للن، کلن، جمن اور رمضان

بات بات میں کا م کی بات

ڈاکٹر سلیم خان

 

میر کلن علی خاں اور مرزا للن بیگ بچپن کے دوست تھے۔ ان دونوں کو مطالعہ کا بہت شوق تھا ۔ دین کی تبلیغ و اشاعت اور دیگر سماجی کاموں میں بھی وہ پیش پیش رہتے تھے اس لیے سماج میں ان کا بہت اثر تھا۔ مسجد کی انتظامیہ میں بھی وہ دونوں سرگرم تھے۔
ایک روز کلن خاں نے للن بیگ سے کہا مرزا صاحب کل میرے ہاتھ ’’رمضان ایک عبادت ایک پیغام‘‘ نامی یہ کتاب لگی۔ بھئی کیا کہنے! مزہ آگیا۔
یہ تو کوئی نیا موضوع نہیں ہے اس پر بہت ساری کتابیں دستیاب ہیں۔ للن بیگ نے جواب دیا
جی ہاں مجھے علم ہے اسی لیے تو یہ کتاب پسند آئی۔ روایت سے ہٹ کر جدید اسلوب بیان، منفرد انداز اور مثالیں تو کیا کہنے بھئی بالکل بے مثال۔
ایسی بات ہے تو ہمیں بھی تو اس کا کوئی اقتباس سنائیں۔
کلن خان بولے ہاتھ کنگن کو آر سی کیا یہ لو سنو:
’’ارکان اسلام پر اصل محنت کرائے بغیر امت کو نیکی کی راہوں پر دوڑانے کا کام بے ثمر ہے۔ اس سے اسلام کی اصلی روح کی عکاسی نہ ہو سکے گی۔ مسلمان سے قرآنی شخصیت برآمد نہ ہو سکے گی۔ اس ترتیب اور تلازم کو سمجھ لینا بس دین کی سمجھ پانا ہے۔ مختصراً یہ کہ عبادت بذات خود ایک بے انتہا پرکیف عمل اور دل گیر حقیقت ہے اور اصل میں تو یہ بذات خود ہی مقصود اور مطلوب ہے مگر اس سے انسان کے انفرادی اور معاشرتی کردار میں آپ سے آپ ایک تبدیلی کا آجانا بھی لازمی ہے۔
شادی کا لغوی مطلب اگرچہ گھر بار اور اولاد نہیں مگر یہ سب کچھ اس کے ساتھ خود بخود آتا ہے۔ زوجین میں سے کوئی بانجھ نہ ہو تو اولاد لازماً شادی کا ایک مقصد ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ بات اپنی جگہ کہ شادی بذات خود بھی ایک غیر معمولی لطف اور کشش رکھتی ہے اور ایسا بھی نہیں کہ اولاد کے سوا انسان شادی سے کوئی مقصد یا غرض نہ رکھتا ہو، یقیناً مرد اور عورت کا ایک دوسرے سے راحت اور سکون پانا بجائے خود بھی مطلوب ہے۔ بس تقریباً یہی مثال ارکان اسلام کے ساتھ نیکی کے مظاہر کی ہے۔
اسلام جس عبادت کا حکم دیتا ہے وہ رہبانیت کی طرح بانجھ نہیں جو انسان کی ذات میں اور اس کے گرد پھیلے معاشرے میں کوئی تبدیلی نہ لے آئے۔ عبادت تو ہے ہی شعور اور کردار میں تبدیلی لانے کے لیے۔ گو اس عبادت کا اپنا لطف اور اس کا بجائے خود مطلوب ہونا اپنی جگہ برقرار ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’لوگو! بندگی اختیار کرلو اپنے رب کی جو تمہارا بھی خالق ہے اور تم سے پہلوں کا بھی خالق ہے۔ کیا بعید کہ تمہیں تقویٰ نصیب ہو جائے‘‘۔ چنانچہ ہدایت سے انسان میں بندگی آتی ہے اور بندگی سے تقویٰ۔ رمضان کا بھی بس یہی پیغام سمجھو!
