مابعد آزادی تحریکات جنہوں نے پرامن طریقے سے بھارت کی تصویر بدل دی

شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ حکومت عوام سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کررہی ہے۔ کئی مقامات پراحتجاج کے دوران تشدد ہوا ہے۔ اسے قابو میں کرنے کے لیے پولیس نے بھی طاقت کا استعمال کیا ہے۔ آپ کے ذہن میں بھی یہ سوال اٹھا ہوگا کہ یہ مظاہرے پرتشدد کیوں ہورہے ہیں؟ کیا تشدد کے بغیر حکومت سے اپنے مطالبات منوائے جاسکتے ہیں؟۔ تاریخ کے جھروکے میں جھانکنے پر آزادی کے بعد اٹھنے والی کئی تحریکیں نظر آتی ہیں جنہوں نے پرامن طریقے سے بھارت کی تصویر بدل دی۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں کیرل کی خاموش وادی تحریک‘‘ کی۔ آزادی کے بعد کیرل کے پال گھاٹے ضلع میں ایک جنگل کو بچانے کے لیے ایک مقامی تحریک شروع ہوئی جس نے آگے چل کر قومی سطح پر اپنا اثر دکھایا۔ 

دراصل کیرل کے ریاستی بجلی بورڈ نے 1970میں کنتھی لچہا ندی پر باندھ بناکر بجلی پیدا کرنے کے پراجکٹ کو منظوری دی۔ اگر یہ منصوبہ پورا ہوجاتا تو تقریباً جنگل کا ۹ کلو میٹر کا علاقہ پانی میں ڈوب جاتا اور اس جنگل میں پائے جانے والے نادر قسم کے لمبی پونچھ والے مکاک بندروں کا وجود خطرے میں پڑجاتا۔

مدراس سانپ بارک کے بانی رومولس ویٹا کر نے سب سے پہلے اس ڈیم کی مخالفت شروع کی۔ مقامی احتجاج اور دانشوروں کے اپیل کے باوجود کیرل ہائی کورٹ نے 1980میں اس منصوبے کے لیے جنگلات کاٹنے کو منظوری دے دی۔ 

اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے مقامی جذبات کی قدر کرتے ہوئے 1982میں اس پروجیکٹ کو بند کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل کی۔ 1983میں کمیٹی کی سفارش پر پروجیکٹ بند ہوگیا۔ 15نومبر 1984سے نیشنل پارک کا درجہ مل گیا او دسمبر 1985کو وزیراعظم راجیو گاندھی نے سائلنٹ ویلی نیشنل پارک کا افتتاح کیا۔ 

دوسری تحریک اتراکھنڈ کے جنگلوں کو بچانے کے لیے 1970میں ہی شروع ہوئی۔ جسے ہم لوگ چپکو آندولن کے نام سے جانتے ہیں۔ اس تحریک میں پہاڑ کے مقامی باشندے پیڑوں کو بچانے کے لیے اپنے گلے لگاکر چپکالیے تھے۔ 

یہ تحریک بھارت ، تبت سرحدی سے واقع جوشی مٹھ سے تقریباً ۲۲ کلو میٹر دور رینی گاوں سے شروع ہوئی جو چمولی ضلع میں واقع ہے۔ محکمہ جنگلات نے اس علاقے میں انگور کے 2451پودے سائمنڈ کمپنی کو ٹھیکے پر دیئے تھے۔ چنڈی پرساد بھٹ کی قیادت میں 4فروری 1974کو پودے کاٹنے کی مخالفت شروع ہوئی۔ حکومت نے باغات کا معاوضہ دینے کے لیے مقامی افراد کو ضلع ہیڈ کوارٹر پر ملایا اور پیچھے سے ٹھیکیدار جنگلات کاٹنے کے لیے داخل ہوگئے تاہم مقامی خواتین نے گورا دیوی کی قیادت میں چپکو آندولن شروع کردیا۔ اس طرح 26مارچ 1974کو شروع ہوئی اس تحریک کے بعد اتراکھنڈ کے پہاڑی علاقوں میں حکومت کو کئی بار عوامی احتجاج کا سامنا کرنا پڑا اور عوام کو کامیابی حاصل ہوئی۔ 

چپکو آندولن 1970 کی ایک جھلک

نرمدا ندی کو بچانے کے لئے 1985میں کچھ لوگوں نے یہ تحریک شروع کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ندی پر ڈیم بننے سے نرمدا ندی کا وجود خطرے میں پڑجائے گا۔ اس تحریک میں ندی کے آس پاس رہنے والے قبائیلی لوگوں کے سات کئی مشہور ہستیاں شامل ہوئیں۔ عدالت کے دخل کے بعد متاثرین کی باز آبادکاری کے بعد ہی یہ پراجکٹ شروع ہوسکا۔ 

مشہور سماجی کارکن انا ہزار نے سال 2011میں دہلی کے جنتر منتر پر بدعنوانی کے خاتمہ کے لیے بھوک ہڑتال شروع کی۔ جو عوامی حمایت کے ساتھ میڈیا کوریج کی بدولت پورے ملک میں تحریک بن گئی۔

یہ اتنی بڑی عوامی تحریک ثابت ہوئی کہ رام لیلا میدان میں ۱۲ دنوں تک ہر روز تقریباً دو لاکھ افراد آتے تھے۔ حکومت کی جانب سے جن لوک پال بل لانے کے بعد ہی اس تحریک کو ختم کیا گیا۔ تحریک میں شامل اروند کیجروال اور ان کے ساتھیوں نے بعد میں عام آدمی کے نام سے ایک سیاسی پارٹی بنائی جس کی آج دہلی میں حکومت ہے۔

بشکریہ امر اجالا

تلخیص عرفان الہیٰ ، بریلی