مصری میڈیا اور اخوان کا بھوت

ڈاکٹر رضوان رفیقی، نئی دہلی

جن حکومتوں کے پاس اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے کارکردگی کی کوئی فہرست نہیں ہوتی، وہ ان  کو  دوسرے ایشوز اور امور میں الجھا دیتے ہی‏ں۔ ان کی ذہن سازی کے لیے سب سے مؤثر حربہ ان کے پاس میڈیا کا ہوتا ہے، جسے وہ منہ مانگی قیمت پر خرید لیتے ہیں۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب  حکومتیں بھی اس نسخۂ کیمیا کو استعمال کرتی ہیں اور توپوں اور بوٹوں کی طاقت سے مسند اقتدار پر قبضہ کرنے والی طاقتیں بھی۔

مصرمیں سیسی کی فوجی حکومت کے پاس عوام کو دکھانے کے لیے کوئی رپورٹ کارڈ نہیں ہے، جس پر وہ اعتماد کرسکیں، اس لیےاس نے میڈیا  کو اس مہم پر لگا دیا گیا کہ وہ اخوان المسلمون کی شبیہ عوام میں بگاڑ یں،  اور انھیں اہل مصرکے لیے ایک خطرناک دشمن کی حیثیت سے پیش کریں۔ سیسی نے اپنے پیش رو ڈکٹیٹروں: جمال عبد الناصر اور انورسادات کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اخوان کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا  اور انھیں دین و ملت کا دشمن قرار دیا۔ شیخ ازہر اور دارالافتا مصر کے ذریعے ان کو خوارج عصر قرار دیا۔ ان کے تار القاعدہ اور داعش سے جوڑنے کی کوشش کی اور الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر مسلسل ان کے خلاف پروپیگنڈا کرایا، اس کے نتیجے میں فوجی حکومت  عوام کے ذہنوں کو ان کے حقیقی  مسائل سے ہٹانے میں کسی حد تک کامیاب ہوئی اور مصری ٹی وی چینلس پر وہاں کے سیاسی و معاشی مسائل پر گفتگو کا دورانیہ دھیرے دھیرے سکڑتے ہوئے ختم ہوگیا ‏اور دوسرے غیر ضروری موضوعات پرائم ٹائم کا حصہ بنتے گئے‏۔

فوجی انقلاب کے بعد اگر مصرکے مشہور ٹی وی چینلس اور اخبارات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ فوجی بوٹوں کی آہٹ  نیوز روم اور اخبارات کے دفاتر میں سنی جاسکتی ہے- اسی لیے  مشہور و  معروف  اینکر و کالم نویس ایسی مضحکہ خیز غلطیا ں کرجاتے ہیں، جن کا صدور عام حالات میں ان سے نہیں ہو سکتا۔ اب تو تمام ناکامیوں کا ٹھیکرا اخوان کے سر پھوڑنے کا چلن عام ہو چکا ہے‏۔

جولائی 2013 میں صدر مرسی کا تختہ پلٹنے کے  بعد، جب کہ مصری شاہ راہیں مظاہرین سے بھری ہوئی تھیں  اور تمام اہم شہروں میں مصری عوام اپنے جمہوری حقوق کے دفاع میں سینہ سپر تھے، ایک مشہور ٹی وی اینکر محمد الغیطی نےایک سرکاری ٹی وی پر  پورے وثوق کے ساتھ یہ انکشاف کیا کہ "اخوان المسلمون کے ممبران  پانچ سو سال پہلے سقوطِ اندلس میں شامل تھے اور اب یہی لوگ اکیسویں صدی میں  امت مسلمہ کو تنزل کی گہری کھائی میں ڈھکیلنا چاہتے ہیں‏۔” یہ بیان دیتے ہوئےوہ ملت اسلامیہ کی تاریخ سے اپنی نا واقفیت اور جہالت کی سند فراہم کررہے تھے، مگر اخوان کی دشمنی میں وہ اتنے اندھے ہو چکے ہوتے تھے کہ انھیں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا اور وہ یہ بھول گئے تھے کہ 526 ہجری میں سقوطِ اندلس کے وقت اخوان المسلمون کا نام ونشان تک نہ تھا‏۔ ابھی تو ان کے قیام پر ایک صدی کا عرصہ بھی نہیں گزرا ہے، پھر وہ کیوں کر سقوطِ اندلس کے مجرم ٹھہرے‏۔

