مشکل دور میں قیادت کے ابھرنے کی امید

نوجوان نسل میں نئی قیادت کے آثار نمایاں

نہال صغیر، ممبئی

 

مرزا غالب نے کہا تھا:
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
موجودہ حکومت ملک کے عوام پر اتنی مشقتیں ڈال رہی ہے کہ عوام اس کو برداشت کرنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ مگر چند لوگوں نے بہر حال عوام کے اس حال کو پہنچنے کا نوٹس لیا اور نتیجہ ہوا کہ ہر طرف احتجاج کا نعرہ ہے اور جیلیں بھری جا رہی ہیں۔ حالانکہ حالیہ دنوں میں منور فاروقی کے بعد دشا روی کی ضمانت پر کسی مزاح نگار نے کہا تھا کہ اس طرح تو جیلیں خالی ہو جائیں گی۔ غالب کے مطابق رنج کے خوگر ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھ بیٹھ جائے ہر چند کہ ہمارے بھارتی عوام حکومت کے جبر کے سامنے بے بس اور کمزور نظر آرہے ہیں مگر انہیں مودی اور شاہ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ان کی حرکتوں سے قیادت کے بحران سے دوچار بھارت میں نئی قیادت ابھر کر آنے والی ہے اور یہ قیادت بھی ایک دو نہیں درجنوں کے حساب سے تیار ہو رہی ہے۔ اب یہ اہل ملک اور اس کے باشندوں پر منحصر ہے کہ وہ اس نئی ابھرتی ہوئی قیادت کے استقبال کیلئے خود کو تیار کرتے ہیں یا نہیں۔ عوام ان کی قدر کریں یا نہیں مگر تبدیلی تو قدرت کا اصول ہے اور نئی قیادت جس میں اکثریت نوجوانوں کی ہوگی اس کے ذریعہ یہ تبدیلی آکر رہے گی۔ اصل میں ملک میں قیادت کا بحران انگریزوں کے ملک چھوڑ کر جانے کے بعد سے ہی ہے۔ کچھ لوگوں کی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے یا آزادی کی لڑائی میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ہی اچھی تقریروں کی وجہ سے انہیں قائد تسلیم کر لیا گیا۔ عام طور پر ملک میں آزادی کے فوری بعد کے کچھ لوگوں کو قائد انہ صلاحیت سے مالا مال تصور کیا جاتا ہے جبکہ انہوں نے بھی کوئی انقلابی تبدیلی کی طرف ملک کو گامزن نہیں کیا۔ ابتدائی دنوں کے بعد اندرا گاندھی بنگلہ دیش کو پاکستان سے توڑ کر درگا کے خطاب سے نوازی گئیں جبکہ وہ یہ بھول گئیں کہ وہ بنگلہ دیش کی تخلیق کر کے وقتی طور سے بھلے ہی درگا بن گئی ہوں مگر انہوں نے ایک کی بجائے دو دشمن بنالیے۔ آپ دیکھ لیجیے کہ جس بنگلہ دیش کی تخلیق میں برسوں تک عوام پر ٹیکس لگایا گیا ہو اور جس کی مدد کیلئے انسانی ہمدردی کی دہائی دی گئی آج ملک میں اسی کے نام پر سیاست کی جا رہی ہے اور اپنے ہی شہریوں کو غیر ملکی (بنگلہ دیشی) قرار دے کر انہیں باہر نکالنے کی بات کی جا رہی ہے۔ آج بنگلہ دیش یہاں تضحیک کی علامت بن چکا ہے یعنی اس کی دشمنی ہی نہیں ترقی بھی عروج پر ہے۔ ہمارا جی ڈی پی تحت الثریٰ میں جا رہا ہے اور بنگلہ دیش آسمان کی بلندیوں کو چھونے کی کوشش کر رہا ہے۔ پنڈت نہرو پر چین کے ساتھ جنگ میں اپنی زمین گنوانے کا داغ ہے تو اندرا گاندھی پاکستان کو دو لخت کرنے کے باوجود اس کے چند برسوں بعد ہی ایمرجنسی کے نفاذ کی وجہ سے معتوب ہوئیں۔ لیڈر یا قائد کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ملک و قوم کو ترقی و نیک نامی کی بلندیوں پر لے جاتا ہے اور وہ سب کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے جس کو عوام نہیں دیکھ سکتے۔ اس کی فکر کا دائرہ محدود نہیں ہوتا، وہ کشادہ دل و کشادہ دماغ ہوتا ہے۔
