں‘ ساری انسانیت کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں‘ اور آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے‘ اس لیے آپ ہماری اکیسویں صدی کے لیے بھی اسی طرح رسول ہیں جس طرح چھٹی صدی کے لیے تھے‘ اور آج کے سارے انسان اسی طرح آپ کی ”قوم“ ہیں اور آپ کے مخاطب ‘ جس طرح اس وقت کے اہلِ عرب اور ساری دنیا والے تھے۔ اس سیدھی سی بات کے دُور رس مضمرات ہیں۔ چنانچہ آج کے زمانے اور لوگوں تک آپ کی رسالت کی دعوت اس طرح پہنچنا اور پہنچانا ان کا حق ہے جس طرح آپ نے پہنچائی تھی۔
۲۔ یہ سمجھا ضروری ہے کہ بحیثیت رسول اللہ آپ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ کیوں کہ آپ کی لائی ہوئی کتاب موجود ہے‘ آپ کی سیرت اور اسوہ موجود ہے‘ آپ کا دین موجود ہے‘ اور امانتوں کی حامل‘ آپ کی اُمت موجود ہے گویا اپنی رسالت کی طرف دعوت دینے کا جو مشن بہ حیثیت رسول آپ نے ادا کیا‘ اب اسے ادا کرنے کے لیے اُمت ذمہ دار ہے۔
۳۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ رسول کی موجودگی میں دعوت اور اسلام و جاہلیت کے درمیان جو تہذیبی کشمکش برپا ہوتی ہے‘ اس میں رسالت کی طرف دعوت کو اوّلین اور فیصلہ کن مقام حاسل ہوتا ہے۔ درجے کے لحاظ سے‘ ایمان بالرسالت کی حیثیت اولین اور فیصلہ کن ہے۔ انسان‘ محمد ﷺ کو اللہ کا رسول مانتا ہے‘ تب ہی وہ اللہ اور ہر دوسری چیز تک پہنچتا ہے۔ ایمان باللہ‘ وہی حق اور معتبر ہے جس کی تعلیم حضور ﷺ نے دی‘ اور اس لیے ہے کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ قرآن اسی لیے بلاشک و شبہ کلامِ الٰہی ہے کہ رسالت محمدی ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ حلال و حرام‘ واجبات و منہیات اور عذاب و ثواب کے لیے کوئی عقلی یا تجربی دلیل، سند ناطق نہیں سوائے حکم نبوی کے۔ پھر عمل کے لحاظ سے تو ایمان اتباع رسالت‘ عین اطاعتِ الٰہی اور قربِ الٰہی کے مترادف ہے:
مَن یُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَد اَطَاعَ اللّٰہَ [النساٗ ۴: ۸۰]
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی۔
قُل اِن کُنتُم تُحِبُّونَ اللہَ فَاتَّبِعُونِی یُحبِبکُمُ اللّٰہُ [اٰل عمران: ۳:۳۱]
اے نبی لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔
۴۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دعوت و جہاد میں رسالت کی طرف دعوت کو یہی مقام حاصل ہو۔ اس کے بغیر اللہ کا اقرار بھی کوئی معنی نہیں رکھتا‘ کُجا کہ جمہوریت اور انسانی حقوق جیسی سماجی اقدار پر اتفاق و اقرار۔ ورنہ یہودی توحید الٰہی کا عقیدہ رکھتے تھے‘ عیسائیوں کو موحد ہونے کا دعویٰ تھا‘ اور ان کی عبادات و اخلاقی فضائل کی تعریف خود قرآن نے فرمائی ہے۔ مگر وہ مغضوب اور ضال ٹھیرے کہ ایمان بالرسالت سے انکاری تھے۔
