مابعدکووڈ۔۱۹ بحران

عدل پر مبنی انتظام سے مسائل کا حل ممکن

محمد اظہر الدین،دلی ([email protected])
ترجمہ: مدیحہ امرین

یہ بالکل غلط نہیں کہ حکومت پر تنقید کی جائے، چاہے اس کی پالیسی ہو یا کسی سیاستدان کا عمل ہو جب وہ غلط راہ اختیار کریں۔ نظامِ جمہوریت میں تنقید کا اپنا ایک مقام اور درجہ ہے اور تنقید ریاست کو بہتر انداز میں چلانے میں مدد کرتی ہے۔ تنقید برائے تنقید کسی بھی صورت میں فائدہ نہیں رکھتی۔ تنقید بغرض اصلاح جو ساتھ میں ایک متبادل پیش کرتی ہو ہر حال میں ریاست کے انتظامی امور میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ یہ بات تو حقیقت ہے کہ مختلف سیاسی جماعتیں اقتدار میں آئیں گی اور جائیں گی لیکن جو پالیساں، فیصلے، قوانین سازی کے اثرات ہوتے ہیں وہ دیرپا ہوتے ہیں اور ریاست کے ہر شہری پر اپنا اثر چھوڑتے ہیں۔
دنیا کا بیشتر حصہ عالمی وبا کووڈ-۱۹ کے پیش نظر لاک ڈاؤن پڑا ہوا ہے۔ انسانی تاریخ میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ چاہے ایسے واقعات کی تعداد کم ہی کیوں نہ ہو لیکن تاریخ انسانی میں اس طرح کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ انسانی نسلوں نے ایسے حالات کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا اور ایک ترقی یافتہ قوموں کے روپ میں ابھر آئے۔ بعد از لاک ڈاؤن ہر شعبہ میں بحران کا امکان ہے۔ چاہے زراعت ہو یا صنعت وحرفت، تجارت ہو یا آئی ٹی، کوئی بھی شعبہ بحران کے خدشے سے عاری نہیں ہے۔ عام شہریوں پر ہونے والے اس کے مضر اثرات کا پتہ لگنے کے بعد، اس بحران کے مہلک اثرات اور اس کی حقیقت کے علم میں آنے کے بعد ارباب مجاز اس سلسلے میں درکار خاطر خواہ منصوبہ بندی کریں اور نجی ادارے وغیرہ اس ضمن میں بھرپور تعاون کریں۔
بحران کیسے واقع ہوتا ہے اور کس طرح پھیلتا ہے۔ عموماً ریاست کا غیر ذمہ دارانہ رویہ بحران کے واقع ہونے کے اولین وجوہات میں سے ہوتا ہے۔ ایسے میں جب کہ وقوعِ بحران کی علامتیں ظاہر ہونی شروع ہوجائیں اور ریاستی مشنری اس جانب خاطر خواہ توجہ نہ دے تو بحران واقع ہو جاتا ہے۔ وقوعِ بحران کے فوری بعد وسائل وذرائع کے استعمال کا صحیح نظم نہ ہونا، ترجیحات کا غلط تعین کرنا، اس کے پھیلاو، کا سبب بنتا ہے اور اسی طرح کے ابتدائی سطح کی غلطیاں بعد میں بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بنتی ہیں۔
بحران سے نمٹنے کا انتظام (Crisis Management)
ایسا نظم جس کے ذریعہ سے انسانی جان کو یا کسی ادارے کو یا کسی ریاست کو درپیش بحران کے خطرات ونقصانات سے نمٹایا جائے اور انتہائی کم نقصان کے ساتھ بحران سے نکالا جائے۔ ایسے کام کو انجام دینے کے لیے ایک ایسے نظام العمل کی ضرورت ہوتی ہے جو شفافیت، اعتمادیت اور غیر جانبداری جیسی صفات سے لیس ہو اور درکار نتائج کا تیقن دلاتا ہو۔
بحران پر قابو
اگر فرد یا طبقہ یا پوری ریاست بحران پر قابو پانے میں ناکام ہو جاتی ہے تو اس بحران کو ایک عظیم تباہی یا کم از کم اندوہناک سانحہ میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی۔ ٹھیک اسی طرح کووڈ-۱۹ کے معاملے میں صرف خوش فہمی سے کام لیتے ہوئے ایسے راستوں کو بطور حل اختیار کرنا جو کسی پین کلر Pain killer کی طرح ہوں جو ایسے موڑ پر لا کر چھوڑ دیں جو وقتی طور پر تو راحت ضرور پہنچائیں لیکن اس بحران سے شدید تر ضرر رساں ثابت ہوں۔
بحران سے بچاؤ کے راستے اور حل
