ماہ قرآن اور خواتینغور وفکر کے چند پہلو

عمارہ فردوس، جالنہ (مہارشٹر)

 

ماہ قرآن اللہ ربّ العالمین کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ایک خصوصی انتظام اور یاد دہانی ہے۔ یاد دہانی اس پیغام کی جس کا امت مسلمہ کو امین بنایا گیا اور خیر امت کے منصب پر فائز کیا گیا تاکہ وہ اپنے فرض منصبی سے راہ فرار اختیار کر کے اس رنگین دنیا کا بے مقصد حصہ نہ بن جاے اور کہیں وہ جادہ حق کی مشکلات اور دشواریوں کو دیکھ کر آرام کوشی کو گلے نہ لگالے۔ بس اسی غرض سے ہمارے پروردگار نے ایک ماہ کا بہترین تربیتی پروگرام اپنے فرمانبرداروں کے لیے طے کیا ہے جسے قرآن رمضان کے نام سے موسوم کرتا ہے۔
قرآن کو تھام لینے والے، قرآن کے مطابق زندگیاں گزارنے والے قرآن کو اپنی زندگیوں میں برتنے والے قرآن کے سچے امین و پاسبان، قرآن کے نفاذ کے لیے مسلسل جدوجہد کرنے والے ہی اس ٹریننگ و ماہ مبارک کی سعادت و برکتوں سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
روزہ جیسی پر مشقت عبادت کو اس ماہ میں خاص کر دینا، جہاد جیسے عظیم مشن کا اس ماہ میں طے پانا، قرآن جیسے آفاقی نور کو اس ماہ میں روئے زمین پر نازل کرنا، فتح مکہ جیسی واضح بشارتوں کا ملنا اور ولتکبر اللہ علی ما ھداکم کے عنوان سے ان تربیتی ایام پر مہر لگا دینا اس بات کا مظہر ہے کہ ہزاروں رمضان ہزاروں زندگیوں میں داخل ہو جائیں لیکن اس سے حقیقی مستفید ہونے والے وہی بندے ہیں جو قرآنی مشن کے لیے جیتے اور مرتے ہیں جو متقین و محسینین کی صفوں میں شامل ہیں، جو ماہ رمضان کے موقع کو غنیمت جان کر قرآن سے رہنمائی لیتے ہوئے اپنی زندگی کے لیے عملی پروجیکٹ ترتیب دیتے ہیں۔ جو ساری زندگی اپنے رب کی رضا کے متلاشی ہوتے ہیں۔ اپنے رسول کا اسوہ ورد لب اور حرز جاں بناتے ہیں تزکیہ و احتساب کے بعد جن کی آنکھیں بہہ پڑتی ہیں اور جادہ حق کی سختیاں جو خوشی خوشی جھیل جاتے ہیں۔
دراصل ماہ مبارک کی ساعتیں اس طور سے زیادہ اہم ہو جاتی ہیں کہ اللہ رب العالمین نے ہمیں جس کتاب کا امین بنایا ہے اس کی شرط ھدی للمتّقین کی تربیت کے لیے روزہ جیسی مخصوص عبادت کو فرض کر دیا جو تقویٰ کو پروان چڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ جس کا راست تعلق روحانیت سے ہے جس کے لیے حدیث قدسی کے یہ الفاظ کہ الصّوم لِی َو اَنا اَجزِی بِہٖ سے بات واضح ہے کہ پوشیدہ عبادتیں تقویٰ سے قریب کر دیتی ہیں تاکہ بندہ کی عبادت کا مقصد اور ساری تگ ودو اپنے مالک کو خوش کرنے میں بسر ہو جائے۔ وہ بھوکا رہے تو اس کی خوشی کے لیے، افطار کرے تو اس کی رضا کے لیے، قیام و سجود کرے تو اس سے قریب ہونے کے لیے، صدقات و خیرات کرے تو اس سے بھلائی چاہنے کے لیے، احتساب اور جائزہ لے تو اس کی باز پرس سے ڈر کر۔ جب سارے کاموں کا حقیقی محرک رضائے الٰہی بن جائے تو بقیہ گیارہ مہینوں میں اس نفس کی اور شیطان رجیم کی کیا مجال کہ مومن کے مذاق کے خلاف کچھ کرنے کی ہمت دکھائے۔
دراصل یہ بڑی غیر معمولی عنایت ہے کہ ان تیاریوں میں بندوں کے لیے اللہ تعالٰی کی خوب مدد شامل ہوتی ہے اسی لیے اس ماہ مبارک میں شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور عشرہ رحمت مغفرت و نجات کے ذریعہ مومنین کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے رب کی عطا کی ہوئی اس زندگی کو بسر کرنے کے لیے خوب بہترین تربیت لے لیں اور جو سمیٹنا ہے سمیٹ لیں اور اس پیغام زندگی سے اپنا رشتہ مضبوط کرلیں جس کے لیے انہیں زمین پر اتارا گیا ہے۔