۵۔ یہ سمجھا ضروری ہے کہ ایمان بالرسالت اس معنی میں بھی فیصلہ کن ہے کہ اللہ کی طرف سے نصرت‘ نجات اور غلبے کا وعدہ‘ ان لوگوں سے ہے جو رسول مبعوث پر حقیقی معنوں میں ایمان لائیں‘ تن من دھن سے اس کے پیچھے چلیں‘ اور اس کے مددگار بنیں:
وَلَقَد سَبَقَت کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنا المُرسَلِینَ ۝ اِنَّہُم لَہُمُ المَنصُورُونَ ۝ وَاِنَّ جُندَنَا لَہُمُ الغٰلِبُونَ ۝[الصافات: ۳۷: ۱۷۱،۱۷۳]
اپنے بھیجے ہوئے بندوں سے ہم پہلے ہی وعدہ کر چکے ہیں کہ یقیناً ان کی مدد کی جائے گی اور ہمارا لشکر ہی غالب ہو کر رہے گا۔
۶۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ازل سے جو معرکہ چراغ مصطفوی اور شرار بو لہبی کے درمیا برپا ہے اور جو آج اسلام اور مغرب کے درمیان تہذیبی جنگ کی صورت اختیار کر رہا ہے وہ دراصل انسانوں کے دل اور زندگیاں جیتنے کا معرکہ ہے۔ دل فتح ہوں گے تو غلبہ دین حاصل ہوگا۔ قوت سے زمین فتح ہوسکتی ہے‘ اموال فتح ہوسکتے ہیں‘ سیاسی اقتدار پر قبضہ ہو سکتا ہے‘ مگر زندگیاں فتح نہیں ہوسکتیں اور دلوں پر قبضہ نہیں ہوسکتا۔ دلیل سے موافقت اور حمایت حاصل ہوسکتی ہے‘ مگر یکسوئی‘ لگن اور جاں بازی اور سرفروشی نہیں۔ دل جیتنے کا راستہ صرف ایک ہے۔ لوگ رسالت محمدی کی صداقت پر ایمان لے آئیں‘ آپ کے ہاتھ میں اپنے ہاتھ دے دیں‘ اپنے دل آپ کی محبت سے بھر لیں‘ آپ کی اطاعت و محبت اور آپ پر اعتماد و یقین سے سرشار ہو کر آپ کے پیچھے پیچھے چل پڑیں۔ پہلے بھی لوگ اور دل اسی طرح فتح ہوئے تھے‘ تہذیبی جنگ اسی طرح جیتی گئی تھی‘ آج بھی اسی طرح فتح ہوگی‘ اور اسی طرح جنگ جیتی جاسکے گی۔
۷۔ اس بات کو سمجھنا بڑا اہم ہے۔ یقیناً ہمیں اسلام کی حقانیت اور برتری ثابت کرنا چاہیے‘ ہمیں بتانا چاہیے کہ سودی معیشت انسان کے لیے کتنی تباہ کن ہے‘ اسلام کے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی و خاندانی نظام میں کیا محاسن ہیں‘ اسلام کی خوبیاں کیا ہیں؟ لیکن ہمیں یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ان سب کاموں کی حیثیت زمین کو نرم و ہموار اور فضا کو سازگار بنانے کی سی ہے۔ لوگ یہ سب کچھ مان بھی لیں‘ لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کی صداقت پر ایمان نہ لائیں‘ تو تہذیبی جنگ میں کامیابی کی راہ ہموار نہ ہوگی۔ کتنے لوگ ہیں جو اسلام کی تعریف کرتے ہیں‘ اس کے آرٹ اور فنِ تعمیر کی داد دیتے ہیں‘ اس کی روحانیت اور تصوف کے ثنا خواں ہیں‘ لیکن وہ محمدﷺ کو اللہ کا رسول مان کر آپ کی اتباع کرنے کے لیے تیار نہیں اس لیے وہ رسالت کے مشن کے اعوان و انصار نہیں بن سکتے۔
