’’لو جہاد‘‘: یوپی پولیس نے افواہوں کی بنیاد پر ایک مسلم جوڑے کی شادی روک دی، مبینہ طور پر دولہے کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا
اترپردیش، دسمبر 11: دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق اتر پردیش کے ضلع کشی نگر میں مبینہ ’’لو جہاد‘‘ (Love Jihad) کی افواہ پر پولیس نے ایک مسلم جوڑے کی شادی کی تقریب روک دی اور جوڑے کو پولیس اسٹیشن لے گئے۔ ’’لو جہاد‘‘ بائیں بازوں کی تنظیموں کی ایک من گھڑت اصطلاح ہے جس کے تحت وہ مسلمان مردوں پر شادی کے نام پر ہندو خواتین کا مذہب تبدیل کروانے کا الزام لگاتے ہیں۔
اخبار کے مطابق یہ واقعہ منگل کو اس وقت پیش آیا جب پولیس کو فون پر کسی نے کہا کہ دولہا مسلمان شخص ہے اور ایک ہندو لڑکی کا مذہب تبدیل کرکے اس سے شادی کر رہا ہے۔
دولہا، حیدر علی نے الزام لگایا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے اسے کسیہ پولیس اسٹیشن میں پولیس اہلکاروں نے چمڑے کی پٹیوں سے پیٹا اور گھنٹوں تک تشدد کا نشانہ بنایا۔‘‘
بعد میں پولیس نے اس جوڑے کو بدھ کے روز چھوڑ دیا، جب انھیں معلوم ہوا کہ وہ دونوں مسلمان ہیں۔ اس خاتون کے بھائی نے ضلع اعظم گڑھ آکر پولیس کو اطلاع دی کہ کنبہ کو اس کی 28 سالہ بہن شبیلا خاتون کی شادی سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔
علی نے بتایا کہ خاتون کے گھر والوں نے پولیس کو اطلاع دی کہ وہ ایک مسلمان ہے اور اس کے مذہب کے ثبوت کے طور پر اس کے آدھار کارڈ کی تصویر بھی بھیجی۔
دولہے نے اخبار کو بتایا کہ منگل کی سہ پہر کو ان کی شادی کے بعد شام ساڑھے سات بجے کے قریب انھیں پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔
انھوں نے کہا ’’شادی کی تقریب کے بعد ایک چھوٹی پارٹی چل رہی تھی جب پولیس کی ٹیم پہنچی اور کہا وہ کچھ نہیں سنیں گے اور ہمیں پولیس اسٹیشن لے گئے۔ وہاں انھوں نے مولوی کو اپنا بیان تبدیل کرنے کے بعد جانے دیا اور کہا کہ نکاح ابھی حتمی نہیں ہے۔‘‘
کسیہ پولیس اسٹیشن کے ہاؤس آفیسر سنجے کمار نے افواہوں کے لیے مبینہ ’’شرپسندوں‘‘ کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
اس دوران سرکل آفیسر پیوش کانت رائے نے کہا کہ پولیس نے فوری کارروائی کی کیوں کہ ’’ماحول کشیدہ ہے اور انتظامیہ ایسے معاملات سے متعلق سخت ہے۔‘‘
کشی نگر کے پولیس سپرنٹنڈنٹ ونود کمار سنگھ نے دولہے پر تشدد کے الزامات کی تردید کی۔ سنگھ نے کہا ’’ایسا نہیں تھا کہ جوڑے کو چھپ چھپا کر پولیس اسٹیشن لایا گیا تھا۔ نیز معاملہ جلد ہی حل کرلیا گیا … کسی کو پیٹنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔‘‘
دوسری طرف حیدر علی کے گاؤں گورمیا کے چوکیدار مشتاق علی نے کچھ ہندو نوجوانوں کے کہنے پر فون کرنے کا اعتراف کیا۔ مشتاق علی نے کہا کہ مبنیہ ’’لو جہاد‘‘ کے بارے میں جاننے پر انھوں نے پولیس کو فون کرنا اپنا فرض سمجھا۔
ارمان خان، جو ایک مقامی سماجی کارکن ہیں، نے دعوی کیا کہ ہندو یووا واہنی کے کچھ ممبروں نے پولیس کے پہنچنے سے قبل اس جوڑے سے ’’پوچھ گچھ‘‘ کی تھی۔