مسعود ابدالی
فرانسیسی صدر ایمیونل میخواں ایک عرصے سے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں مصروف ہیں اور ’انتہاپسندی سے نمٹنے کی حکمت عملی‘ کے تحت قانون سازی کے بعد وہ فرانس کو یورپ کا زنجیانگ (Xinjiang) بنا دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ جناب میخوان کے ان متعصبانہ اقدامات کی یورپ کے نسل پرستوں خاص طور سے فرانسیسی حزب اختلاف، نیشنل فرنٹ نے زبردست حمایت کی ہے۔ فرنٹ کی سربراہ محترمہ میری لاپن Marine Le Pen نے میخواں کے ’حقیقت پسندانہ‘ موقف کی تائید جن الفاظ میں کی ہے اس کا اردو ترجمہ کچھ اس طرح ہو سکتا ہے کہ ’بہت دیر کی مہرباں آتے آتے‘
مسلمانوں کے خلاف قانون سازی اور عملی اقدامات میں صدر میخواں کو یورپی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی مکمل تائید تو حاصل تھی ہی مسلم دنیا کے ’اسلام بیزار‘ میڈیا اور سیاسی قیادت نے بھی میخواں کے اقدامات کی بھر پور حمایت کی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ ڈاکٹر محمد انور قرقاش نے فرانسیسی اقدامات پر مبارک سلامت کے ڈونگرے برساتے ہوئے فرمایا کہ انتہا پسندی اور اخوانی فکر کے انسداد کے لیے اس حکمت عملی کا دائرہ ساری دنیا تک پھیلا دینے کی ضرورت ہے۔ اماراتی وزیر خارجہ نے گستاخانہ خاکوں کے خلاف فرانس کے بائیکاٹ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ترک صدر ایردوان مشرق وسطیٰ، وسطِ ایشیا اور ایشیا بعید سے لے کر یورپ تک عثمانی خلافت مسلط کرنا چاہتے ہیں اور فرانس کے خلاف بائیکاٹ کی مہم اسی بوسیدہ خلافت کی تجدید کی طرف ایک قدم ہے۔
مسلمانوں کے خلاف مہم تک تو معاملہ ٹھیک تھا لیکن کرونا وائرس کی آڑ میں بہت سے حکم راں شہری آزادیاں سلب کر کے اپنے اختیار واقتدار کو مزید مضبوط بنانے کی فکر میں ہیں۔ ہنگری کی پارلیمان نے 30 مارچ کو ایک قانون منظور کر لیا جس کا عنوان ہی قانونِ فرمان یا rule of decree ہے۔ یہ قانون ہنگری کی ایک ایوانی پارلیمان سے 53 کے مقابلے میں 137 ووٹوں سے منظور ہوا اور صدر ہانوس ادر Janos Ader نے فوری دستخط کر کے اسے قانون کا درجہ عطا کر دیا۔
اس قانون کے تحت حکومت کرونا وائرس کے بارے میں ’گمراہ کن جھوٹی خبر اور غلط فہمی‘پھیلانے والے کسی بھی شخص کو پانچ سال کے لیے جیل بھیج سکتی ہے۔ گرفتاری کے لیے ایک ’سرکاری فرمان‘ کافی ہے اور فرمان کے تحت پکڑے جانے والے شخص کو 90 دن تک کسی عدالت میں پیش نہیں کیا جائے گا۔ اٹارنی جنرل کی صوابدید پر پہلی پیشی لا محدود مدت تک کے لیے ملتوی بھی کی جا سکتی ہے۔ قانون میں’گمراہ کن‘ کی کوئی وضاحت موجود نہیں اور حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ یہ Adjustable ہتھکڑی کسی بھی ہاتھ میں پہنائی جا سکتی ہے۔ ایک اور دلچسپ بات کہ مسودہ قانون میں مدتِ نفاذ کا کوئی ذکر نہیں ہے یعنی جبر کی یہ تلوار غیر معینہ مدت تک عوام کے سروں پر لٹکتی رہے گی۔
مصر کے جنرل السیسی چار قدم اور آگے بڑھ گئے اور انسداد کرونا وائرس کے عنوان سے وہاں جو قانون سازی کی گئی ہے اس کے مطابق قانون نافذ کرانے والے ادارے کسی بھی وقت گھر میں داخل ہو کر مہمانوں سمیت وہاں موجود تمام لوگوں کا موقع پر کورونا ٹیسٹ لینے کے مجاز ہیں اور جب تک نتائج نہ آئیں وہ گھر اربعین یا Quarantine مرکز قرار پائے گا اور اگر مکینوں اور مہمانوں میں سے کسی کا بھی ٹیسٹ مثبت آ گیا تو گھر کے سربراہ کو مرض پھیلانے کے الزام میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے Quarantine کا ترجمہ قرنطینہ کے بجائے اربعین کیا ہے۔ عرب علمائے طبیات وبائی امراض سے متاثر افراد کو 40 دن تک علیحدہ رکھتے تھے جس کے لئے اربعینہ کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی۔ اربعینہ کا لاطینی ترجمہ Quarantine ہے۔