۸۔ اسی طرح اگر ہم یہ ثابت بھی کردیں اور ہمیں یہ ثابت ضرور کرنا چاہیے‘ لیکن اس مشق کے محدود نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے کہ اسلام میں بھی جمہوریت ہے۔ اسلام دوسروں سے بڑھ کر حقوقِ انسانی کی ضمانت دیتا ہے۔ اسلام نے عورتوں کو وہ مقام دیا ہے جو آج تک مغرب نے بھی نہیں دیا ہے۔ اسلامی حدود ظالمانہ نہیں بلکہ منصفانہ اور زیادہ رحم دلانہ ہیں‘ تو اس سے بھی دلوں کے جیتنے کے امکانات روشن نہ ہوں گے۔ اس کے لیے عقلی اتفاق سے زیادہ محمد ﷺ پر اعتماد و محبت درکار ہے۔
چنانچہ سب سے بڑا کام یہ ہے کہ ہم دعوت الی الرسالت کو اپنے ایجنڈے پر سر فہرست مقام دیں۔
رسالت کی دعوت کا طریقہ
ہمارا مطلب یہ نہیں کہ ہم غیر مسلموں کے سامنے بے ڈھنگے طریقے سے‘ صرف یہ کہنا اور لکھنا شروع کردیں اور اسی کو اتمامِ حجت سمجھ بیٹھیں کہ محمد ﷺ سچے رسول تھے‘ ان پر ایمان لاؤ‘ یا کفر کے فتوے جاری کرنے شروع کردیں۔ نہیں‘ بلکہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ:اوّل: ہم ہر ممکن طریقے سے‘ تحریر وتقریر سے‘ جدید ذرائع ابلاغ سے‘ لوگوں کو آپ کی شخصیت کے بے مثال حسن‘ آپ کے خلقِ عظیم کے جمال‘ آپ کی رحمت ورافت و شفقت اور انسانیت کے عدیم المثال کردار سے آگاہ کریں‘ بار بار کریں‘ بہ کثرت کریں‘ نئے نئے اسلوب سے کریں‘ خصوصاً ان کے سامنے کریں‘ اور ان کی زبانوں میں کریں۔ وہ جو آپ کے سب سے بڑے دشمن تھے‘ اگر آپ سے چمٹ کر رہ گئے تو آپ کی نرمی اور محبت کی وجہ سے‘ دشمن آکر اگر آپ کے بے دام غلام بن گئے تو آپ کے اخلاق حسنہ کی وجہ سے۔
دوم:ہم وہ بھی جو داعیانِ حق ہیں‘ اور وہ بھی جو عام مسلمان ہیں اپنے برتاؤ‘ سلوک اور گفتگو کو جتنا محمد ﷺ کے اخلاق و کردارکا نمونہ بنا سکیں‘ بنائیں۔ محمد ﷺ کو دیکھنے کے لیے صرف کتابیں‘ تقریریں اور ویڈیوں نہ ہوں‘ بلکہ ہماری اپنی زندگیوں میں بھی لوگوں کو آپ کی کوئی نہ کوئی کرن اور جھلک نظر آسکے۔ ہمارے گھر‘ ہماری پبلک سرگرمیاں‘ ہماری مساجد‘ محمد ﷺ کی زندگی اور پیغام کا نور پھیلائیں‘ مسجدیں نہ ماننے والوں کا اسی طرح استقبال کریں جس طرح محمد ﷺ نے نجران اور ثقیف کے وفود کا خیر مقدم فرمایا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے‘ جب ہماری حالت کسی بھی درجے میں‘ اقبال کے اس شعر کی مصداق بن جائے:
نوائے او بہ ہر دل سازگار است
کہ در ہر سینہ قاشے از دل اوست
یعنی اس کی آواز ہر دل کے لیے ساز گار ہے۔ ہر سینے میں اس کے دل کا ایک ٹکڑا ہے۔
سوم: پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ہم محمد ﷺ کی تعلیمات‘ اخلاق حسنہ اور اسوہ حسنہ کو پیش کرنے کا ایسا اسلوب وضع کریں کہ دشمنوں نے آپ کے خلاف جو کچھ کہا ہے‘ بغیر مناظرہ بازی کے اس کا ازالہ ہوجائے ۔ بات کرنے والا اچھی طرح جانتا ہو کہ فساد کی جڑ کیا ہے‘ اور کسی بحث و نزاع کے بغیر وہ محمد ﷺ کی ذات اقدس کو اسی طرح متعارف کرائے کہ اس فساد کی جڑ خودبخود کٹ جائے۔
