محب اللہ قاسمی، دلّی
قربانی ایک مختصر لفظ ہے لیکن انسانی زندگی میں اس کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ اس کی ضرورت انسان کو اپنی زندگی کے مختلف مقامات پر اور مختلف انداز میں پڑتی ہے۔ ساتھ ہی ہر قربانی کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ انسان جو اپنی زندگی کے مختلف مسائل میں الجھا ہوا ہوتا ہے اسے قدم قدم پر قربانی دینی پڑتی ہے اور اس کے پیچھے اس کا کوئی نہ کوئی مقصد چھپا ہوتا ہے۔ اور مقصد جتنا عظیم ہوتا ہے قربانی بھی اتنی ہی بڑی ہوگی۔ مثلاً انسانی زندگی کا مقصد اطاعت الٰہی ہے جو تقرب الٰہی اور کیفیت تقویٰ کے بغیر ممکن نہیں اور یہ تقرب الٰہی کیفیت تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ لہٰذا اطاعت کے لیے قربانی ضروری ہے۔
لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُم
’’نہ ان (قربانی کے جانوروں) کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون۔ مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘ (الحج:۳۷)
اس آیت کریمہ سے یہ واضح ہے کہ اللہ کو مقصود ان جانوروں کا خون یا ان کا گوشت نہیں ہے بلکہ وہ اپنے بندوں کا تقویٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اس پر کس قدر یقین رکھتے ہیں۔ اس کے احکام کی کس قدر پابندی کرتے ہیں اور کس طرح وقت ضرورت قربانی پیش کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ تقویٰ کی صفت اللہ کو بے حد محبوب ہے، اسی صفت سے انسان نیک اعمال کو ترجیح دے کر انہیں اختیار کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص کسی عمل کو تقویٰ کی صفت کے ساتھ انجام دیتا ہے تو وہ خالصتاً للہ ہوتا ہے، اس میں ریا کا شائبہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کو ہی روزے جیسی اہم ترین عبادت کا مقصد قرار دیا ہے۔ اس طرح ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّہُ مِنَ المُتَّقِیْنَ ’’اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں (قربانی) قبول کرتا ہے۔ ‘‘(المائدہ:۲۷)
عیدالاضحیٰ کا مقصد بھی جذبۂ قربانی کو بیدار کرنا اور اپنی عزیز سے عزیز تر چیز کو حکم ربانی کے تحت رضائے الٰہی کے حصول کے لیے قربان کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اپنی مقصد زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی خواہشات پر رب کائنات کی مرضیات کو ترجیح دی جائے۔ یہ دراصل انسان کی عملی زندگی کا ایک امتحان ہے جس سے اس کے اندر نکھار اور حسن پیدا ہوتا ہے۔ عربی کا مقولہ ہے عندالامتحان یکرم الانسان اویہان۔ جو شخص جس قدر آزمائش سے دوچار ہوگا اور اس میں خدا کے احکام کو ترجیح دے گا وہ شخص اسی قدر اللہ کا محبوب اور اس کا عزیز تر بندہ ہوگا۔ قربانی خدا کا قرب حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ قربانی کی رسم قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ قرآن کہتا ہے:
وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنسَکاً لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیْمَۃِ الْأَنْعَامِ فَإِلَہُکُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌ فَلَہُ أَسْلِمُوا وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ o ’’ہرامت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے۔ تاکہ (اس امت کے) لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں (الحج:۳۴)
اسے سنت ابراہیمی سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ صحابہؓ نے نبیﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ! یہ قربانی کیا چیز ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔‘‘ (ترمذی)
