متنازع نصاب،ہندوستانی مسلمانوں کےلیے بڑا چیلنج

خلیق احمد ، نئی دلی

جواہر لال نہرو یونیورسٹی شاید دنیا کی واحد یونیورسٹی ہے جس نے اپنے تعلیمی کورس میں اسلام کے نام کو دہشت گردی سے باضابطہ طور پر جوڑ دیا ہے۔
جے این یو کے وائس چانسلر ایم جگدیش کمار نے نئے نصاب کو یونیورسٹی کے اندر اور باہر کچھ گروپوں کے اسلاموفوبک کہنے کے باوجود منظوری دے دی۔ انہوں نے کہا کہ کچھ گروپس نئے نصاب کے بارے میں’’غیر ضروری تنازعہ‘‘پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ یہ قدم قومی سلامتی کے مفاد میں ہے۔ اس کورس کو مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان کی بھی حمایت حاصل ہے۔ دھرمیندر پردھان نے نئی تعلیمی پالیسی 2020 کے مسئلے پر مرکزی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز سے خطاب کرتے ہوئے اس کورس کی تعریف کی تھی۔
نیا نصاب انجینئرنگ کے طلباء کے لیے تیار کیا گیا ہے جو اپنے تکنیکی کورسز مکمل کرنے کے بعد بین الاقوامی تعلقات کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ نئے کورس کا مقصد طلباکویہ سکھانا ہے کہ مذہب سے متاثر دہشت گردی سے کیسے نمٹا جائے اور بڑی عالمی طاقتوں کے تعاون سے’’جہادی دہشت گردی‘‘ کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جا سکتی ہے۔
غلط معلومات کا کورس
جو بھی اس نصاب کو تفصیل سے پڑھے گا تو اسے اندازہ ہو جائے گا کہ یہ کسی ایسے شخص نے تیار کیا ہے جو اس موضوع سے پوری طرح واقفیت نہیں رکھتا اور یہ نصاب صرف اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا ایجنڈا ہے۔ یہ نہ صرف گنراہ کن معلومات سے پُر ہے بلکہ اس میں بہت سی غلطیاں بھی ہیں۔
کورس کے تخلیق کاروں اور منظور کرنے والوں کا ایجنڈا بہت واضح ہے، کیونکہ کورس کے مصنف نے مذہب سے متاثرہ تشدد اور دہشت گردی کو صرف اسلام سے جوڑا ہے اور یہ تاثر دیا ہے کہ یہ صرف اسلام ہی ہے جو اپنے پیروکاروں کو تشدد اور دہشت گردی سے متاثر کرتا ہے۔ تاہم مصنف نے کچھ احتیاط برتی ہے تاکہ کسی کو اس کی ایمانداری پر شک نہ ہو۔ مصنف کے مطابق ’’مسلمانوں کو قرآن کی غلط تشریح یہ بتائی جاتی ہے کہ جہاد کے نام پر قتل جائز ہے اور خودکش حملوں اور قتل کی اہمیت بیان کی جاتی ہے۔‘‘
ذیلی عنوان ’’بنیاد پرست مذہبی دہشت گردی اور اس کے اثرات‘‘ میں مصنف نے کہا ہے کہ ’’بنیاد پرست اسلام پسند مذہبی علماء کے استحصال کے نتیجے میں دنیا بھر میں جہادی دہشت گردی کا الیکٹرانک پھیلاؤ ہوا ہے۔‘‘
کورس میں مزید لکھاگیا ہے’’جہادی دہشت گردی کے آن لائن الیکٹرانک پھیلاؤ کے نتیجے میں سیکولر غیر اسلامی معاشروں میں تشدد کے معاملات میں تیزی آئی ہے اور اب وہ بڑھتے ہوئے تشدد کی مکمل گرفت میں ہیں‘‘۔
یہ کورس ہندوستان میں اسلاموفوبیا کو فروغ دے گا۔
یہ کورس فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے نقطہ نظر سے بہت خطرناک ہے کیونکہ اس کے ذریعے ہندوستان میں صرف اسلاموفوبیا کو تقویت ملے گی۔ ہندوستان جہاں مسلمان پہلے ہی اپنے آپ کو انتہائی استحصالی پوزیشن میں پاتے ہیں ہندو کمیونٹی کے بنیاد پرست عناصر کے حملوں اور لنچنگ کا شکار ہوتے ہیں۔ ہندو سماج کے انتہا پسند عناصر کی وجہ سے اب ملک میں یہ صورتحال بن گئی ہے کہ مسلمان ہندو انتہا پسندوں سے اپنی جان ومال کو خطرہ محسوس کرتے ہیں اور ہندو مسلمانوں کی مخلوط آبادی والے علاقوں میں مسلمانوں نے خوف محسوس کرنا شروع کر دیا ہے۔
