فلسطینی عوام اپنے ملک کی آزادی کیلئے جنگ لڑرہے ہیں:مولانا ارشدمدنی

نئی دہلی 14نومبر :۔

فلسطین کے عوام اپنے ملک کے لئے آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں اوریہ جنگ ایک دودن میں نہیں جیتی جاسکتی بلکہ اس کے لئے اسی طرح مسلسل قربانیاں دینی پڑے گی جس طرح ہم نے اپنے ملک کی آزادی کے لئے قربانیاں دی ہیں۔

مذکورہ خیالا ت کا اظہار جمعیۃ علمائ ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے  کل دیوبند میں مدنی ہائی اسکول میں جمعۃ علمائ ہند اتر پردیش کی مجلس منتظمہ کے ایک اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ وہی لوگ اول جلول باتیں کرتے ہیں جو فلسطین کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں۔ اسرائیل کا کوئی وجودنہیں تھا لیکن سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد ایک سازش کے تحت امریکہ، برطانیہ اوردوسری طاقتوں نے یہودیوں کو وہاں لاکر آبادکیا۔

ملک کے حالات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے آگے کہا کہ فرقہ پرستی نے حیرت انگیز طورپر عالمی شکل اختیارکرلی ہے اس کا افسوس ناک نظارہ اس جنگ میں دیکھنے کو مل رہاہے کہ جب مجبوروبے بس فلسطین کے عوام کے خلاف یہودی اورتمام عیسائی ممالک نہ صرف متحدہوچکے ہیں بلکہ کھل کر اسرائیل کی حمایت کررہے ہیں۔ بعض لوگ اسے عالمی جنگ بنانا چاہتے ہیں لیکن اگر سرزمین عرب کو میدان جنگ بنایا گیا توپھر مسلمانوں کی کوئی چیز محفوط نہیں رہ سکے گی۔

مولانا مدنی نے کہا کہ وہ اسلام دشمن طاقتیں جو دنیا کو تباہ کرنا چاہتی ہیں اورمسلمانوں پر زمین تنگ کردینے کے درپے ہیں وہ چاہتی ہیں کہ اس جنگ کو عالمی جنگ بنادیا جائے۔ اجلاس میں ارتدادکے فتنہ پر بھی مولانامدنی نے تفصیل سے گفتگوکی اورکہا کہ اس کی بنیادی وجہ مخلوق تعلیم ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر کوئی مسلم لڑکا کسی غیر مسلم لڑکی سے ناجائزتعلق رکھتاہے تواسلام اس کو لعنت سمجھتاہے، جہاں تک ہندومذہب کی بات ہے توان کے یہاں ذات پات کا تصوربہت مضبوط ہے، مسلمانوں میں ایسا نہیں ہے لیکن ان کے یہاں ایک برادری کی دوسری برادری میں شادی نہیں ہوسکتی، مگر اس کے باوجود حالیہ دنوں میں مسلم لڑکیوں سے شادیوں کے افسوسناک واقعات سامنے آئے ہیں انہوں نے کہا کہ یہ بلاسبب نہیں ہے بلکہ فرقہ پرستوں کاایک ٹولہ منظم طورپر اس کی پشت پناہی کررہاہے کہ مسلم بچیوں کو مرتدبنایاجائے انہوں نے کہا کہ اس کے سدباب کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایسے الگ الگ اسکول قائم کریں جہاں ہمارے بچے بچیاں مذہبی اوراسلامی ماحول میں رہ کر تعلیم حاصل کرسکیں۔ مدرسے اسلام کے وجودکے لئے ضروری ہے لیکن ہم اپنے بچوں کو عصری تعلیم سے محروم نہیں رکھ سکتے۔ کیونکہ اگر ایسا کیا گیا توپھر وہ ملک کے قومی دھارے سے کٹ جائیں گے۔