وسائل اور ذرائع کو اپنی حد تک محدود کرلینے کے بجائے یہ باہم تقسیم ہوں، افہام کے لیے حدیث نبوی ﷺپیش خدمت ہے۔ ایسا شخص جو اللہ پر ایمان رکھتا ہو اور اسی کا تابع وفرماں بردار ہو اس کے بالمقابل ایسا شخص جو بے ایمان ہو اور نا فرمان ہو۔ ان کی مثال ایسے مسافروں کی طرح ہے جو کسی جہاز میں سفر کر رہے ہوں۔ بالائی منزل پر پانی موجود ہو اور نیچے مقیم مسافروں کو بار بار پانی کے لیے اوپر جانا پڑتا ہو ایسے میں نیچے مقیم مسافروں کو دقت پیش آرہی ہو۔ ان میں سے ایک مسافر یہ کہے ایک کام کرتے ہیں جہاز کے کسی کونے میں ایک چھوٹا سے سوراخ کر لیتے ہیں تاکہ ہمارے لیے یہیں سے پانی کا انتظام ہوجائے۔ اس طرح نہ ہمیں بار بار اوپر جانا پڑے گا نہ ہی بالائی منزل کے مسافروں کو ہماری طرف سے پریشانی ہوگی‘‘۔ ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ اس ’’بہترین‘‘ مشورہ پر اگر عمل درآمد ہوجائے تو کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ اگر بالائی منزل کے مسافرین اس میں مداخلت نہیں کریں گے تو نہ صرف نیچے مسافرین کو مشکل ہوگی بلکہ سارا جہاز سمندر کے لہروں کی نذر ہوجائے گا۔ اس بحران میں باہمی امداد چاہے کسی بھی سطح پر ہو کرتے رہنا ہوگا۔ چاہے ایک پڑوسی دوسرے پڑوسی کو مدد پہنچائے یا سماج کا ایک طبقہ کسی اور طبقہ کو۔ باہمی مدد واشتراک اس بحران سے نکل آنے کا ایک بہترین ذریعہ ہوگا۔
۲ ۔ ذرائع کا محدود استعمال، کفایت شعاری۔ اصلاحات برائے بحران جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر کو پیش آنے والے قحط (غذائی بحران) سے نمٹنے کے لیے طویل المدتی منصوبہ پیش کیا تھا اور معاشی اصلاحات کو تعارف کرایا تھا۔ ٹھیک اسی نہج پر ہمیں اس وقت معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ حضرت یوسفؑ کی اصلاحات چار نکاتی پروگرام پر مشتمل تھیں۔ پیداوار (Production) ۔کھپت (Consumption) ۔بچت (Savings) اور سرمایہ کاری (Investment)۔اخلاقی پہلو کو نظر انداز کیے بغیر ہر ایک نکتے کے مقاصد، منصوبہ، طریقہ کار، ذرائع سبھی چیزوں کی وضاحت حضرت یوسفؑ نے پیش کی۔حضرت یوسفؑ نے کہا ’’سات برس تک لگاتار تم لوگ کھیتی باڑی کرتے رہو گے۔ اس دوران میں جو فصلیں تم کاٹو گے ان میں سے بس تھوڑا سا حصہ جو تمہاری خوراک کے کام آئے نکالو اور باقی کو اس کے بالوں میں ہی رہنے دو۔ پھر سات برس بہت سخت آئیں گے۔ اس زمانے میں وہ سب غلہ بطورِ خوراک کام آئے گا جو تم اس وقت کے لیے جمع کرو گے۔ اگر کچھ بچے گا تو بس وہی جو تم نے محفوظ کر رکھا ہو۔ اس کے بعد کے سال پھر ایک ایسا سال آئے گا جس میں باران رحمت (یعنی بارش) سے لوگوں کی فریاد رسی کی جائے گی اور وہ رس نچوڑیں گے (یعنی خوب کھیتی باڑی اور پیداوار ہوگی)‘‘۔سورہ یوسف ۴۹
۳ شعبہ زراعت کا تحفظ
روٹی (زراعت) فرد کی بنیادی ضروریات میں سے ہے اور ریاست کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ بڑے پیمانے پر زرعی پیداوار کو اور چھوٹی سطح پر کھیتی باڑی کو فروغ دیا جائے۔ خصوصاً دیہی علاقوں میں جہاں پر کھیتی باڑی کے لائق زمین اچھی خاصی مقدار میں پائی جاتی ہے۔ لوگوں کو گھریلو کاشت کاری پر ابھارا جائے Home Based Farmingاسی طرح کے چھوٹے چھوٹے عمل سے زرعی قلت جیسے بڑے بحران پر قلیل مدت میں قابو پانے میں مدد ملے گی۔ سونیا گاندھی (اپوزیشن لیڈر) نے بھی وزیر اعظم کو یہ حل پیش کیا ہے ۲۱ دن کا لاک ڈاؤن فصل کی کٹائی کے موسم کے عروج پر ہے۔ زرعی فصل مارچ کے آخر تک بیشتر ریاستوں میں کٹائی کے لیے تیار ہے۔ ہندوستان کی تقریباً ۶۰ فیصد آبادی معاشی طور پر زراعت پر منحصر ہے لہذا ضروری ہے کہ مرکزی حکومت کو ایم ایس پی (MSP) پر فصلوں کی کٹائی اور خریداری کے قابل بنانے کے لیے ضروری اقدامات کرنے چاہئیں۔ یہی وقت مناسب ہے کہ چھ ماہ کی مدت کے لیے کسانوں سے ہونے والی بازیافتوں کو معطل کریں اور قرضوں سے آزاد ہونے کے لیے ضروری اصلاحات کا اعلان کریں۔
