مولانا سید جلال الدین عمری
مسجد اشاعت اسلام، نئی دلی کی توسیع کے موقع پر دیا گیا خطبہ جمعہ
إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّہِ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَۃَ وَآتَی الزَّکَاۃَ وَلَمْ یَخْشَ إِلاَّ اللّہَ فَعَسَی أُوْلَـئِکَ أَن یَکُونُواْ مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ۔(التوبہ:۱۸)
اس وقت آپ کے سامنے سورہ توبہ کی ایک آیت کی تلاوت کی گئی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مسجدوں کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں یہ انہی کا کام ہے جو اللہ اور یوم آخرت اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ نماز کے پابند ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور صرف اللہ سے ڈرتے ہیں، یہی لوگ راہ راست پر ہیں۔
دوستو اور ساتھیو اور محترم خواتین! اس سے معلوم ہوا کہ مسجدوں کی تعمیر، ان کو آباد کرنا اور ان کو آباد رکھنا یہ ایمان والوں کا کام ہے۔ خدا ترس انسانوں کا کام ہے اور جو لوگ یہ کام کرتے ہیں حقیقت میں وہ اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔
مسجد کو آباد کرنے کا مطلب ہے اس کی جو ضروریات ہیں ان ضروریات کو پوری کرنا۔ مسجد کی تعمیر ہوئی، اس کی تعمیر کے ساتھ اس کی کچھ ضرورتیں بھی ہوتی ہیں۔ جیسے آپ دیکھ رہے ہیں کہ چٹائیاں بچھی ہوئی ہیں، آواز کو پہنچانے کے لیے لاوڈ اسپیکر کا انتظام ہے، بجلی کے پنکھے لگے ہیں۔
رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں میرے سامنے میری امت کے نیک اعمال پیش کیے گئے، اس میں یہ عمل بھی شامل تھا کہ مسجد میں اگر کوئی تنکا پڑا ہو اور آدمی اٹھا کر اسے باہر پھینک دے (کوڑے دان میں ڈال دے) آپ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ فرشتے اسے اس کے نامۂ اعمال میں لکھتے ہیں۔ اس سے مسجد کی صفائی کی اہمیت اور فضیلت واضح ہوتی ہے۔
حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے محلوں میں مساجد کی تعمیر کا حکم دیا۔ فرمایا انہیں پاک صاف اور معطر رکھا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسجد میں پاکی صفائی کا اہتمام ہونا چاہیے اور گندگی نہیں ہونی چاہیے۔حدیث میں خوشبو اور عطریات کے استعمال کی بھی ترغیب ہے۔
کوئی شخص وضو کیے بغیر آگیا تو اس کے وضو کا انتظام ہونا چاہیے۔ مسجد آنے کے بعد ضرورت محسوس ہوئی تو ضرورت پوری کرنے کا انتظام ہونا چاہیے۔
بعض لوگ سیدھے سادے اور بھولے بھالے ہوتے ہیں۔ ایک صاحب مسجد نبوی میں آئے انہیں ضرورت محسوس ہوئی تو استنجا کرنے لگے۔ لوگ دوڑے کہ یہ کیا حرکت کر رہے ہو تم؟ آپ نے فرمایا: نہیں! رک جاو۔ اسے پیشاب کرلینے دو۔ وہ فارغ ہو گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس پر پانی بہادو اور صاف کر دو۔ ان صاحب کو سمجھایا کہ مسجد اس کام کے لیے نہیں ہے۔ یہ مسجد سے باہر ہونا چاہیے۔ یہ ساری چیزیں مسجد کو آباد کرنے کا حصہ ہیں۔
