فیس بک پوسٹ کی وجہ سے یو اے پی اے کے تحت نوجوان خاتو صحافی پر پولیس کے ذریعے مقدمہ درج کرنے کے بعد عوام میں غم و غصہ
سرینگر، اپریل 20: جموں و کشمیر پولیس نے فیس بک پر ’’ملک مخالف پوسٹس شیئر کرنے‘‘ کے لیے سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت ایک نوجوان خاتون فوٹو جرنلسٹ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد حیرت اور غصے نے میڈیا کو اپنی گرفت میں لے لیا۔
مسرت زہرہ کے خلاف، ایک آزاد فوٹو جرنلسٹ اور دستاویزی فوٹوگرافر، جن کا کام واشنگٹن پوسٹ، دی کاروان، دی سن، الجزیرہ اور دیگر نامور قومی اور بین الاقوامی اخبارات و رسائل میں شائع ہوا ہے، سائبر پولیس اسٹیشن کشمیر زون کے ذریعے یو اے پی اے کی دفعہ 13 اور تعزیرات ہند کی دفعہ 505 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ایک پولیس ترجمان نے ایک بیان میں کہا ’’سائبر پولیس اسٹیشن کو قابل اعتماد ذرائع کے ذریعے اطلاع ملی کہ فیس بک کے ایک صارف نے مسرت زہرہ نے نوجوانوں کو راغب کرنے اور عوامی سکون کے خلاف جرائم کو فروغ دینے کے لیے مجرمانہ ارادے کے ساتھ ملک دشمن پوسٹیں اپ لوڈ کی ہیں۔‘‘
ترجمان نے کہا کہ انھوں نے ایسی تصاویر بھی اپلوڈ کی ہیں جو عوام کو امن و امان خراب کرنے کے لیے اکساسکتی ہیں۔ انھوں نے کہا ’’صارف ایسی پوسٹیں بھی اپ لوڈ کر رہی ہے جو ملک دشمن سرگرمیوں کو بڑھاوا دینے اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی شبیہہ کو خراب کرنے کے مترادف ہونے کے علاوہ ملک کے خلاف عدم استحکام پیدا کرنے کے مترادف ہیں۔‘‘
پولیس نے عام لوگوں کو سوشل میڈیا پر کوئی بھی اشتعال انگیز مواد شائع کرنے کے بارے میں متنبہ کیا۔ انھوں نے کہا ’’عام لوگوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے غلط استعمال اور غیر تصدیق شدہ معلومات کی گردش سے باز رہیں۔‘‘ ترجمان کے مطابق جو بھی شخص ایسی سرگرمیوں میں ملوث پایا جاتا ہے اس کے خلاف سختی سے نمٹا جائے گا۔
مسرت اس پر تبصرے کے لیے دستیاب نہیں تھیں کیوں کہ انھوں نے اپنا فون بند کردیا تھا۔ انھوں نے 14 گھنٹے پہلے ہی اپنے ٹویٹر کو اپ ڈیٹ کیا تھا۔ انھوں نے لکھا ’’میں آہستہ آہستہ سیکھ رہی ہوں کہ انسان ہونے کا کیا مطلب ہے۔ غلطیاں کرنے اور ان سے سیکھنے کا کیا مطلب ہے۔ میری زندگی میں بھاری اور تکلیف دہ چیزوں سے بھاگنا کیسے روکا جائے۔ کیسے سمجھوں کہ میں زندگی پر قابو نہیں پا سکتی۔ میں آہستہ آہستہ سیکھ رہی ہوں کہ کس طرح ہنسنا ہے اور کیسے رونا اور کیسےان سب کو محسوس کروں۔‘‘
کشمیر پریس کلب کے نائب صدر معظم محمد نے مسٹر زہرہ کے خلاف ایف آئی آر کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ’’ایک پیشہ ور فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا نے 4 سالہ کیریئر میں ایمانداری کے ساتھ کشمیر کی کہانیاں سنائیں۔ یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کرنا اشتعال انگیز ہے۔ اپنے ساتھی سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ایف آئی آر کو واپس لیا جائے۔ صحافت جرم نہیں ہے۔ دھمکی/سینسرشپ کشمیر کے صحافیوں کو خاموش نہیں کرے گی۔‘‘
یہ مقدمہ ایسے وقت میں درج کیا گیا جب ایک قومی اخبار کے ساتھ کام کرنے والے ایک اور نامور صحافی کو پولیس نے طلب کیا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب سیکیورٹی اداروں نے صحافیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا یا انھیں حراست میں لیا۔ فروری میں کشمیر پریس کلب نے کہا تھا کہ حکومت صحافیوں اور میڈیا کو وادی سے آزادانہ طور پر کام کرنے کے قابل نہیں بنارہی ہے۔ اس کے بعد پولیس نے کالعدم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے بیان کو لے کر دو صحافیوں کی طلبی اور ان سے پوچھ گچھ بھی کی تھی۔