اپریل 2015 میں تقریباً 500 ٹن فاسفورس مصر کے جنوبی شہر قنا کے مقام پر دریائے نیل میں غلطی سے انڈیل دیا گیا، جس سے  پورا پانی زہر آلو د ہوگیا‏۔ اس پانی کو شہر کے تمام  لوگ اپنی روزمرّہ کی ضروریات کے لیے استعمال کرتے تھے‏۔ مجبور ہو کر سڑکوں پر اترےاور سیسی کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرنے لگے‏۔ معاملے کی سنگینی سے برسرِ اقتدار حکمرانوں کی پیشانی پر بَل آنا فطری تھا۔ انھوں نے  نہایت چالاکی سے پورے معاملے کا رخ اخوان المسلمون کی طرف موڑ دیا، چناں چہ  ٹی وی چینلس پر اخوان کے خلاف محاذ کھول دیا گیا اورایک ایک ‏گھنٹے کے اپیسوڈ نشر کیے گئے‏۔ ایک ڈبییٹ میں مصری  عالم دین اور اسلامی امور کے وزیر مختار جمعہ نے براہ راست  اخوان المسلمون پراس حکومتی لاپروائی کا ٹھیکرا پھوڑا اور انھیں مصر میں بجلی کی قلت اور گیس کی کمی کا مورد الزام ٹھہرایا۔ اپنی بات کو مدلل بنانے کے لیے انھوں نے اخوان کے ساتھ ترکی اور قطر کو بھی مصری معیشت کی بدحالی کا براہ راست ملزم گردانا‏۔

پچھلے سال 15مارچ کو نیوزی لینڈ میں ایک عیسائی دہشت گرد کے ہاتھوں پچاس سے زائد نمازی شہید ہوئےاور تقریباً  اتنی ہی تعداد میں زخمی بھی ہوئے‏۔ اٹھائیس سالہ برنٹن ٹارانت (Brenton Tarrant) نامی آسٹریلوی باشندہ، جو انتہا پسند نظریات کا حامل تھا، بعد میں پکڑا گیا اوراسے  عدالت میں پیش کیا گیا‏۔ لیکن مصری میڈیا اس انسانی المیے کو بھی اخوان کے خلاف استعمال کرنے میں پیچھے نہیں رہا‏۔ مصری سرکاری چینل کی اینکر نے خفیہ ایجنسی کے سابق ڈائرکٹر کرنل نصر سالم سے استفسار کیا کہ کیا اس قتل عام کے پیچھے اخوان المسلمون کا ہاتھ ہے؟ نصر سالم نے  انتہائی ڈھٹائی سے جواب دیا "بے شک اخوان ان نمازیوں کے قتل عام میں شامل ہیں، داعش اور اخوان المسلمون کے لوگ ایک ہی فکر کے حامل ہیں، دونوں میں کوئی فرق نہیں، مرسی بھی اسی دہشت گرد تنظیم کا ممبرتھا، جس نے مصر کو تاریکی کے دور میں دھکیل دیا تھا‏۔” نصر سالم نے ایک دوسرے انٹریو میں اس  بات کا بھی انکشاف کیا کہ برنٹن ٹارانت کسی نہ کسی صورت میں اخوان سے منسلک رہا ہوگا اور اخوان نے اس مہم کے لیے اس کو تیا ر کیا ہوگا‏۔ ایک دوسرے مصری سرکاری اہلکار نے دور کی کوڑی لاتے ہوئے پورے اطمینان سے سوشل میڈیا میں اپنی رائے رکھی کہ کرسٹ چرچ میں مسجد کی تعمیر اور دعوتی سرگرمیوں کا آغاز فلسطین اور مصر کے اخوان نے کیاتھا، جس کی وجہ سے وہاں کے مقامی باشندوں میں ردِّعمل کا رجحان پیدا ہوا، اگر یہ لوگ وہاں پر اسلام کی دعوت نہ دیتے تو نہ ہی ان کے اندر اسلام کے ردِّعمل کی تحریک پیدا ہوتی نہ اتنے سارے لوگوں کو اپنی جان سے ہاتھ د‏ھونا پڑتا‏۔

2016 کے اوائل میں دریائے نیل میں اسکندریہ کے مقام پر یکایک مگرمچھوں کا  ایک غول سطح آب پر نظر آنے لگا‏۔ یہ منظر سوشل میڈیا میں گردش کرنے لگا تو خفيہ ایجنسیوں کی پروردہ Egypt Defence Front  کی جانب سے ایک پٹیشن اٹارنی جنرل نبیل صادق کے پاس دائر کی گئی، جس میں  اخوان کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع کو اس "کارستانی ” کا ملزم قرارد یا گیا اور کہا گیا کہ ان کی ایما پر اخوان نے دریائے نیل میں مگرمچھ ڈال دیے ہیں، تاکہ جنرل سیسی کے ذریعے مصر کو ایک فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کے خواب کو شرمندۂ تعبیر ہونے سے روکا جاسکے‏۔ فرنٹ کے وکیل عبد المجید جابر نے یہ دلیل دی کہ اگرچہ محمد بدیع 2013 کے اواخرسے جیل میں ہیں، لیکن وہ جیل سے ہی پیغام رسانی کا کام انجام دیتے ہیں اور دریائے نیل کے کنارے رہنے والے زیادہ تر مچھوارے اور کاشت کار اخوان سے منسلک ہیں‏۔ اس لیے ان کی ایما پر انھی مچھواروں نے مگرمچھوں کو  دریائے نیل میں ڈالا ہے ‏۔