قربانی کے مفہوم کو ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال اور قابل رشک زندگی سے سمجھ سکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جس کو جس سے جتنی محبت ہوتی ہے وہ اسی طرح اپنے محبوب کا امتحان بھی لیتا ہے۔ اس کرہ ارض پر رونما ہونے والے تاریخی واقعات پر ہم نگاہ ڈالیں تو ہمیں بے شمار عاشقوں کے عشق کی رنگینیاں، دلفریباں اور جلوہ سامانیاں دکھائی دیتی ہیں۔ عقیدت ومحبت، الفت ومودت کی ان گنت کہانیاں سننے کو ملتی ہیں اور عشق کے جنون میں ڈوبے تخت وتاج، مال واسباب لٹا دینے والے پتھروں اور چٹانوں سے دودھ کی نہریں جاری کرنے میں اپنی تمام ترجدوجہد صرف کر دینے والے عشق کے شہنشاہوں کی ہزاروں داستانیں تاریخ میں ملتی ہیں ۔
مگر فدائیت وللّٰہیت، استقامت وثابت قدمی، ابتلا وآزمائش سے لبریز، دل سوز، سبق آموز اور ناقابل فراموش داستان جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی ہے اور جو ایثار وقربانی، اطاعتِ ربانی اور مشیتِ خداوندی کی تعمیل کے جذبہ کی کار فرمائی اس عاشق الٰہی میں ملتی ہے دیگر عشاق کائنات اس سے بالکل خالی وعاری ہیں۔
اس عاشق نے اپنے محبوب کی تلاش میں حسین کائنات اور اس کی گل افشانیوں کو چھان مارا۔ اس تلاش وجستجو میں اچانک اس کی نگاہ ایک تاریک شب کی سیاہ چادر میں لپٹے ہوئے ایک ستارے پر پڑی تو فرحت وانبساط سے اس کا حسین چہرہ کھل اٹھا۔ اپنے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کی زبان پر ’’ہذا ربی‘‘ کے الفاظ آ گئے۔ مگر جونہی وہ ستارہ اس کی نگاہ سے اوجھل ہوا فوراً اس کی زبان حرکت میں آئی اور صاف طور پر اس نے ’’لا احب الافلین‘‘ کہہ کر بے زاری کا اظہار کیا۔
اس کے بعد اس نے روشن چاند دیکھا تو ’’ ہذا ربی ‘‘ کہہ کر پکار اٹھا لیکن جب وہ بادلوں کی اوٹ میں چلا گیا تو اس نے اس کو بھی خدا ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد جیسے ہی روشن صبح نے انگڑائی لیتے ہوئے اپنے چہرے سے نقاب کشائی کی تو ایک چمکتا،دمکتا آفتاب اپنی تابناکی کے ساتھ رونما ہوا۔ اس کے اس انداز اور بڑے پن کو دیکھ وہ ان الفاظ میں گویا ہوا ’’ہذا ربی ہذا اکبر‘‘ یہ میرا رب ہے، یہ بہت بڑا ہے۔ مگر یہ کیا؟ یہ بھی غروب ہو گیا۔ یہ دیکھا تو اس نے اس سے بھی بے زاری ظاہر کر دی اور اعلان کر دیا کہ یہ میرا رب نہیں ہو سکتا۔
اس طرح اس عاشق نے اپنے خالق ومالک کو ڈھونڈ لیا اور کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جس نے سورج، چاند، ستارے اور کائنات کی تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے اور دنیا کی ہر چیز اس کی محتاج ہے۔ جب اس نے اپنے موحد ہونے کا اعلان کیا تو سارے لوگ اس کے خلاف ہو گئے۔ اب اللہ کی طرف سے آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ہر جگہ آپ اپنی قربانی پیش کرتے چلے گئے۔ چنانچہ بت پرست گھرانے کے فرد ہوتے ہوئے، بت شکن ہونے کے سبب انہیں بادشاہ وقت نمرود کے حکم سے آگ میں ڈالا گیا۔ مگر ہوا یہ کہ جو آگ شعلہ اگل رہی تھی وہ آپ کے لیے گلشنِ رحمت بن گئی۔ پھر اللہ نے بڑھاپے کی عمر میں آپ کو ایک نیک اور بردبار اولاد عطا کی لیکن پھر اس معاملہ میں بھی آزمائش کی۔ اسے اولاً تو غیر ذی زرع وادی میں چھوڑ دینے کا حکم ہوا۔ جب اس آزمائش میں بھی آپ کامیاب ہو گئے اور یہ لڑکا جب دوڑنے کھیلنے کی عمر کو پہنچا تو اس کو بھی راہ خدا میں قربان کرنے کا حکم ہوا۔ قرآن کریم نے کچھ اس انداز سے اس کا نقشہ کھینچا ہے:
