صبغۃاللہ مومن، بھوپال
ملک کا بجٹ ۲۲-٢٠٢١ منظر عام پر آ چکا ہے۔ پورے ملک میں اس پر تنقید و تبصرے جاری ہیں۔ بجٹ یوں تو ہر سال بنایا جاتا ہے لیکن اس سال کا بجٹ ایک ایسے وقت پیش کیا گیا جبکہ پوری دنیا وبا کی شکار ہے۔ کئی ممالک بشمول ہندوستان میں کورونا کا زور ابھی تھما نہیں ہے۔ ایسے وقت میں بجٹ کو ہر پہلو سے جانچنا ضروری ہے۔ آنے والے دنوں میں عوام کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے جس سرمایہ کی ضرورت ہو گی وہ بجٹ میں متعین ہے یا نہیں۔ تمام سیکٹرس کی جانچ اسی سوال اور اندیشے کے ساتھ ہوتی ہے کہ کیا ضرورت سے کم رقم مخصوص نہیں کی گئی؟ یقیناً یہ ایک اہم سوال ہے جس پر ملک بھر میں بات ہو رہی ہے۔ البتہ ایک اہم سوال اور بھی ہے کہ کیا اس بجٹ میں کوئی ایسا سیکٹر تو نہیں ہے جس کے لیے ضرورت سے زیادہ بجٹ متعین کر دیا گیا ہو؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا پوچھا جانا ضروری ہے۔ اس کے اثرات عام طور پر اتنے زیادہ نہیں لیکن چند سیکٹرس ایسے ہیں جن کے بجٹ میں غیر ضروری اضافہ باعث تشویش ہے، اس میں سب سے خاص دفاعی بجٹ میں اضافہ ہے جسے عالمی تناظر میں دیکھا جانا ضروری ہے۔ کسی بھی ملک کے دفاع میں اس کا دفاعی نظام، فوج (بری، بحری اور ہوائی) اسلحہ اور ان تمام ہی چیزوں میں ریسرچ شامل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ پولیس پر ہونے والے اخراجات دفاعی بجٹ میں شامل نہیں ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی بھی ملک کا دفاعی نظام اس کی سرحدوں کی حفاظت کے ارد گرد گھومتا ہے۔ ہندوسان کا دفاعی نظام دنیا کے بڑے بڑے دفاعی سسٹم میں ہوتا ہے۔ آنے والے سال 22-2021 میں ٣٤٧٠٨٨ کروڑ روپے اس کا بجٹ ہے جو کہ گزشتہ سال کے بجٹ سے ٦٨١٨ کروڑ روپے زیادہ ہے. سال 2015 سے اب تک دفاعی بجٹ میں تقریباً مسلسل اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ سال ٢٠١٠ سے دفاعی بجٹ ہر سال اوسطاً %9 بڑھ رہا ہے اور یہ امر صرف ہندوستان کی حد تک محدود نہیں۔ امریکہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس کے دفاعی بجٹ میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکی حکومت کے مطابق سال ٢٠١٨ میں اس کے دفاعی بجٹ میں اضافہ کئی ممالک کے اجتماعی بجٹ سے بھی زیادہ تھا۔ برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے دفاعی بجٹ ہر سال بڑھتے جا رہے ہیں۔ دفاع کے میدان میں اتنا خرچ ضروری ہے یا نہیں؟ اس سوال کی معنویت اس عالمی وبا کے دنوں میں بہت بڑھ گئی ہے اور ضروری ہے کہ اس سلسلے میں عالمی تنظیمیں پیش رفت کریں۔
آخر دفاعی بجٹ میں اضافہ اتنا خطرناک کیوں؟
ملک کے مختلف اداروں میں صرف دفاعی ادارہ ایسا ہوتا ہے جس کا کوئی ٹارگیٹ نہیں ہوتا۔ ہر ملک کا دفاعی بجٹ اس کے پڑوسی ممالک اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تقابل میں بڑھتا ہے، اس کی کوئی حد نہیں اور یہی چیز ہے جو اس کو خطرناک بنا دیتی ہے۔ تعلیمی، طبی اور دیگر اداروں کا ایک متعین ہدف ہوتا ہے جو کسی بھی ملک کے لیے مختلف ہو سکتا ہے اور اس کی ایک حد ہوتی ہے لیکن دفاعی بجٹ کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً ہندوستان کے دفاعی بجٹ میں اضافہ چین کے ساتھ تعلقات کی خرابی کی وجہ سے ہے۔ آنے والے سال اگر چین کے دفاعی بجٹ میں کوئی اضافہ ہوتا ہے تو ہندوستان کو بھی لازمی طور پر اپنا دفاعی بجٹ بڑھانا ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ایک ملک ہتھیاروں کی دوڑ میں آگے بڑھ جائے تو کئی چھوٹے بڑے ممالک اس دوڑ میں شامل ہونے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس تماشے کا منظر پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں دنیا دیکھ چکی ہے جبکہ کئی ممالک اپنیGDP کا ٨٠ فیصد حصّہ جنگی تیاریوں پر صرف کرنے لگے تھے۔
