مزدوروں کی بدحالی۔! آخر حل کیا ہے ؟
شہری روزگار مارکٹ بڑی حد تک بے قاعدہ اور سماجی سلامتی سے عاری ہے جو مزدوروں کے لیے جوکھم سے بھرپور اور لاک ڈاونس کے دوران پریشان کن حالات کا سبب ہے
کرشنا رام
کووِڈ ۱۹ کی نئی شکلوں کے پھیلاو اور مختصر لاک ڈاونس میں مزید توسیع کے اندیشوں نے ایک مرتبہ پھر مزدور طبقہ کے درمیان افراتفری پیدا کردی ہے اور وہ پھر سے نقل مکانی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں چنانچہ دلی و مہاراشٹرا کے ریلوے اسٹیشنوں اور بس ڈپوز پر زبردست ہجوم دیکھا جاسکتا ہے۔ اس صورتحال نے بڑے پیمانہ پرنقل مکانی کو روکنے سے قاصر ہمارے نظام کو ایک مرتبہ پھر اجاگرکیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے حالیہ تجربہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے ۔ گزشتہ سال مماثل وجوہات کی بنا پر مائیگرنٹ مزدور بڑے شہروں سے روانہ ہوئے تھے ۔ ہم سب نے دیکھا کہ یہ کس قدر تکلیف دہ مرحلہ تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر ہم اسی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہاں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے پریشان نہ ہونے کی اپیل اور مدد و تعاون کی یقین دہانیوں کے باوجود بھی لوگ شہروں کو چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کرتے ہیں؟ ۔ اس کا سب سے مناسب جواب یہ ہے کہ اربن لیبر مارکٹ میں بے ضابطگی وبے قاعدگی پائی جاتی ہے۔ حالیہ لیبر سروے (پی ایل ایف ایس 19-2018 ) جس میں جولائی 2018اور جون 2019کے درمیان کی مدت کے لیے روزگار اور اجرتوں کی صورتحال کو اجاگر کیا گیا ہے اس میں دکھایا گیا ہے کہ تقریباً ۱۵تا۵۹ سال عمر کی 12 کروڑ80لاکھ کی آبادی، شہری شعبہ میں لیبر فورس کا حصہ ہے جن میں سے 11کروڑ 60لاکھ برسر روزگار ہیں۔ جملہ برسر روزگار افراد میں سے 23فیصد رسمی مزدور ہیں اور 77فیصد غیر رسمی مزدور ہیں۔ رسمی مزدور عوامی اور خانگی منظم شعبوں میں کام کرتے ہیں انہیں سماجی سلامتی کے مناسب فوائد حاصل ہوتے ہیں لیکن غیر رسمی شعبہ کے مزدوروں کو یہ فوائد حاصل نہیں ہوتے جس کی وجہ سے شہری علاقوں میں وہ معاشی و سیاسی دھکے کھاتے ہیں۔ جملہ ورک فورس میں سے تقریباً 38فیصد ورکرس خود روزگار کے حامل ہیں۔ 48.7فیصد باقاعدہ تنخواہ یاب ورکرس ہیں اور 13.5فیصد عارضی (کیژول) ورکرس ہیں۔ غیر رسمی ورکرس کے درمیان عارضی ورکرس کی حالت کچھ زیادہ ہی ابتر ہوتی ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر ہنر مند نہیں ہوتے اور کم آمدنی والے پیشوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔ ان ورکرس کے ایک قابل لحاظ حصہ کا تعلق مراعات سے محروم گروپوں اور نقل مکانی کرنے والے مزدوروں سے ہوتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق لاک ڈاون کے دوران مدھیہ پردیش کولوٹنے والے 7.3لاکھ ورکرس میں سے 60فیصد کا تعلق دلت اور آدی واسی طبقات سے ہے۔ یہ ورکرس زیادہ تر شہری سلم علاقوں میں رہتے ہیں۔ اگر وہ روزانہ کام نہ کریں تو ان کے لیے بنیادی ضرورتیں، جیسے غذا وغیرہ کا انتظام مشکل ہوجاتا ہے۔ اگر ہم سماجی زمروں میں ان غیر رسمی ورکرس کی یومیہ اجرتوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عارضی ورکرس کی یومیہ آمدنی خود روزگار کے حامل ورکرس (526روپے) سے تقریباً نصف (350روپے) ہوتی ہے۔ باقاعدہ ورکرس کی ماہانہ اجرتیں اتفاقی ورکرس سے زیادہ ہوتی ہیں کیونکہ ان کے لیے تمام ایام کار میں کام دستیاب ہوتا ہے جبکہ عارضی ورکرس کو یہ سہولت حاصل نہیں ہوتی۔
