مدھیہ پردیش کے دورانا گاؤں میں خوف کا ماحول، ہندوتوا گروپوں نے مسلمانوں کے گھروں پر ’’جے شری رام‘‘ لکھا

مدھیہ پردیش، جنوری 2: ضلع منداسر کے دورانا گاؤں میں ہندوتوا گروپوں کے ممبران کے ذریعے مسلمانوں کے گھروں پر ’’جے شری رام‘‘ لکھ جانے کے بعد خوف و دہشت کا ماحول ہے۔

وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے 5 ہزار سے زائد کارکنوں نے دورانا گاؤں کی سڑکوں پر مارچ کیا، جب کہ پولیس خاموش تماشائیوں کی طرح کھڑی رہی۔

یہ بات اس واقعے کے کچھ دنوں بعد ہی سامنے آئی ہے، جب دائیں باز کے گروپ کے ممبران نے ایک مسجد پر چڑھ کر اس کے مینار پر بھگوا پرچم لہرائے تھے۔

خوف و ہراس کے مد نظر گاؤں کے لوگوں نے اس سے قبل پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) سے درخواست کی تھی اور تحفظ کا مطالبہ کیا تھا، جس میں ایک سوشل میڈیا تحریک میں ’’ہندو بھائیوں‘‘ کو املواڑا سے دورانا گاؤں تک ریلی میں شامل ہونے کے لیے کہا گیا تھا۔

ایک اور پیغام میں مبینہ طور پر لوگوں پر زور دیا گیا کہ وہ ’’اورنگ زیب کی اولادوں‘‘ کو ہندو ریلی کو دورانا سے گزرنے سے روکنے کے لیے سبق سکھائیں۔

معلوم ہو کہ 25 دسمبر کو ایک ریلی کو مقامی لوگوں نے گاؤں میں مسجد کے باہر تیز میوزک بجانے سے روک دیا تھا۔ منگل (29 دسمبر) کو کچھ لوگ اسی مسجد پر چڑھ گئے اور زعفرانی جھنڈے لگائے۔ تاہم بعد میں پولیس نے ان جھنڈوں کو ہٹا دیا تھا۔

پولیس سپرنٹنڈنٹ سدھارتھ چودھری نے کہا کہ پولیس نے مسجد پر چڑھنے والوں کو فوری طور پر نیچے اترنے کا حکم دیا۔ انھوں نے کہا کہ مسجد کی عمارت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ اس ریلی کے لیے کسی طرح کی اجازت نہیں لی گئی تھی۔

پانچ سو مکانات والے اس گاؤں میں تقریباً 82 مسلم خاندان رہتے ہیں۔ اس گاؤں میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کارکنوں کی اچھی موجودگی ہے۔

منگل (29 دسمبر) کو اندور میں ایودھیا میں رام مندر کے لیے فنڈ جمع کرنے کی ایک اور مہم نے اس وقت پرتشدد موڑ لیا جب متعلقہ لوگوں نے مبینہ طور پر ایک مسجد کو نقصان پہنچانے اور احاطے کے باہر ہنومان چالیسہ پڑھنے کی کوشش کی۔

اس سے قبل جب وہ مسلم اکثریتی علاقوں سے گزرتے ہوئے دائیں بازو کی جماعتوں کی ریلیوں کے دوران جھڑپیں شروع ہوئیں۔ 25 دسمبر کو اجین میں بیگم باغ کے علاقے میں تشدد پھوٹ پڑا جب رہائشیوں نے ریلی میں شامل افراد کے ذریعے مبینہ بدسلوکی کے جواب میں پتھراؤ کیا۔

پولیس نے اس معاملے میں ایک دومنزلہ عمارت کو بھی مسمار کردیا، جس سے مبینہ طور پر پتھراؤ کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے سابق جج دیپک گپتا نے پولیس کے ذریعے مکان کو مسمار کیے جانے کے عمل کو ’’غیر قانونی‘‘ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ قانون کی حکمرانی کا مذاق ہے۔ پولیس کو اس طرح ڈھانچے کو گرانے کا اختیار نہیں ہے۔‘‘

اطلاعات کے مطابق پولیس نے اس معاملے میں 18 افراد کو گرفتار کیا، جن میں ایک خاتون سمیت تمام مسلمان ہی ہیں۔ پولیس اس معاملے میں دو مزید خواتین ملزموں کی تلاش کر رہی ہے۔

29 دسمبر کو اندور سے 26 کلو میٹر دور چندن کھیڑی (گوتم پورہ) گاؤں میں بھی فرقہ وارانہ تناؤ کی اطلاع ملی۔

خبر کے مطابق زیادہ تر ریلیاں بغیر اجازت اور کورونا وائرس کی وجہ سے نافذ پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نکالی گئیں۔