۴۔ چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کو مدد ومعاونت
کووڈ-۱۹ بحران سے چھوٹی صنعتیں بھی خاصی متاثر ہوں گی۔ حکومت کو چاہیے کہ اس ضمن میں راحت کاری اصلاحات جیسے ایس ڈی بی آئی (SDBI) کے ذریعے ایس ایم ایر چھوٹی اور درمیانی پیمانے کی صنعتوں کو قرض کی فراہمی کے لیے سازگار شرائط وغیرہ اقدامات کو تعارف کرائے۔بڑے فرم اور اداروں کو بھی آگے بڑھ کر قرضوں کی فراہمی اور بانڈس جیسے ذرائع سے سپلائرس کی مدد کرنی ہوگی۔
۵۔ دستیاب وسائل کا صحیح استعمال
وقت کی اہم ضرورت دستیاب فنڈس کی صحیح تقسیم ہے۔ ذیل میں چند نکات دیے جا رہے ہیں جو مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
(الف) دورے (ملکی اور ریاستی وزیروں کے لیے) اور دیگر سرکاری تقریبات پر خرچ ہونے والے فنڈس راحت کاری برائے کووڈ-۱۹ کے لیے استعمال کیے جائیں۔ (ب) تشہیری کام کے لیے مختص فنڈس کو بھی راحت کاری کے کاموں کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ایسے حالات میں میں جب کہ ملک اور ریاست شدید بحران سے گزر رہے ہیں، ہورڈنگ، اشتہارات وغیرہ پر خرچ بے معنی ہوگا۔(ج) ریاست کو اپنے فلاحی وبہبودی اسکیمات برائے بحران وغیرہ کو چھوڑ کر جتنے بھی تشہیری کام ہیں خاص کر سوشیل میڈیا پر تشہیر پر آئندہ دو سال تک کے لیے روک لگانا ہوگا۔ ان فنڈس کو اس بحران سے نمٹنے کے لیے استعمال کیا جائے۔(د) پبلک سرویس یونین PSUs کے انٹرنس امتحانات کے انعقاد کا کام کچھ معتبر لائق نجی اداروں کو سونپا جائے اور ان اداروں کو عوض میں اگلے تعلیمی سال کی فیس پر ۳۰ فیصد رعایت دینی ہوگی۔
کسی گاؤں یا قصبے کو گود لیں (Adopt a Village)
اگر اراکین اسمبلی وپارلیمنٹ (لوک سبھا وراجیہ سبھا) اور فلم اسٹارس، کھلاڑی، بڑے تاجرین، نامور شخصیات کم از کم آئندہ تین سال کے لیے صرف ایک گاوں یا قصبے کے فلاح وبہبود کی ذمہ داری لیتے ہیں تو ملک بھر میں کم از کم ۱۵۰۰۰ پندرہ ہزار گاؤوں اور قصبہ جات کو اس کا فائدہ ہوگا اور یہ ماڈل ساری دنیا کے لیے ترقی کا ایک بہترین نمونہ ہوگا۔
اسی طرح مختلف النوع ادارہ جات اپنے اپنے طور پر بحران سے نمٹنے کے لیے اقدامات طے کر سکتے ہیں۔ بلا شبہ شعبہ صحت اولین ترجیح ہوگا۔
آئیے! آگے بڑھیں اس مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کی مدد کے لیے، اس بحران سے نکلنے کے لیے، تاکہ آنے والی نسلیں ایسے نظام کی شاہد بنیں جس میں نفرت سے کوسوں دور امن واخوت، نا انصافی سے مُبرّا عدل وقسط کا دور دورہ ہو۔
***

بعد از لاک ڈاؤن ہر شعبے میں بحران کا امکان ہے۔ چاہے زراعت ہو یا صنعت وحرفت، تجارت ہو یا آئی ٹی کوئی شعبہ بحران کے خدشے سے عاری نہیں ہے۔ عام شہریوں پر ہونے والے اس کے مضر اثرات کا پتہ چلنے کے بعد، اس بحران کے مہلک اثرات اور اس کی حقیقت کے علم میں آنے کے بعد ارباب مجاز اس سلسلہ میں درکار خاطر خواہ منصوبہ بندی کریں اور نجی ادارے وغیرہ اس ضمن میں بھرپور تعاون کریں۔