ان حالات کے نتیجے میں ملک بھر کے ہر چھوٹے بڑے قصبوں اور شہروں میں مسلم بستیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں ان بڑھتے ہوئے حالات نے تعلیم سے لے کر سیاست اور معیشت تک مسلم زندگی کے ہر پہلو کو محدود کر دیا ہے۔ اپنی جان ومال کو خطرے میں محسوس کرتے ہوئے دیہاتوں میں بھی ’’ گھیٹو بستی ‘‘ آباد کرنے کا رواج شروع ہو گیا ہے۔ ہندو اکثریتی دیہات کے مسلمان آہستہ آہستہ مسلم اکثریتی دیہاتوں میں منتقل ہو رہے ہیں جہاں وہ اردگرد مسلمانوں کے درمیان اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔آج ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت 18ویں صدی میں یورپ کے یہودیوں جیسی ہے جنہیں پہلے سرکاری طور پر مسیحیوں اور دیگر لوگوں کے ساتھ مساوی حقوق کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں تھی۔ اگرچہ ہندوستان میں مسلمانوں پر کوئی سرکاری پابندی نہیں ہے لیکن زمینی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ مسلمان الگ تھلگ رہنے پر مجبور ہیں۔
مصنف نے صرف اسلام کو کیوں نشانہ بنایا اور دوسرے مذاہب کو چھوڑ دیا؟
پورے نصاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ کورس کے مصنف پروفیسر اروند کمار یا تو پوری دنیا کے مختلف معاشروں میں مختلف مذہب سے متاثر دہشت گردی کے بارے میں نہیں جانتے یا جانتے تو ہیں لیکن جان بوجھ کر دوسرے مذاہب کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اس نصاب میں غلط تشریح کی وجوہات صرف وہی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ہے۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے صرف اسلام کو کیوں نشانہ بنایا؟ دوسرے میڈیا چینلز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’اسلام میں مذہب سے متاثرہ تشدد‘‘کے عنوان کو صرف اس لیے منتخب کیا کہ وہ اسے ایک عالمی طور پر تسلیم شدہ حقیقت سمجھتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نصاب ان کے بنیادی مطالعہ اور اسلام کے بارے میں صحیح معلومات پر مبنی نہیں ہے اور انہیں مسلم معاشرے کے اندر اور باہر مسلم گروپوں کی طرف سے سیاسی تشدد کا کوئی علم نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ مغربی مصنفین اور میڈیا کے ذریعہ دنیا بھر میں پھیلائے گئے پروپیگنڈے سے متاثر ہیں یا جان بوجھ کر اسی پروپیگنڈے کے تحت اسلام اور مسلم کمیونٹی کو بد نام کر رہے ہیں۔
نیا نصاب اسلامو فوبیا کی بنیاد بنے گا۔
انتہائی تشویشناک بات یہ ہے کہ اسلام کو نشانہ بنانے والے نئے نصاب میں اسلامو فوبیا کو ادارہ سازی اور ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کو مجرم بنانے کی ہر ممکن صلاحیت موجود ہے۔ جے این یو کے طالب علم اور برادرانہ تحریک کے ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن وسیم آر ایس کا کہنا ہے کہ’’نیا نصاب ’جے این یو انتظامیہ کے اسلامو فوبیا کی عکاسی کرتا ہے‘۔ جے این یو ٹیچرز ایسوسی ایشن کی سکریٹری موشومی باسو نے میڈیا کو بتایا کہ کئی اساتذہ نے یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ کے دوران انسداد دہشت گردی کے نصاب پر سوالات اٹھائے لیکن حکام نے نصاب کی خوبیوں اور خامیوں پر سوالات کی اجازت نہیں دی۔
