فرانس کی بد ترین اسلام دشمنی: کون کہاں کھڑا ہے؟

طیب اردوگان کے بیان سے میکروں کو تکلیف لیکن کروڑہا مسلمانوں کے درد کا کوئی احساس نہیں

احمد عظیم ندوی چترا، جھارکھنڈ

 

فرانس کےصدر امانویل میکروں نے 2/اکتوبر 2020 کو اسلام کے متعلق ایک متنازع بیان میں کہا کہ’’ آج اسلام ہر جگہ بحران کا شکار ہے‘‘ جس کی وجہ سے پوری دنیا میں ان کی چوطرفہ مذمت ہوئی۔ اس کے بعد 11/اکتوبر کو یہ خبر آئی کہ متحرک سماجی کارکن صوفیا پیٹرونن (خبروں کے مطابق جن کو چار سال قبل افریقہ کے ملک مالی سے اسلام پسندوں نے گرفتار کرلیا تھا) اپنے ملک فرانس واپس آرہی ہیں تو ان کے استقبال کے لیے اہل خانہ کے علاوہ فرانسیسی صدر بھی ایئرپورٹ پر موجود تھے اور اس مناسبت سے ان کا ایک خطاب بھی ہونا تھا لیکن جب صوفیہ نے فرانسیسی صدر سے یہ کہتے ہوئے اپنے قبول اسلام کا اعلان کیا کہ: ’’آپ صوفیا کا انتظار کررہے تھے لیکن آپ کے سامنے مریم کھڑی ہے یعنی میں نے اسلام قبول کرلیا ہے تو خود کو آزادی اظہار رائے کا پاسباں کہنے والے میکروں انتہائی مایوس چہرے کے ساتھ فوراً ایئرپورٹ واپس چلے گئے اور اپنا طے شدہ خطاب بھی منسوخ کردیا اور اس طرح اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا ایک سنہرا موقع ان کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ لیکن جب 17 اکتوبر کو ایک مسلم نوجوان نے فرانس کے ایک ایسے استاذ کو قتل کردیا جو ’’آزادی اظہار رائے‘‘ کے پیریڈ میں مسلسل نبیﷺ کے گستاخانہ خاکے دکھا کر کم سن مسلم بچوں کو یہ بتاتا تھا کہ یہ بھی آزادی اظہار رائے ہے۔ اس پر بچوں کے سرپرست نے اسکول انتظامیہ سے استاذ کی شکایت کی لیکن انتظامیہ نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی چنانچہ یہ شدت پسند استاذ کلاس روم میں مسلسل نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرتا رہا جس کی تاب نہ لاکر ایک مسلم نوجوان نے اسے قتل کردیا جس کے جواب میں موقع واردات پر ہی فرانس پولیس نے گولی مار کے اس نوجوان کی بھی جان لے لی جب کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ پولیس اسے اپنی حراست میں لیتی اور قانونی طریقہ سے قتل کے عوامل ومحرکات کی جانچ کی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا اور اس شخص کے ساتھ قتل سے جڑے تمام سوالات بھی ہمیشہ کے لیے دفن کر دیے گے، لیکن فرانسیسی صدر نے جس طرح اس واقعہ کو بھنایا اور اسے ایک عالمی اشو بنانے کی کوشش کی ہے اور کسی پختہ ثبوت کے بغیر اسے اسلامی دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہوئے فرانس میں دسیوں مساجد اور اسلامی اداروں کو مہر بند کر دیا ہے نیز مسلم شہریوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری کروادیا اس سے کہیں نہ کہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ قتل منظم سازش کے تحت حکومت کی سرپرستی اور میکروں کے اشارے پر ہوا ہے (یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کیوں کہ پوری دنیا جانتی کہ فرانس نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر کس طرح اور کہاں کہاں معصوم انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی ہے) اگر ایسا نہیں ہے تو صرف تین دنوں کے بعد فرانس کے ہی اندر ایک عیسائی نے دو باحجاب مسلم عورتوں پر حملہ کرکے انہیں بری طرح زخمی کردیا لیکن میکروں نے اسے ایک معمولی واقعہ قرار دیتے ہوئے مکمل طور سے نظر انداز کردیا۔ اس کے بعد جب 29 اکتوبر کو یہ خبر آئی کہ ایک شخص نے فرانس کے اندر ایک چرچ میں چاقو سے حملہ کرکے تین لوگوں کی گردنیں کادٹ دیں ہے تو اس حادثہ کو بھی فرانس حکومت نے ’’شدت پسند اسلامی دہشت گردی’’ سے تعبیر کیا ہے۔ آخر یہ رویہ کیا ظاہر کرتا ہے؟