ہم پنڈت نہرو کو بہترین لیڈر مان لیتے اگر ان کی قیادت میں بھارت کو اپنی زمین گنوانی نہیں پڑتی یا ملک کے اندرون کو تباہ کرتی فرقہ پرستی اور تعصب کے ناگ کو انہوں نے کچل دیا ہوتا۔ انہیں بہت وسیع النظر کہا جاتا ہے مگر وہ صرف تقریر اور تحریر میں فصاحت تک ہی محدود ہے۔ ان کی جہاں کئی ناکامیاں ہیں تو ان کی کوششوں میں ناوابستہ تحریک اور اس کی قیادت ہے مگر اس نے بھی اس دور میں اس کا صحیح حق ادا نہیں کیا اور شاید اسی وجہ سے وہ تحریک کامیابی کے پچاس سال بھی پورے نہیں کر سکی۔ پنڈت نہرو کے بعد اندرا گاندھی کو بھی قیادت کے معیار پر پورا اترتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ وقتی طور پر بھلے ایک کارنامہ ایسا ہوا کہ انہیں درگا کہا جانے لگا مگر اس میں ہماری قیادت سے زیادہ دشمن کی بزدلی کا اہم کردار ہے۔ یقین مانیے کہ اگر دشمن نے بزدلی نہیں دکھائی ہوتی تو ہم اتنی آسانی سے بنگلہ دیش کی تخلیق نہیں کر پاتے اور اس کارنامہ کے دوران ہزاروں بے گناہ جانتے بوجھتے اور انجانے میں مار دیے گئے نیز، ہمارے نئے پڑوسی ملک کے عوام کا ایک طبقہ کیمپوں میں محصور ہو گیا۔ کل ملا کر ان دونوں لیڈروں نے بھارتی عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی کیا ہے کوئی راحت کا سامان نہیں کیا۔ ہمارے یہاں اصل بیماری یہ ہے کہ عوام کو تو جانے دیجیے سربراہ بھی سطحی فکر کا شکار ہے۔ اس نے کوئی معمولی سا کچھ کیا کہ اس کے مصاحب ہی نہیں عوام میں ایک خاص فکر رکھنے والا طبقہ بھی اسے کاندھوں پر اٹھائے پھرتا ہے لیکن اس کا سلسلہ طویل نہیں ہوتا بہت جلد وہ اسے زمین پر پٹخ دیتا ہے۔ اندرا گاندھی درگا بنیں اور پھر ایمرجنسی کے سبب عوام نے انہیں نظر انداز کر دیا۔
مسائل کانگریس کے دور میں بھی تھے اور موجودہ حکومت کے دور میں بھی ہیں۔ بس فرق اتنا ہے کہ کانگریس کے دور میں قیادت کے ابھرنے کے کوئی امکانات نہیں تھے مگر آج یوں سمجھ لیجیے کہ قیادت کی کھیتی ہو رہی ہے۔ موجودہ دور میں ہم حکومت پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ کانگریس کے دور میں کیا کیا ہوا۔ کانگریس یا اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کا نفاذ کیا تھا تو آج غیر اعلانیہ ایمرجنسی ہے۔ آج صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے تو کانگریس کے دور میں بھی صحافیوں کو پابند کرنے کیلئے بہار میں جگن ناتھ مشرا کی حکومت میں پریس بل جیسا سیاہ قانون متعارف کرایا تھا۔ ایمرجنسی کے موقع پر پریس کی آزادی پر قدغن لگانے کا کام کانگریس نے بھی کیا۔ متحرک نوجوانوں پر آج جس یو اے پی اے کے تحت کارروائی ہو رہی ہے اور انہیں پابند سلاسل کیا جا رہا ہے اس میں اہم تبدیلی کانگریس کی منموہن حکومت کے دور میں ہی ہوئی تھی۔ غیر ملکیوں کی در اندازی کا شوشہ کانگریس کے دور کا ہی ہے آج اس کا فائدہ بی جے پی اٹھا رہی ہے۔ ہمارے ملک کے عوام کی یادداشت بہت کمزور ہے وہ پچھلی ساری باتوں کو ایک مصیبت کے نازل ہوتے ہی بھول جاتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ اسے ایک منصوبہ کے تحت بھولنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ کانگریس اور بی جے پی میں منشور ظاہری نظریہ کے طور پر خواہ کوئی فرق ہو مگر عمل آوری میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ بی جے پی میں اجڈ گنواروں کی تعداد غالب ہے اس لیے وہ شور و ہنگامہ زیادہ برپا کرتے ہیں اور کانگریس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی بھرمار ہے اس لیے وہ منافقانہ روش اختیار کرتے ہوئے کام کرتے ہیں جس میں کسی کو بھنک بھی نہیں لگتی کہ کس طرح بربادی کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔
اصل میں قیادت بھی ایسے ہی مشکل دور میں ابھرتی ہے اور اس کی پہچان بھی اسی دور میں ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت میں عوام جس مشکل دور سے گزر رہے ہیں اور اس کے خلاف نوجوانوں کا بڑا طبقہ میدان میں ہے اور حکومت انہیں دبانے کیلئے جس طرح طاقت کا استعمال کر رہی ہے اس سے تحریکیں ختم ہوں گی اور نا ہی ان کی قیادت کرنے والوں کے حوصلے مجروح ہوں گے۔ اس کے برعکس حکومت کے اس رویہ کے خلاف عوام کا غصہ بڑھتا جائے گا جو بالآخر اس کے زوال کا سبب بنے گا۔ حکومت کے آمرانہ و ظالمانہ رویہ کے سبب جو نوجوان قیادت ابھر کر آئے گی وہی اصل میں بھارت کو دنیا کا قائد بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اسی دور میں مسلم نوجوانوں کی بھی ایک ٹیم ایسی تیار ہو سکتی ہے جو مسلمانوں کے سیاسی شعور کی بیداری کا سبب بنے گی۔ حالت یہ ہے کہ حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ ظلم و جبر اور اقتدار کی قوت سے انہیں کچل دے اور وہ اس کیلئے کوشاں بھی ہے مگر اسے شاید اندازہ نہیں کہ وہ قیادت کی نئی فصل اگا رہی ہے۔ اگر ہم کسان احتجاج کو ہی لے لیں تو اس سے قبل کتنے تھے جو راکیش ٹکیت کو جانتے تھے مگر آج شاید ہی کوئی ایسا ہو جو ان سے واقف نہیں۔ سی اے اے، این آر سی کے خلاف تحریک کی بات کریں تو اس کے بعد تشدد اور جبر کا نشانہ بننے والے، شرجیل امام، صفورہ زرگر اور آصف اقبال تنہا سمیت درجنوں نوجوانوں سے کتنے لوگ واقف تھے۔ کنہیا یا عمر خالد تو کئی سال سے مشق ستم بن رہے ہیں۔
کسان تحریک میں گرفتار آزاد صحافی مندیپ پنیا کے نام سے کون واقف تھا لیکن اس حکومت کی احمقانہ روش نے اسے لاکھوں دلوں کی دھڑکن بنا دیا اور اسی وجہ سے اسے ضمانت پر رہا کرنا پڑا۔ اس لیے مشکل دور سے گھبرانے کے بجائے اس میں چھپے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اسی مشکل دور سے ابھرنے والی نوجوان قیادت کل ملک کو وہ حق دلائے گی جس کا وہ مستحق ہے اور جس کی باتیں مودی کرتے تو ہیں مگر عمل اس کے برخلاف ہوتا ہے۔ وہ اور ان کے ساتھیوں کی پوری ٹولی ملک کو آگے لے جانے کی بجائے پتھر کے دور میں واپس لے جانے کے عمل پر کاربند ہے۔ لیکن بنگلور کی وہ دبلی پتلی دشا روی جس نے حکومت کو یہ جتا دیا کہ اس کے جبر میں خواہ کتنی ہی قوت ہو لیکن وہ کسی کو آواز بلند کرنے سے نہیں روک پائے گی۔ ہر گزرتا دن حکومت کیلئے مشکلات اور عوام کے درمیان سے ابھرنے والے نوجوان لیڈروں کی تعداد میں اضافہ کر رہا ہے۔ موجودہ حکومت کا رویہ ہے کہ جو اس کے غلط کاموں پر نکیر کرے وہ ملک مخالف ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس نے اپنے لیے چاپلوسوں کا ایک گروہ پیدا کر لیا ہے جو ہر خرابی پر اسے داد و تحسین سے نوازتا ہے کہ واہ کیا تیر مارا ہے! اسی لیے اسے اپنی غلطیوں کا احساس نہیں ہوتا۔ لیکن اسے نئی نسل سے ابھرنے والی قیادت ضرور اس کا احساس کرائے گی۔ یہ محض جوش و جذبہ سے بھر پور کوئی پُر امید جملہ نہیں ہے بلکہ حالات کے تناظر میں آثار یہی ہیں کہ جنہیں آج حکومت کچل رہی ہے وہی ابھر کر اس کے جبر کے دور کا خاتمہ کریں گے۔ بقول جگر مرادآبادی؎
جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں
وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں
***

مسائل کانگریس کے دور میں بھی تھے اور موجودہ حکومت کے دور میں بھی ہیں۔ بس فرق اتنا ہے کہ کانگریس کے دور میں قیادت کے ابھرنے کے کوئی امکانات نہیں تھے مگر آج یوں سمجھ لیجیے کہ قیادت کی کھیتی ہو رہی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 7 مارچ تا 13 مارچ 2021