جے این یو کے طالب علم وسیم کا کہنا بھی غلط نہیں ہے۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح حکومت کا محکمہ صحت اور میڈیا، بالخصوص الیکٹرانک میڈیا نے مارچ 2020 میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے ناموں کو جوڑ دیا تھا جس کی کوئی حقیقت نہیں تھی بلکہ وہ سب کچھ جھوٹے پروپیگنڈے پر مبنی تھا۔ دلی اقلیتی کمیشن کے اس وقت کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کی مداخلت کے بعد محکمہ صحت نے مذہبی بنیادوں پر کورونا مثبت اعداد وشمار جاری کرنا بند کر دیے تھے۔ لیکن اس کے بعد بھی میڈیا ہندوستان میں پھیلنے والے کورونا وبا کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑتا رہا۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے پر ایک تبصرہ کرتے ہوئے خبروں کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی میڈیا کی کوشش پر سخت سرزنش کی تھی۔ کورونا وبا کی خبریں فرقہ وارانہ بنیادوں پر نشر ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں دارالحکومت دلی سمیت ملک بھر کے مسلمان ہندو سماج کے بنیاد پرست اور انتہا پسند عناصر کے جسمانی حملوں کا نشانہ بن گئے۔ بہت سے مسلمان تاجروں کا بائیکاٹ کیا گیا اور ان پر مہلک وائرس کے پھیلاؤ کا الزام عائد کیا گیا۔ جنونی ہجوم کے حملوں میں بہت سے مسلمان اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب انجینئرنگ کے طلباء کی ایک بڑی تعداد کو ایک غیر متوازن رویہ کے ساتھ مذہبی دہشت گردی کی تعلیم دی جائے گی تو پھر آنے والے وقتوں میں کیا ہو گا۔
جے این یو کا نصاب دوسرے مذاہب سے متاثرہ تشدد کو نظر انداز کرتا ہے۔
مذہبی بنیاد پرستی اور انتہا پسندی صرف مسلمانوں میں نہیں پائی جاتی۔ یہ ہندوؤں، عیسائیوں، بدھوں یا سکھوں میں بھی بہت عام ہے۔ پنجاب میں خالصتان تحریک مذہب سے متاثر تھی۔ اسی طرح ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں میں عیسائیوں کے ذریعہ تشدد کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف ہندو گائے چوکیداروں کی طرف سے تشدد اور ہجومی تشدد بھی مذہب سے متاثر ہیں۔ حالانکہ یہ سب ہندو مذہبی نصوص کی غلط تشریح پر مبنی ہے۔ عام طور پر تمام مسلمان یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ہندو مذہب کی تعلیمات کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن دہشت گردی کے معاملے پر جے این یو کے نصاب نے ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف تشدد اور دہشت گردی کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے۔میانمار اور سری لنکا میں جہاں مسلمان بدھ بھکشوؤں اور بنیاد پرست گروہوں کا نشانہ ہیں پروفیسر اروند کمار مذہب سے متاثر دہشت گردی پر مکمل طور پر خاموش ہیں۔ میانمار کی فوج کی طرف سے میانمار میں بدھ بھکشوؤں اور مسلمانوں کی نسل کشی مذہب سے متاثر ہے۔ سری لنکا میں بھی مسلمانوں کے خلاف بدھ مت سے متاثر تشدد اور دہشت گردی پائی جاتی ہے۔ کیا سری لنکا میں لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (ایل ٹی ٹی ای) کی دہشت گرد اور علیحدگی پسند تحریک ان کے مذہب سے متاثر نہیں تھی؟ اور ایل ٹی ٹی ای کے دہشت گرد کس مذہب سے تعلق رکھتے تھے؟ دس لاکھ سے زائد مسلمان بودھ دہشت گردوں سے اپنی جان بچانے کے لیے میانمار سے بھاگ گئے اور ان میں سے تقریبا سات لاکھ نے صرف بنگلہ دیش میں پناہ لی ہے۔