مسجد عبادت گاہ ہے۔ یہاں نماز پنجگانہ، نوافل، تلاوت اور ذکر واذکار کا اہتمام ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ وہ دینی خدمات کا بھی مرکز ہے۔ رسول اکرم ﷺ کے دور مبارک میں اسے یہی حیثیت حاصل تھی۔ میرے دوستو اور ساتھیو! مساجد اس امت کا دل ہیں دل۔ اور جانتے ہیں کہ انسان کا دل مستقل حرکت میں رہتا ہے۔ مسلسل دھڑکتا رہتا ہے اور پورے جسم کو خون فراہم کرتا ہے۔ اسی سے زندگی کی بقا اور سلامتی ہے۔ اگر ایک لمحے کے لیے دل اپنی حرکت بند کر دے تو رشتہ حیات کٹ جائے اور آدمی اس دنیا سے چل بسے۔ یہ مسجد بھی امت مسلمہ کا دل ہے۔ اس سے کٹنے کے بعد پھر اس کی دینی زندگی باقی نہیں رہ سکتی۔مسجد کو دین اور دینی کاموں کا مرکز ہونا چاہیے۔جن لوگوں کا تعلق اپنے مرکز سے نہ ہو وہ منتشر ہو جاتے ہیں اور ان کی دینی روح پژمردہ ہو جاتی ہے۔ مسجد سے آپ کا تعلق جتنا مضبوط ہوگا اللہ تعالیٰ سے اتنی ہی قربت بڑھے گی۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں وہ شخص اللہ کے عرش کے سایہ میں جگہ پائے گا جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہو۔ رجل قلبہ معلق بالمسجد۔
مسجد کو علم دین کا مرکز ہونا چاہیے۔ یہاں سے دین کا علم پھیلے اور وہ عام ہو، لوگ جانیں کہ اللہ کا دین کیا ہے اور اس کے کیا تقاضے ہیں؟
رسول اکرم ﷺ مسجد تشریف لے گئے۔ آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں، ذکر واذکار میں مصروف ہیں اور کچھ لوگ قرآن پڑھ رہے ہیں اور اسے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ دونوں ہی اچھے کام کر رہے ہیں لیکن جو لوگ قرآن مجید پڑھ رہے اور اسے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں اس کی گہرائیوں میں اترنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ زیادہ فضیلت کے حامل ہیں فرمایا: میں ان کے ساتھ بیٹھوں گا اللہ نے مجھے معلم بنایا ہے۔ قرآن میں آپ کی شان میں کہا گیا يَتۡلُواْ عَلَيۡهِمۡ ءَايَٰتِهِۦ وَيُزَكِّيهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلۡكِتَٰبَ وَٱلۡحِكۡمَةَ
(آل عمران:۱۶۴) آپ انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں، ان کا تزکیہ کرتے ہیں اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ آپ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کی حکمت واضح کرتے ہیں، اس کی باریکیاںبتاتے ہیں اور اس کی فلاسفی سمجھاتے ہیں۔ یہی فرض مساجد کے ذریعہ انجام پانا چاہیے۔ اسی سے وہ افراد تیار ہوں گے جو آج کے دور میں اسلام کی حقانیت ثابت کر سکیں۔اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو لوگ مسجد میں بیٹھ کر قرآن مجید پڑھ رہے ہیں، پڑھا رہے ہیں سمجھ رہے ہیں اور سمجھا رہے ہیں اس کی عصری حکمت اور معنویت کو جاننے کی کوشش کر رہے ہیں وہ پیغمبروں کا کام کر رہے ہیں۔ وہ کام کر رہے ہیں جو اللہ کے رسول نے کیا۔ ان سے بڑا مقام کس کا ہو گا؟
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب لوگ خدا کے کسی گھر (مسجد) میں جمع ہوں، اس کی کتاب کی تلاوت کریں اور اس کی درس وتدریس ہو رہی ہو تو اللہ کی طرف سے ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، اس کی رحمت ان پر چھا جاتی ہے۔ فرشتے ان کو چہار جانب سے سے گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کے درمیان ان کا ذکر فرماتا ہے۔ (مسلم) یہ اسی وقت ممکن ہے جب مسجد مرکز علم بن جائے۔
