محمد انور حسین
خوبصورت دوشیزائیں، خوشنما لباس میں ملبوس، کچھ چست و تنگ اور کچھ نیم عریاں، چہرہ میک اپ سے سجا، دلفریب ادائیں، آزادی فکر وخیال کے ساتھ کالج کے لڑکوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کالج کی جماعتوں، کینٹین اور لان میں پھرتی ہوئی نظر آجاتی ہیں۔ یہ ماحول اب ایک عام بات ہو گئی ہے۔ کسی بھی مسلم نوجوان کو ان دلفریب اداوں کا شکار ہونے میں دیر نہیں لگتی لیکن وہ نوجوان جو قرآن کو اپنا دستور زندگی سمجھتا ہے اچانک اپنی نگاہوں کو نیچی کر لیتا ہے، اجنبی عورتوں سے ملنے کے وہ تمام قاعدے اسے یاد آنا شروع ہو جاتے ہیں جو قرآن نے بتائے ہیں۔ اس کو یہ پر لطف اور نگاہوں کو لبھانے والے مناظر ذرا برابر بھی متاثر نہیں کرتے۔ قرآن کی وہ آیتیں اس کی نظروں کے سامنے دوڑنے لگتی ہیں جس میں فرمایا گیا: ’’اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے‘‘(النور:۳۰)
نائٹ کلبس، قحبہ گری، شراب، نشہ کی دیگر شکلیں اور جنسی بے راہ روی کی تمام شکلیں جو کبھی جرائم کی تنگ گلیوں یا سماج کے متمول ترین افراد کی عیاشی تک محدود تھیں اس کا دائرہ اب کالج اور یونیورسٹیوں تک آپہنچا ہے۔ اس کا شکار ہو جانا اب بالکل بھی مشکل نہیں رہا لیکن ایک مسلم نوجوان یہ سوچنے لگتا ہے کہ میرے رب نے شراب اور نشہ کو حرام قرار دیا ہے اور مجھے زنا کے قریب بھی جانے سے منع کر دیا ہے۔ حکم ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جُوا اور یہ آستانے اور پانسے یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ان سے پرہیز کرو، اُمید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی‘‘۔ (المائدہ:۹۰)
انٹرنیٹ گویا ہوا میں سرایت کر گیا ہے اس کا حصول اتنا آسان ہوتا جا رہا ہے جتنا آکسیجن کا۔ موبائل فون کی دنیا نوجوانوں کے لیے جنت بنتی جارہی ہے۔ پورن کلچر کے اضافہ نے نوجوانوں کو دیوانہ بنا دیا ہے لیکن یہاں بھی ایک مسلم نوجوان کو سب سے زیادہ فکر اپنی آنکھوں اور شرمگاہ کی حفاظت کی ہوتی ہے۔ اسے کلام الٰہی میں درج وہ الفاظ یاد آنا شروع ہو جاتے ہیں جس میں نگاہوں اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والوں کو جنت کی ضمانت دی گئی ہے جیسے:
’’زنا کے قریب نہ پھٹکو، وہ بہت بُرا فعل اور بڑا ہی بُرا راستہ ہے۔”(الاسراء:۳۲)
پھر رب کائنات کی یہ بات یاد آتی ہے کہ:
’’بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان ہیں، راست باز ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں، روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔‘‘ (الاحزاب ۳۵)
چوراہوں، نکڑوں اور گلی کے چبوتروں پر نوجوانوں کے جھنڈ کے جھنڈ رات دیر گئے تک پان گٹکھے کی پیک تھوکتے سگریٹیں پھونکتے ایران و توران کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں، نہ انہیں رات ہونے کا احساس ہوتا ہے نہ اپنی ذمہ داریوں کا شعور۔ لیکن ایک وہ نوجوان جس کو قرآن سے ذرا سا بھی واسطہ ہوتا ہے اسے احساس ہونے لگتاہے کہ اللہ رب العزت نے رات کو آرام کا وقت بنایا تاکہ دن میں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں چاق و چوبند رہ سکے۔
’’پردہ شب کو چاک کر کے وہی صبح نکالتا ہے اُسی نے رات کو سکون کا وقت بنایا ہے اُسی نے چاند اور سورج کے طلوع و غروب کا حساب مقرر کیا ہے یہ سب اُسی زبردست قدرت اور علم رکھنے والے کے ٹھیرائے ہوئے اندازے ہیں‘‘۔ (الانعام:۹۶) اور وہ فوری ان نکڑوں اور چبوتروں سے اٹھ جاتا ہے جب اس کو یہ خیال آتا ہے کہ میرا رب مجھ سے کہہ رہا ہے کہ مومن تو وہ ہے جو لغویات سے دُور رہتے ہیں۔(المومنون ۲۳)
کالج کینٹین میں لڑائی ہو گئی مار پیٹ شروع ہوگئی معاملہ فساد تک پہنچ گیا نوجوان بے قابو ہو گئے مشتعل ہو گئے، اس وقت ایک مسلم نوجوان ہمت کے ساتھ امن و انصاف کی بات کرنے لگتا ہے۔ اگر موقع آتا ہے تو حق کا ساتھ دیتا جھوٹ اور ناانصافی کا ساتھ نہیں دیتا بلکہ مظلوم کی مدد کرتا ہے اور ظالم کو ظلم سے روکنے کی کوشش کرتا ہے چونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ نے قران میں کیا رہنمائی ہے۔
