’قانون کے دو معیار کیسے ہوسکتےہیں؟‘

معین خالد ، حسن آزاد

نو زائدہ مسلم تنظیموں پر پابندی لگ سکتی ہے تو آر ایس ایس نظریات سے متاثرہ ٹولیوں پرکیوں نہیں؟
22 ستمبر دوہزار بائیس کو ہوئی سماعت میں، مرکزی تفتیشی بیورو نے مہاراشٹر کے ناندیڑ کی ضلعی عدالت سے کہا کہ وہ اپریل 2006 کے ناندیڑ دھماکے سے متعلق ایک کیس میں بطور گواہ پیش ہونے کے لیے یشونت شندے کے گواہ بننے کی درخواست کو مسترد کرے۔ ناندیڑ بم دھماکہ میں آر ایس ایس سے وابستہ کارندے لکشمن راج کونڈوار کا بیٹا نریش اور وی ایچ پی کا کارندہ ہمانشو دونوں بم اسمبل کرتے وقت کمرہ میں حادثاتی طور پر ہلاک ہو گئے تھے۔ 4 اور 5 اپریل 2006 کی رات ہندوتو دہشت گردوں کا پلان تھا کہ وہ بم دھماکوں کی تیاری کریں۔راکیش دھاوڈے نے ان ملزموں یا مہلوکین کو بم بنانے کی تربیت دی تھی۔ اس مشہور واردات کے بعد تلاشی کے دوران مسلمانوں کی شکل و شباہت پیش کرنے والی اشیا جیسے نقلی داڑھی اور نمازیوں کی ٹوپی بلکہ اورنگ آباد کی ایک ٹارگیٹ مسجد میں دھماکے کے لیے نقشہ وغیرہ ان کے گھروں سے برآمد ہونے سے سنسنی پیدا ہو گئی تھی۔ ان معاملات کی تفتیش کے لیے سی بی آئی نے لیفٹننٹ کرنل سری کانت پروہیت، راکیش دتاتریے دھاوڈے جیسوں کی ریمانڈ حاصل کر لی جو کہ پہلے ہی مالیگاؤں بم دھماکوں میں ملزم رہے ہیں۔ سی بی آئی کو لگا تھا کہ مالیگاؤں دھماکوں میں اصل کارندوں تک پہنچنے میں لاپروائی برتی جا رہی ہے اس لیے تب کے ڈائریکٹر اشوَنی کمار نے ناندیڑ دھماکوں کی جانچ کو دسمبر 2008 میں دوبارہ کھول دیا۔ سی بی آئی کی اسپیشل کرائم یونٹ کے افسروں نے بدنام زمانہ فوجی افسر پروہیت کی ناندیڑ دھماکوں میں بھی تفتیش کی۔ اسی فوجی نے انتہا پسند ہندوو وادی تنظیم ‘‘اَبھینو بھارت‘‘ کے دہشت گردوں کو تخریب کاری کے کاموں کی تربیت دی تھی۔ جب کہ دھاوڑے نے ناندیڑ میں سنگھ کے دہشت گردوں کو ٹریننگ دی۔ اس دھماکے میں ایک ملزم کا دھماکے میں گلا خراب ہو گیا اور اس نے انکشاف کیا کہ مراٹھواڑہ کے جالنہ اور پربھنی میں بالترتیب سن 2003 اور 2004 میں مسجدوں میں تین بم دھماکوں کی منصوبہ بندی بجرنگ دل کے ایک کارکن نریش نے کی تھی۔ اسی نریش کے فون کال یو پی کے ایودھیا میں کسی اہم زعفرانی کارندے کے ساتھ جڑ گیے تھے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ان ہی حالات اور اسی تناظر میں ملک میں بڑے پیمانے پر ‘‘بھگوا دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح اجاگر ہوئی تھی۔ سی بی آئی نے 15 مارچ 2008 کو سنجے چودھری، یوگیش دیش پانڈے، ماروتی واگھ، گنی راج ٹھاکر اور مہیش پانڈے جیسے بجرنگ دل سے وابستہ دس ہندوتو وادی دہشت گردوں کے خلاف ایک چارج شیٹ داخل کی تھی جس میں ہلاک ہونے والے نریش اور ہمانشو بھی ملزم بنائےگئے۔ اسی کیس میں سی بی آئی نے وی ایچ پی کے ایک سکریٹری جنرل، مسلم راشٹریہ منچ کے چیف اندریش کمار، سری کانت جوشی کے علاوہ متھن چکرورتی کے نام سے مشکوک کردار والے ایک ’’روی دیو’’ جیسے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے وابستہ دیگر کلیدی افراد کے ناموں کا مشکوک رول کے لیے ذکر کرنے والے آر ایس ایس کےایک گواہ شندے کے حلف نامہ کی مخالفت کی ہے۔ اسی سماعت کے دوران یشونت شندے نے عدالت میں کہا کہ”اس سازش کو انجام دینے کے لیے کئی نوجوانوں کو پونا میں بم دھماکہ کی ٹریننگ دی گئی تھی۔روی دیو یہ بم بنانے کی ٹریننگ دیتا تھا۔ ملند پرانڈے اس پوری سازش کا ماسٹر مائنڈتھا۔ملند پراندے کو اگر ملزم بنایا جاتااور اس کو گرفتار کیا جاتا تو اس کے تار سیدھے بی جے پی،آر ایس ایس،وی ایچ پی اور بجرنگ دل سے جڑے ہوئے مل جاتے اور ایک بڑی ساز ش بے نقاب ہوجاتی۔راکیش دھاؤڑے جسے اے ٹی ایس نے نومبر 2008 میں مراٹھواڑہ کی مسجدوں میں دھماکوں کے ٹریننگ دینے کے لیے گرفتار کیا تھا وہ بھی اس میں شامل تھا۔ واضح ہو کہ راکیش کے ساتھ ہی موجودہ بھوپال سے بی جے پی کی رکن پارلیمان سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کے دھماکوں میں ملوث ہونے کا لِنک بھی سامنے آیا تھا۔یشونت کہتا ہے کہ میں نے اس وقت بھی اس ٹریننگ میں شامل افراد کو یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ یہ ایک خطرناک سازش ہے اس میں آگے نہ بڑھیں۔ ہمانشو پانسے اور نریش راج کونڈوار کوبھی میں نے سمجھایا تھا لیکن وہ لوگ نہیں مانے اور دھماکہ کی سازش کے حصہ دار بنے بم سازی کے دوران دھماکہ ہوا اوراس میں ان کی موت ہوگئی۔یشونت شندے سے یہ سوال کیا گیا کہ ناندیڑ کی عدالت میں یہ بیان داخل کرنے کے بعد آپ پر کسی طرح کا دباؤ یا پھر کہیں سے دھمکیاں وغیرہ تو نہیں مل رہی ہے۔اس بارے میں انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا کام کردیا ہے اور اب میں اس معاملے میں پیچھے ہٹنے والا نہیں ہو ں۔مجھے سیکوریٹی دینا یہ پولیس کی ذمہ داری ہے۔لیکن ابھی تک کسی بھی طرح کی سیکوریٹی نہیں ملی ہے۔سچائی کو سامنے لانے کیلئے میں ہر خطرہ مول لینے کیلئے تیار ہوں۔ ”اب حیرت کی بات یہ ہے کہ آر ایس ایس نے شندے کی اس سے وابستگی سے قطعی طور پر انکار نہیں کیا ہے اور نہ ہی وی ایچ پی اور نہ ہی ہندوستانی فوج نے حلف نامے کے مندرجات سے انکار کیا ہے۔ شندے کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا اور نہ ہی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔اور نہ ہی آر ایس ایس پر پابندی کی بات کی گئی۔واضح ہو کہ ناندیڑ بم دھماکہ جو کہ 4 اور 5 اپریل 2006 کی درمیانی رات کو ہوا، ان تین دھماکوں میں سے ایک تھا جو مہاراشٹر کے مراٹھواڑہ علاقے میں چند سالوں میں ہوئے تھے۔ دیگر دو دھماکوں پربھنی (2003) اور پورنا (2004) میں عدالتیں پہلے ہی ان تمام افراد کو بری کر چکی ہیں، جن پر مساجد پر بم پھینکنے کا الزام تھا۔سی بی آئی، جس نے کیس کو مہاراشٹرا کے انسداد دہشت گردی دستہ سے لیا تھا، نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دھماکہ لکشمن راج کونڈوار کی رہائش گاہ پر حادثاتی طور پر ہوا، جو آر ایس ایس کا کارکن تھا۔ راج کونڈوار کا بیٹا نریش اور وی ایچ پی کا کارکن ہمانشو پانسے بم بناتے ہوئے دھماکہ میں مارے گئے تھے۔ تفتیشی ایجنسیوں کا خیال ہے کہ بم کا استعمال اورنگ آباد کی مسجد کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا ہوگا۔ شندے کا دعویٰ ہے کہ وہ پانسے کو 1999 سے جانتے ہیں، جب وہ گوا میں کل وقتی وی ایچ پی کارکن کے طور پر کام کر رہے تھے۔ 1999 میں ایک میٹنگ میں شندے نے دعویٰ کیا کہ پانسے اور ان کے سات دوستوں نے جموں میں ہتھیاروں کی تربیت لینے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔اہم لوگوں کی آرا :ایڈووکیٹ شوکت علی بیڈگری کہتے ہیں کہ اتنے عرصہ بعد یشونت شندے کے حلف نامہ کی کوئی خاص حیثیت نہیں ہے ۔ ملک میں جو کچھ ہورہا ہےاس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ حلف نامہ پر کوئی خاص ردعمل نہیں ہوگا ۔شندے کو مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروانا چاہئے تھا ۔ ماضی میں بھی اس طرح کے حلف نامے داخل ہوتے رہے ہیں لیکن بعد میں اس کا کچھ پتہ نہیں چلا کہ کیا ہوا۔لیکن ملی تنظیمیں اور قائدین میں تھوڑی سی حرکت دیکھنے کو مل رہی ہے ۔میٹنگوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور یشونت شندے کے ذریعہ آر ایس ایس کے لیڈروں پر لگائے گئے سنگین الزامات کے بعد لائحہ عمل ترتیب کی کوشش کی شروعات ہوگئی ہے ۔ اے پی سی آر مہاراشٹر کے کارکن ایڈووکیٹ شعیب انعامدار نے بتایا کہ ناندیڑ اے پی سی آر کی میٹنگ میں اس بات کا جائزہ لیا جارہا ہے کہ آیا ہم اس سلسلہ میں کوئی مداخلت کرسکتے ہیں یا نہیں ۔وہیں مولانا محمود دریابادی نے کہا ’’ہم حکومت اور انتظامیہ پر دبائو بنانے کی کوشش کریں گے کہ وہ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں پر لگائے گئے سنگین الزامات کو سنجیدگی سے لیں اور ملک میں فساد اور نفرت پھیلانے والوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں‘‘۔شیعہ عالم دین اور کانگریس سے وابستہ مولانا ظہیر عباس رضوی کہتے ہیں ’’الزامات سنگین ہیں اس پر حکومت اور عدلیہ کو ضرور نوٹس لینا چاہئے تاکہ ملک کی فضا میں جو نفرت کی آبیاری ہورہی ہے اس پر قدغن لگے‘‘۔ممبئی پولس کے ریٹارڈ اے سی پی شمشیر خان پٹھان نے کہا حکومت اور عدلیہ کی خواہش پر اس بات کا انحصار ہے کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو کہاں تک پورا کرتے ہیں ۔ شمشیر خان نے یہ بھی کہا کہ یشونت شندے نے جو کچھ آج کہا ہے وہ انہیں بہت پہلے بتا چکا ہے۔ جب کسی آر ٹی آئی کے سلسلہ میں اسے ممبئی پولس پریشان کررہی تھی تو انہوں نے اس کی مدد بھی کی تھی اور اسی دور میں اس نے آر ایس ایس کے یہ سیاہ کارنامے مجھے بتائے تھے۔ لیکن یہ بات کہ بارہ پندرہ برسوں کے بعد اس طرح کے حلف نامہ سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا یا اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ۔ انہوں کہا کہ اگر قانونی حیثیت نہیں ہے تو عدلیہ اس حلف نامہ کو منظور کرکے متعلقہ فریق کو نوٹس کیوں جاری کی؟بجائے اس کے کہ آر ایس ایس اور ملک میں سابق میں بم دھماکوں میں مشکوک افراد اور گروپوں پر پابندی لگائے جانے کی بات کی جاتی، مرکزی حکومت نے کیرلا میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے پانچ لیڈروں کو وائےزمرہ کی سیکورٹی فراہم کی ہے۔ یہاں اکبر الہ آبادی کاشعر آخری مصرع کی ترمیم کے ساتھ پیش کرنے کو جی چاہتا ہے ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام وہ قتل بھی کرتے ہیں تو پاجاتے ہیں انعامجن پر ملک کو جلانے، بم سے اڑانے اور فرقہ وارانہ فساد کرانے کاالزام لگا ہو اسے تحفظات فراہم کیے جارہے ہیں۔مظفر نگر فسادات کے ملزمین کو فوری ضمانت مل جاتی ہے لیکن عمر خالد، خالد سیفی اور شرجیل امام جیسے لوگوں کو سالوں جیلوں میں سڑنا پڑرہاہے۔ سوال یہ ہے کہ جن تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی ہےاور جن تنظیموں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے وہ قانون کے کن معیار پر اترتے ہیں؟ کیا کسی قانون کے دوہرے معیار ہوسکتے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ یو اے پی اے کااستعمال مخصوص طبقے پرہی کیا جاتا ہے یا پھر حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والے ہی اس قانون کے نرغے میں آتےہیں۔کیایہ سچ نہیں ہے کہ آر ایس ایس اور اس کےہندوتو کی سیاسی شدت پسندی کے مضر اثرات سے متاثر مختلف گروپوں کی سماجی دہشت گردی سے بچنے کے لیے پھر کب پابندیاں لگیں گی؟مرکزی حکومت کی جانب سے یک لخت نو تنظیموں پر پابندی عاید کرنے والا اعلانیہ علی الصبح شایع کیا گیا۔ ان مسلم گروپوں میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا نامی تنظیم بھی شامل ہے۔ غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت ان پر پابندی عائد کرنے کے بعد سامنے آنے والے ردعمل میں مختلف پارٹیوں کے لیڈروں نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سمیت متعدد شدت پسند ہندوتوا تنظیموں پر پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ ماہرینِ قانون نے مرکزی حکومت کی جانب سے صبح پانچ بجے کے قریب جاری کردہ نوٹیفکیشن پر کئی بنیادی سوال اٹھائے ہیں۔ وہیں انہوں نے آرایس ایس، بجرنگ دل، ہندو یُوا واہینی، سناتن سنستھا اور وی ایچ پی جیسی شدت پسند تنظیموں کےخلاف بھی کارروائی کامطالبہ کیا۔انہوں نےکہاکہ قانون کے لیے دو معیار نہیں ہوسکتے ہیں۔ یعنی ایک قانون کسی تنظیم پر تو نافذ ہومگر دوسری تنظیمیں اس قانون کے تحت آتے ہی نہ ہوں؟۔ قانون دانوں کا ماننا ہے کہ کسی بھی تنظیم پر پابندی لگانےکامطلب یہ ہے کہ حکومت دستیاب مشینری اور قوانین کی مدد سے موجودہ حالات کوصحیح طریقے سے سنبھالنے میں ناکام ہو گئی ہے اس لیے اس کو ‘غیر معمولی نوٹیفیکیشن‘ کے ذریعے پابندی کا راستہ اختیار کرنا پڑ رہا ہے۔ ساتھ ہی ان تنظیموں پر پابندی لگانے میں دفعہ 14 کی خلاف ورزی بھی ہوئی ہے۔کیوں کہ بھارتی قانون کی دفعہ 14 کے تحت مساوات کا حق دیا گیا ہے جو کہ ہر شخص کو قانون کے سامنے برابری کے حق اور قوانین کے مساوی تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ ایک طرف توہندوراشٹر بنانے کی کھلے عام بات ہوتی رہتی ہے۔سرعام حلف لیا جاتا ہے کہ منواسمرتی کے قوانین کے نفاذ کے لیے مریں گے اور جیئیں گے اور دستور ہند کو آگ لگانے تک کی بات ہوتی ہے۔وہیں آرایس ایس پر ملک میں سلسلہ وار بم دھماکےکی سازش کے الزام بھی لگتے رہے ہیں۔