اے رحمان
آئندہ پانچ اگست کو جب وزیرِ اعظم ایودھیا میں چاندی کی اینٹ رکھ کر رام مندر کی بنیاد گزاری کریں گے(حالاں کہ ایک مسلمان نے سونے کی اینٹ بھی اس مقصد کے لیے عطیہ کی ہے) تو سرکاری ذرائع سے تو اسے ایک خبر کے طور پر ہی نشر کیا جائے گا لیکن تمام دنیا کے لیے اس میں یہ پیغام مضمر ہو گا کہ بھارت اب مکمّل ہندو راشٹر ہے۔ ملک کے آئین نے تو ایک مذہبی غیر جانبدار یعنی سیکولر ریاست قائم کی ہے اور اپنے عہدے کا حلف لیتے ہوئے وزرائے اعظم اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ ہر معاملے میں آئین کے پابند و پاسدار رہیں گے۔ اس کے باوجود۔۔۔۔۔
گذشتہ کل سپریم کورٹ میں ایک عرض داشت داخل کی گئی جس میں تقاضہ کیا گیا ہے کہ آئینِ ہند کی بیالیسویں ترمیم کے ذریعے اس کی تمہید میں شامل کیے گئے الفاظ ’’سیکولر‘‘ اور ’’سوشلسٹ‘‘ کو آئین کی تمہید سے خارج کیا جائے کیوں کہ بھارت کا ثقافتی محور ’’دھرم‘‘ ہے مذہب نہیں۔ (یاد رہے منو سمرتی میں دھرم کی تشریح کرتے ہوئے اسے دیگر مذاہب کے تصوّرِ مذہب سے ممیّز کیا گیا ہے حالاں کہ مذکورہ عرض داشت میں یہ صراحت نہیں کی گئی)۔ بالفاظ دیگر ملک کا سیاسی ڈھانچہ ’’دھرم‘‘ پر مبنی ہے یا ہونا چاہیے۔۔۔۔
آج نئی قومی تعلیمی پالیسی کا اعلان کر دیا گیا جس کے تحت وسائلَ انسانی کی وزارت کو اب صرف وزارتِ تعلیم کہا جائے گا۔ ( یہ بات بہت کم لوگوں کے علم میں ہو گی کہ ’وسائلَ انسانی‘ کے فروغ کا مقصد سامنے رکھ کر تشکیل دی گئی وزارت کے تحت مسلمانوں کو کئی تعلیمی (بشمول وظیفہ، گرانٹ، فیلوشپ وغیرہ) اور روزگار سے متعلّق ایسے فوائد حاصل تھے جو اب انھیں دستیاب نہیں ہوں گے) یہ ایک بہت اہم پیش رفت ہے کیوں کہ ہندوتو کے ایجنڈا میں تعلیمی پالیسی اور طریقۂ کار کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔۲۰۱۴ کے انتخابات سے قبل بی جے پی نے جو منشور شائع کیا تھا اس میں تعلیم سے متعلّق پارٹی کے منصوبوں کا ذکر تھا لیکن کسی بھی سیاسی جماعت یا مسلم تنظیم نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔ بی جے پی کے پچھلے دورِ اقتدار میں اس وقت کے وزیرِ ثقافت مہیش شرما نے اپنی نئی دلّی واقع قیام گاہ پر ایک خفیہ میٹنگ کاا ہتمام کیا جس میں کئی ’ماہرینِ تعلیم‘ وغیرہ شریک ہوئے، اس میٹنگ میں منصوبہ بنایا گیا کہ ملک کی تاریخ دوبارہ لکھی جائے گی جو مہا بھارت سے شروع ہوگی۔ بین الاقوامی نیوز ایجنسی رویوٹر (Reuter ) نے اس خفیہ میٹنگ کا بھانڈہ پھوڑا اور میں نے اسی کالم میں اس کی تفصیل بیان کی تھی۔ ۲۰۱۹ میں ایک انگریزی کتاب شائع ہوئی جس کا عنوان تھا ’’اکیسویں صدی کے لیے آر ایس ایس کا نقشۂ سفر (روڈمیپ)‘‘۔ اکتوبر ۲۰۱۹ میں اس کتاب کا ممبئی میں اجرا کرتے ہوئے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے اپنی تقریر میں کہا ’’ہندو راشٹر ہمیں ورثے میں ملا ہے‘‘۔ ان کا مطلب تھا کہ ہندو راشٹر تو ہمیشہ سے ہے۔ اس کتاب میں ملک کی تعلیمی پالیسی کو مکمّل طریقے سے ’’ہندیانے‘‘(Indianize ) کے منصوبے کا ذکر تھا۔NCERT کے ذریعے شائع کی جانے والی سکولی نصاب کی کتابوں میں ہندوتو کے اصولوں پر مبنی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں اور کچھ پہلے ہی کر دی گئی ہیں، کئی صوبوں میں نصابی کتابوں سے مشہور مسلم حکمرانوں جیسے ٹیپو سلظان اور اورنگ زیب وغیرہ کے نام یا تو نکال دیے گئے ہیں یا ان کے بارے میں کوائف و حقائق تبدیل کر کے انھیں غدّار کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ تمام مسلم حکمرانوں کو ’’بیرونی حملہ آور‘‘ اور لٹیروں سے موسوم کر دیا گیا ہے یا کیا جا رہا ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (NCPUL) کو کھلی ہدایات دی گئی ہیں کہ کن موضوعات پراور کن مصنّفوں کی کتابیں شائع کی جائیں۔۔یا نہ کی جائیں۔۔۔۔ مصنفّین کو مسوّدے کے ساتھ اس مضمون کا حلف نامہ دینا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے کہ اس کی کتاب میں حکومت کے خلاف کسی قسم کا مواد نہیں ہے۔ اور خواہشمند ادیب اس کی بھی تعمیل کر رہے ہیں۔
ایک سینئر آئی پی ایس افسر ناگیشور راؤ نے اچانک ٹویٹ پر ٹویٹ کر کے مسلمانوں کے خلاف عجیب سنگین ماحول بنا دیاہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہندؤوں کو علم سے دور رکھ کر ان کے مذہب کو اوہام پرستی قرار دے کران کی تہذیب، تعلیم اور بنیادی شناخت کا abrahamisation کر دیا گیا ہے یعنی ’ابراہیمیا‘ دیاہے۔ (یہودیت، عیسائیت اور اسلام کو’’ابراہیمی مذاہب‘‘ کہا جاتا ہے)۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی نے’’اسلامیانا‘‘ کے بجائے ’’ابراہیمیانا‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اس کے بہت دور رس نتائج ہوں گے۔ یہ وہی افسر ہے جس کو پچھلے سال حکومت نے سی بی آئی میں بطور ایڈیشنل ڈائریکٹر مقرّر کر دیا تھا اور جس کا ڈائریکٹر سے مچیٹا ہو کر بات سپریم کورٹ تک پہنچی اور سی بی آئی کے حالات آج تک معمول پر نہیں آئے۔ کوئی بھی حاضر سروس افسر اس قسم کے بیانات نشر نہیں کر سکتا اور بعض سابقہ افسروں نے فوراً اس کے خلاف شکایت بھی ہوم منسٹر وغیرہ کو بھیج دی ہے، لیکن اس کا ریٹائرمنٹ نزدیک ہے اور وہ کسی منفعت بخش عہدے یا راجیہ سبھا کی رکنیت کے لالچ میں ابھی اور مسلم مخالف کہرام مچائے گا اور آر ایس ایس سے نتیجتاً انعام پائے گا۔