سماجی زمروں میں ہم دیکھ سکتے ہیں دلت ، آدی واسی اور او بی سی ورکرس اپنے روزگار کے موقف سے قطع نظر دیگر زمروں کے ورکرس سے اوسطاً کم کماتے ہیں۔ سماجی گروپوں کے درمیان اوسط اجرت میں تفاوت کی بنیادی وجہ ان مراعات سے عاری گروپوں کا ساختیاتی فوائد سے محروم ہونا ہے۔
ان گروپوں کو درپیش تاریخی ظلم و زیادتیوں نے استعداد، مواقع اور ہنر مندیوں کے معاملے میں منظم تفاوت پیدا کیا ہے۔ ان اسباب کی وجہ سے دلت اور آدی واسی اکثر کم یافت پاتے ہیں اور ہندوستان کے دیگر طبقات کے مقابلہ میں کم درجہ کے پیشوں سے منسلک ہوتے ہیں۔ خواندگی اور ہنر مندیوں کے معاملہ میں ساختیاتی عدم فوائد ان کے مزید استحصال کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ شہری غیر رسمی لیبر مارکٹ میں امتیازات ان افراد کے لیے اس کے سوا کوئی موقع نہیں چھوڑتے کہ وہ جس قدر اجرت کی پیشکش کی جارہی ہے اسے قبول کرلیں۔
کم سے کم اجرتوں کے قانون 1948کے مطابق غیر ہنر مند ورکرس کے لیے مقررہ اقل ترین اجرت کی بابت ان غیر رسمی ورکرس کی اجرتوں کا موازنہ کریں تو ہم پائیں گے کہ تمام شہری غیر رسمی ورکرس کے تقریباً 32فیصد کو کم سے کم اجرت بھی حاصل نہیں ہوتی۔ مختلف سماجی مزدروں میں دلت اور آدی واسیوں کے اعداد و شمار سب سےزیادہ ہیں۔ 2018-19کے دوران تقریباً 35فیصد آدی واسی ، 43فیصد دلت اور 31فیصد او بی سی کو کم سے کم اجرتیں حاصل نہیں ہوئی ہیں۔ مزید برآں، غیر رسمی مزدوروں کا 11ملین یعنی تقریباً 10فیصد (اس میں بے روزگار افراد شامل نہیں) سطح غربت سے بھی کم کماتے ہیں۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ روزگار سے جڑے ہونے کے باوجود تقریباً 11ملین ورکرس اور ان کے ارکان خاندان غریبی میں جیتے ہیں۔ علاوہ ازیں 38فیصد (44ملین) ورکرس مفلوک الحال ہیں یعنی جو سطح غربت کی آمدنی کے دو گنا سے بھی کم کماتے ہیں۔
بہ لحاظ آبادی غربت کا شرح تناسب (بشمول برسر روزگار ورکرس و بے روزگار اور ان کے ارکان خاندان( ۲۲ فیصد (8کروڑ 20 لاکھ)ہے۔ اگرہم مفلوک الحال طبقہ کو شامل کرلیں تو غربت کا تناسب بڑھ کر 51فیصد (18کروڑ80لاکھ ہوجاتا ہے) مختلف سماجی زمروں میں غربت کا شرح تناسب دلتوں اور آدی واسیوں اور او بی سی میں علی الترتیب 59فیصد، 57فیصد اور 55 فیصد ہوتا ہے۔
دلی اور مہاراشٹرا کی بات کریں تو دلی میں تقریباً 41فیصد اور مہاراشٹرا میں 38فیصد ورکرس کی اوسط آمدنی غیر منظم ورکرس کے لیے مقررہ یومیہ اجرت سے کم ہے۔ دلی میں تقریباً 32فیصد ورکرس غریب ہیں اور مہاراشٹرا میں 33فیصد ۔ ان ریاستوں میں انفرادی غربت کا شرح تناسب علی الترتیب 44فیصد اور 47فیصد ہے۔ ان اعداد و شمار سے اجرتوں کی مایوس کن صورتحال، گزر بسر کے غیر معیاری حالات اور شہری غیر رسمی ورکرس کے ابتر حالات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ عام حالات کے دوران اجرتوں میں تفاوت کو کم کرنے میں ناکامی اور شہری غیر رسمی ورکرس کے ایک بڑے حصہ کے لیے کم سے کم اجرت کو یقینی بنانے میں حکومتیں ناکام ہیں اسی لیے شہری غیر رسمی ورکرس کی اکثریت انتہائی خطرہ سے دوچار ہے اور عام حالات کے دوران بھی وہ مخدوش حالات میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
لاک ڈاون نے غیر رسمی ورک فورس کی اکثریت کو ان کے کام سے محروم کردیا ہے اور ان کی آمدنیوں پر فی الفور ضرب پڑی ہے۔ آمدنی کا دیگر کوئی امکانی ذریعہ نہ ہونے اور حکومت کے ناکافی تعاون کی وجہ سے مصیبت کے مارے مزدور اپنی بقا کے لیے گھروں کو واپس ہورہے ہیں۔
(بشکریہ انڈین اکسپریس، ۲۷ اپریل)
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 2 مئی تا 8 مئی 2021