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یَا بُنَیَّ إِنِّیْ أَرَی فِیْ الْمَنَامِ أَنِّیْ أَذْبَحُکَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْ إِن شَاء اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ o
’’وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو (ایک روز) ابراہیمؑ نے اس سے کہا ’’بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے؟‘‘ اس نے کہا ’’اباجان! جوکچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے۔ آپ انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ (الصافات:۱۰۲)
آپ اپنے جذبات وخواہشات کو بالائے طاق رکھ اس عظیم قربانی کی انجام دہی کے لیے بھی تیار ہوگئے۔ بچے کو ذبح کرنے کے لیے لٹایا اور گردن پر چھری پھیرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب بندے کی اطاعت کا یہ جذبہ بے حد پسند آیا اور فرمایا:
فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِیْنِ oوَنَادَیْْنَاہُ أَنْ یَا إِبْرَاہِیْمُoقَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّاکَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنoإِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْبَلَاء الْمُبِیْنُ o
’’آخر کو جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم (علیہ السلام) نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا اور ہم نے ندادی کہ اے ابراہیم! تونے خواب کو سچ کر دکھایا۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی‘‘ (الصافات:۱۰۳ تا۱۰۶)
مگر اللہ کا مقصد تو اس جذبۂ اطاعت کو دیکھنا تھا۔ بچے کی قربانی مقصود نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَفَدَیْْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ oوَتَرَکْنَا عَلَیْْہِ فِیْ الْآخِرِیْنَ oسَلَامٌ عَلَی إِبْرَاہِیْمَ oکَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنَ o
’’اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیہ میں دے کر اس بچے کو چھڑالیا۔ اور اس کی تعریف وتوصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی۔ سلام ہے ابراہیم پر، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں ۔ ‘‘ (الصافات:۱۰۷تا۱۱۰)
اگر غور کیا جائے تو اللہ کی طرف سے آج بھی مختلف مواقع پر قربانی کا مطالبہ ہوتا ہے۔ مگر انسان اسے نظر انداز کر دیتا ہے اور وہ بھول جاتا ہے کہ ایسی ہی قربانی سے ہمارے نبی حضرت ابرہیم کو خلیل اللہ کا خطاب ملا تھا۔ جب تک قرآن کی تلاوت کی جاتی رہے گی تب تک لوگ ان پر سلام بھیجتے رہیں گے۔ اور جب بھی عیدالاضحیٰ کا تاریخی دن آئے گا لوگ ان کی تاریخ کو دُہرائیں گے۔ اس لیے جو لوگ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اپنی زندگی کا مقصد جانتے ہیں وہ اطاعت الٰہی کے لیے تقرب الٰہی کی راہ اپنائیں اور اس راہ میں قربانی دینے پر تیار رہیں کیوں کہ آج بھی ؎
آگ ہے اولاد ہے ابراہیم ہے نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے
(مضمون نگار مرکز جماعت اسلامی ہند میں معاون شعبہ تربیت ہیں)
***
اگر غور کیا جائے تو اللہ کی طرف سے آج بھی مختلف مواقع پر قربانی کا مطالبہ ہوتا ہے۔ مگر انسان اسے نظر انداز کر دیتا ہے اور وہ بھول جاتا ہے کہ ایسی ہی قربانی سے ہمارے نبی حضرت ابرہیم کو خلیل اللہ کا خطاب ملا تھا۔ جب تک قرآن کی تلاوت کی جاتی رہے گی تب تک لوگ ان پر سلام بھیجتے رہیں گے۔ اور جب بھی عیدالاضحیٰ کا تاریخی دن آئے گا لوگ ان کی تاریخ کو دُہرائیں گے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا 31 جولائی 2021