مفتي سيد آصف الدين ندوي قاسمي، محبوب نگر
سڑک پر ايک دبلا پتلا، کمزور وناتواں شخص لوگوں کو سراپا التجا بنا تَک رہا تھا، اپني طرف متوجہ افراد سے کچھ مانگ رہا تھا۔ مجھے اس شخص کے قريب سے گزرنے کا اتفاق ہوا تو وہ ميرے قريب آ گيا اور اپنا خالي پيٹ دکھاتے ہوئے کہنے لگا کہ ’’ صاب! ميں کئي دنوں سے کھانا نہيں کھايا ہوں کچھ مدد کيجيے‘‘ يہ ديکھ کر ميں نے اسے کچھ رقم دي تو کہنے لگا کہ وہ کوئي پروفيشنل بھکاري نہيں ہے بلکہ وہ ماربل کي فنشنگ کا کام کرتا ہے، کام بند ہونے سے کھانے کے لالے پڑ گئے ہيں گھر ميں راشن بھي نہيں ہے اس ليے بھيک مانگنے پر مجبور ہوں۔ اس کي اس بے بسي وبے چارگي کو ديکھ کر ميں اسے قريب کي ايک دکان پر لے گيا اور چاول اور ديگر ضروري کھانے پينے کا سامان دلايا۔ جب سامان پياک کيا جا رہا تھا تو وہ شخص ايک دم سے ميرے پيروں پر گر گيا ميں ہڑبڑا گيا اور اس کو سختي سے اس عمل سے روکا اور کہا کہ تم مسلمان ہو ايسا عمل تم کو زيب نہيں ديتا۔ وہ سامان اٹھا کر آنسوؤں کو پونچھتا ہوا چل ديا۔
يہ کوئي منفرد واقعہ نہيں ہے بلکہ مسلسل لاک ڈاؤن کي وجہ سے ايسے واقعات جگہ جگہ ديکھے جا سکتے ہيں، ہزاروں بھوکے مجبور ومحتاج انسانوں کي خون کے آنسو رلا دينے والي داستانيں پڑھي جا سکتي ہيں۔ اين ڈي ٹي وي ديکھنے والوں نے بتلايا کہ ايک شادي شدہ جوڑا ملک بندي کے پہلے مرحلے ميں اپنے گھر سے بے گھر ہوا اور راستے ميں ہي حاملہ بيوي نے بچے کو جنم ديا۔ مياں بيوي کئي کئي دن فاقہ کشي کے شکار ہوئے اور پھر حال يہ ہوا کہ شير خوار کو پلانے کے ليے ماں کا دودھ بھي ميسر نہيں ہوا۔ شير خوار کي آہ و بکا کيا آسمان ميں شگاف نہيں کرے گي؟ ايسے ماں باپ کي بے بسي کا کوئي اندازہ بھي لگا سکتا ہے؟ مزدور وکمزور طبقہ اس لاک ڈاؤن کا سب سے زيادہ شکار ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ چھوٹي موٹي تجارتوں سے وابستہ خاندان دست نگر بن چکے ہيں اور ايسے سنگين وقت اور بھکمري ميں ايسے خود دار وجفا کش بھي ہيں جو اپني بھوک سے لڑ رہے ہيں، بے سروساماني کے گھونٹ پي رہے ہيں ليکن اپني محتاجي کو ظاہر ہونے نہيں دے رہے ہيں، دست سوال پھيلانے اور مانگنے سے گريز کر رہے ہيں۔ گويا وہ کہہ رہے ہيں۔
مرا طريق اميري نہيں ، فقيري ہے
خودي نہ بيچ ، غريبي ميں نام پيدا کر
يہ بھي ايک حقيقت ہے کہ انسان اپني ضرورتوں کي تکميل ميں دوسرے انسانوں کا محتاج ہے۔ بے نياز تو صرف اللہ تعالٰي کي ذات ہے۔ ايسے حالات ميں انساني بنيادوں پر ہميں اللہ کے بندوں کي مدد کرنے اور ان کي ضروريات زندگي کو پورا کرنے کے ليے آگے آنے کي سخت ضرورت ہے۔ خاص طور پر ايسے وقت ميں جب کہ کورونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن کي وجہ سے دنيا تھم سي گئي ہے، تجارت وسرمايہ کاري رک گئي ہے، يوميہ اجرت پانے والے مزدور بے روزگار ہوگئے ہيں۔ لاک ڈاؤن سے تکليف ضرور ہے ليکن يہ اپنے ملک کو بچانے اور اہل ملک کے حق ميں ضروري بھي ہے۔ خدارا ٹي وي کي خبروں سے زيادہ زميني حقائق اور گرد وپيش کے حالات وواقعات اور حادثات سے باخبر رہيے اور اللہ کے بندوں تک پہنچ کر ان تک ضروريات زندگي پہنچا کر ايک مشکل ترين وقت ميں ان کا سہارا بن جائيے۔ انسان کے بار ے ميں ايک عربي محاورہ ہے اَلاِنْسَانُ عَبْدُ الْاِحْسَان يعني انسان احسان کا غلام ہوتا ہے۔
