مسلمانوں کو اذیتیں اور ہندوؤں کی خوشنودی!

مضمون نگار: ایم آر نارائن سوامی
ترجمہ: سلیم الہندیؔ (حیدرآباد)

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ملک میں اقلیتوں کو اور خصوصاً مسلمانوں کو ذہنی، جسمانی، جانی اور مالی اذیتیں پہنچا کر ہندوؤں کو خوش کرنا، ہندوتوا تنظیموں کا پسندیدہ مشغلہ اور اجتماعی پیشہ بن چکا ہے، جو ہندو دھرم کے ایک قابل احترام شری شنکر آچاریہ بھارتی جی کی ہدایات اور تعلیمات کے بالکل برعکس ہے۔ یہ وہی شری شنکر آچاریہ ہیں جنہوں نے ہندوؤں کے چاروں مشہور مٹھ قائم کیے تھے جو سرینجری، دوارکا، لوری اور جوشی مٹھ کے نام سے مشہور ہیں۔ سرینجری مٹھ ریاست کرناٹک میں دریا جے تنگا کے قریب کے ایک انتہائی پر فضاء مقام پر قائم ہے۔ یہ وہی مٹھ ہے جہاں پر شری شنکر آچاریہ جی کے نظریات اور افکار کو آج بھی جوں کا توں زندہ رکھا گیا ہے۔ انہیں افکار کی بنیاد پر اس مٹھ سے وابستہ تمام عقیدت مند دنیا کے تمام مذاہب، ذاتوں اور فرقوں کا اور ان کے مذہبی اصولوں کا عملاً احترام کرتے ہیں۔ 1912ء سے 1954ء تک شری شنکر آچاریہ جی اس مٹھ کے قائد رہے اور انہی کی نگرانی میں ان کے اپنے نظریات و افکار کا دبدبہ مضبوطی سے قائم رہا۔ وہ خود بھی ایک تعلیم یافتہ، تجربہ کار، منکسرالمزاج شخصیت کے مالک تھے۔ بھٹکے ہوئے بے شمار انسانوں کی بکھری ہوئی زندگیوں کو صحیح راستوں پر لانے میں ان کی شخصی دلچسپی اور کوششوں کا بڑا دخل رہا ہے۔ایک مرتبہ شری شنکرآچاریہ جی، ریاست کرناٹک کے ضلع ٹمکور کے ایک مقام تُپتُور پہنچے جہاں پر مقامی احمق اور بیوقوف ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان معمولی سے معمولی اختلاف پر ایک دوسرے سے لڑنا جھگڑنا اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانا عام بات تھی اور یہ آپسی رنجش اور رسہ کشی ایک طویل عرصے سے چلی آرہی تھی۔ ہندوؤں کے کسی تہوار کے موقع پر اس دن شری شنکر آچاریہ جی ایک پالکی پر سوار، اپنے سیکڑوں عقیدت مندوں کے جھنڈ میں، دھنواں دھار موسیقی کی گونج میں راستے سے جا رہے تھے۔ اسی راستے میں ایک مسجد بھی پڑتی تھی۔ مقامی پولیس اور انتظامیہ نے اس جلوس کو مسجد کے سامنے سے گزرنے کے لیے تمام احتیاطی تدابیر اختیار کیے تھے تاکہ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہ آئے۔ اس کے باوجود مقامی لوگوں کو یقین تھا کہ ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان کوئی جھگڑا ضرور ہو گا۔ انہیں خدشات اور اندیشوں کے درمیان یہ جلوس مسجد کے قریب پہنچا اور شری شنکرآچاریہ جی کی پالکی مسجد کے دروازے کے ٹھیک سامنے سے گزرنے لگی۔ سب کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ مسجد کے دروازے کے بالکل سامنے مسلمان اپنے اپنے ہاتھوں میں پھولوں کے ہار لیے شری شنکرآچاریہ جی کا انتظار کر رہے ہیں۔ مسلمانوں نے منتظمین سے درخواست کی کہ پالکی کچھ دیر کے لیے یہیں پر روک دی جائے تاکہ وہ شری شنکر آچاریہ جی کی گلپوشی کر سکیں۔ خود شری شنکر آچاریہ جی نے پالکی کو روکنے کا حکم دیا۔ ان میں سے ایک بزرگ مسلمان نے اچاریہ جی کا استقبال کرتے ہوئے اردو زبان میں ایک نظم پڑھی۔ ایک اور مسلم شخص نے اچاریہ جی کی تعریف کرتے ہوئے ایک مختصر تقریر کی۔ مسلمانوں کے ایک اور وفد نے ان کو پھولوں کے گلدستے پیش کیے اور پھولوں کے ہار پہنائے۔ کچھ مسلم اصحاب نے انہیں پھلوں سے بھری ٹوکریاں پیش کیں۔ ہندوؤں کے اس ہجوم میں خوشی اور مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ مسجد کے دروازے کے سامنے ایک جشن کا منظر برپا تھا۔ اچاریہ جی نے اس والہانہ استقبال کے لیے مسلمانوں کا شکریہ ادا کیا، انہیں آشیرواد دیا اور جلوس پر امن طور پر آگے بڑھ گیا جس کے بعد پولیس اور انتظامیہ نے اطمینان کا سانس لیا۔
دوسرے دن ایک شریرالنفس مسلم نوجوان محض علاقے کے پرامن ماحول کو بگاڑنے کی نیت سے عوام میں یہ بات پھیلانے لگا کہ آخر کار مسلمانوں نے شری اچاریہ جی اور ان کے چیلوں کو مسجد کے سامنے سے خاموشی سے گزرنے پر مجبور کر دیا۔ اس سال مسلمان کامیاب اور ہندو ناکام رہے۔مقامی ہندوؤں نے ایک مسلم نوجوان کی اس غیر ذمہ دارانہ بات کو دھمکی کے طور پر لیا، جو انہیں سخت ناگوار گزری، ان میں ناراضگی بھی پیدا ہوئی اور انہوں نے اپنے طور پر خود ہی فوراً یہ فیصلہ کرلیا کہ بہت جلد پٹاخوں اور موسیقی کی بلند ترین آواز کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ بڑا جلوس لے کر مسجد ہی کے سامنے دن بھر کھڑے رہیں گے اور دیکھتے ہیں کہ کون انہیں روکتا ہے۔ اس کے بعد اپنے اس فیصلے سے آگاہ کرنے وہ شری شنکرآچاریہ کے مٹھ پہنچے۔ ان کا یہ فیصلہ سننے کے بعد شری شنکرآچاریہ جی کو بہت غصہ آیا۔ انہوں نے اس فیصلے کے خلاف سخت ناراضگی، نفرت اور کراہیت کا اظہار کرتے ہوئے ہندوؤں کو ایسا کرنے سے سختی سے منع کیا۔ اس واقعے کے بارے میں شنکرآچاریہ جی کی سوانح حیات پر مبنی ایک کتاب بعنوان A Legacy of Blessings میں خود انہوں نے لکھا کہ ہندوؤں کے ایک مشتعل گروہ کی اس منصوبہ بندی پر انہوں نے برہم نوجوانوں کی مخاطب کر کے کہا کہ کسی بےکار، آوارہ، جاہل نوجوان کی بکواس کو اتنی اہمیت کیوں دی جا رہی ہے۔ انہوں نے ان سے سوال کیا کہ کیا تم ایک غیر ذمہ دار اور جاہل مسلم نوجوان کی بات کو ہندوؤں کی توہین سمجھتے ہو اور اسی بات پر تمام مسلمانوں سے انتقام لینا چاہتے ہو؟ تمہیں ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اس طرح مسلم سماج کے تمام قابل عزت وقابل احترام مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا بالکل غلط ہو گا۔ ایسا لگتا ہے اب تمہاری اپنی سوچ میں حسن اخلاق، مرتبہ اور عزت کا فقدان ہے۔ مسجد کے سامنے موسیقی، باجے اور پٹاخوں کی آوازوں سے تم اپنا جو وقار ومرتبہ حاصل کرنا چاہتے ہو وہ مسلم طبقے کے دلوں میں پیدا ہونے والی نفرت اور بے عزتی سے کم ہی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ محض اپنی انا کی تسکین کی خاطر تم لوگ ہمیں سیڑھی بنا کر اس نا پسندیدہ کام کو انجام دینے کی کوشش کر رہے ہو۔ یاد رکھو کہ اس طرح کے کاموں میں ہرگز میں تمہارے ساتھ نہیں ہوں۔ چنانچہ وہ دوسرے دن اسی ناراضگی کی حالت میں تُپتُور سے چلے گئے حالاں کہ لوگوں نے انہیں روکنے کی کوششیں کیں لیکن وہ نہ مانے بلکہ جاتے جاتے انہوں نے وہاں موجود عقیدت مندوں سے کہا کہ اسی طرح اپنے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف دشمنی، نفرت، حسد و جلن اور انتقام کے جذبات رکھنے سے ہمارے ہی احساسات اور جذبات کو نقصان پہنچے گا۔ آگے انہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنے دھرم سے عقیدت مندی کا اظہار کرنے میں آپ نے اپنی انا کی حدود کو بھی پار کر لیا ہے جو مطلوبہ معیار سے بہت دور ہے۔ آج میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب میں ایسے ماحول میں مزید کچھ وقت کے لیے بھی یہاں نہیں رک سکتا اور روانہ ہو گئے۔ ان کے یہاں سے دوسرے مقام پر پہنچنے کے بعد کچھ عقیدت مند وہاں پہنچ گئے اور اپنی غلطی کے لیے معافی مانگی۔
شری شنکر آچاریہ جی کی ہندو دھرم کی تعلیمات کی دو ٹوک تشریح کی وجہ سے دیگر مذاہب کے لوگ بھی ان کو بہت زیادہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہ شاید 1939ءیا 1940ء کی بات ہے کہ عبدالکریم نامی ایک ٹامل پولیس آفیسر نے ان سے ملاقات کی اور بات چیت کے دوران بتایا کہ وہ مذہبی تعلیمات اور ہدایات کا بہت احترام کرتا ہے اور ان پر زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی کوشش کرتاہے جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو غلط کاموں سے دور رکھنے میں اب تک کامیاب رہا۔ اس پر اچاریہ جی نے کہا کہ دنیا کے تمام دھرموں اور مذاہب کا یہی منشاء رہا ہے کہ اس دنیا میں انسان ایک بہترین مثالی انسان بن کر زندگی گزاریں۔
ایک مرتبہ کسی مغربی ملک سے آئے ہوئے ایک عیسائی سیاح Mr Senex نے اچاریہ جی سے ان سے ملاقات کی اور ہندو دھرم اختیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ سن کر اچاریہ جی حیرت میں پڑ گئے اور فوراً پوچھا کہ آخر عیسائی مذہب میں ایسی کونسی کمی ہے جس کی وجہ سے تم ہندو مذہب اختیار کرنا چاہتے ہو؟ اس پر اس سیاح نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا کہ مجھے آج تک عیسائی مذہب میں ذہنی سکون نصیب نہیں ہوا۔ اس پر اچاریہ جی نے کہا ’’شاید یہ تمہاری بد قسمتی ہی ہے کہ ایک بہترین مذہب میں تمہیں سکون نہیں ملا’’ اور پوچھا ’’کیا تم عیسائی مذہب کی ان تمام تعلیمات پر جس کے کرنے کا حکم تمہیں عیسائی مذہب دیتا ہے، سنجیدگی کے ساتھ عمل کرتے ہو؟ یہ بھی صاف صاف بتاؤ کہ کیا تم نے حضرت عیسیٰ کی تعلیمات کو سمجھا بھی ہے اور کیا تم انہیں تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہو؟