شدت پسند اور نافہم استاذ کے قتل کے بعد حکومت پورے فرانس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلارہی ہے اور ’’آزادی اظہار رائے‘‘ کے نام پر کئی ایک سرکاری اداروں پر رسول اکرم کے گستاخانہ کارٹون کو لٹکایا اور پلے کیا گیا اور میکروں نے اس رویہ پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس طرح کے کارٹون اور اقدام پر کوئی پابندی عائد نہیں کریں گے جس سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور وہ جگہ جگہ فرانس کے خلاف مظاہرے اور وہاں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ فرانس اور خاص طور سے میکروں کی اسلام دشمنی اور رسولﷺ کی گستاخی پر اب تک سب سے زیادہ سخت تنقید ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے کی ہے اسی وجہ سے ’’شارلی ابدو’’ نے ترک صدر کا بھی انتہائی توہین آمیز خاکہ شائع کیا ہے اور اس میں بھی نبیﷺ کی گستاخی کی ہے جس کے بعد ترکی نے بین الاقومی عدالت میں اس میگزین کے خلاف مقدمہ داخل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اب آئیے اس واقعہ پر میڈیا کے کوریج اور اہم شخصیات کے رد عمل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے میکروں کے بیان ’’اسلام پوری دنیا میں بحران کا شکار ہے‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ :’’میکروں بے ادب اور اپنے حدود سے ناواقف ہے‘‘۔ نیز فرانس میں جس طرح مسلمانوں، ان کی عبادت گاہوں اور اسلامی اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اس پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ: ’’ میکروں اسلام دشمنی میں ذہنی مریض ہوگئے ہیں ان کو علاج کی ضرورت ہے‘‘ اور ترک عوام سے فرانسیسی مصنوعات کے بائيکاٹ کی بھی درخواست کی ہے، جس کے بعد فرانس نے احتجاجاً ترکی سے اپنا سفیر واپس بلالیا ہے۔ اس کے علاوہ رجب طیب اردگان نے 12 ربیع الاول کی مناسبت سے ترکی کی پارلیمنٹ کے اندر اپنے خطاب میں کہا کہ: ہم ایسے دور سے گزررہے ہیں جس میں اسلام اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بے ادبی پورے يورپ اور خاص طور سے اس کے رہنمائوں میں کینسر کی طرح پھیل رہی ہے چنانچہ ایسے وقت میں جب کہ ہمارے دین اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نشانہ بنایا جارہا ہے اگر ہم خاموش رہے اور اس کا کوئی جواب نہیں دیا تو اس سے بہتر ہمارا مرجانا ہے نیز ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنا ہمارے لیے شرف وعزت کی بات ہے،۔ انھوں نے اس موقع پر مغربی ممالک سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ: آپ کس امن اور اظہار رائے کی بات کرتے ہیں؟ کیا آپ نے افریقہ اور جزائر میں اقتصادی مفاد کی خاطر معصوم لوگوں کا قتل عام نہیں کیا؟۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے ملک میں تمام ادیان ومذاہب کا احترام کرتے ہیں، ہمارے یہاں بڑی تعداد میں یہودی عبادت گاہیں اور گرجا گھر ہیں لیکن ہم نے کبھی ان میں کوئ مداخلت کی ہے نہ آئندہ کریں گے۔ صدر رجب طیب اردگان کے خطاب کے دوران پارلیمنٹ کے ممبران آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق اور فرط محبت میں بار بار کھڑے ہو کر تالیاں بجارہے تھے اور ان کی آنکھیں اشک بار تھیں۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان: فرانسیسی صدر نے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے نیز وہ انتہا پسندی کی مخالفت کرنے کی بجائے اس کی حمایت کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان نے فرانسیسی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے اپنا احتجاج درج کرایا ہے ساتھ ہی پاکستانی پارلمینٹ نے نبیﷺ کے گستاخانہ خاکوں کے خلاف ایک قرارداد بھی پاس کی ہے اور عمران خان نے مسلم حکمرانوں کو خط لکھ کر اس طرح کے واقعات پر قدغن لگانے کے لیے ایک قرار داد پاس کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔
ایران: آزادی اظہار رائے کے نام پر نبیﷺ کی گستاخی سے حکومت فرانس کے رخ پر سوال اٹھتا ہے، میکروں اس طرح کے اقدامات کے ذریعہ فرانس میں اسلام کے بڑھتے اثر و رسوخ کو روکنا چاہتے ہیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ اس کے علاوہ ایران نے اہانتِ رسول کے خلاف مذمتی قرار داد بھی پاس کی ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ: امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے سب سے پرانے دوست کے ساتھ کھڑا ہے کیوں کہ بنیاد پرست اسلامی دہشت گردانہ حملے کو بہر صورت روکنا ہوگا۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ: دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنے کا عمل قابل مذمت ہے۔
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی: ہندوستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرانس کے ساتھ ہے۔
اقوام متحدہ: مذہب وادیان اور مقدس شخصیات کی توہین سے معاشرے میں نفرت اور تناؤ کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
اتحاد العلماء المسلمین کے سکریٹری جنرل شیخ علی قرہ الداغی نے اہانت رسول کے خلاف پوری دنیا میں ہونے والے مظاہروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا : میرا یہ ماننا ہے کہ اس مناسبت سے مظاہرہ کرنا مسلمانوں کا حق ہے کیوں کہ جب فرانس ’’آزادی اظہار رائے‘‘ کا سہارا لے کر رسولﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کرسکتا ہے تو مسلمانوں کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے نبی کی محبت اور ان کی دفاع میں ہر طرح کے پر امن اقدامات کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم آزادی کے خلاف نہیں ہیں لیکن توہین کی مذمت کرتے ہیں فرانس کی عوام اور وہاں کے صدر کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ہم مسلمان آزادی کے علمبردار ہیں اور بحیثیت مسلمان ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ’’دستور مدینہ‘‘ کی شکل میں ہم نے دنیا میں سب سے پہلے ایک ایسا قانون بنایا جس کے تحت مسلمان، یہود وبت پرست اور دیگر لوگ آزادی اور امن وبھائی چارگی کے ساتھ رہ سکتے ہیں، اس کے علاوہ ہم تعمیری نقد وتنقید اور علمی مباحثہ کے داعی ہیں لیکن ہم کسی بھی مذہب کی توہین اور اسے برا بھلا کہنے کی سخت مخالفت کرتے ہیں چنانچہ اہانت رسول سے مسلمانوں کو سخت تکلیف ہوئی ہے اس لیے فرانسیسی صدر کو چاہیے کہ وہ اپنے اس عمل پر معافی مانگیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ فرانس میں بسنے والے تمام لوگوں کے صدر ہیں کیوں کہ فرانس میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہے اور ان لوگوں نے اپنے ملک کے لیے نمایاں خدمات پیش کی ہیں۔
