مسجد کی مرکزیت اور ابدیت: شریعت کی روشنی میں

محمد ساجد سحرائی کی کتاب پر نقد ونظر

عالم نقوي،علي گڑھ

محمد ساجد صحرائي نے يہ کتاب ’’مسجد کي مرکزيت اور ابديت: شريعت کي روشني ميں‘‘ مرتب کر کے اور بابري مسجد فاؤنڈيشن، دہلي نے اُس کي اِشاعت کا بيڑا اٹھا کر بلا شبہ ايک بڑي خدمت انجام دي ہے جو فرض کفايہ کي ادائيگي کے مترادف ہے۔ مرتب ہذا نے اپنے پيش لفظ ميں بالکل درست لکھا ہے کہ ’اسلام ميں مساجد کا وہي مقام ہے جو انساني جسم ميں دل کا ہے۔ اللہ فرماتا ہے: ’اللہ کي ياد سے دلوں کو اطمينان حاصل ہوتا ہے‘ (الرعد آيت۲۸) اور ’ميري ياد کے ليے نماز قائم کرو‘ (طٰہ آيت  ۱۴) ظاہر ہے کہ اقامت صلوٰۃ کا تصور مسجد ہي سے وابستہ ہے۔ اسي ليے حضور ﷺ نے مساجد کو ’رياض الجنۃ ‘ جنت کي ايک کياري (ترمذي) اور ’بيت المتقين ‘(مشکوٰۃ بحوالہ مسلم ) متقيوں کا گھر قرار ديا ہے۔ ’اللہ کے نزديک دنيا کي بہترين جگہ مسجد ہے

( مشکوٰۃ )۔ ديگر مذاہب کي عبادت گاہوں کے برخلاف، مساجد اُمتِ مسلمہ کے ليے لائف لائن کي حيثيت رکھتي ہيں جہاں اقامت صلوٰۃ کے ساتھ  اعتکاف بھي ہے اور درسگاہوں کے ساتھ دعوتي مراکز بھي۔ قرنِ اول ميں تو مساجد، مجاہدين في سبيل اللہ کي تياري کي جگہ، زخميوں اور مريضوں کي خيمہ گاہ اور مالِ غنيمت کي تقسيم کا مرکز بھي ہوتي تھيں۔ مسجدوں ہي ميں نکاح بھي اور بوقت ضرورت طلاق ولعان کے فيصلے اور مہمانوں کے قيام و طعام کا نظم بھي ہوتا تھا۔حقيقت يہ ہے کہ مسجديں مسلم معاشرے کا مرکزِ اعصاب Nerves Centre ہيں اسي ليے دنيا کي تمام مساجد کا رخ بھي ايک ہي ہے:

 بيت اللہ يعني مسجد بنانے والوں کي صفت بھي يہ بيان کي گئي ہے کہ ’يہ وہ لوگ ہيں جو اللہ اور روز قيامت پر ايمان رکھتے ہيں اور اللہ کے سوا اور کسي سے نہيں ڈرتے (سورہ توبہ آيت ۱۸۱) مساجد شعائر اسلام ميں سے ہيں اور ان کي تعظيم کرنے والے متقي ( سورہ حج  آيت ۳۲) اور مسجديں اللہ کي ملکيت ہيں (سورہ جن آيت ۱۸) اس ليے مساجد سے دستبرداري کسي بھي مسلمان کے ليے جائز نہيں۔ ان ميں عبادت سے روکنے، خرابي پيدا کرنے اور اجاڑنے والوں کو زمين کا سب سے بڑا ظالم قرار ديا گيا ہے (سورہ بقرہ آيت ۱۱۴) مگر شيطان کا اتباع کرنے والے ہميشہ توحيد کے ان مراکز کے خلاف سازشيں کرتے رہے ان ميں اہل ايمان کے دائمي دشمن ’يہود ومشرکين، ملحدين اور وہ عيسائي فرقے جو محض نام کے عيسائي اور عملاً يہوديوں سے بڑے يہودي ہيں ہميشہ سب سے آگے رہے۔ بد قسمتي سے مسلمانوں کا مسئلہ شروع سے آج تک يہ رہا ہے کہ ايک تو انہوں نے’و تَوَاصَوا بِالحَق و تواصوا بالصبر ‘(العصر آيت ۳) کا حق ادا کرنے ميں بالخصوص، ہندوستان ميں کئي سو سالہ دور حکومت کے دوران غير معمولي کوتاہي اور غفلت برتي اور دوسرے قرآن کريم کے اس انتباہ کو نظر انداز کرتے رہنے کے عذابِ مسلسل ميں گرفتار ہيں کہ ’’تم اہلِ ايمان کي عداوت ميں سب سے زيادہ سخت يہود اور مشرکين کو پاؤگے اور اہل ايمان کے ليے دوستي ميں قريب تر ان لوگوں کو جنہوں نے کہا کہ ہم نصاريٰ ہيں، يہ اس وجہ سے کہ اُن ميں عبادت گزار عالم اور تارک الدنيا فقير پائے جاتے ہيں اور تکبر (غرورِ نفس اور گھمنڈ تو) بالکل نہيں پايا جاتا ‘‘ (المائدہ ۸۲) بے شک اس سے قبل اسي سورہ مائدہ کي آيت ۵۱ ميں کہا گيا ہے کہ ’’اے ايمان والو يہود ونصاريٰ کو اپنا دوست اور سر پرست نہ بناو کہ يہ خود آپس ميں ايک دوسرے کے دوست ہيں تم ميں سے جو کوئي انہيں دوست بنائے گا وہ انہيں ميں شمار ہو جائے گا، بے شک اللہ ظالم قوم کي ہدايت نہيں کرتا‘‘ ليکن قرآن کريم انسانوں کا نہيں خالق وپروردگار کا کلام ہے جس ميں نہ کوئي تضاد ہے نہ اختلاف۔اس کے معني يہ ہيں کہ يہود ومشرکين اور نصاريٰ بالعموم سب ايک ہي زمرہ دشمنانِ اہل ِايمان ميں شامل ہيں۔ المائدہ آيت ۸۲ کے مطابق صرف وہ نصاريٰ اس کليہ سے مستثنيٰ ہيں جو ’عبادت گزار عالم اور تارک الدنيا فقير ہوتے ہيں اور جن کے اندر تکبر نہيں پايا جاتا ‘‘۔ مثال کے طور پر يہ خصوصيات آنجہاني مدر ٹريسا اور پوپ جان پال دوم اور انہي جيسے معدودے چند خواصِ نصاريٰ سے متعلق ہيں، ليکن ان کي اکثريت اسي حکم ِ عام کا حصہ ہے جسے المائدہ  آيت ۵۱ ميں يہود  ومشرکين کے ساتھ رکھا گيا ہے (واللہ اعلم بالصواب)     

