لاک ڈاؤن اور رمضان: ہم اپنی اصاح و تربیت کیسے کریں
عطیہ صدیقی، دلی
(نوٹ: اصلاً یہ زوم ایپ کے ذریعہ منعقدہ خواتین کے ایک اجتماع میں کی گئی ایک تقریر ہے جسے افادہ عام کے لیے ضبط تحریر میں لایا گیا ہے)
کچھ دن قبل ہم ایک چلتی پھرتی اور مصروف دنیا میں تھے لیکن یکایک زندگی تھم سی گئی ہے۔ لوگ کاروبارِ زندگی میں دنیا کی رنگینیوں میں اس قدر مصروف ومگن تھے کہ اپنے رشتہ داروں کو اپنے گھر والوں کو حتیٰ کہ خود کو تک بھلا بیٹھے تھے۔ عقیدہ وعمل کی خرابیاں بام عروج پر پہنچ چکی تھیں۔ مال ودولت کو حاصل کرنے میں ایک دوڑ لگی ہوئی تھی، ہر کوئی سمجھ بیٹھا تھا اسے اب کوئی روک نہیں سکتا وہ جو چاہے کرسکتا ہے جس طرح چاہے کر سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک حقیر سے جرثومے کے ذریعے جو خورد بین کے بغیر کسی کو نظر نہیں آ سکتا اچانک سب کو باندھ کر رکھ دیا ہے۔ آج سے پہلے ایسے حالات ہمارے سامنے کبھی نہیں آئے تھے۔ جہاں اس وائرس کی وجہ سے لوگوں پر موت کا خوف طاری ہے اور وہ گھروں میں دبکے پڑے ہوئے اس وبا کے ٹلنے کا انتظار کر رہے ہیں وہیں اس وبا نے ہم مسلمانوں کو یہ موقع دیا ہے کہ ہم اپنے گھروں میں رہ کر اپنے آپ پر غور کریں، اپنی مصروفیات کا جائزہ لیں اور اپنے گھر والوں کی حالتِ زار کی طرف توجہ کریں اور دیکھیں کہ اپنے پیدا کرنے والے سے ہمارا تعلق کس حد تک استوار ہے یا ہے بھی یا نہیں؟
آج ہم جس بحرانِ عظیم سے گزر رہے ہیں جماعت کے کارکن ہونے کی حیثیت سے ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ اس ماحول میں اب ہم کو کیا کرنا چاہیے۔ کووڈ۔۱۹ سے پہلے ہم فیلڈ ورک میں مصروف تھے جس کی وجہ سے ہمیں اپنی ذات کی طرف زیادہ توجہ دینے کے لیے وقت نہیں مل رہا تھا لیکن اس وبا کے دستک دینے کے بعد ہمیں جو فارغ وقت ملا ہے اس کو ہم غنیمت جانیں اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں۔ آج ہم زوم ایپ کی وساطت سے اجتماع کر رہے ہیں۔ یہ طریقہ آج سے پہلے کبھی اختیار نہیں کیا گیا ہمیں تو اپنی ذمہ دار کے دورے کا انتظار رہتا تھا کہ وہ آئیں تو کچھ کام ہو۔ لیکن آج عصری ٹکنالوجی کے دور میں نئی نئی سہولتوں سے استفادہ کرنے کا بہترین موقع ہمارے ہاتھ آیا ہے۔ لاک ڈاؤن میں ساری دنیا خاموش ہے لیکن عورت زیادہ مصروف ہوگئی ہے۔ شوہر اور بچوں سمیت سبھی افراد گھر پر موجود ہیں اور صبح سے شام تک کی مصروفیت لگی ہوئی ہے۔ ایسے میں اصلاحِ ذات اور تربیت کے لیے وقت کیسے نکالا جائے یہ آج کی میری گفتگو کا موضوع ہے۔زندگی کی مصروفیتیں کبھی ختم ہونے والی نہیں ہیں۔ انہی مصروفیات میں سے وقت نکال کر ہمیں اپنی ذاتی اصلاح کی بھی فکر کرنی ہے اپنی اولاد کی طرف بھی توجہ دینا ہے اور اپنے گھر کے ماحول کی طرف بھی متوجہ ہونا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب آپ کو ان تمام محاذوں پر توجہ دینا ہے تو اس کا ایک خاکہ بھی آپ کے ذہن میں ہونا چاہیے منصوبہ بندی ہونا چاہیے ورنہ اوقات ضائع ہوں گے اور ذہنوں میں جو کچھ اچھے خیالات پرورش پا رہے ہیں انہیں سلیقہ سے روبہ عمل نہیں لایا جاسکے گا۔ اس ضمن میں آپ کا پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ آپ اپنے وقت کو منظم کریں اور اپنی اپنی ضرورت ومصروفیت کے لحاظ سے ایک ٹائم ٹیبل بنائیں جس میں ذاتی اصلاح،بچوں اور گھر والوں کی اصلاح اور ان کی ضرورتوں کے لیے وقت مختص کریں۔ ٹائم ٹیبل کے مطابق دن کی شروعات نمازِ فجر سے ہوسکتی ہے۔ اللہ نے جو موقع دیا ہے اس میں ہم نوافل کا اہتمام ضرور کریں۔ اس کے علاوہ درج ذیل امور کو اپنے ٹائم ٹیبل کا حصہ بنائیں:
محاسبہ
سب سے پہلے ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کے آج ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟ ہماری ایمانی کیفیت کیسی ہے؟ ہمارے اندر کیا خامیاں ہیں۔ کیا ہماری قوت ہے؟ کیا ہماری کوتاہیاں ہیں؟ ان چیزوں کو ہمیں تحریر میں لانا ہوگا۔ کیوں کہ انسان خود اپنا محتسب ہے جیسا کہ سورہ الحشر میں کہا گیا ’’اور ہر نفس کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ اور اللہ سے ڈرنا چاہیے اور معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ باخبر ہے جو اعمال تم کرتے ہو‘‘۔ اس آیت میں انسان کو خود اپنا محتسب بتایا گیا ہے۔ چنانچہ ہم اپنا بے لاگ جائزہ لے کر دیکھیں کہ ابھی ہم کس مقام پر ہیں؟ اس طرح ہم اپنے کاموں کی ایک فہرست بنائیں۔پھر اس کے بعد یہ سوال ذہن میں لائیں کہ ہم اپنی تربیت کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہے۔ شخصیت کا ارتقاء ایک مستقل عمل ہے۔ فی الحال ہماری جو حالت ہے اسی سے ہمیں مطلوبہ حالت تک پہنچنا ہے۔ اپنی شخصیت کو وہاں تک پہنچانے کے لیے ہمیں کچھ چیزیں ذہن میں رکھنا چاہیے۔ مثلاً یہ دنیا وسیع ہے، یہاں امکانات بہت زیادہ ہیں لہٰذا ہمیں دستیاب وسائل کو لے کر آگے بڑھنا ہے۔
تربیت ہمیں کیوں کرنا ہے؟ کیوں کہ ہمیں ایک کامیاب انسان بننا ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اس سلسلے میں ہم اپنا جائزہ لیں اور مقاصد کو سامنے رکھیں۔
علمی، فکری اور نظریاتی نشو ونما
نشو ونما کے بہت سارے ذرائع ہیں۔ ان میں تلاوت قرآن، تعلیمِ کتاب، تعلیمِ حکمت کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔تلاوتِ قرآن مجید، ہم اپنے منصوبے میں تلاوتِ قرآن مجید کو شامل کریں اور منصوبہ بنائیں کہ مجھے تلاوت قرآن کب کرنا ہے؟ مجھے پر سکون ماحول کب ملتا ہے؟ فیملی اجتماع تو ہوگا افراد خانہ کے ساتھ لیکن مجھے ذاتی اصلاح بھی کرنی ہے۔ تلاوت کے لیے کونسی آیات منتخب کروں؟۔غرض ہم قرآن کا اس انداز سے مطالعہ کریں کہ ہم کو محسوس ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ سے کلام کر رہے ہیں۔ یعنی ایک تلاوت وہ ہوتی ہے جو ہم اپنی زبان سے کرتے ہیں لیکن ہمیں اب سمجھ بوجھ کر تفسیر کا مطالعہ کرنا ہے۔ کسی بھی تفسیر کو منتخب کرکے مطالعہ کیجیے لیکن ایک بات کو ذہن میں رکھیے کہ قرآن پڑھتے وقت لافانی ہستی سے فانی ہستی کی باتیں ہورہی ہیں۔ انسان کے لیے اس سے بڑی سعادت مندی اور کیا ہوگی کہ وہ لافانی ہستی سے ہم کلام ہو رہا ہے۔ ہم تلاوت بآوازِ بلند کریں اپنی تجوید کو ٹھیک کریں روزآنہ تلاوت کریں رات کی تنہائی میں تلاوت کرنے پر جو آیات ہمارے قلوب پر اثر کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہوں انہیں بہ تکرار پڑھنے کی کوشش کریں۔ ہمیں خاص خاص آیات کو حفظ بھی کرنا چاہیے جیسے سورہ آل عمران کی آخری آیات، سورہ الحشر کا دوسرا رکوع وغیرہ۔ پھر ہم مکمل تیسواں پارہ حفظ کرنے کا ہدف رکھ سکتے ہیں۔ اس طرح ہم قرآن کریم کے ساتھ تعلق کو مضبوط کریں۔
تعلیمِ کتاب
شخصیت سازی میں اس کا بڑا دخل ہے۔ نبیﷺکو بھی بحیثیت معلم بناکر بھیجا گیا تھا۔ ارتقا ایسا ہو جسے فرد خود بھی محسوس کرے اور معاشرہ بھی محسوس کرے۔ تربیت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ عمل کو صورت حال سے جوڑ دیا جائے۔ مثلاً اذان ہو تو نماز کی تیاری شروع کر دیں۔ عورتوں کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ کاموں کے بہانے سے نمازوں کو ٹال کر پڑھتی ہیں۔ کوئی ہنگامی قسم کا کام ہو تو کچھ رعایت ہو سکتی ہے ورنہ اذان کے ساتھ ہی نماز پرھنے کی عادت ہونی چاہیے۔ الحمدللہ یہ اچھی بات ہے کہ کئی گھروں میں اب با جماعت نمازیں ادا ہو رہی ہیں۔ تربیت کے سلسلے میں ایک اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ہم اپنا مطالعہ بڑھائیں۔ قرآن وحدیث کے ساتھ لٹریچر کا مطالعہ کریں۔ خطبات کو بار بار پڑھیں۔ مطالعہ جتنا وسیع ہوگا اتنا بہتر رہے گا۔ مطالعے کے بغیر بات چیت میں گہرائی پیدا نہیں ہوتی۔اس طرح ہمیں علمی وفکری اور نظریاتی نشو ونما بھی کرنا ہے۔
روحانی نشو ونما
روحانیت کو ہماری شخصیت کا ایک نہایت خوبصورت پہلو ہونا چاہیے۔ یہ چیز ایمان کی مضبوطی، نمازوں میں خشوع وخضوع اور تلاوت کی حلاوت اور ذکر الٰہی کی لذت سے حاصل ہوتی ہے۔ ایمان کا لباس تقویٰ ہے اور اس کی زینت حیا ہے۔ حیا کے سلسے میں یہ بات ملحوظ رہے کہ وہ اللہ سے کی جائے، انسانوں، سے فرشتوں سے اور نفس سے کی جائے۔اللہ سے حیا یہ ہے کہ انسان اپنے جسمانی اعضا اور خیالات کی اصلاح کرے۔ عقل، زبان، کان، آنکھ، ان کے ذریعے کیے جانے والے اعمال کی نگرانی۔ عقل سے وہی سوچے جو اللہ کو پسند ہے۔ آنکھ ہے وہی دیکھے جو اللہ کو پسند ہے کانوں سے وہی بات سنے جو اللہ کو خوش کرنے والی ہو اور زبان سے وہی بات کہے جو اللہ کی ہدایت کے مطابق ہو۔ اسی بات کو سورہ بنی اسرائیل آیت ۳۶ میں کہا گیا:’’یقیناً آنکھ، کان، دل سبھی کی باز پرس ہوگی‘‘پیٹ کو حرام کھانوں سے بچائیں۔ موت اور فنا ہونے کو یاد رکھیں رسولﷺ نے فرمایا: ’’لذتوں کو ختم کرنے والی چیز موت کو کثرت سے یاد کیا کرو‘‘