ہنگری اور مصری ہم منصبوں کو دیکھ کر فرانسیسی صدر نے بھی موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ اقتدار میں آتے ہی انہوں نے معیشت کی بحالی کے لیے پٹرول کی قیمتوں میں بھاری اضافے، علاج معالجے کی سہولتوں میں کٹوتی، سرکاری جامعات کی فیسوں میں اضافے سمیت جن قدامت پسندانہ اصلاحات کا اعلان کیا اس پر مزدور اور غریب طبقہ بپھر گیا اور زرد صدری (Yellow Jacket) مظاہرین نے سارے فرانس کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ ملک گیر مظاہروں، دھرنوں اور ہڑتالوں سے ملکی معیشت کا دیوالہ نکل گیا۔ کرونا پھوٹ پڑنے سے مظاہرے تھم تو گئے لیکن بے چینی موجود تھی۔ دباؤ کم کرنے کے لیے جناب میخواں نے مسلم مخالف مہم کا آغاز کیا جس میں انہیں بہت کامیابی حاصل ہوئی۔
اکتوبر کے اختتام پر گستاخانہ خاکے دکھانے والے ایک استاد کے قتل نے مسلم مخالف جذبات کو مہمیز لگائی اور فرانسیسی صدر نے مسلمانوں کے گرد شکنجہ سخت کر دیا۔ ان اقدامات کو عدالتی تحفظ دینے کے لیے انہوں نے قانون سازی کا آغاز کیا جن میں شک کی بنیاد پر مساجد کو بند کر دینے کا اختیار، گھروں میں قائم ناظرہ قرآن کے مراکز کی بندش، اسکارف پر پابندی کے دائرہ کار کی نجی اداروں تک توسیع، جمعہ کے خطبات کی ریکارڈنگ اور مساجدکی نگرانی شامل تھی۔ اسی کے ساتھ یورپین کونسل کے صدر چارلس مشل Charles Michel نے یورپ بھر میں ائمہ مساجد کی لازمی تربیت کا اعلان کر دیا۔ اس سلسلے میں ایک مسودہ قانون پر کام ہو رہا ہے جس کے تحت پردے، سود، ناموس رسالت اور غیر مسلموں سے تعلقات کے باب میں انتہا پسندانہ سوچ کی حوصلہ شکنی کر کے مساجد کے اماموں کو لبرل و سیکولر اقدار کی تربیت دی جائے گی۔ تربیت مکمل ہونے پر امتحان کے بعد انہیں سند دی جائے گی اور اس سند کے بغیر کوئی بھی شخص منبر نہیں سنبھال سکے گا۔
مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم سے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ کچھ ہفتہ پہلے ایک ریلوے اسٹیشن پر پولیس نے نوجوان لڑکی کو روکا جس نے اسکارف اوڑھ رکھا تھا۔ عوامی مقامات پر اسکارف پہننے کی اجازت نہیں۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ قانون کے تحت خاتون سے کہا جاتا کہ وہ اسکارف اتار دے، عدم تعاون کی صورت میں اس لڑکی پر جرمانہ عائد ہونا چاہیے تھا لیکن افسر نے لڑکی کے سر سے اسکارف کھینچا جو نہ اتر سکا، جس پر افسر نے مشتعل ہو کر اس خاتون کی گردن کے گرد ہاتھ ڈال کر اس دھان پان سی بچی کو زمین پر دے مارا۔ لڑکی کا سر دیوار سے ٹکرایا۔ اس منظر کی وہاں موجود کسی مسلمان نے ویڈیو بنالی۔ پولیس افسران اس شخص کے پیچھے دوڑے لیکن وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور اس نے ایک بے نامی اکاونٹ سے وہ ویڈیو سوشل میڈیا پر جاری کر دی۔
معاملہ مسلمان لڑکی کا تھا اس لیے کوئی بڑا رد عمل سامنے نہیں آیا۔ کچھ باضمیر وکلا نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن درخواست پہلی ہی سماعت میں خارج کر دی گئی۔ تاہم پولیس کی جانب سے اس پر شدید رد عمل سامنے آیا تو وزیر دفاع جیرالڈ ڈرمینن Gerald Darmanin نے سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیو کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی منفی تشہیر سے پولیس کے جوانوں کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے جو جان ہتھیلی پر رکھ کر انتہا پسندوں کی سرکوبی میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف مہم بند ہونی چاہیے اور اس ضمن میں موثر قانون سازی کی ضرورت ہے۔
