مسلمان اپنی حکمتِ عملی خود مرتب کریں
دلتوں سے الحاق اور ان پر انحصار والی پالیسی پر نظرِ ثانی ضروری
محمد امتیازنورانی
وطن عزیز ہندوستان سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر پچھلے چند سالوں سے مستقل تلاطم کا شکار ہے۔ ایک کے بعد ایک سماجی سیاسی اور معاشی جھٹکوں نے ملک کے تانے بانے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ معیشت کو تو ایسے جھٹکے بیٹھے بٹھائے دیے گئے کہ کروڑوں لوگ بے روز گار ہو گئے اور کرونا کی آمد سے تو بے روزگاری کی یہ شرح دس کروڑ تک جا پہونچی ہے جیسا کہ بتایا جا رہا ہے۔ اگر یہ اعداد وشمار غلط بھی ہوں تب بھی ایک ملک میں دو چار کروڑ لوگوں کی بے روز گاری بھی کوئی کم بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ پہلے مسلمان شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں احتجاج کے لیے سڑکوں پر تھے پھر ملک بھر میں کرونا کا لاک ڈاؤن نافذ ہوا۔ جب اس میں کچھ نرمی لائی گئی تو اب کسان سڑکوں پر ہیں اور پورے ملک میں ہڑتال کی کال دے رکھی ہے۔ ہم ان امور کا قدرے تفصیل سے جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ آخر ماجرا کیا ہے کہ ان قدم بہ قدم بلاؤں اور محبوب ملک کی گلیاروں میں تہہ بہ تہہ اندھیروں کا آخری سرا کہاں ہے نیز، اہل ملک کو اور خصوصاً ہم مسلمانوں کو اس صورت حال میں کیا کر نا چاہیے۔ ہنگامہ خیزی کی ابتدا نوٹ بندی سے ہوئی۔ نوٹ بندی چند گھنٹوں کی شارٹ نوٹس پر عائد کی گئی اور اس نے پورے ملک میں ایک بھونچال برپا کر دیا۔ بتایا یہ گیا تھا کہ اس اقدام سے بلیک منی ملکی معیشت سے آؤٹ ہو جائے گی ساتھ ہی متعدد فوائد بھی گنوائے گئے لیکن ہوا صرف یہ کہ ملکی معیشت کلین بولڈ ہو کر آج تک پویلین میں بیٹھی ہوئی ہے۔ پورے ملک کو مہینوں لائن میں رکھنے والے تو شائد یہ بھول ہی گئے کہ انہوں نے کبھی نوٹ بندی بھی کی تھی۔ معیشت کو استحکام بخشنے کے نام پر کی گئی یہ نوٹ بندی اس نوجوان کے عمل سے مشابہ ہے جو اپنے جوڑوں اور ہڈیوں کو طاقت پہنچانے کے لیے بلند وبالا عمارت سے چھلانگ لگا دے اور ہڈی پسلی ایک کرواکر آئی سی یو میں داخل ہو جائے۔ بعینہ یہی صورت حال اِس وقت نوٹ بندی کے بعد ہماری معیشت کی بھی ہے۔
اس کے بعد ایک زبردست سماجی ہڑبونگ ملک بھر میں این آر سی اور سی اے اے کو لے کر مچی۔پہلے مسلمان اور پھر بیک ورڈ کلاس برادران وطن بھی میدان میں آگئے۔ کل قضیہ یہ تھا کہ آسام کی این آر سی میں دوگنے سے بھی زیادہ ہندو پھنس گئے تھے جبکہ مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔ حالانکہ یہ سارا کھیل بزعم خویش ملک سے مسلمان بنگلہ دیشی دراندازوں کو نکال باہر کر نے کے لیے کھیلا گیا تھا لیکن اس میں مسلمان کم ہندو زیادہ پھنس گئے۔ بارہ پندرہ لاکھ ہندوؤں کو غیر ملکی ثابت کر چکنے کے بعد بی جے پی کو ہوش آیا اور سی اے اے کا وہ قانون لایا گیا کہ جو ہندو این آر سی میں پھنس جائیں گے انہیں سی اے اے کے ذریعہ شہریت دے دی جائے گی لیکن یہاں بھی پینچ یوں پھنسا کہ این آر سی کے ذریعے جنہیں دوبارہ شہریت ایک غیر ملکی کے طور پر دی جائے گی انہیں دو سنگین قباحتوں کا سامنا ہو گا ایک یہ کہ غیر ملکی ثابت ہوتے ہی وہ اپنی ان ساری جائیدادوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے جن کے وہ ایک ہندوستانی شہری کے طور پر مالک تھے۔