مئے خانے سے خانہ کعبہ تک پہنچنے والے شاعر کی زندگی کے پیچ و خم
جگر کی ذاتی زندگی ان کے کلام کی طرح ہی پرکشش شہنشاہِ تغزل جگر مراد آبادی کے یوم وفات پر خصوصی پیشکش
احتشام الحق آفاقی۔ رامپور
اپنے مخصوص لب و لہجہ اور مترنم آواز کے شاعر، علی سکندر المعروف بہ جگر ؔ مراد آبادی چھ دہائیوں کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں رچے بسے ہوئے ہیں۔ ان کا کلام آج بھی لوگوں میں اسی قدر مقبول و عام فہم ہے جنتا کہ کل تھا:
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
جیسے زبان زدِ خاص و عام شعر کے خالق شہنشاہِ تغزل جگر مراد آبادی کو ۹ ؍ ستمبر ۲۰۲۰ کو ہم سے رخصت ہوئے ساٹھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ان کی شاعری جس قدر پر لطف ہے اس سے کہیں زیادہ جگر کی ذاتی شخصیت پر کشش ہے۔ جگر مرادآبادی ۶؍ اپریل ۱۸۹۰ء کو مراد آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ماجد مولوی علی نظر اور چچا مولوی علی ظفر دونوں شاعر تھے۔ ان کا شمار معززین شہر میں ہوتا تھا۔ اس طرح شاعری جگر کو ورثہ میں ملی۔ جگر مراد آبادی جہاں ایک اچھے شاعر کی حیثیت سے مقبول ہوئے وہیں ان کی شبیہ ایک رند اور مے نوش شاعر کی بھی ہے۔ انہیں ۱۵-۱۶ برس کی عمر سے ہی شراب کی لت لگ گئی تھی لیکن اس کے باوجود وہ مے نوشی کو اچھا شغل تسلیم نہیں کرتے تھے بلکہ اسے وہ ایک بری عادت دور جہالت کہتے رہے۔ گویا کہ:
ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا، لہرا کے پی گیا
بے کیفیوں کے کیف سے گھبرا کے پی گیا
توبہ کو توبہ تاڑ کے، تھرا کے پی گیا
زاہد، یہ میری شوخی رندانہ دیکھنا!
رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا
جگر مراد آبادی کم سنی ہی سے شراب و شباب کے دلدادہ تھے۔ جس کی وجہ سے ان کی ذاتی زندگی بہت زیادہ متاثر ہوئی۔ وہ کہتے ہیں:
دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
مراد آباد میں دوران ملازمت انہیں تحصیلدار کی بیوی سے عشق ہو گیا تھا۔ جب اس کی خبر چچا مولوی علی ظفر کو ہوئی تو ڈر کے مارے مراد آباد سے فرار ہو کر آگرہ جا پہنچے۔ وہاں وہ چشمہ ساز کمپنی کے سفری ایجنٹ کے طور پر کام کرنے لگے۔ وہیں وحیدن نامی لڑکی سے شادی کرلی لیکن وہ شادی زیادہ دنوں تک چل نہ سکی۔نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ دوران سفر جگر کی ملاقات اصغر حسین اصغر ؔگونڈوی سے ہوئی۔ اسی ملاقات نے ان کی زندگی میں نئے رنگ بھرنے کا کام کیا اور ایک راستے سے دوسرے راستے کی طرف رخ موڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اصغر گونڈوی نے جگر کی شخصیت میں چھپی صلاحیتوں کو پرکھ لیا اور ان کو سنوارنے کی کوشش کی۔ جگر کو اصغر گونڈی سے دلی لگاؤ تھا۔ یہ اشعار دیکھیں:
ہمیں معلوم ہے، ہم سے سنو محشر میں کیا ہو گا
سب اس کو دیکھتے ہوں گے، وہ ہم کو دیکھتا ہو گا