اس اقتباس کو سن کر للن میاں کے اندر کتاب پڑھنے کا شدید اشتیاق پیدا ہوا۔ وہ بولے بھائی کمال لکھا ہے اس شخص نے، کیا نام ہے اس کا ؟
اتفاق سے وہ میرا ہم نام ہے کلن کمال الدین اور جیسا کہ آپ نے کہا کمال کا انداز بیان ہے۔
للن آپ ہمیں اس نعمت سے محروم نہیں رکھ سکتے۔ ہم اس کتاب کو اپنے ساتھ لے جائیں گے تاکہ اس کے لعل و گہر سے مستفید ہو سکیں۔
کتاب کو پڑھنے کے بعد للن میاں بھی قائل ہو گئے۔ تصنیف لاجواب تھی اب انہیں فکر لاحق ہو گئی کہ کس طرح سارے لوگوں تک اس کو پہنچائیں۔ اس لیے وہ کلن سے بولے یار میں تو کہتا ہوں اس کتاب کا ایک ایک نسخہ منگوا کر جمعہ کی نماز کے بعد تقسیم کر دیا جائے تاکہ سبھی لوگ استفادہ کریں۔
للن میاں یہ خیال میرے ذہن میں بھی آیا تھا مگر اس کو میں نے ذہن دیا۔
وہ کیوں؟ کیا کتاب کی بابت آپ کی رائے تبدیل ہو گئی ہے۔
جی نہیں بلکہ آپ کی تائید کے بعد اس کو تقویت ملی لیکن کتاب منگوانا اور بانٹنا جتنا آسان ہے پڑھنا پڑھانا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ ویسے بھی مطالعہ کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ لوگوں کو واٹس ایپ اور فیس بک سے فرصت ملے تو کچھ پڑھیں۔ رہی سہی کسر یو ٹیوب پوری کر دیتا ہے۔
جی ہاں وہ تو ہے۔ کیوں نہ ہم آئندہ جمعہ کو اس کتاب پر کسی سے تقریر کروا دیں؟ لوگ جمع تو ہو ہی جاتے ہیں اپنے آپ یہ سن لیں گے؟
یہ عمدہ تجویز ہے میں تو کہتا ہوں رمضان کی آمد آمد ہے اور شب قدر میں مسجد کے اندر بہت بڑی مجلس ہوتی ہے۔ عوام بڑی عقیدت سے رات بھر جاگتے ہیں گہما گہمی رہتی ہے اس موقع پر آپ اس کتاب کا حاصلِ مطالعہ پیش کردیجیے۔’’رسمِ دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے‘‘۔
آپ بے موقع یہ مصرع جڑ کر مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں جمن پاشا کو کیوں نہ زحمت دی جائے ان پر تو غالب کا یہ مصرع ہو بہ ہو صادق آتا ہے کہ ’’یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب ‘‘۰۰۰۰۰۰
اب آگے نہ بولیں ورنہ جمن پاشا ناراض ہو جائیں گے۔ ٹھیک ہے میں کل ہی ان کی خدمت میں یہ کتاب اور آپ کی گزارش پہنچا دیتا ہوں۔
شب قدر میں مسجد کے اندر موجود حاضرینِ مجلس جمن پاشا کی تقریر سے خوب لطف اندوز ہوئے۔ انہوں نے فرمایا :
بھائیو! شہر کے ایک نادان بچے کی طرح جس نے کھیت اور باغات کبھی نہ دیکھے ہوں، کسانوں اور باغبانوں کا پسینہ کبھی بہتا نہ دیکھا ہو تو وہ سمجھتا ہے کہ سیب ریڑھیوں کو لگتے ہیں اور آم دکانوں میں اگتے ہیں۔ بندگی کا یہ رشتہ، خدا کی ممنونیت اور احسان مندی کا یہ احساس جس لمحہ دل سے محو ہوتا ہے تو پوری زندگی ہمارے لیے ویسے ہی بے معنی اور لغو ہو کر رہ جاتی ہے۔ سب خوشیاں اور راحتیں ویسی ہی بے مقصد اور بے قیمت ہوجاتی ہیں۔ یہاں کے خوش نما پھل، پر لطف ذائقے، یہ سب رعنائیاں اور لطافتیں ہم کو ریڑھی کا کمال نظر آتا ہے!!