البتہ نہايت واضح اور دو ٹوک انداز ميں ہميں منع کيا گيا تھا کہ ’’خبر دار مؤمنين اہلِ ايمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست، ولي، سر پرست، يار ومددگار نہ بنائيں کہ جو بھي ايسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئي تعلق نہ ہو گا اِلّا يہ کہ تمہيں اُن سے کوئي خوف ہو (کہ تم اُن کے ظلم سے بچنے کے ليے ايسا طرز عمل اختيار کر جاؤ ) مگر  اللہ تمہيں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمہيں بالآخر اسي کي طرف پلٹ کر جانا ہے ‘(آل عمران ،آيت ۲۸) سورہ مائدہ کي آيات ۵۶ اور ۵۷ ميں ايک’ خوشخبري ‘کے ساتھ اِس ’تحديد‘ کي تکرار کي گئي ہے کہ ’’اے ايمان والو تمہارا ولي تو بس اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ اہلِ ايمان جو حالت رکوع ميں زکوٰۃ ديتے ہيں۔ اور جو بھي اللہ، رسول اور اہلِ ايمان کو اپنا ولي و سرپرست بنائے گا تو اسے معلوم ہونا چاہيے کہ اللہ ہي کي جماعت (حزب اللہ) غالب آنے والي ہے۔ تو اے ايمان والو خبر دار اہلِ کتاب (يہود و نصاريٰ ) ميں سے جن لوگوں نے تمہارے دين کو مذاق اور تماشہ بنا رکھا ہے اُنہيں اور ديگر کافروں کو کبھي اپنا ولي اور سرپرست نہ بنانا اور ہميشہ اللہ ہي سے ڈرتے رہنا اگر تم مؤمن ہو ۔‘ 

مرتب کتاب ہي کے لفظوں ميں ’بيت اللہ ميں بت رکھنے سے لے کر بيت المقدس پر قبضے تک مشہور مسجد قرطبہ سميت اسپين کي ہزاروں مساجد کے ساتھ وسطي ايشيا، روس اور چين ميں کئي مساجد ہر دور ميں شيطاني ظالموں کا نشانہ بنتي رہيں۔ خود ہمارے ملک ميں مشرکين کے ذريعے مغلوں کے زمانے سے لے کر انگريزوں کے دور تک اور تقسيم کے وقت سے لے کر آج تک ہزاروں مساجد کو منہدم کرنے، بت خانہ بنانے گودام اور باڑے بنانے اور رہائش گاہيں بنانے کي ہر طرح کي کوششيں کي گئيں۔