چنانچہ صدر میخوان کی حکم راں جماعت نے داخلی سلامتی کے قانون Loi Securataire Globlaes یا Global Security Law میں ترمیم پارلیمان میں پیش کر دی۔ نئی شق 24 کے تحت پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی توہین، ان پر حملہ اور انہیں ’ہراساں‘ کرنے والوں کو ایک سال قید اور 53 ہزار ڈالر جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔ Psychological harm کی جو تعریف بیان کی گئی ہے اس کے مطابق پولیس افسران کی تصویر کشی اور ویڈیو کو سوشل میڈیا پر جاری کرنا ان پر نفسیاتی دباؤ ڈالنے کے مترادف ہے۔ ڈیوٹی پر موجود افسر کی طرف دھمکی آمیز انداز میں دیکھنا، مشتبہ فرد یا افراد کی گرفتاری کے وقت تصویر کھینچنا یا ویڈیو بنانا غیر قانونی ہو گا اور اس حرکت کے مرتکب افراد کو گرفتار کر کے پولیس تصویر، ویڈیو اور دوسرا مواد ان سے چھین سکتی ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اسی ترمیم کے شق 22 میں پولیس کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ مظاہروں کے دوران مشتبہ سرگرمیوں اور ’دہشتگردوں‘ پر نظر رکھنے کے لیے ڈرون کے ذریعے سارے علاقے کی نہ صرف فلم بندی کرسکتی ہے بلکہ اس دوران اگر مکانوں کی کھلی کھڑکیوں سے اندر کے مناظر بھی ریکارڈ ہو گئے ہوں تو بھی اسے تخلیے میں مداخلت تصور نہیں کیا جائے گا۔ صدر میخواں اور ان کے ساتھیوں نے قانون سازی کو انتہا پسندی کے خلاف اہم قدم قرار دیا اور اس جرات مندانہ قدم پر خود داد سمیٹی۔ نسل پرست اسلام مخالف عناصر کا مشترکہ نعرہ ’لا اینڈ آرڈر‘ہے۔ حالیہ انتخابی مہم کے دوران صدر ٹرمپ خود کو بہت فخر سے’لا آرڈر پریسیڈنٹ‘ کہتے رہے۔ صدر میخوان نے بھی ایوان زیریں (لوک سبھا) سے ترمیم منظور ہوتے ہی کہا کہ اب کوئی ہمارے دلیر و بہادر پولیس افسروں کے ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈال کر بد نام نہیں کر سکے گا اور جو ویڈیو چلائے گا وہ جیل کی ہوا کھائے گا۔ ابتدا میں تو اس نئے قانون کی خوب تحسین ہوئی لیکن چند ہی دنوں بعد عام فرانسیسیوں کو اس قانون کے مضمرات سمجھ میں آنا شروع ہو گئے اور سوشل میڈیا پر کچھ منچلوں نے مہم شروع کر. دی۔ تین ہفتہ پہلے پیرس میں مظاہرہ کیا گیا اور یہ نعرہ بڑا مقبول ہوا کہ ’تم ہمارے سینوں کی طرف تنی بندوقیں نیچی کر لو ہم اپنے موبائل فون جیب میں رکھ لیں گے‘۔ پولیس نے پہلے دن تو یہ نعرے متانت کے ساتھ برداشت کر لیے لیکن دوسرے روز جیسے ہی لوگ جمع ہوئے پولیس مظاہرین پر ٹوٹ پڑی۔ اشک آور گیس اور لاٹھی چارج سے منشر ہو کر مظاہرین گلیوں میں چلے گئے اور رات گئے تک آنکھ مچولی ہوتی رہی۔ سرکاری عمارات کو آگ لگادی گئی اور 100 سے زیادہ لوگ گرفتار ہوئے۔
اسی دوران گزشتہ ماہ کے آخر میں میں ایک مشہور سیاہ فام rap گلوکار مائیکل زکلر Michel Zecler کو پولیس نے ٹریفک کی کسی مبینہ خلاف ورزی پر روکا اور زمین پر لٹا کر اس بری طرح پیٹا کہ غریب کی پسلیاں ٹوٹ گئیں اور ایک انکھ ضائع ہوتے ہوتے بچی۔ اسکارف پوش مسلمان بچی کو اٹھا کر پٹخنے کے منظر سے تو فرانسیسی ایک عمدہ ایکشن فلم سمجھ کر لطف اندوز ہوئے تھے لیکن پولیس کے ہاتھوں مشہور گلوکار کی درگت کے مناظر نے اس کے مداحوں کو مشتعل کر دیا اور ہفتوں سے جاری مظاہروں میں شدت آ گئی۔ دباؤ اتنا بڑھا کہ مائیکل پر حملے میں ملوث چاروں پولیس افسر گرفتار کر لیے گئے۔ اب صدر میخوان سے پولیس افسر بھی ناراض ہیں کہ صدر صاحب پولیس کو مکمل اختیار دینے کے وعدے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں تو دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیموں نے نئے قانون کو واپس لینے کی تحریک تیز کر دی ہے۔
