متحدہ عرب امارات میں مبینہ طور پر مسلم مخالف نفرت انگیز تبصروں کے الزام میں مزید تین ہندوستانیوں پر کارروائی
یو اے ای، مئی 3: گلف نیوز نے ہفتے کے روز رپوٹ کیا کہ سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر مسلم مخالف نفرت انگیز تبصروں کے لیے متحدہ عرب امارات میں مزید تین ہندوستانیوں پر کارروائی کی گئی ہے۔
متحدہ عرب امارات میں کارروائی کا سامنا کرنے والے تینوں ہندوستانیوں کی شناخت باورچی روہت راوت، اسٹور کیپر سچن کنّی گولی اور ایک کیشیئر کے طور پر ہوئی ہے، جس کا نام اس فرم کے ذریعے چھپایا گیا ہے، جس کے لیے وہ کام کرتا ہے۔ گلف نیوز نے کہا کہ اس نے ان پوسٹس کی اشاعت سے پرہیز کیا ہے کیونکہ وہ ’’اشتعال انگیز‘‘ تھیں۔
22 اپریل کو خلیج میں ہندوستانی سفارت خانوں نے شہریوں پر زور دیا تھا کہ وہ سوشیل میڈیا پر کورونا کو ہندوستان میں مسلم کمیونٹی سے جوڑتے ہوئے توہین آمیز پوسٹوں کے خلاف چوکس رہیں۔ 30 اپریل کو ہندوستان کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ عرب شہریوں کی طرف سے بعض شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام لگانے والے ٹویٹر کے پیغامات ’’پروپیگنڈا‘‘ تھے۔
دبئی میں اطالوی ریستورانوں کا سلسلہ چلانے والے آزادیہ گروپ کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ اس نے راوت کو معطل کردیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ باورچی کو تحقیقات کا سامنا ہے۔
دوسری جانب شارجہ میں قائم نیومکس آٹومیشن ایف زیڈ سی نے اگلی اطلاع تک کنّی گولی کو معطل کردیا ہے۔ فرم کے مالکان میں سے ایک نے کہا ’’ہم نے اس کی تنخواہ روک دی ہے اور اسے کام پر نہ آنے کو کہا ہے۔ معاملے کی تفتیش جاری ہے۔ ہماری صفر رواداری کی پالیسی ہے۔ کسی کو بھی کسی کے مذہب کی توہین کا الزام ثابت ہونے پر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔‘‘
دبئی میں واقع ٹرانس گارڈ گروپ نے بتایا کہ انھوں نے ایک ایسے ملازم کے خلاف کارروائی کی ہے جس نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر وشال ٹھاکر کے نام سے متعدد اسلام دشمن پیغامات پوسٹ کیے تھے۔ تاہم کمپنی نے اس کا اصلی نام ظاہر نہیں کیا۔
کمپنی نے کہا ’’داخلی تفتیش کے بعد اس ملازم کی اصل شناخت کی تصدیق ہوگئی اور اس سے اس کی حفاظتی اسناد چھین لی گئی ہیں، اسے ہماری ملازمت سے معطل کردیا گیا اور کمپنی کی پالیسی اور متحدہ عرب امارات کے سائبر کرائم قانون نمبر 5 آف 2012 کے مطابق متعلقہ حکام کے حوالے کردیا گیا۔ وہ شخص اب دبئی پولیس کی تحویل میں ہے۔‘‘
کمپنی نے یہ بھی واضح کیا کہ پرکاش کمار کے نام سے مبینہ طور پر نفرت انگیز مواد شائع کرنے والا فرد اس کے ساتھ کام نہیں کرتا ہے۔ فرم نے کہا کہ کمار نے جھوٹا دعوی کیا ہے کہ وہ ٹرانس گارڈ گروپ کے ساتھ کام کرتا ہے اور دبئی میں حکام اس معاملے کی جانچ کررہے ہیں۔
کورونا وائرس وبائی امراض کے مابین مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے واقعات پر ہندوستان کو عرب ممالک کی طرف سے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گذشتہ ہفتے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے ہندوستانی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ ان مسلمانوں کی حفاظت کے لیے ہنگامی اقدامات کرے، جنھیں ہندوستان میں ’’منفی انداز‘‘ اور ’’امتیازی سلوک اور تشدد‘‘ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
واضح رہے کہ ہندوستان میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں مسلمان مردوں کو کھانے پر تھوکنے، پلیٹوں کو چاٹتے ہوئے اور وائرس کو پھیلانے کے لیے بھیڑ میں چھینکتے دکھایا گیا۔ حالاں کہ حکام نے ان سبھی کو جعلی خبروں کی حیثیت سے خارج کردیا ہے۔ یہاں تک کہ کچھ ٹیلی ویژن چینلز اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے آئی ٹی سیل جیسی تنظیموں نے کوویڈ 19 کو پھیلانے کا الزام مسلمانوں پر لگایا۔
جس کے بعد مسلمان دکانداروں پر حملوں کی بھی مثالیں موجود ہیں۔ 14 اپریل کو اترپردیش کے ضلع موہوبہ میں لوگوں کے ایک گروپ نے مبینہ طور پر کچھ مسلمان سبزی فروشوں کے ساتھ بدسلوکی کی تھی اور انھیں اپنا سامان فروخت کرنے سے روک دیا تھا۔
اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے ایک ایم ایل اے نے بھی لوگوں سے کہا کہ وہ مسلمان سبزی فروشوں سے سبزیاں نہ خریدیں۔