صاحبو! مالک کی بجائے اناج کی بندگی، رازق سے بے اعتنائی پر رزق کی طمع، نعمت کا پاس اور منعم کی بے وقعتی۔۔۔۔ یہ دنیا میں ہمیشہ پست ہمتوں اور کم ظرفوں کا شیوہ رہا ہے۔ یہاں گھٹیا انسانوں کا یہ پرانا مذہب چلا آ رہا ہے۔ روزہ جو اصل معبود کے لیے اختیاری بھوک رکھ کر ہوتا ہے، مالک کی خاطر پیاس سہہ کر رکھا جاتا ہے، دراصل اسی کم ظرفی کے مذہب کا انکار ہے۔ یہ روزہ کیا ہے؟ اس بات کا اعلان کہ دنیا میں خدائی روٹی کی نہیں، روٹی دینے والے اور پیدا کرنے والے کی ہے۔ جو کبھی نہ بھی دے تب بھی خدائی اسی کی شان ہے۔ ہر حال میں اپنا اس سے ایک ہی رشتہ ہے۔ یہ بندگی اور سپاس کا رشتہ ہے۔ یہ منعم شناسی ہی دراصل خود شناسی ہے۔ بھائیو! اس رشتے کو جانے بغیر منعم کو پہچانے بغیر کھاتے چلے جانا ویسے کہاں کی انسانیت ہے!! اعلیٰ ظرفی تو یہ ہے کہ کھانے سے زیادہ انسان کو کھلانے والے کی قدر ہو اور کمینگی یہ ہے کہ آدمی کو بس صرف کھانے سے غرض ہو!
انسان کے کھانے اور چارے کا فرق بس اسی ہدایت کے دم قدم سے تو ہے!! دنیا کے طبیب اور ڈاکٹر تو آپ کو کھانے اور چارے کا فرق صرف غذائیت کے اعتبار سے ہی بتا سکیں گے۔ وہ تو آپ کو کیلوریوں اور ویٹامینوں کی گنتی کرنا ہی سکھا سکیں گے، مگر انسانوں کی طرح کھانا، کسی سوچے سمجھے مقصد کے لیے کھانا بلکہ کسی اعلیٰ مقصد کے لیے کبھی نہ بھی کھانا، پھر کھانے اور نہ کھانے، ہر دو صورتوں میں بندگی کا اقرار اور اعتراف کرنا، بلکہ نہ کھانے کی صورت میں شکم سیروں سے کہیں بڑھ کر اس کی حمد وتسبیح کرنا، بھوکا پیاسا رہ کر اپنی بندگی اور اس کی کبریائی کا اور بھی شدت سے اعتراف کرنا کوئی صرف محمد ﷺ سے ہی سیکھ سکتا ہے، انسان اور حیوان کا یہ فرق آپ کو سورہ محمد ہی سے معلوم ہو سکتا ہے۔ ’’خالق سے کفر کرنے والے بس کھاتے ہیں، چند روزہ زندگی کی موج کرنے میں لگے ہیں، یوں کھاتے ہیں جیسے جانور، اور آگ ان کا گھر بننے کے لیے ان کے انتظار میں ہے‘‘۔
اس پر مغز اور دلنشین بیان کے بعد مصافحہ کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ کئی لوگوں نے معانقہ بھی کیا مگر کلن میاں پریشان ہو گئے انہوں نے مرزا للن سے شکایت کی جمن بھائی نے تو سب چوپٹ کر دیا۔
کیوں! اتنے لاجواب بیان کے بارے میں آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟ کلن میاں نے تردید کی۔
تقریر تو بے شک اچھی تھی لیکن اس میں کتاب کا کچھ بھی ذکر نہیں تھا۔
جی ہاں لیکن اس کے لیے تو انہوں نے پہلے ہی معذرت چاہ لی تھی کہ پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کے باوجود جو باتیں انہوں نے پیش کیں وہ بہت معقول اور اثر آفریں تھیں۔ میں تو سمجھتا ہوں ہمارا مقصد حاصل ہوگیا۔
کیا خاک مقصد حاصل ہوا۔ اس بیان کی غرض و غایت اس کتاب کو لوگوں تک پہنچانا تھا وہ تو حاصل ہی نہیں ہوا۔
اچھا تو کتاب کی غرض و غایت کیا تھی؟ کلن میاں نے سوال کیا۔
کتاب کے اغراض و مقاصد تو مولف نے یہ بیان کیے ہیں کہ اس سے مطلوب قرآن و حدیث کی روشنی میں رمضان و روزے کی حقیقت بیان کرنا ہے۔