پروفیسر اروند کمار شاید یہ نہیں سوچنا چاہتے کہ میانمار میں جو کچھ ہوا وہ بھی بنیاد پرست مذہب سے متاثر دہشت گردی ہے۔ شاید یہ ان کے تعلیمی فریم ورک میں فٹ نہیں بیٹھتی کیونکہ دہشت گردی کی کوئی مطلق تعریف آج تک بیان نہیں ہوئی ہے۔ ایک کے لیے دہشت گرد دوسرے کے لیے ہیرو ہو سکتا ہے۔ اور اس کی بہترین مثال خود بھارت ہے۔ ہندوستان جہاں برطانوی عیسائی حکمرانوں نے سبھاش چندر بوس اور چندر شیکھر آزاد اور بہت سے دیگر لیڈروں کو دہشت گرد کہا وہ ہمارے سب سے بڑے مجاہد آزادی تھے کیونکہ انہوں نے ہندوستان کو غیر ملکی قبضے سے آزاد کرانے کی جنگ لڑی۔ آزادی کی تحریک کے دوران ’’رام راج‘ جیسے مذہبی نعرے اچھالے گئے تاکہ عام لوگوں کے ذہنوں میں آزادی کی اہمیت کو قائم کیا جا سکے جو اس وقت جمہوریت کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کو مذہبی طور پر محرک تحریک نہیں کہا جا سکتا کیونکہ کچھ مذہبی اصطلاحات آزادی کی جدوجہد کی حمایت میں عوام کو متحرک کرنے کے لیے استعمال کی گئیں۔
امریکہ اور یورپ میں مسلمانوں کے خلاف منظم دہشت گردی کا نصاب میں ذکر نہیں ہے۔
جے این یو کا انسداد دہشت گردی کا نصاب سخت گیر اور انتہا پسند عیسائیوں کے امریکہ اور یورپ میں مساجد اور مسلم کمیونٹی پر دہشت گردانہ حملوں پر مکمل طور پر خاموش ہے۔ تاہم عیسائیت اس طرح کے تشدد کا جواز نہیں بناتی۔ یوگوسلاویہ کی تقسیم کے بعد سربیائی عیسائی افواج کی طرف سے بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی بھی جے این یو کے نصاب سے غائب ہے۔
جے این یو انتظامیہ سے یہ گزارش ہے کہ وہ عالمی دہشت گردی کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے انسداد دہشت گردی کے نصاب کو نئے سرے سے تیار کرے۔ عالمی دہشت گردی جس نے افغانستان، لیبیا، عراق اور شام سمیت دنیا کے کئی ممالک کو غیر مستحکم کر دیا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں اموات ہوئیں۔ ان بین الاقوامی ایجنسیوں کے بارے میں بھی ایک ایماندارانہ بحث ہونی چاہیے جنہوں نے امریکہ اور دیگر عیسائی طاقتوں کے تسلط کے خلاف مزاحمت کرنے والے مسلم ممالک کی مسلم زمینوں کو تباہ کرنے کے لیے القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس کو تشکیل دیا۔
القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس سے سب سے زیادہ متاثر خود مسلم کمیونٹی ہوئی ہے غیر مسلم معاشرہ نہیں جیسا کہ کورس کے مصنف نے دعویٰ کیا ہے۔ ایمانداری کا تقاضا ہے کہ نصاب میں دوسرے مذاہب کی مذہبی تحریروں کی غلط تشریح کی بنیاد پر بنیاد پرست مذہبی دہشت گردی میں ترمیم کی جائے۔( مضمون نگار انڈیا ٹومارو سے وابستہ صحافی ہیں)

 

***

 انتہائی تشویشناک بات یہ ہے کہ اسلام کو نشانہ بنانے والے نئے نصاب میں اسلامو فوبیا کو ادارہ سازی اور ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کو مجرم بنانے کی ہر ممکن صلاحیت موجود ہے۔ جے این یو کے طالب علم اور برادرانہ تحریک کے ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن وسیم آر ایس کا کہنا ہے کہ’’نیا نصاب ’جے این یو انتظامیہ کے اسلامو فوبیا کی عکاسی کرتا ہے‘۔ جے این یو ٹیچرز ایسوسی ایشن کی سکریٹری موشومی باسو نے میڈیا کو بتایا کہ کئی اساتذہ نے یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کمیٹی کی میٹنگ کے دوران انسداد دہشت گردی کے نصاب پر سوالات اٹھائے لیکن حکام نے نصاب کی خوبیوں اور خامیوں پر سوالات کی اجازت نہیں دی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  12 تا 18 دسمبر 2021