لیکن ان ہندوتو شدت پسند ٹولیوں پر ہاتھ نہیں ڈال کر دوسری تنظیموں پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔“اگر آپ پی ایف آئی کوملک کے لیے خطرہ مانتے ہیں تو آرایس ایس اور سریش چوہانکے جیسے لوگوں کو بھی ملک کے لیے خطرہ مانیے! لیکن ایسالگتا ہے کہ سازشاً پی ایف آئی پرپابندی لگائی گئی ہے۔اب جن کاپی ایف آئی سےکوئی تعلق نہیں ہے ان کو بھی پی ایف آئی کے نام پر پریشان کیاجائےگا۔متنازعہ قانون سی اے اے اور این آر سی کےخلاف جب جب آوازاٹھے گی تو اسے دبانے کی کوشش کی جائےگی۔۔یعنی ‘کہیں پر نگاہیں کہیں پر نشانہ’ کی طرح کام کیاجارہاہے۔قانونی حیثیت سے بات کی جایے تو اگر یو اے پی اے کے تحت پابندی کی کارروائی ہوتی ہے تونوٹیفکیشن میں اس کی وضاحت ہونی چاہیے جوکہ نہیں ہے۔کیوں کہ غیر قانونی سرگرمیوں کے تحت کسی تنظیم یافرد پرپابندی لگانے کے لیے تین عناصر کا پایا جانا ضروری ہے اور ان کانوٹیفکیشن میں تذکرہ لازماً ہونا چاہیے تھا۔ ۱۔ملک کی زمین کو الگ تھلگ کرنے کی سازش ہو۔۲۔ملک کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کواس تنظیم یا شخص سےخطرہ ہویااس پر سوالیہ نشان لگارہاہو۔۳۔اپنے ملک سے عدم اطمینانی کااظہار کرے۔اگرانصاف کی نگاہ سے دیکھا جائے گا تو اس طرح اندھا دھند پابندیوں کا یہ معاملہ ٹرائیبونل کورٹ میں پانچ منٹ بھی نہیں ٹک پائےگا۔ تاہم اس سےپہلے سپریم کورٹ کے چار ججوں نے عدالتی نظام میں غیر شفافیت کی نشاندہی کردی تھی۔ اگر واقعی پی ایف آئی شدت پسند تنظیم ہے تو اس پر پابندی لگنےمیں کیاحرج ہے؟ اس سوال پر ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ اس کافیصلہ تو بعد میں ہوگا لیکن اب تک دیکھا گیا ہے کہ کسی بھی شدت پسند نظریہ سے صرف اقلیتوں،دلتوں اور آدیواسیوں وغیرہ کو ہی نقصان پہنچتا ہے جبکہ منووادیوں کوتو شدت پسندی سے فائدہ ہی ہوتا ہے۔ملک کی اکثریت کے لیے ملک کادستور اور آئین ہی طاقت کا ذریعہ ہے۔ایسی صورت میں انہیں تشدد کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ شدت پسند ی کی صورت میں کمزوروں کا اپناہی نقصان ہوتاہے۔اور جو بھی شدت پسندی کی راہ اختیار کرتاہے گویا وہ کسی شرپسند عنصر کاایجنٹ ہوتا ہے۔
(ممبئی کے صحافی نہال صغیر، ناندیڑ سے ضمیر احمد کی رپورٹ اور دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی ماہرینِ قانون سےگفتگو سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔)
***

 

***

 گاندھی جینتی کے موقع پر بی بی سی ہندی نے ٹویٹر پرسوشل میڈیا صارفین سے جب یہ پوچھا کہ اگر آج مہاتما گاندھی زندہ ہوتے تو ان کے یوم پیدائش پر آپ ان سے کیا کہتے؟ ایک صارف نے جواب دیا کہ “وہ ای ڈی اور سی بی آئی کا سامنا کر رہے ہوتے اور بھارتی میڈیا ہر روز ان کی کوتاہیوں کو شمار کرارہاہوتا”۔لیکن اب سی بی آئی اور ای ڈی کے ساتھ این آئی اے کو بھی اس فہرست میں شامل کرنا ہوگا۔کیوں کہ فی زمانہ ملک میں این آئی اے کے چھاپے سرخیوں میں ہیں۔اور چھاپے صرف مسلمانوں اور ان کی تنظیموں ہی پر نہیں پڑ رہے بلکہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے دانشور، حقوق انسانی کے جہدکار اور حکومت کے غلط اقدامات پر سوال اٹھانے والے بھی سرکاری ایجنسیوں کی زد میں ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  9 اکتوبر تا 15 اکتوبر 2022