چہارم: محمد ﷺ کے دین اور پیغام کو عمل کا جامہ پہنانے کی جدوجہد تو بہرحال اصل کام ہے۔
محمد ﷺ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری کی جان ہے‘ اس اُمت میں سے جو میرے بارے میں سنے‘ یہودی ہو یا عیسائی‘ پھر وہ جو میں لایا ہوں اس پر ایمان لائے بغیر مر جائے‘ وہ آگ میں جائے گا‘
امام نوویؒ کہتے ہیں کہ اس امت سے مراد ایک داعی اُمت ہے‘ یعنی آپ کی رسالت سے لے کر قیامت تک تمام اہلِ زمین کے لیے۔ لیکن امام غزالی ؒ بڑی اہم بحث اٹھاتے ہیں: ،سننے‘ کا کیا مطلب ہے؟ کیا صرف کانوں سے نام سن لینا؟ __نہیں‘ وہ کہتے ہیں‘ اس سے محمد ﷺ کی زندگی اور پیغام کے بارے میں اس طرح سننا مراد ہے‘ جو دل و دماغ کے ماننے کے لیے ضروری ہے۔ ورنہ جن پر سنانے کی ذمہ داری ہے‘ وہ زیادہ آگ کے مستحق ہوسکتے ہیں۔ آج تو نہ ماننے والوں کی عظیم اکثریت نے محمد ﷺ کا نام ہی سنا ہے‘ سنا ہے تو سرسری طور پر یا مخالفانہ انداز میں۔ جن لوگوں کو کماحقہ‘ سنایا گیا ہے‘ وہ بھی برائے نام ہیں۔ پھر اربوں انسانوں کے اپنے رسول اور آخری رسول پر ایمان نہ لانے کے لیے مسئول‘ ذمہ دار اور جواب دہ کون ہے؟ کیا ہم نہیں؟
جس طرح محمد ﷺ نے ایک ایک ملک میں اپنے ایلچی بھیجے تھے‘ آج ایک ارب سے زائد مسلمان دنیا کے گوشے گوشے میں آپ کے ایلچی ہیں۔ ان کے ہاتھ میں آپ کا خط ہے۔ جس کو بھی اپنی اس پوزیشن اور ذمہ داری کا احساس ہوا‘ اسے تڑپ کر کھڑا ہوجانا چاہیے۔ سلیقے سے‘ حکمت سے‘ موعظہ حسنہ سے‘ انسانوں کو محمد ﷺ کے قریب لانا چاہیے۔ جتنا زور ہم آپ کا دین پیش کرنے پر لگاتے ہیں اتنا ہی اہتمام ہمیں آپ کی ذات‘ شخصیت‘ کردار‘ اسوہ حسنہ اور زندگی کو پیش کرنے پر لگانا چاہیے۔ جو سراج منیر سے جتنا قریب آئے گا‘ اس کا دل کھلا ہوگا‘ وہ محمد ﷺ کی روشنی اور حرارت میں سے حصہ پائے گا۔ جتنے لوگ محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان لاتے جائیں گے‘ اتنا ہی تہذیبی جنگ میں محمد ﷺ کے پیغام کی فتح کے امکانات بڑھتے جائیں گے۔ یہ ایک قرض ہے جو ہم سب پر ہے‘ اور ہم میں سے ہر ایک کو اسے ادا کرنے اور اپنا حصہ ڈالنے کے لیے آگے بڑھنا چاہیے۔(ترجمان ‘ مارچ ۲۰۰۶)
***

ہم ہر ممکن طریقے سے‘ تحریر وتقریر سے‘ جدید زرائع ابلاغ سے‘ لوگوں کو آپ ﷺ کی شخصیت کے بے مثال حسن‘ آپﷺ کے خلقِ عظیم کے جمال‘ آپ ﷺ کی رحمت ورافت و شفقت اور انسانیت کے عدیم المثال کردار سے آگاہ کریں‘ بار بار کریں‘ بہ کثرت کریں‘ نئے نئے اسلوب
سے کریں

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 تا 14 نومبر، 2020