غازی آباد:کوچنگ سینٹر میں با جماعت نماز ادا کرنے پر مولانا شوکت علی گرفتار

مقامی ہندوؤں کے اعتراض پر پولیس نے کیا گرفتار،ایف آئی آر میں پولیس کا دعویٰ نماز کا اثر ہوتا ہے

نئی دہلی ،25جون :۔

ایک طرف بین الاقوامی سطح پر یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ملک میں جمہوریت ہے،سب کا ساتھ اور سب کا وکاس ہے ،حکومت مذہب اور ذات کی وجہ سے کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرتی اور دوسری طرف کوئی مسلمان اپنے  گھر اور آفس میں نماز ادا کرتا ہے تو پولیس اس کو جرم قرر دیتے ہوئے گرفتار کر لیتی ہے اور ایف آئی آر بھی درج کرلی جاتی ہے  ۔گزشتہ کچھ مہینوں سے ایسے متعدد واقعات منظر عام پر آئے ہیں جہاں پولیس نے محض نماز ادا کرنے پر مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے ،پولیس یہ دعویٰ کرتی ہے کہ نماز پڑھنے سے امن و امان پر اثر پڑتا ہے ۔

تازہ معاملہ اتر پردیش کے غازی آباد کا ہے جہاں اپنے کوچنگ سینٹر میں اجماعتی نماز پڑھنے پر پولیس نے کوچنگ سینٹر چلانے والے مولانا  شوکت علی کو گرفتار کر لیا ہے ۔ مولانا شوکت علی کو پولیس نے 23 جون کو غازی آباد کے دیپک وہار علاقے سے گرفتار کیا تھا۔

شوکت علی کے خلاف درج کی گئی پہلی تحقیقاتی رپورٹ (ایف آئی آر) میں کہا گیا ہے کہ جب پولیس پہنچی تو وہ فیوچر ٹریک کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کے اندر اجتماعی نماز ادا کر رہا تھا۔پولیس نے کہا کہ انہیں ہندو برادری  کے لوگوں کی  طرف سے شکایت موصول ہوئی تھی جو نماز کی مخالفت کر رہے تھے۔کھوڑا تھانے کے ایس ایچ او نے، جہاں ایف آئی آر درج کی گئی ہے، کہا کہ علی کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کے اندر ایک مدرسہ چلا رہا تھا اور وہاں نماز پڑھی جا رہی تھی۔

کھوڑا تھانے کے سب انسپکٹر پریم سنگھ  نے کہا کہ  23 جون کو، میں دوپہر کے وقت نہرو گارڈن چوکی کے علاقے میں گشت کر رہا تھا جب میں نے دیکھا کہ دیپک وہار کے فیوچر ٹریک کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کے اندر  مسلمان با جماعت نماز  ادا کر رہے ہیں۔ تاہم، قریبی ہندو برادری کے کچھ رہائشی نماز کی مخالفت کر رہے تھے۔ ایف آئی آر تعزیرات ہند کی دفعہ 153 اے اور 505 کے تحت درج کی گئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق جب ان سے مدرسہ چلانے یا نماز پڑھنے کی قانونی حیثیت کے بارے میں پوچھا گیا تو،ا سٹیشن ہاؤس آفیسر، کھوڑا پولیس ا سٹیشن نے  کہاکہ نماز پڑھنے  سے  علاقے میں دوسروں پر اثر ہوتا ہے ۔

کوچنگ سینٹر میں مسلمانوں کے ذریعہ صرف با جماعت نماز ادا کرنے پر گرفتاری پر لوگوں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے ،لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی کارروائی سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسا نماز پڑھنا بھی جرم کے زمرے میں شامل ہو گیا ہے ۔

مکتوب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق علاقے میں کوچنگ انسٹی ٹیوٹ چلانے والے ایک ایک مقامی رہائشی نے بتایا کہ شوکت  علی ایک معزز آدمی  ہیں اور ماضی میں اس علاقے کی مسجد  میں امامت کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں ۔شوکت علی کوئی کوچنگ انسٹی ٹیوٹ نہیں  چلاتے ۔ بلکہ وہ ایک مدرسہ چلاتے ہیں  جہاں  انہوں نے جدید تعلیم کا بھی بندو بست کر رکھا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ محض با جماعت نماز پڑھنا ہی کسی کو گرفتار کرنے کی بنیاد وجہ نہیں ہونی چاہئے ۔