دفاعی ماہرین کا ماننا ہے کہ کئی ممالک نے فوجی قوت اور دفاعی اور جنگی ہتھیاروں میں اتنی طاقت حاصل کرلی ہے کہ اب اس کا استعمال بھی انسان کے بس کی بات نہیں اور جن چیزوں کا استعمال انسان کے لیے ممکن نہیں ہوتا یا تو انسان ان کے استعمال سے قاصر رہتا ہے یا پھر ان کا غلط جگہ اور غلط طریقے سے استعمال کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین مانتے ہیں کہ اگر تیسری عالمی جنگ ہوتی ہے تو شاید انسانی وجود ہی زمین سے مٹ جائے گا۔ اس وقت ہتھیاروں پر بے تحاشا خرچ کرنے کا بعد دنیا میں اتنے ایٹمی ہتھیار ہیں کہ ان سے دنیا کو ٥١ بار سے زیادہ تباہ کیا جا سکتا ہے۔اس کے باوجود دفاع پر اتنا خرچ مستقبل کے سلسلے میں شک پیدا کرنے والا ہے۔
کسی بھی رفاہی یا جمہوری ملک میں فوج کا کام امن وامان قائم کرنا ہے۔ ذہن و دماغ سے اس تصور کے محو ہو جانے کی وجہ ہے کہ ہرسال١٨٠٠٠٠٠ ملین ڈالر فوج پر خرچ کیے جاتے ہیں جبکہ لگ بھگ ٩٠٠٠٠٠٠ لوگ ہر سال بھوک سے مر جاتے ہیں۔نیشنلزم کے نظریے نے فوج کو ممالک کیلئے ہر ممکن وسائل کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ بنا دیا ہے۔ مذکورہ بالا اعداد و شمار امریکہ اور ہندوستان کے ہیں۔ دونوں ہی ملک جمہوری ہیں جہاں عوام کی تعلیم حکومت کی بنیادی فرائض میں شامل ہے لیکن پچھلے کئی سالوں سے ان ممالک کے تعلیمی بجٹ میں کمی آ رہی ہے۔ ہندوستان میں تشویشناک حد تک تعلیم کی کمی ہے لیکن تعلیم کے بجٹ میں کچھ بھی اضافہ نہیں کیا گیا حالانکہ آج بھی دنیا کی سب سے بڑی ان پڑھ آبادی بھارت میں ہے۔ ١٩٦٤ میں کوٹھاری کمیشن نے تعلیم کے لئے %٦ GDP مختص کرنے کا فوری مشورہ دیا تھا لیکن پانچ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی برسراقتدار پارٹیوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ ایک مکمل تعلیمی سال کے نقصان کے بعد بھی امسال ٦٠٨٧ کروڑ روپیے تعلیمی بجٹ سے کم کر دیے گئےہیں۔ کئی ممالک کا طبی نظام کورونا کی اس وبا کے سامنے بالکل ناکام رہا ہے جو ایک بڑا سوال ہے جو نظام تعلیم کے سامنے کھڑا ہے۔
وبا کے اس دور میں جبکہ تمام ممالک کا آپسی تعاون بہت ضروری تھا کئی ممالک محض ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرتے رہے اور اب تک تعاون کی کوئی خاص شکل نہیں نکل پائی۔ ملکوں کے درمیان آپسی تعاون کی شکلیں کس طرح بڑھیں اس پر فوری کام کیا جانا چاہیے۔ تعاون کی شکلوں کا پتا لگانا انٹرنیشنل ریلیشنز کے ماہرین کا کام ہے۔ یہاں صرف توجہ دلانا مقصود ہے۔ بہر حال فوجی ترقی پر اندھا دھند خرچ کرنے کی بجائے امن کے حصول کے لیے آپسی تعاون اور بات چیت کے ذرائع تلاش کرنا چاہیے۔ آپسی فوجی مشق کی بجائے تعلیمی، معاشی اور عدالتی نظام میں تعاون کو دوستی کی بنیاد بنانا چاہیے۔
ضروری ہے کہ عالمی سطح پر بھی فوجی طاقتوں کو لگام لگانے کے سلسلے میں جلد پیش رفت ہو اور ممالک اندرون خانہ بھی اس پر کام کریں۔ کیونکہ فوجی ترقی کا سلسلہ محض بجٹ میں زیادتی پر ختم نہیں ہوتا بلکہ پھر اس فوج کے ذریعہ چھوٹے ممالک کو تختہ مشق بنایا جاتا ہے، کمزوں کا استحصال کیا جاتا ہے، لوگوں سے ان کا کھانا اور حق تعلیم چھینا جاتا ہے اور اس ظلم کی خوراک سے پل کر بڑا یہ دیو ایک دن اپنے ہی ملک کو نگل جاتا ہے۔ میانمار اس کی تازہ مثال ہے۔
***
ایک مکمل تعلیمی سال کے نقصان کے بعد بھی امسال 6087کروڑ روپیے تعلیمی بجٹ سے کم کر دیے گئےہیں
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 7 مارچ تا 13 مارچ 2021