آزاد ہندوستان ميں حکومت کے زير سايہ بابري مسجد کے منبر پر مورتي رکھنے سے لے کر دولت آباد (اورنگ آباد) کے قلعے کي عظيم الشان شاہي مسجد کي محراب ميں ’بھارت ماتا کي مورتي نصب کرنے تک۔ دھار (ايم پي) کي تاريخي مسجد پر بھوج شالہ کے نام سے قبضہ کرنے سے لے کر لال قلعہ (دہلي) گول گنبد (بيجا پور) ،بي بي کا مقبرہ (اورنگ آباد) اور تاج محل (آگرہ) جيسي عظيم الشان مساجد تک ہزاروں مسجدوں کو آثار قديمہ کے نام پر مقفل کر کے نمازيوں کے ليے بند کر کے انہيں امتداد زمانہ سے خود ہي منہدم ہونے کے ليے چھوڑ ديا گيا ہے۔ ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو بابري مسجد کے دن دہاڑے انہدام کے علاوہ ملک کي مزيد ساڑھے تين ہزار مسجديں نشانے پر ہيں تو کہيں عام مقامات پر نماز پڑھنے بالخصوص نماز جمعہ پڑھنے پر جبري پابندياں عائد ہيں۔ 

سيد صباح الدين عبد الرحمن ہندوستان کے سلاطين علماء اور مشائخين کے تعلقات پر ايک نظر کے تحت لکھتے ہيں کہ ’’مسلمانوں کے دور حکومت ميں ہندو راجاوں کے ہاتھوں مسجدوں کے انہدام کي مثاليں بھي بکثرت موجود ہيں ۔چنانچہ وجے نگر کے راجہ نے احمد نگر پر غلبہ پايا تو وہاں کي مسجدوں کو منہدم کر ڈالا اور ان کے احاط جات ميں فحاشي کے اڈے قائم کيے۔ حضرت مجدد ؒ نے اپنے مکتوبات ميں جہانگير سے اصرار کيا ہے کہ وہ اپنے دور کي منہدم مسجدوں کو پھر سے تعمير کرائے۔ شاہجہاني عہد ميں بہت سي مسجديں مسمار کر دي گئي تھيں اور ان کي جگہ مندر بنا ديے گئے تھے۔ شاہجہاں کو خبر ہوئي تو اس نے مجرموں کو کوئي عام سزا تو نہيں دي ليکن جن مسجدوں کو ڈھا کر مندر بناديے گئے تھے انہيں پھر سے مسجد ميں تبديل کر ديا گيا۔ مرہٹے جب ستارا اور پرلي کے قلعوں ميں داخل ہوئے تو انہوں نے بيجا پور کے حکمرانوں کي تعمير کردہ مسجدوں کو مسمار کر ڈالا ۔‘‘زير تبصرہ کتاب مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے اِس متفقہ نقطہ نظر کي قرآن وسنت پر مبني تمام شرعي تفصيلات پر مشتمل ہے کہ’ مساجد مسلمانوں کي ملکيت نہيں بلکہ براہ راست اللہ سبحانہ تعالي کي ملکيت ہيں لہٰذا اُن سے کسي بھي صورت ميں اور کسي بھي قيمت پر دست بردار نہيں ہوا جا سکتا‘۔ رہ گئي مصلحت تو بقول مولانا خالد سيف اللہ رحماني ’’جو لوگ سوچتے ہيں کہ بابري مسجد کے قضيے ميں مسلمانوں کے پيچھے ہٹ جانے کي وجہ سے ہم آہنگي پيدا ہوگي (تو ملک کے موجودہ حالات شاہد ہيں کہ يہ خام خيالي محض ايک سراب ہے) آزادي کے بعد سے اب تک کے تہتر برسوں کے دوران ہزاروں فسادات اور منظم نسل کشي کے سنگين اور ہولناک واقعات ہو چکے ہيں ان ميں شايد پانچ فيصد بھي بابري مسجد کے تنازعے کي وجہ سے نہيں ہوئے۔ بات در اصل يہ ہے کہ نفرت کے ايجنڈے کو فروغ دينا ہي آر ايس ايس کا واحد سياسي ايجنڈا ہے جس نے بي جے پي کو دوبارہ براہ راست اقتدار تک پہنچايا ہے اور جس کو ملک گير نسل کشي تک پہنچا کر وہ اگلے پچاس برسوں تک مسلسل اقتدار پر قابض رہنا چاہتے ہيں۔ امن وانصاف کے قيام اور معاشي استحکام سے انہيں کوئي لينا دينا نہيں ہے۔ مستقبل کے جو آثار نظر آرہے ہيں اس کے نتيجے ميں مسلمان صبر آزما حالات سے دو چار ہو سکتے ہيں۔ ويسے تو صبر وتحمل سے کام ليتے ہوئے راست ٹکراو سے بچنے کي تدبير ضرور کرني چاہيے ليکن جان ومال عزت و آبرو اور شعائر اسلام کا دفاع اور اس کے ليے ’حسب ِاِستطاعت حصولِ قوت (الانفال ۶۰) بھي واجب ہے۔ اس ديني، اخلاقي اور قانوني حق کے استعمال سے غفلت خود کشي کے مترادف ہوگي ۔