مختصراً یہ کہ ماہ رمضاں اللہ تعالٰی کا ایک بڑا احسان ہے جس کے ذریعہ ہماری جسمانی وروحانی تربیت، صبر وتحمل، ضبطِ نفس، قرآن سے تعلق کو مضبوط کرنے اور حقوق العباد جیسی ذمہ داریوں کو یاد دلانے کے لیے اس نے انتظام فرمایا ہے۔ لیکن واقعی کیا ہر سال ہماری زندگیوں میں داخل ہونے والا رمضان ایک انقلاب کی صورت ابھرتا ہے؟ کیا ماہ مبارک کے بعد پورے گیارہ مہینہ واقعی ہم اپنے نفس پر کنٹرول کر پاتے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ رمضان کے بعد عبادتوں کا جوش و ولولہ کچھ ماند سا پڑجاتا ہے؟ صدقات کی رفتار دھیمی ہو جاتی ہے؟ قرآن سے تعلق کچھ کمزور سا نظر آنے لگتا ہے؟ اس کی وجہ ماہ قرآن سے حقیقی اور شعوری طور سے استفادہ نہ کرنا ہو سکتی ہے۔ آئیے ماہ رمضان میں کی جانے والی وہ عبادتیں جو محض رسمی شکل اختیار کر چکی ہیں اس کا جائزہ لیتے ہوئے کچھ اصلاح طلب پہلووں پر غور کرتے ہیں۔
نماز تراویح: الحَمْدُ ِلله مسجدیں نماز تراویح میں قرآن کی تلاوتوں سے معمور اور بارونق نظر آتی ہیں۔ بندگان خدا کا شوقِ عبادت اور جوق در جوق مسجدوں میں چلے آنا اور رب کے حضور دست بستہ کھڑے ہوجانا رمضان کا مرہون منت ہے لیکن نماز تراویح میں قرآن کے مکمل کرلینے کا جذبہ امام مسجد کو اس بات ہر مجبور کر دیتا ہے کہ وہ قران کو ٹہر ٹہر کر اور ترتیل سے پڑھنے کے بجائے آیات قرآنی بڑی سرعت کے ساتھ ادا کرے جس کی بنا پر امام کی وساطت سے مکمل قرآن کو سننے سے مقتدی اکثر محروم ہو جاتے ہیں۔ دراصل نماز تراویح قیام الیّل کا وہ حصہ ہے جسے حدیث نبوی میں یوں فرمایا گیا: مَن قَامَ رمَضَانَ ایماناًو اِحتسَاباًغُفِرَ لَہ ما تقَدّمَ مِن ذَنبِہ جس قیام و سجود میں احتساب کی شرط شامل ہو، اس کے پہلو کی طرف امت مسلمہ کو متوجہ ہونا چاہیے تاکہ اس کی اصل روح اور حقیقی مقصد تک رسائی ممکن ہو اور خلاصہ تراویح میں بھی غور و فکر کی دعوت ہونی چاہیے۔
انفرادی منصوبہ بندی : انفرادی طور پر ماہ رمضاں میں قرآن سے اپنا تعلق قائم رکھنے کے لیے شعبان میں ہی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔ خواتین اکثر ماہ مبارک کے قیمتی اوقات میں پکوان و لوازمات کی تیاریوں میں مشغول ہو کر عبادات کے بہترین لمحات سے محروم ہو جاتی ہیں۔ اس لیے گھریلو ذمہ داریوں اور عبادات میں توازن برقرار رکھنے کے لیے ٹائم مینجمنٹ ضروری ہے۔ اس طرح خواتین کی ایک بڑی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اپنے بچوں کی تربیت میں اس ماہ سے جڑی ہوئی ساری عبادتوں اور تقاضوں کو عملی طور پر پیش کریں۔ اس ضمن میں خواتین کی درج ذیل کوششیں ہونی چاہیے:
* نزول قرآن کے جشن کی اہمیت کو اپنے بچوں پر واضح کریں اور حفظ و تلاوت کی طرف راغب کروایں۔
* اپنے بچوں میں ماہ صیام کے حقیقی مقصد اور روزہ کی حکمت و اہمیت واضح کرکے ابتدا میں آدھا دن کی بھوک برداشت کرنے سے اس کی شروعات کروایں اور سحرو افطار کے اوقات میں انہیں برابر شریک رکھیں۔
* ماہ مواسات کی اہمیت سے واقف کرواکر صدقہ و خیرات اور غریبوں سے ہمدردی کے لیے بچوں کے ننھے ہاتھوں سے پڑوسیوں تک کھانا پہنچانے اور غریبوں تک صدقات و خیرات پہنچانے کا کام لیں۔
* یہ ماہ فرقان بھی ہے، اس نکتہ کو خواتین اپنے بچوں پر واضح کریں اور دین کے لیے کی جانے والی انتھک کوششوں کے نتائج اور اللہ کے انعامات کو بیان کریں۔
* بچوں کا رمضان اس عنوان کے تحت پورے ماہ کے لیے تیس دنوں پر مشتمل پروجیکٹ تیار کروایں جس میں ہمارے بچے پورے ماہ پر مشتمل نیکیوں، دعاوں، قرانی سورتوں اور عبادتوں کو نوٹ کرتے ہوئے اپنے احساسات بھی درج کریں۔