دوسرے یہ کہ جو یہاں پشتوں سے آباد ہیں وہ یہ کیوں تسلیم کریں گے کہ وہ غیر ملکی ہیں۔ این آر سی اور سی اے اے پر جس بڑے پیمانے پر (نام نہاد اعلیٰ ہندو ذاتوں کو چھوڑ کر) نچلے طبقے اور سیکولر مزاج ہندوؤں نے حکومت مخالف مظاہروں میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ شرکت کی اس نے حکومت کی چولیں ہلادی تھیں، اگر کرونا جیسی خطرناک بیماری نے دستک نہ دی ہوتی تو ملک کے طول و عرض میں ہر ریاست اور ہر علاقے میں مستقل ہونے والے یہ مظاہرے نہ جانے کیا صورت اختیار کرتے۔ پھر مزید یہ کہ حکومت نے کرونا جیسی عالمگیر وبا کے تعلق سے نہ صرف یہ کہ اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی بلکہ ہندو مسلم کر کے ہندوؤں کی ناراضگی سے خود کو محفوظ رکھنے کی بھی کو شش کی۔ کرونا آج بھی پورے شدو مد سے جلوہ فگن ہے۔ اگر الیکشن نہ ہوتے تو لاک ڈاؤن کا طلسم بھی نہ ٹوٹتا۔ لاک ڈاؤن کا طلسم ٹوٹنا تھا کہ عوام پورے شدومد کے ساتھ ایک بار پھر سڑکوں پر ہیں۔ اس بار کسان، حکومت کے ذریعہ لائے گئے متنازعہ زرعی بلوں کے خلاف آپے سے باہر ہیں۔ حکومت این آر سی اور سی اے اے پر بھی یہی کہتی رہی کہ مسلمانوں کو صرف بھرم ہے کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ اب کسانوں کے تعلق سے بھی یہی کہہ رہی ہے کہ کسان صرف بھرم میں مبتلا ہیں حالانکہ بھرم گول مول باتوں پر ہو سکتا ہے پارلیمان میں پاس کیے گئے بل یا ایکٹ پر نہیں جہاں سب کچھ بہت واضح اور متعین طور پر لکھا ہوتا ہے۔
ان تمام تر تفصیلات سے جو چیز مقصود ہے وہ صرف ملکی حالات اور انداز حکومت کی ایک جھلک پیش کرنا اور یہ وضاحت کرنا کہ مستقبل میں حالات کس رخ پر آگے بڑھیں گے اور اس میں ہم مسلمانوں کا کردار کیا ہو گا۔ یہ کہنا کہ ہندوستان میں سیکولرزم کی بساط لپیٹی جاچکی ہے موجودہ حالات میں شاید صحیح نہ ہو گا لیکن سیکولرزم مستقبل میں ملک کے اندر کوئی بہت مؤثر رول ادا کر پائے گی اس کی امید رکھنا بھی فضول ہے کیوں کہ ہم پندرہ فیصد کے نام نہاد اعلیٰ طبقے کے خلاف پچاسی فیصد کی جس اکثریت کے ساتھ میدان میں تھے وہ در حقیقت اسی پندرہ فیصد کے عقیدت مند ہیں۔ طبعی طور پر یہ ممکن نہیں کہ ہم کسی ایسے مظلوم کی مدد کریں جو ظالم کی گود میں بیٹھا ہو۔ جن پچھڑے طبقات کو ہم اپنی سیکولر سیاست کا قدر مشترک سمجھتے ہیں وہ اپنے بد تر حالات میں بھی نام نہاد اعلیٰ ذاتوں کی عقیدت اور پیشوائی کا دم بھرتے ہیں۔ آپ پچھڑے طبقات کے صاحبان اقتدار سے لے کر عام فرد تک کا مشاہدہ کر لیجیے نام نہاد اعلیٰ ذاتوں سے عقیدت اور احترام ان کی خاندانی روایات اور تہذیب کا حصہ ہے۔ حد تو تب ہو گئی جب انہوں نے یو پی بہار جیسی کلیدی ریاستوں میں اپنے محاذ، اپنی پارٹی، اپنی برادری حتیٰ کہ اپنے لیڈر کے خلاف اس نام نہاد اعلیٰ طبقے کو ووٹ کیا جس کے مظالم کا وہ صدیوں سے رونا رو رہے ہیں۔ میں یہ باتیں یہاں اس لیے دُہرا رہا ہوں تاکہ ہر ایک پر یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ آج ملک کو جو پے در پے اور ایک سے بڑھ کر ایک مصیبتوں کا سامنا ہے اس کے لیے کوئی اور نہیں بلکہ سیکولر خیمے کے وہ گروہ اور برادریاں ہیں جنہوں نے نام اپنا اِس خیمہ میں لکھوا رکھا ہے اور کام وہ دوسرے خیمے کا کرتے ہیں۔ پندرہ فیصد کے پچاسی فیصد پر غالب آنے کی اس کے علاوہ کوئی اور وجہ ہو ہی نہیں سکتی کہ ملک کے پچھڑے طبقات عقیدت کے زیر اثر ووٹ دینے کے لیے اعلیٰ طبقے کے خیمے میں جا پہنچے ہیں۔ حیدرآباد کے حالیہ انتخابات میں پچھڑے طبقات کی عقیدت مندی کو ذرا سی آنچ کیا دکھا دی گئی کہ جن کی چار سٹیں تھیں وہ اڑتالیس ہو گئیں۔ ایسے میں مسلمانوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی حل نہیں بچتا کہ ہم اپنی حکمت عملی خود کے دم پر مرتب کریں۔ ہم اپنے سیاسی مفادات و تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس میں شاطر برہمنوں کے مقابلے میں غلامانہ ذہنیت پالنے والے دلتوں سے الحاق اور ان پر انحصاری کے بارے میں ہمیں نئے سرے سے سوچنا چاہیے اور اپنے بارے میں سوچتے ہوئے ہمارے اپنے مسائل کو ملی آبرو مندی کے ساتھ جیسے بھی حل ہو سکتے ہوں حل کرتے ہوئے اپنی بقیہ توانائی اپنی ترقی اور ملت کی تعمیر پر صرف کرنی چاہیے۔ جو توانائی ہم نے گزشتہ ستر سالوں میں سیکولرزم کی آبیاری اور بیک ورڈ فارورڈ قضیہ کی مزدوری میں صرف کی ہے۔ اگر وہ توجہ اور تگ و دو ہم خود کے لیے کرتے تو شاید ہمارے مسائل باقی ہی نہ بچتے۔ ہم دوسروں کی مزدوری بڑے شوق سے اس امید پر کرتے رہے کہ وہ ہمارے مسائل حل کریں گے اور ہمیں یہ اطمینان بھی تھا کہ ہم مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن ہم یہ تاڑ نہ سکے کہ ان مظلوموں کو مظلومیت کی عادت اور چاکری کی لت پڑی ہوئی ہے۔ جب تک یہ اپنی ان عادتوں سے ابدی توبہ نہیں کریں گے ان کے مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ ہم پندرہ فیصد کے خلاف پچاسی فیصد میں شامل ہو کر سیکولر محاذ میں شریک ہوئے تھے لیکن ہماری بدنصیبی یہ تھی کہ ہم جن کے ساتھ محاذ میں آئے تھے وہ سرے سے کسی محاذ کے لائق ہی نہیں تھے۔ ان کی سابقہ مظلومیت اور چاکری ہی ان پر زیادہ جچتی ہے۔ وہ اپنی پارٹی اور حکومتوں سے کھونٹا تڑوا کر اسی عقیدت کی بھٹی میں ایک بار پھر کود گئے جس کا خمیازہ مسلمانوں کو یہ بھگتنا پڑا کہ ملک کے بیس فیصد مسلمانوں کے خلاف اَسّي فیصد غیر مسلموں نے عملاً محاذ کھول لیا ہے۔
***
کسان، حکومت کے ذریعہ لائے گئے متنازعہ زرعی بلوں کے خلاف آپے سے باہر ہیں۔ حکومت این آر سی اور سی اے اے پر بھی یہی کہتی رہی کہ مسلمانوں کو صرف بھرم ہے کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ اب کسانوں کے تعلق سے بھی یہی کہہ رہی ہے کہ کسان صرف بھرم میں مبتلا ہیں حالانکہ بھرم گول مول باتوں پر ہو سکتا ہے پارلیمان میں پاس کیے گئے بل یا ایکٹ پر نہیں جہاں سب کچھ بہت واضح اور متعین طور پر لکھا ہوتا ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 دسمبر تا 2 جنوری 2020-21