6 نومبر 2016 کو مصری وزارت داخلہ کا ایک سرکلر میڈیا کو موصول ہوا، جس پر ہاٹ ٹاک شروع کردیا گیا‏۔ اس سرکلر میں اس بات کا خلاصہ پیش کیا گیا تھا کہ ایجنسیوں نے اخوان سے منسلک ایک ایسے گروہ کا پردہ فاش کیا ہے جو اسکندریہ شہر میں پانی کی سپلائی کو کاٹنا چاہتاتھا‏۔ وہ لوگ پائپ میں سیمنٹ کا گھول ڈال رہے تھے۔ اتفاق سے اس جرم میں جن ستّرہ (17)افراد کو گرفتار کیا گیا ان میں سے زیاد ہ تر اسکندریہ کے میڈیکل کالج کے طلبا تھے، جن کا سول انجیئرنگ سے کوئی تعلق نہ تھا‏۔ لیکن اس ناکردہ گناہ کے پاداش میں ان طلبا کی تعلیم کا ایک سال برباد ہوگیا‏۔

10 جولائی 2019 کو مصری نیشنل پاپولیشن کمیشن کے ڈائرکٹر ڈاکٹر عمرو حسن نے الوطن اخبار کو انٹریودیتے ہوئے مصرمیں آبادی بڑھنے کی ذمّہ داری اخوان المسلمون اور مرسی حکومت کے یک سالہ دورانیہ پر ڈالی اور کہا کہ مرسی کے زمانے میں آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہواہے، کیوں کہ وہ آبادی کو کنٹرو ل کرنے کے عمل کو خلاف ِشریعت سمجھتے تھے اور لوگوں کو زیادہ بچّے پیدا کرنے پر ابھارتے تھے‏۔ مرسی کے ایک سالہ دور حکومت کا خمیازہ ابھی تک مصری قوم ادا کررہی ہےاور مصری معیشت کا پہیہ اب بھی پٹری پر نہیں آسکا ہے۔

حالیہ دنوں میں دیگر ممالک کی طرح مصر بھی کورونا کے وبائی مرض سے جوجھ رہا ہے‏۔ صحت کا ڈھانچہ مکمل طور سے متزلزل ہے، ٹیسٹنگ کٹس دستیاب نہیں ہیں، لہٰذا مریضوں کے ٹسٹ بھی برائے نام ہو رہے ہیں‏۔ سرکار ی اعداد وشمار پر اگر اعتماد کیاجائے، جس کی صداقت پر خود بعض مصری ادارے انگلی اٹھاتے ہیں، تو مؤرخہ 15 جون تک متاثرین کی تعداد صرف 38284 ہے، جن میں سے  1342 کی کورونا سے وفات ہوئی ہے‏۔ لیکن مصری وزارت صحت اس ناکامی کو بھی اخوان کے سر منڈھتی ہے اور کہتی ہے کہ اخوانی فکر سے متاثر ایک قابل لحاظ تعداد میں ڈاکٹروں نے اسپتالوں سے چھٹیاں لے لی ہیں، یا قبل ازوقت ریٹائرمنٹ لے لیا ہے، جس کی وجہ سے اسپتال ڈاکٹروں کی  قلّت کا سامنا کررہے ہیں‏۔ اس طریقے سے  اخوان، عوام اور حکومت کے درمیان خلیج بڑھانا چاہتے ہیں‏۔

مصری میڈیا میں اخوان المسلمون کی شبیہ کے تعلق سے جب ڈاکٹر صلاح عبد المقصود سابق وزیر اطلاعات (مرسی حکومت) سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک کی طرح مصر میں بھی میڈیا کسی نہ کسی کارپوریٹ گھرانے سے منسلک ہے اور ان کی پالیسیاں آزاد نہیں ہیں‏۔ مصری تاریخ میں  میڈیا سب سے زیادہ مرسی حکومت میں آزاد رہا ہے، چناں چہ اس نے اس آزادی کا ناجائز فائدہ بھی اٹھایا ہے‏۔ وہ میڈیا جسے صدر مرسی کے ہر فیصلے پر نقد وجرح کی آزادی حاصل تھی، اب اس کے اندر جنرل سیسی کے خلاف ایک لفظ بولنے کی ہمت نہیں ہے‏۔