نفس سے حیا کا جہاں تک تعلق ہے آج خلوت اور اکیلے پن کے گناہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ یعنی موبائل پر ہوں تو کوئی نہیں دیکھتا کہ کیا دیکھا جا رہا ہے۔ لہذا خلوت کے گناہ سے ہمیں بچنا چاہیے۔
جسمانی صحت اور صلاحیتوں کا ارتقا
صحت کے لیے ورزش کا اہتمام کرنا ہوگا۔ یو ٹیوب پر ورزش کا طریقہ مل جائے گا۔ صلاحیتوں کے ارتقا کے لیے اپنے اندر نئے ہنر پیدا کریں۔ جو اسکل آپ کے پاس نہیں ہے یا ابھی تک جو نہیں سیکھا ہے وہ سیکھنے کوشش کریں مثلاً کمپیوٹر سیکھنا، پی پی ٹی تیار کرنا، کوئی نئی زبان، خصوصیت کے ساتھ علاقائی زبان سیکھنا وغیرہ۔ اسی طرح انگریزی آتی ہے تو اچھی بات ہے لیکن اپنی اردو کو بھی بہتر کریں۔
جذبات کی نشو ونما
اس کا تعلق خیالات سے ہے۔ مثبت سوچ سے تعمیری جذبات اور منفی سوچ سے تخریبی جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ ڈر خوف، مایوسی، چڑچڑا پن، اپنوں سے نفرت وغیرہ یہ چیزیں ہمیں اپنوں سے دور کرتی ہیں۔ ذہنی دباو کو کیسے دور کیا جائے کس طرح ہمیں اپنی جذبات کی نشو ونما کرنا ہے اس سلسلے میں ایس امین الحسن صاحب کی ویڈیوز سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
آپ کے ٹائم ٹیبل کا اہم نکتہ یہ بھی ہو کہ اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر بنایا جائے۔ آپ کی ذرا سی توجہ سے بچے اور نکھر سکتے ہیں۔ سسرال ومیکے سے بھی تعلقات بہتر واستوار رکھیں۔ گھر کے کام تقسیم کردیں تو فارغ وقت مل سکتا ہے اور یوں ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا آسان ہو سکتا ہے۔
مطالعہ ایسا کریں کہ ساتھ میں نوٹس بھی بناتے جائیں، بہت سارے آن لائن پروگرامس چل رہے ہیں کسی ایک پروگرام کو منتخب کریں اور اس میں حصہ لیں۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے ہمارا بہت سارا وقت ضائع ہو جاتا ہے لہٰذا ہم اس کا بھی وقت مقرر کرلیں۔ ہم یہ طے کرلیں کہ ہمیں کیا دیکھنا ہے اور کیا نہیں دیکھنا ہے۔ صرف معتبر نیوز چینلوں کو ہی دیکھیں سنیں اور سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنے سے بچیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں بہتر منصوبہ بندی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
(مضمون نگار جماعت اسلامی ہند کے شعبہ خواتین کی مرکزی سکریٹری ہیں)
روحانیت کو ہماری شخصیت کا ایک نہایت خوبصورت پہلو ہونا چاہیے۔ یہ چیز ایمان کی مضبوطی، نمازوں میں خشوع وخضوع اور تلاوت کی حلاوت اور ذکر الٰہی کی لذت سے حاصل ہوتی ہے۔ ایمان کا لباس تقویٰ ہے اور اس کی زینت حیا ہے۔ حیا کے سلسے میں یہ بات ملحوظ رہے کہ وہ اللہ سے کی جائے، انسانوں، سے فرشتوں سے اور نفس سے کی جائے۔