کہيں اس پر آشوب دور ميں مسلمان ايک عام انسان ہي بن کر نہ رہ جائے کہ وہ اپني جان بچانے کے ليے ايمان کا سودا کر بيٹھے، غربت وافلاس کے ہاتھوں دولت ايمان بيچ دے، غريبي ومفلسي اسے کفر تک پہنچا دے۔ رسول مقبول ﷺ نے ارشاد فرمايا ہے کہ”ڈر ہے کہ کہيں فقر ميں مسلمان اپنا ايمان نہ کھو بيٹھے۔ رسول اللہ ﷺ نے فقر وفاقہ، چيزوں کي کمي اور دوسروں کے سامنے رسوا ہونے سے اللہ کي پناہ مانگي ہے۔ جہاں آپ ﷺ نے مال کے زيادہ ہونے کے فتنہ سے پناہ مانگي ہے وہيں فقر وفاقہ کے فتنہ سے بھي پناہ مانگي ہے۔ چيزوں کي کثرت ودولت کو آزمائش قرار ديا ہے تو غريبي ومفلسي کو امتحان بتلايا ہے۔ فاقوں سے اللہ کي پناہ مانگي ہے۔ قرآن مجيد ميں اللہ تعالي نے ارشاد فرمايا ہے کہ خوف، بھوک، مال وجان ميں کمي چيزوں ميں کمي يہ سب اللہ کي آزمائش ہے اور اللہ اس حال ميں اپنے بندوں کا امتحان ليتا ہے۔ (بقرہ ۱۵۵) سورہ قريش ميں فرمايا گيا ہے کہ خوف سے پناہ دينے والي ذات اور بھوک ميں کھلانے والي ذات اللہ کي ہے۔رمضان المبارک خير وبھلائي، عبادت وتلاوت، افطار وسحر، قيام وتراويح، دعا واستغفار ، توبہ وانابت، رحمت وبخشش کا موسم بہار ہے۔ ان عبادات کے ساتھ ساتھ مسلمان عام طور پر اسي مہينہ ميں زکوٰۃ بھي ادا کرتے ہيں۔ زکوٰۃ تو فرض ہے اور اسے پورے حساب کتاب سے پورا پورا ادا کرنا ہے، ايسے نازک ترين وقت ميں اور انسانيت کے مشکل ترين دور ميں مال کي زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے ايمان کے بقا کے ليے شان صديقي اختيار کي ضرورت ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر انہوں نے اپنے گھر کا سارا اثاثہ لا کر خدمت اقدس ﷺ ميں پيش کر ديا، وہيں فاروقي پيکر بننے کي بھي ضرورت ہے کہ انہوں نے خود اپني پيٹھ پر سامان لاد کر غريب کے گھر پہنچايا۔ اگر ايسا نہ کر سکيں تو کسي اور طريقے سے پہنچائيں يا ايسي خدمات انجام دينے والوں تک اپنا حصہ پہنچا ديں۔ کہيں ايسا نہ ہوکہ غريب کا چولہا رمضان ميں نہ جلے اور وہ روزہ رکھنے سے محروم ہو جائے يا بھوکے پيٹ ہي روزہ رکھ لے يا کسي طرح سحر کر لے ليکن افطار کے وقت بھوکا رہ جائے۔ رمضان المبارک کو رسول اللہ ﷺ نے بھلائي وہمدردي کا مہينہ بھي قرار ديا ہے۔کورونا وائرس نے جہاں انسانوں کي معمولات زندگي کو درہم برہم کر ديا ہے وہيں مسلمانوں کے ليے ايک خيرکا ذريعہ بھي بن کر سامنے آيا ہے۔ خوشي کي بات ہے کہ مسلمان اپني انسانيت نواز تعليمات کے علم بردار بن کر اٹھ رہے ہيں۔ جماعت اسلامي ہند کے علاوہ ملت کي ديگر تنظيميں بھي ضرورت مندوں کي داد رسي کر رہي ہيں۔ اللہ ان سب کو اجر عظيم عطا فرمائے۔ راقم بھي اپني حد تک عملي ميدان ميں کام کرنے کي کوشش کر رہا ہے۔ اللہ قبول فرمالے۔ آمين