‘‘ اس کے بعد انہوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ ایک سچے اور پکے عقیدے کے عیسائی کی طرح، اپنے مذہب کی مذہبی اور روحانی معلومات حاصل کرے اور ان پر سختی کے ساتھ عمل بھی کرے جیسا کہ حضرت عیسیٰ نے حکم دیا ہے۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے تبدیلی مذہب کے خلاف بہترین انداز میں تفصیل سے بات کی اور اس شخص سے کہا کہ سچ بات تو یہ ہے کہ محض حادثاتی طور پر تم نے عیسائی مذہب اختیار نہیں کیا ہے بلکہ پچھلے جنم میں تمہارے اچھے کردار و اخلاق کی وجہ سے بھگوان نے اس جنم میں عیسائی مذہب جیسے بہترین مذہب کو تمہارے لیے مناسب سمجھا اور تمہیں اس جنم میں عیسائی بنا دیا۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ تمہاری بہترین دنیوی زندگی کی کامیابی اور مرنے کے بعد نجات کا بہترین ذریعہ عیسائی مذہب پر قائم رہ کر حضرت عیسیٰ کی تعلیمات پر عمل کرنے میں مضمر ہے۔ اس تشریح کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ اب تمہیں کوئی اور مذہب اختیار کرنے کی ضرورت باقی نہ رہی۔ اس سے ہٹ کر اگر واقعی تم اپنی زندگی میں سکون چاہتے ہو تو اپنا موجودہ طرز زندگی بدلو اور روحانی طور پر بھی کوشش کرتے رہو۔
ایک اور موقع پر کسی اور یوروپین عیسائی نے اسی طرح ہندو دھرم اختیار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تب بھی اچاریہ جی نے بالکل یہی جواب دیا تھا۔ اس پر اس عیسائی سیاح نے ان سے کہا کہ در اصل ہندو دھرم ایک عیسائی کو عیسائی دھرم پر، ایک مسلمان کو اسلام پر اور ایک بدھسٹ کو بدھ دھرم پر ہی قائم رہنے کو صحیح سمجھتاہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے ہندو دھرم ایک وسیع النظر دھرم ہے۔
ہندو دھرم کے رہنماؤں کی طرح شری چندر شیکھر بھارتی جی کی طبیعت میں بھی دیگر دھرموں کے ساتھ مصلحت اور فراست کا اصول شامل تھا۔ یہ یوگا کے علاوہ کچھ فوق الفطرت طاقتوں کے مالک بھی تھے جو وہ کبھی کبھی صرف اپنے عقیدت مندوں کی بھلائی کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی ذاتی شہرت یا اپنے فائدے کے لیے ان طاقتوں کا کبھی استعمال نہیں کیا البتہ جب عقیدت مند، سخت بیماری یا پریشانی میں مبتلا ہوتے تو ان فوق الفطرت طاقت کی مدد سے انہیں فائدہ ہو جاتا لیکن اس کا سبب بھی وہ بھگوان ہی کو سمجھتے تھے۔
وہ یہ بھی کہتے تھے کہ انہیں ماضی میں مسلمان حکمرانوں کی جانب سے ہندوؤں کے مندروں کو توڑے جانے اور اب عیسائی مشنریوں کی جانب سے غریب مجبور ہندوؤں کو عیسائی بنائے جانے کا علم ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کسی مذہب کے احمق، شریرالنفس افراد کے گناہوں یا ان کی غلطیوں کی سزا اس مذہب کے ماننے والے بے گناہ افراد کو دینا، کوئی دانشمندی یا عقلمندی کا ہرگز ثبوت نہیں ہو سکتا۔
(بشکریہ ’دا وائر)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  9 اکتوبر تا 15 اکتوبر 2022