سول سوسائٹی کی جانب سے شروع ہونے والی اس تحریک میں اب وکلا، صحافیوں اور خواتین کی انجمن کے ساتھ عام سیاسی کارکن بھی شامل ہو گئے ہیں۔ فرانسیسی مزدروں کی وفاقی انجمن CGT نے بھی اپنا وزن شہری آزادی تحریک کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ اتوار کی شام خبر رساں ایجنسی AFP سے باتیں کرتے ہوئے CGT کے معتمد عام فلپ مارٹینیز Philippe Martinez نے کہا کہ شہری آزادی اور مزدور تحریک ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ مزدوروں سے یونین سازی کا حق اور ان کے منہ سے نوالہ چھیننے والی ظالم حکومت عوام سے حقِ آزادیِ اظہار چھین کر ملک کو قبرستان بنا دینا چاہتی ہے۔ جناب مارٹینیز نے کہا کہ ہم نے کرونا کی وجہ سے میخواں کی مزدور کش پالیسی کے خلاف ’زرد صدری‘تحریک معطل کر دی تھی لیکن اگر حکومت قومی آزمائش کی اس گھڑی میں ہمارے بنیادی حقوق پر شب خون مارنا چاہتی ہے تو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ ہم خاموش ہیں، سوئے ہوئے نہیں۔
یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق کے ساتھ صحافیوں کی عالمی انجمنوں نے بھی اس قانون کو انسانی حقوق اور صحافتی اور آزادی اظہار رائے کے متفق علیہ قوانین سے متصادم قرار دیا ہے۔
گزشتہ دنوں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر میخواں نے کہا کہ وہ مجوزہ قانون میں مناسب ترمیم کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے صحافتی انجمنوں کو بات چیت کی دعوت دی ہے لیکن CGT اس قانون کو یکسر واپس لینے پر اصرار کر رہی ہے۔ جناب مارٹینیز کا کہنا ہے کہ شہری آزادیوں پر کوئی سودے بازی نہیں ہو گی۔
صدر میخواں کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے جا رہا ہے۔ انہوں نے میری لاپن کا ووٹ بینک توڑنے کے لیے مسلم دشمنی کا علم اٹھایا تھا جس سے فرانسیسی مسلمان تو بند گلی کی دیوار سے لگ گئے لیکن مسلم مخالف ظالمانہ اقدامات کی ضرب سے اب سیکولر عناصر بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہے ہیں۔ اشتعال انگیز مظاہروں سے سارا ملک مفلوج ہے اور صدر میخواں کی یقین دہانیوں کے باوجود مظاہروں کی شدت میں کمی ہوتی نظر نہیں آ رہی اور اب تو مزدور بھی سڑکوں پر آگئے ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف اقدامات کے آغاز پر میخواں نے بہت تکبر سے کہا تھا ’اسلام ساری دنیا میں بحران کا شکار ہے‘۔ اسلام کے بارے میں ان کا تجزیہ کتنا غیر درست ہے اس کا پتہ تو انہیں عنقریب چل چائے گا لیکن اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے مسلم دشمن اقدامات نے فرانس کو بد ترین بحران میں مبتلا کر دیا ہے اور اس کے نتیجے میں ان کی اقتدار سے بے دخلی بھی خارج از امکان نہیں ہے۔ ترک صدر نے کہا ہے کہ میخواں سے چھٹکارا فرانسیسی عوام کی راحت کا باعث ہو گا۔
***
صدر میخواں کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے جا رہا ہے۔ انہوں نے میری لاپن کا ووٹ بینک توڑنے کے لیے مسلم دشمنی کا علم اٹھایا تھا جس سے فرانسیسی مسلمان تو بند گلی کی دیوار سے لگ گئے لیکن مسلم مخالف ظالمانہ اقدامات کی ضرب سے اب سیکولر عناصر بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہے ہیں۔ اشتعال انگیز مظاہروں سے سارا ملک مفلوج ہے اور صدر میخواں کی یقین دہانیوں کے باوجود مظاہروں کی شدت میں کمی ہوتی نظر نہیں آ رہی اور اب تو مزدور بھی سڑکوں پر آگئے ہیں۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 تا 19 دسمبر، 2020