درج بالا بظاہر غیر مربوط خبریں اور واقعات دراصل ایک بہت منضبط اور خطرناک سازش کی کڑیاں ہیں جس کا ہدف ہندوستانی مسلمان ہیں۔ مسلمانوں پر بہت برا وقت آیا ہے جو بد سے بدتر ہوتا چلا جائے گا اور ملّت اس وقت مطلقاً بے سر یعنی (headless ) ہے۔ نہ رہبری ہے نہ رہنمائی۔ موجودہ صورتِ حال اور آئندہ نا مساعد حالات پر غورو فکر تو کیا ان کا کہیں سنجیدگی سے ذکر تک نہیں۔ سیاسی قیادت ناپید ہو چکی ہے۔ جو نام نہاد سیاسی شخصیات ہیں انھوں نے اقتدار کی کاسہ لیسی شعار کر کے اپنے لیے ایسی حدودِ طمانیت (comfort zones ) متعیّن کر لی ہیں جن سے وہ باہر نہیں آنا چاہتے اور نہ کبھی آئیں گے۔ اہم قومی مسائل سے عوام کی توجّہ دور رکھنے کے لیے الیکٹرونک میڈیا جس طرح دن رات چین سے جنگ، کورونا، رافیل جہاز، چھوٹے موٹے زلزلوں، سیلاب اور سشانت سنگھ راجپوت کی خودکُشی کے بارے میں چیخم دھاڑ مچائے رکھتا ہے وہی کردار بعض مذہبی رہنماؤں نے اختیار کر لیا ہے جو دن رات لاک ڈاؤن میں عبادت سے لے کر رویتِ ہلال اور عید بقرعید سے متعلّق معمولی معمولی سوالات کو بڑے بڑے مسائل کی صورت میں پیش کر کے اختلافی جنگیں چھیڑے رہتے ہیں۔مسلکی اختلافات نے ردائے دین و ملّت کو پارہ پارہ کر دیا ہے اور یہ خود ساختہ رہنمائے ملّت اپنے اپنے مسلکوں اور عقائد کے پیرو کاروں کی تعداد کے زعم میں سرکشی کی اس انتہا کو پہنچ گئے ہیں کہ اتحاّدِ ملّت کی بات بھی کرنے والے پر ’جہالت‘ اور گمرہی کا لیبل چسپاں کر کے پرخلوص سینئیر صحافیوں تک کو یہ کہہ کر سرزنش کرنے سے نہیں چوکتے کہ ’آپ بس اپنے کام سے کام رکھیے اور مذہبی معاملات ہم پر چھوڑ دیجیے‘۔ ان حالات میں واحد حل یہ ہے کہ تمام ذی فہم مسلمان ملّاؤں کے چکّر سے نکلیں اور اپنی عقل و تدبّر سے کام لے کر اپنے معاشی اور معاشرتی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں نیز مستقبل قریب میں در پیش خطرات کے سدِّ باب کا طریقہ وضع کریں۔ وہ خطرات جن سے کروڑوں مسلمان بہت جلد رو برو ہوں گے۔ کورونا کی عالمی وبا نے مذاہب کا پول کھول کے رکھ دیا ہے اور مسلمانوں پر بھی یہ ثابت ہو گیا ہے کہ محض دعاؤں سے مصائب اور خطرات نہیں ٹلا کرتے۔ ہر مصیبت عمل کا تقاضہ کرتی ہے۔ اگر کم از کم تمام پڑھے لکھے مسلمان مذہبی اور مسلکی مسائل و اختلافات سے بالا تر ہو کرموجودہ اور آئندہ صورتِ حال کا تفکّر و تدبّر سے حل تلاش کریں۔۔خواہ تدبّر اپنے ذاتی مسائل میں ہی کیا جائے۔۔۔ تو ایک فکری اتحاد از خود پیدا ہو گا اور فکری اتحاد سے تو بڑے بڑے انقلاب لائے جا سکتے ہیں۔ فکر و تدبّر کا یہ عمل فوری طور پر شروع نہ کر دیا گیا تو محض دس سال بعد ہندوستانی مسلمان خود کو دلتوں سے بھی کم درجے کا شہری پائیں گے۔ اس میں شبہ نہیں ہونا چاہیے۔
مضمون نگار سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ موصوف مختلف سماجی اور ادبی کازوں سے وابستہ ہیں۔ آپ موقر ادارے عالمی اردو ٹرسٹ کے چیئرمین بھی ہیں۔