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دُشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاو، عدل کرو یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پُوری طرح باخبر ہے۔ (المائدہ:۸)
صبح صادق کا سہانا وقت ہے نرم لحاف اور گرم بستر پر نیند اپنے بہترین دور سے گزر رہی ہے کچھ ان چاہے خواب دستک بھی دے رہے ہیں دل چاہتا ہے کہ رات کچھ دراز ہو جائے اسی وقت محلے کی کئی مسجدوں سے موذن کی سریلی آواز آتی ہے اَلصَّلٰوةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ۔ شیطان پوری کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح ان نوجوانوں کو نیند کی آغوش سے باہر نکلنے نہ دیا جائے۔ لیکن قرآن کا مطلوب نوجوان اللہ کے اس حکم کو یاد کرتا ہوا آرام دہ لحافوں سے باہر نکل آتا ہے۔
’’نماز قائم کرو زوالِ آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو کیونکہ قرآنِ فجر مشہود ہوتا ہے۔‘‘ (الاسراء:۷۸)
اسے یاد آجاتا ہے کہ قرآن مومنین کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوے فرماتا ہے:
’’جو غیب پر ایمان لاتے ہیں نماز قائم کرتے ہیں جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘ (بقرہ:۲ تا ۳)
گلی کے نکڑوں پر چند نوجوان بیٹھ کر آنے جانے والے لوگوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ وہاں سے گزرتی ہوئی عورتوں اور لڑکیوں پر رکیک فقرے کس رہے ہیں۔ کچھ کو برے القاب سے پکارا جارہا ہے اور کچھ کو فحش الفاظ سے۔ گلی کوچوں میں اس طرح کی ٹولیوں کا پایا جانا ہمارے معاشرے میں عام بات ہو چکی ہے۔ لیکن وہاں آپ کو وہ نوجوان نظر نہیں آئے گا جس کے دل ودماغ میں ہمیشہ قرآن کی یاد تازہ ہو۔ وہ ایسی محفلوں میں لذت کے بجائے کوفت محسوس کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کا وہ ارشاد اس کی نگاہوں میں گردش کرنے لگتا ہے کہ:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں‘‘ (الحجرات:۱۱)
بہت سے نوجوان ہیں جو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ سائنس ٹیکنالوجی، ادب، معاشیات، فلسفہ اور سیاست پڑھ رہے ہیں کوئی کارل مارکس سے متاثر ہے تو کوئی ڈاروِن کا چیلا بن گیا ہے کوئی نٹشے اور فرائڈ کے گن گارہا ہے تو کوئی آزادی فکر وخیال کی ساری حدیں پار کرکے میری مرضی! میری مرضی!! کر رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بہت سے تو خدا بیزاری بلکہ خدا کا انکار اور اسلام کو قدیم تاریخی یادگار سمجھنے لگے ہیں۔ اس طرح کے نیم دانشوروں کی ٹولیاں یونیورسٹیوں اور کالجز کا حصہ بن چکی ہیں۔لیکن وہ نوجوان جو قرآن پر غور وفکر کرتا ہے وہ ببانگ دہل کہتا ہے کہ دنیا کے سارے فلسفہ انسانوں کے ذریعہ بنائے گئے ہیں، رب کائنات نے جو طرز زندگی ہمارے لیے بنایا ہے وہ سب سے سچا اور سیدھا ہے چنانچہ وہ اعلان کرتا ہے کہ
’’اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا ۔‘‘(آل عمران:۸۵)
کائنات پر غور وفکر کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کیے ہیں جنہیں کتاب دی گئی تھی، ان کے اس طرز عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آ جانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا اور جو کوئی اللہ کے احکام و ہدایات کی اطاعت سے انکار کر دے، اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی‘‘ (آل عمران:۱۹)
شاید علامہ اقبال نے اسی لیے کہا تھا
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مؤمن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میںہے قرآن
***
صبح صادق کا سہانا وقت ہے نرم لحاف اور گرم بستر پر نیند اپنے بہترین دور سے گزر رہی ہے کچھ ان چاہے خواب دستک بھی دے رہے ہیں دل چاہتا ہے کہ رات کچھ دراز ہو جائے اسی وقت محلے کی کئی مسجدوں سے موذن کی سریلی آواز آتی ہے اَلصَّلٰوةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ۔ شیطان پوری کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح ان نوجوانوں کو نیند کی آغوش سے باہر نکلنے نہ دیا جائے۔ لیکن قرآن کا مطلوب نوجوان اللہ کے اس حکم کو یاد کرتا ہوا آرام دہ لحافوں سے باہر نکل آتا ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 اپریل 2021