سر محشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہو گا
درِ جنت نہ وا ہو گا، درِ رحمت تو وا ہو گا
اصغرؔ نے جگر ؔ کی اصلاح کی غرض سے اپنی سالی نسیم سے ان کی شادی کر ادی۔ ان کا خیال تھا کہ شادی کی ذمہ داریوں میں بندھنے کے بعد جگر کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوگا اور وہ مئے نوشی ترک کر دیں گے لیکن اصغر کی یہ کوشش ناکام ثابت ہوئی۔ جگر مراد آبادی شادی کے بعد بھی شراب پیتے رہے۔ وہ کام کے سلسلے میں کئی کئی مہینے گھر سے بھی باہر رہتے تھے۔ اس دوران بیوی اپنا زیور بیچ بیچ کر گزر بسر کرتی رہی۔ جگر گھر واپس آبھی جاتے تو انہیں اپنی بیوی اور ذمہ داریوں کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ ان کی اس عادت سے بیوی نسیم پر بہت برا اثر ہوا ور وہ بیمار رہنے لگی۔ حکیم نے آخری علاج شادی بتائی۔ اصغر کی بیوی نے اصرار کیا کہ وہ نسیم کی جگر سے طلاق دلوا کر خود شادی کرلیں لیکن شرعاً دو بہنیں ایک شوہر کی بیوی نہیں ہو سکتیں۔ طے یہ پایا کہ اصغر نے نسیم کی بڑی بہن کو طلاق دیکر جگر کی مرضی سے نسیم سے شادی کرلی۔ جلد ہی اصغر کو بیماری نے گھیر لیا اور انہوں نے نسیم سے کہا کہ اگر جگر شراب چھوڑ دیں تو تم اس سے شادی کر لینا۔ اصغر کے انتقال سے جگر کو دلی صدمہ پہنچا تھا۔ انہوں نے اصغر کی وصیت کا پاس رکھتے ہوئے نسیم سے شادی کرلی اور شراب کی لت سے خود کو پاک کر لیا۔ جگر کے شہرہ آفاق دو شعر ملاحظہ ہوں:
یہ مصرع کاش نقشِ ہر در و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو ، مرنے کے لیے تیار ہو جائے
وہی مے خوار ہے، جو اس طرح مے خوار ہو جائے
کہ شیشہ توڑ دے اور بے پیے سرشار ہو جائے
جگر کی شخصیت ظاہری طور پر بہت پُر پیچ تھی۔ شوکت تھانوی اور مولانا سید سلیمان ندوی نے جگر سے پہلی ملاقات کے متعلق کچھ یوں لکھا ہے: ’’جگر جیسے کم رو، لا اُبالی اور خستہ حال شخص کو دیکھ کر ابتدا میں طبیعت میں ان سے فرار پیدا ہوا، پھر یہ فرار توجہ اس کے بعد اور حیرت اور پھر محبت و عقیدت میں بدل گیا‘‘
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے
جگر بہت جذباتی، مخلص، صاف گو، محب وطن اور ہمدرد انسان تھے۔
کسی کی تکلیف ان سے نہیں دیکھی جاتی تھی وہ کسی سے مرعوب بھی نہیں ہوتے تھے۔ ان کو پاکستان کی شہریت اور عیش و آرام کی زندگی کی ضمانت دی گئی تو صاف کہہ دیا جہاں پیدا ہوا ہوں وہیں مروں گا۔ پاکستان میں ایک شخص جو مراد آباد کا ہی تھا ان سے ملنے آیا اور ہندوستان کی برائی شروع کر دی۔ جگر کو غصہ آ گیا اور بولے ’’نمک حرام تو بہت دیکھے آج وطن حرام بھی دیکھ لیا‘‘ لکھنؤ میں منعقدہ ایک مشاعرے میں انگریز گورنر کی موجودگی میں نظم ’’ قحط بنگال‘‘ پڑھ کر سنسنی مچا دی تھی:
بنگال کی میں شام و سحر دیکھ رہا ہوں
ہر چند کہ ہوں دور مگر دیکھ رہا ہوں
افلاس کی ماری ہوئی مخلوق سر راہ