الجزیرہ عربی نے اہانت رسول کے خلاف پوری دنیا میں ہو رہے مظاہروں کو اس طرح کوریج کیا:
لیبیا میں فرانس کے خلاف کئی شہروں میں مظاہرے ہوئے، مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فرانس سے ہر طرح کے تعلقات ختم کرے اس کے علاوہ مظاہرین نے عالم اسلام سے بھی فرانس کے خلاف سخت رویہ اپنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ فلسطین میں جمعہ کی نماز کے بعد مسجد اقصٰی کے سامنے سیکڑوں نمازیوں نے اپنے ہاتھوں میں فرانس کے خلاف تختیاں اور بینر اٹھائے احتجاج کیا نیز لبنان کے دارالحکومت بیروت میں مسجد جمال عبدالناصر سے مسلمانوں نے ایک احتجاجی ریلی نکالی اور میکروں سے معافی کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی طرح بعد نماز جمعہ یمن، سوڈان، پاکستان، بنگلہ دیش اور دنیا بھر کے دوسرے ملکوں میں لاکھوں مسلمانوں نے فرانس کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے فرانس کے مصنوعات کا بائيکاٹ کیا اور اپنی اپنی حکومت سے فرانس کے خلاف سخت رخ اختیار کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔دیوبند دستک، فیس بک پیج:30اکتوبر کو تحفظ ناموس رسالت کے عنوان سے دیوبند میں عظیم الشان احتجاجی مظاہرہ ہوا جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور فرانسیسی صدر کے خلاف سخت غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے وہاں کے مصنوعات کے بائیکاٹ کا عہد کیا نیز اس عنوان سے صدر جمہوریہ ہند کو ایک میمورنڈم بھی ارسال کیا۔
محمد خبیب (یو ایف سی ورلڈ چیمپئن فائٹر) نے اپنا احتجاج درج کراتے ہوئے انسٹاگرام پر لکھا کہ: ہم مسلمان حضرت محمدﷺ سے اپنے ماں باپ، بال بچوں اور پوری دنیا سے زیادہ محبت کرتے ہیں، اللہ اپنے نبی کی شان میں گستاخی کرنے اور اس کی حمایت کرنے والوں کو رسوا کرے۔ ان کی اس پوسٹ کو 30 کروڑ لوگوں نے پسند کیا ہے۔
پاکستانی اینکر ثنا ناز: فرانس کے صدر نے یہ کہتے ہوئے ترکی سے اپنا سفیر واپس بلا لیا کہ ’’صدر رجب طیب اردگان کا بیان قابل قبول نہیں ہے اور غصہ وتوہین کوئی طریقہ کار نہیں ہے‘‘، واہ میکروں صاحب ایک بیان سے آپ کی توہین ہوگئی اور آپ نے اس پر ناراضگی کا اظہار بھی کیا جب کہ آپ کے ملک کی آبادی تقریبا 6 کروڑ ہے جس میں سے صرف دو کروڑ لوگوں نے آپ کو ووٹ کیا ہے اور شاید آنے والے الیکشن میں اتنے ووٹ بھی آپ کو نہ ملیں دوسری طرف آپ نے ایک ارب 70 کروڑ مسلمانوں کے رہنما کی جو توہین کی ہے اسے ہم خاموشی سے برداشت کرلیں اور آپ کو آزادی اظہار رائے کے نام پر معافی دے دیں؟
ہندوستانی صحافی اور سماجی کارکن جیوتی یادو: ہندوؤں کی طرف سے پیغمبر اسلام کے خلاف خراب باتیں ٹرینڈ کرنے کے باوجود مسلمانوں نے کسی ہندو دیوی دیوتاؤں کے خلاف کوئی بات نہیں کی بلکہ اس کے جواب میں مسلم سماج کے لوگ پیغمبر کی ہی بات ٹوئیٹ کرتے رہے، اکسانے کے باوجود ان کا جذبات میں نہ آنا قابل تعریف ہے۔
مصری صحافی صابر مشہور نے 29 تاریخ کو فرانس کے گرجا گھر میں ہوئے حملہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ: فرانس سے ایک خبر یہ آرہی ہے کہ ایک شخص نے گرجا گھر کے اندر چاقو سے گلا ریت کر تین لوگوں کو مار دیا ہے یہ فرانس کی پولیس کا دعویٰ ہے لیکن وہاں کیا کچھ اور کیسے ہوا اس کی کوئی تفصیل ہمارے پاس نہیں ہے لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک شخص نے اتنی آسانی سے چاقو کے ذریعہ تین لوگوں کا سر کیسے قلم کر دیا؟

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 تا 14 نومبر، 2020