مسجد نبوی سے متصل صفہ تھا۔ صفہ چبوترے کو کہتے ہیں اور اس کے اوپر ایک چھت ڈال دی گئی تھی۔ وہاں لوگ علم حاصل کرنے کے لیے جمع ہوتے تھے۔ فقر وفاقہ کی زندگی گزارتے تھے۔تکلیفیں برداشت کرتے تھے اور نبی کریم ﷺ کی صحبت ورفاقت سے فیض اٹھاتے اور صحابہ کرام کی معیت میں رہ کر علم حاصل کرتے تھے۔ یہ مرکز علم تھام اس سے صحابہ کرام حسب موقع استفادہ کرتے۔ بعض اصحاب چند دن کے لیے اور بعض زیادہ دن کے لیے آتے۔ اس سے نامور علماء اور محدثین تیار ہوئے۔ صحابہ کرام میں سب سے زیادہ حدیث کی روایت کرنے والے حضرت ابوہریرہؓ ہیں۔ چار برس تک وہ اس مرکز سے چمٹے رہے اور سب سے بڑے محدث ہوئے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ مسجد علم دین کا مرکز ہو۔
مسجد نبوی سے خدمت خلق کے کام بھی انجام پاتے تھے۔ ایک خاتون رفیدہ نامی تھیں۔ مسجد سے متصل انہوں نے علاج معالجہ کے لیے خیمہ لگا رکھا تھا۔ جو زخمی بھی آتا اس کا علاج کرتیں۔مرہم پٹی کرنا جانتی تھیں۔ حضرت سعد جنگ خندق میں زخمی ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے کہا کہ اسی خیمہ میں انہیں بھی رکھو۔ مجھے دیکھنے اور عیادت کرنے میں آسانی ہو گی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسجد کو خدمت خلق کا بھی ذریعہ ہونا چاہیے۔ ہم جس مسجد میں اس وقت نماز ادا کر رہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے اس سے متصل ایک بڑا ہاسپٹل ہے۔ یہ خدمت خلق کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
دور جدید میں اسلام اور امت مسلمہ کے گوناگوں مسائل ہیں۔ ان کے حل کے لیے متعدد جماعتیں اور تنظیمیں قائم ہیں۔ ہر جماعت کا اپنا نظم ہے، اس کی ضروریات اور تقاضے ہیں۔ ہر دینی جماعت کو اپنے پروگرام میں مسجد کو اس کا صحیح مقام دیا جانا چاہیے اور اسے مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔
آخری بات یہ ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ اس وقت کورونا میں شدت آگئی ہے۔ ہم لوگ احتیاط کرتے ہیں، انجکشن بھی لگائے جا رہے ہیں، مزید احتیاط کی ضرورت ہے۔ انہی دنوں میں مختلف تہوار بھی آ رہے ہیں۔ کورونا کا یہ مرض متعدی ہے۔ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں اپنا بھی فائدہ ہے اور دوسروں کا بھی۔ آپ خود بھی بچیں گے اور دوسروں کو بھی بچائیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جو باتیں عرض کی گئی ہیں انہیں یاد رکھیں اور ان کو روبہ عمل لانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی مدد فرمائے آمین۔
***
مساجد اس امت کا دل ہیں دل۔ ہم جانتے ہیں کہ انسان کا دل مستقل حرکت میں رہتا ہے۔ مسلسل دھڑکتا رہتا ہے اور پورے جسم کو خون فراہم کرتا ہے۔ اسی سے زندگی کی بقا اور سلامتی ہے۔ اگر ایک لمحے کے لیے دل اپنی حرکت بند کر دے تو رشتہ حیات کٹ جائے اور آدمی اس دنیا سے چل بسے۔ یہ مسجد بھی امت مسلمہ کا دل ہے۔ اس سے کٹنے کے بعد پھر اس کی دینی زندگی باقی نہیں رہ سکتی
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا یکم مئی 2021