اچھا یہ بتاو کہ یہ مطلوب و مقصود حاصل ہوا یا نہیں؟
وہ تو ہوا مگر ۰۰۰۰۰کتاب ۰۰۰۰۰میرا مطلب آپ سمجھے نا؟
جی ہاں لیکن اگر کتاب کا مقصد حاصل ہو گیا تو کیا یہ کافی نہیں ہے؟ ایسے یا ویسے کیا فرق پڑتا ہے بلکہ میں تو سوچتا ہوں اچھا ہی ہو۔
کیا اچھا ہوا میں نہیں سمجھا؟
یہی کہ جمن پاشا کو پڑھنے وقت نہیں ملا۔
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں مرزا صاحب، خود جمن پاشا نے تقریر کی ابتداء میں اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ مذکورہ کتاب کو پڑھنے کے لیے وقت نہیں نکال سکے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ اچھا ہوا؟
جی ہاں! میں نے بھی ان کے بیان میں وہ اعتراف سنا اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ پہلی فرصت میں وہ اس کو پڑھیں گے۔
اس کے باوجود آپ یہ کہہ رہے ہیں؟
جی ہاں وہ ان کا مسئلہ ہے لیکن میں اپنے نقطہ نظر سے یہ بات کہہ رہا ہوں۔
اچھا ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ آپ کا نظریہ کیا ہے؟
بھئی دیکھو! اگر وہ کتاب کو پڑھ لیتے تو وہی سب بتاتے جو ہم نے کتاب میں پڑھ رکھا تھا ہماری معلومات میں کیا اضافہ ہوتا؟
یہ بات تو درست ہے لیکن پھر بھی میں چاہتا ہوں کہ ہمارے محلے کے سارے لوگ اس کتاب کو پڑھیں۔
تو اس میں کیا مشکل ہے آپ وہ کتاب منگوا کر جمعہ میں تقسیم کر دیں۔
لیکن آپ نے تو کہا تھا کہ لوگ مطالعہ نہیں کرتے؟واٹس ایپ اور یو ٹیوب پر لگے رہتے ہیں۔
جی ہاں اس کا علاج یہ ہے کہ وہ کتاب آپ اپنی آواز میں ریکارڈ کرکے واٹس ایپ، فیس بک اور یو ٹیوب پر ڈال دیں جس کو پڑھنا ہے پڑھ لے گا اور جو نہیں پڑھے گا وہ سن لے گا۔
میری آواز کیوں؟ جمن پاشا کی گرجدار آواز کیوں نہیں؟
ٹھیک ہے ان سے پڑھوا لینا لیکن یہ کام کسی پیشہ ور ماہر کی نگرانی میں اسٹوڈیو کے اندر کرنا تاکہ سامعین اس کو صاف صاف سن سکیں۔
للن نے اندیشہ ظاہر کیا لیکن ان کو برا تو نہیں لگے گا کہ ہم کسی اور کی کتاب ان سے پڑھوا رہے ہیں؟
اس میں برا ماننے کی کیا بات ہے؟ جمن پاشا کے بیان کی بھی تو ریکارڈنگ ہمارے پاس موجود ہی ہے۔ پہلے اس کو سماجی رابطوں مثلاً واٹس ایپ اور یوٹیوب پر پھیلا دیتے ہیں اس کے بعد کتاب کی ریکارڈنگ کروا لیتے ہیں ایک کے ساتھ ایک فری والی اسکیم سمجھ لو۔
للن نے خوش ہو کر کہا یہ اچھا ہے مگر ایک کیوں دونوں ہی مفت ہیں۔
کلن بولے اسی لیے مفت کی چیز نے اپنی اہمیت گنوادی ہے۔
لیکن کیا کریں؟ مفت خوری کے اس دور میں جب سب مفت میں مل رہا ہے تو اس بیش قیمت چیز کی کیا قدر وقیمت طے کریں؟
کلن نے کہا جی ہاں اور ویسے اس سال یہ آپ کی جانب سے دوست واحباب کی خدمت میں عید کا بہترین تحفہ ثابت ہو گا۔
جی ہاں مرزا صاحب بولے تب تو میں اس کی قیمت بھی نہیں لے سکتا اس لیے کہ ایسا کرنے سے سارا اجر وثواب کافور ہو جائے گا ۔
مرزا کلن علی خان نے میر للن بیگ سے مصافحہ کر کے کہا بھائی عید کے اس یادگار تحفہ کے لیے میری جانب سے پیشگی شکریہ اور مبارکباد قبول فرمائیں۔۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 اپریل 2021