اخوان کے خلاف اس منفی پروپیگنڈے پر ڈاکٹر صلاح کا کہناتھا کہ یہ پروپیگنڈہ صرف مصر تک محدود نہیں ہے، بلکہ بہت سی عرب ریاستیں، جن کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ اگر عوام میں اخوان کی اسی طرح مقبولیت رہی تو وہ دوبارہ برسرِاقتدار آجائیں گے اور اس سے ان کی حکومتوں پر عوام کا دباؤ بڑھے گا، انھوں نے بھی اخوان کو عوام میں ناقابل قبول بنانے کے لیے پوری قوت لگا دی ہے اور کئی میڈیا گھرانوں کو خرید لیا ہے ‏۔

"کیا مرسی حکومت میں میڈیا کی حد درجہ آزادی  صدر مرسی کی کمزوری تھی؟” اس سوال کا جواب سابق وزیر اطلاعا ت نے نفی میں دیا‏۔ انھوں نے کہا کہ صدر مرسی بڑی مضبوط شخصیت کے حامل تھے، البتہ وہ ہر ادارے کو ایک آزاد ادارہ کی حیثیت میں دیکھنا چاہتے تھے اسی لیے عوامی انقلاب کےبعد منظور شدہ دستور میں  دوسرے اداروں کے ساتھ میڈیا کی آزادی کی بھی ضمانت دی گئی تھی،  تاکہ وہ بلا  جھجھک حکومتی فیصلوں کا محاسبہ کرسکیں اور ان کے اوپر کسی طرح کا دباؤ نہ ہو‏۔ صدر مرسی باربار یہ بات کہتے تھے کہ ایک طویل عرصہ تک ڈکٹیٹرشپ کے بعد ملک میں جمہوریت کی جڑیں اسی وقت مضبوط ہوسکتی ہیں جب اس کے ادارے آزادنہ طور پر کام کریں، عدالتیں آزاد ہوں، مذہبی ادارے آزاد ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میڈیا آزاد ہو‏۔

اخوان المسلمون کے ترجمان ڈاکٹر طلعت فہمی نے  کہا کہ اخوان کے خلاف پروپیگنڈے میں  مصری میڈیا جنرل سیسی کے ہاتھ میں لٹّو کی طرح ناچ رہا ہے۔ جنرل سیسی اپنے اس  حربے میں کسی حد تک کامیاب ہے، شب و روز میڈیا چینلس پر اخوان کے خلاف زہر افشانی اور بے بنیاد الزام تراشی دراصل مصری عوام کی ان کے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ہے‏۔ سیسی ہر سطح پر مصری عوام کے سامنے ایکسپوز ہو چکاہے‏۔ تمام ہی ادارے تہس نہس کردیے گئے ہیں‏۔ فوجی انقلاب کے بعد نئی دستوری ترمیم کے ذریعہ سیسی نے تمام اداروں کو اپنے تابع کر لیا ہے‏۔ وہ اس کے دُم چھَلّے کی حیثیت سے کام کررہے ہیں، اخوان کے اراکین  اور اس کی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت بھی جیلوں میں بند ہے، لیکن اس  کے باوجود اخوان اپنی مکمل شناخت کے ساتھ ملک کے شہروں اور گاؤں میں موجود ہے‏۔ ان سخت ترین حالات میں بھی لوگ اخوان سے رجوع کرتے ہیں اور اخوان ان کی مدد کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں‏۔ لوگوں کی نظر میں اخوان کی روشن تاریخ ہے اور اس سے وابستہ لوگوں کا روشن کردار تمام غبّاروں کی ہوا نکال دیتاہے‏۔

عرب بہاریہ کے بعد سے ہی مشرقِ وسطیٰ  کے کئی حکمرانوں کی نظر میں تحریک  اخوان  المسلمون  محبوب سے مبغوض بن گئی  ہے اور بعض ممالک نے اس کو دہشت گردوں کے ٹولے سے جوڑ دیا ہے اور ان کی سرگرمیاں خلاف قانون قراردی ہیں‏۔ ان حالات میں  اخوان کے خلاف مصری و عرب میڈیا کی زہر افشانی  قابل تعجب امر نہیں ہے‏۔ اخوان کو صرف ایک سال مصر میں حکومت کرنے کا موقع دیا گیا اور وہ عرصہ بھی مختلف طرح کے چیلنجز سے بھرا ہوا تھا‏۔ لیکن ساٹھ (60) سالہ فوجی ڈکٹیٹر شپ کی غلطیوں کوبھی اخوان کے کھاتے میں ڈالنے کا کام مصری میڈیا بخوبی انجام دے رہا ہے-