بے گور و کفن خاک بہ سر دیکھ رہا ہوں
بچوں کا تڑپنا وہ بلکنا وہ سسکنا
ماں باپ کی مایوس نظر دیکھ رہا ہوں
انسان کے ہوتے ہوئے انسان کا یہ حشر
دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہا ہوں
جگر کی ملاقات جب اصغر گونڈوی سے ہوئی تو انہوں نے جگر کی اصلاح و تربیت کے لیے دو اہم کام کیے ایک سالی نسیم سے ان کی شادی اور دوسرا یہ کہ وہ انہیں اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ عبد الغنی صاحب منگلوری ؒ سے ملاقات کے لیے سہارنپور لے گئے اور بیعت کرائی۔ اس کے بعد جب کبھی اپنے پیر کی خدمت میں حاضر ہوتے شراب نوشی سے بہت حد تک احتراز کرتے۔ وہ اپنے پیر و مرشد سے والہانہ عقیدت و احترام کرتے اور پیٹھ پیچھے ان کا ذکر خیر کرتے۔’ شعلہ طور‘ میں ایک نظم اور فارسی میں ایک غزل ان کی نذر کی۔
جگر مراد آبادی مذہبی فرقوں کے لحاظ سے حنفی سنی تھے۔ اس سے قبل وہ شیعہ تھے لیکن انہوں نے اسے ترک کر کے سنی عقیدہ کو اختیار کیا۔ مذہبی عقائد کے معاملے میں سخت رویہ رکھتے تھے۔ اعمال مثلاً نماز روزہ میں تسلسل برقرار نہ رکھ پاتے تھے مگر جب کبھی وہ نماز پڑھتے تو مسلسل پڑھتے رہتے جتنی بھی عبادت کرتے اس میں پاکیزگی اور خشوع و خضوع کا خاص خیال رکھتے۔ رمضان میں افطار سے آدھا گھنٹہ پہلے سگریٹ جلا لیتے اور افطار ہونے تک کئی سگریٹ یوں ہی جل کر راکھ ہو جاتے۔ محمود علی خاں تذکرۂ جگر مراد آبادی میں ایک واقعہ لکھتے ہیں اور اس واقعہ کے راوی اصطفا خاں ہیں:
’’مدینہ منورہ میں ایک بزرگ مولوی عبد الوہاب انصاری نے ایک سال خواب میں دیکھا کہ جگر گنبد خضریٰ کے سامنے کھڑے ہیں اور لہک لہک کر اپنا کلام سنا رہے ہیں۔ اصطفا خان صاحب نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے کبھی جگر کو دیکھا ہے اور ان کو پڑھتے سنا ہے۔ انہوں نے جواب دیا ’’کبھی نہیں‘‘ اس پر اصطفا خاں نے دریافت کیا ’’اچھا ذرا حلیہ تو بیان کیجیے‘‘ تو انہوں نے کہا’’ پستہ قد، سیاہ رو، بد ہیئت، سر کے بال بکھرے ہوئے، شیروانی کے بٹن کھلے ہوئے، سست اور لااُبالی سے‘‘ یہ واقعہ اصطفا خاں نے جگر سے بیان کیا۔ پھر جب۱۹۵۴ء میں جگر حج کو گئے تو فرمائش کرکے مولوی عبد الوہاب انصاری سے ملے اور کچھ دیر بیٹھ کر ان کو اپنا کلام بھی سنایا۔ اس کے بعد وہ بتانے لگے’’ واللہ یہی شکل و صورت اور اسی حلیہ کا شخص اسی لہجہ میں کلام سنا رہا تھا۔‘‘
اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ
ہاں کوئی نظر رحمت سلطان مدینہ
دامان نظر تنگ و فراوانی جلوہ
اے طلعتِ حق طلعتِ سلطانِ مدینہ
اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق
تو خلد ہے تو جنت ِسلطان مدینہ
جگر مراد آبادی کا انتقال ۹ ؍ستمبر ۱۹۶۰ء کو اتر پردیش کے گونڈہ میں ہوا اور وہیں وہ سپرد خاک ہوئے ۔
دل کو سکون روح کو آرام آ گیا
موت آ گئی کہ دوست کا پیغام آ گیا