سماعت قران: سماعت قران کی محفلیں جس کی اصل غرض قرآن کو مع ترجمہ و تفسیر سننے اور سنانے کی ہوتی ہیں بالعموم اس میں بھی مطمح نظر یہی ہوتا ہے کہ رمضان کے گزرنے سے پہلے ہی قرآن کو مکمل کیا جائے اور اسی تناظر میں یہ محفلیں ایک رسم کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔خصوصاً خواتین میں دورہ قرآن اور سماعت قرآن کے نام سے اس طرح کی مجلس ایک کثیر تعداد پر مشتمل نظر تو آتی ہیں لیکن قرآن پر غور فکر تدبر و تفکر اس کو روبہ عمل لانے کے لیے ایک منصوبہ بنانا اس طرح کی سرگرمیاں ندارد، اور بس جھومنے یا پرجوش انداز میں پاروں کی طوالت کے ساتھ ترجمہ خوانی ہمارے ان مجالس کی حقیقی روح اور حقیقی مقصد کے حصول میں رکاوٹ بن رہا ہے جبکہ قرآن کے ساتھ ایک مومن کا معاملہ تو یہ ہونا چاہیے کہ یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
درحقیقت ایک مومن کے لیے قرآن صرف پڑھ لینے کی کتاب نہیں ہے بلکہ زندگی میں برتنے اور اس کسوٹی میں اپنے آپ کو پرکھنے اور اس سانچے میں زندگی کو ڈھال دینے کے لیے یہ قرآن اس ماہ مبارک میں نازل کیا گیا ۔اب اس کی محفل سماعت بھی اسی غرض کے لیے ہو تو ہم رمضان، قرآن اور صیام کے حقیقی مقصد کو پا سکتے ہیں۔لہٰذا اس عمومی شکل کو بدلنے کے لیے تحریکی افراد اپنے حلقوں سے اس جانب پہل کریں کہ اس پورے ماہ میں قرآن کی ایک ایک آیت لے کر اس پر سارے دن کا ہوم ورک یہ طے ہو کہ کیسے اس کو اپنی زندگی میں برتنا چاہیے؟ اس آیت نے بندہ سے کیا اپیل کی ہے؟ اور اپنے زندگی کو اس ضابطہ میں کس دینے کے بعد کیا اثرات مرتب ہوئے؟ اور ایک آیت کی تشریح میں احادیث مبارکہ کو تلاش کرنا اور آیت کے تناظر میں ذاتی و اجتماعی مسائل رکھ کر حل تلاش کریں۔ اس طرح آیت قرآنی احکام بن جائے نہ کے اعلان، دستور بن جائے نہ کہ محض معلومات، زندگی کی منصوبہ بندی اسکے ذریعہ کی جائے نہ کہ محض تلاوت خوانی و وعظ و بیان۔ سید قطبؒ نے اپنی کتاب جادہ و منزل میں یہ بات تحریر کی ہے کہ روئے زمین پر صحابہ جیسی لاثانی جمیعت دوبارہ کیوں وجود میں نہ آسکی؟ اس کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ خود صاحب کتاب یوں بیان کرتے ہیں کہ جس چشمہ صافی سے صحابہ کرام نے اکتساب فہم و تربیت حاصل کی اس کے طریقہ کار میں بعد کے ادوار میں تغیر واقع ہو چکا تھا۔ اس جماعت کا کوئی بھی فرد قرآن کی تلاوت اور اس میں تدبر اس غرض کے لیے نہیں کرتا کہ وہ اپنی معلومات عامہ کا دائرہ وسیع کرنا چاہتا تھا یا کسی بھی پہلو سے اپنی علمی کسر کو پورا کرنا چاہتا تھا بلکہ وہ قرآن کی طرف اس لیے رجوع کرتے تھے کہ وہ معلوم کرے کہ اس کی انفرادی زندگی کے بارے میں مالک الملک نے کیا ہدایات دی ہیں؟ جس معاشرہ میں وہ سانس لے رہا ہے اس کی اجتماعی زندگی کے لیے کیا احکام ہیں؟ اور پھر سرعتِ عمل کی یہ کیفیت کہ اس برگزیدہ جماعت کا ہر فرد ایک سپاہی کی طرح احکام موصول ہوتے ہی ان پر بلا چوں و چرا کاربند ہو جاتا تھا۔
چوں کہ ماہ رمضان قرآن سے استفادہ کے بھرپور مواقع فراہم کرتا ہے لہٰذا اس چشمہ صافی سے سیراب ہونے کے لیے اس شعور و احساس کا باقی رہنا بھی ضروری ہے کہ تلاوت و سماعت قرآن کے ساتھ قرآن کا مطلوب و مقصود مومن عملاً نظر آئے۔
***

چوں کہ ماہ رمضان قرآن سے استفادہ کے بھرپور مواقع فراہم کرتا ہے لہٰذا اس چشمہ صافی سے سیراب ہونے کے لیے اس شعور و احساس کا باقی رہنا بھی ضروری ہے کہ تلاوت و سماعت قرآن کے ساتھ
قرآن کا مطلوب و مقصود مومن عملاً نظر آئے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 اپریل 2021