عظیم شخصیتوں کے عظیم کارنامے تنہائیوں کے مرہونِ منت
پرسکون لمحات کا صحیح استعمال آپ کو بھی مفید بنا سکتا ہے
مجتبیٰ فاروق
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد
تنہائیوں کے دور میں بڑے بڑے لوگوں نے عظیم کارنامے انجام دیے ہیں۔انہوں نے تمام سہولتوں اور وسائل سے محروم ہونے کے باوجود علم و حکمت اور تحقیق وتصنیف کا کام جاری رکھا ۔ یہ عظیم شخصیتوں نے جہاں بھی وہ رہیں تفکر و تدبر اور مشاہدات کو اپنا غذا بنایا۔ علمی و تصنیفی کام ان عبقریات کے اولین ترجیحات میں شامل تھا ۔ان شخصیات نے تنہائیوں میں رہ کر وقت کا صحیح اور بھرپور استعمال کیا۔ ان بزرگوں نے تنہائیوں اور جیل کی کال کوٹھریوں میں تمام مصائب اور دقتوں کے باوجود علم و تحقیق سے ناطہ نہیں توڑا بلکہ مطالعہ اور قرطاس و قلم کے ساتھ رشتہ کو مزید مستحکم کرتے رہے۔ کیوں کہ تنہائیوں میں ذہن نہایت پرسکون رہتا ہے اور قلم بھی بھر پور ساتھ دیتا ہے ۔مومن ہمیشہ علم کا پیاسا رہتا ہے۔ اس کی حصولِ علم کی تڑپ اور پیاس کبھی نہیں بجھتی چنانچہ وہ ہر وقت اسے بجھانے کے لیے سرگرداں و بے چین رہتا ہے۔ ذیل میں ہم چند ایسی درخشاں مثالیں پیش کر رہے ہیں:
المبسوط فقہ حنفی کی ایک معروف کتاب ہے اور یہ تیس جلدوں پر مشتمل ہے ۔اس ضخیم کتاب کے مؤلف شیخ الائمہ سرخسی (م: 483) ہیں ۔انہوں نے اس کتاب کی اکثر جلدیں ’اوز چند‘ کے ایک گمنام کنویں میں قید کی حالت میں املا کرائیں ۔امام سرخسی نے اس کتاب کو اپنے ایک شاگرد کے ذریعے سے ضبط تحریر میں لایا ہے یعنی امام صاحب کہتے جاتے تھے اور ان کے شاگرد لکھتے جاتے تھے ۔یہ فقہ حنفی کی نہایت معتبر اور مستند کتاب شمار کی جاتی ہے۔ امام سرخسی نے ایک حکمراں کے خلاف فتویٰ صادر کیا تھا جس کی پاداش میں وہ ایک کنویں میں قید کر دیے گئے جس میں وہ کئی سال تک رہے ۔امام سرخسی ایک معروف عالم دین، فقیہ اور مدرس تھے اور ایک بڑی تعداد میں ان کے شاگرد تھے جو کنویں کے منہ پر بیٹھ کر پر استاد سے استفادہ کرتے تھے ۔ان ہی شاگردوں میں سے کسی ایک سے امام صاحب نے المبسوط املاء کرائی۔ اسی قید کے دوران انہوں نے ایک اور معروف کتاب لکھی جس کا نام شرح السیر الکبیر ہے ۔یہ بین الاقوامی تعلقات اور اسلامی قوانین پر ایک مستند کتاب ہے ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام سرخسی نے وسائل اور ہر سہولتوں سے محروم ہو جانے کے باوجود کنویں میں قید کے دوران بھی کیسے عظیم کام انجام دیے ہیں۔ ان کے برعکس ہمارے پاس اتنے سارے وسائل ہونے کے باوجود محض اپنی کاہلیت اور تن آسانی کی وجہ سے ہم ایک فیصد بھی علمی کام نہیں کر پا رہے ہیں ۔
ابن تیمیہ (1328ء-1263ء) کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ بعض اوقات قرآن مجید کی ایک ایک آیت کو سمجھنے کے لیے سو سو تفاسیر سے استفادہ کرتے تھے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے کہ ائے اللہ مجھے اس آیت کا فہم عطا فرما۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ تنہائی ،سنسان اور غیر آباد مساجد اور مقامات کی طرف رخ کرتے اور اپنی پیشانی پر خاک ملتے اور عرض کرتے کہ ائے ابراہیم کو تعلیم دینے والے مجھے بھی سمجھ عطا فرما۔وہ جیل کی دیواروں کے اندر بھی تحقیق و تصنیف کا کام کرتے تھے ۔ان کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ جیل میں انہوں نے بہت سی قابل تحسین کتابیں لکھیں جوآج بھی لائق مطالعہ ہیں ۔
برصغیر میں اردو تراجم قرآن کا سلسلہ شاہ عبدالقدر دہلوی (1642ء-1551ء) نے شروع کیا ہے ۔ان کے ترجمہ قرآن کا نام موضح قرآن ہے ۔اس ترجمہ کا کوئی بدل نہیں ہے اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک الہامی ترجمہ ہے ۔انہی کے ترجمہ قرآن سے ہند و پاک میں تراجم قرآن کا ایک عظیم سلسلہ شروع ہوا جو ہنوز جاری ہے۔ شاہ عبدالقادر دہلوی نے قرآن کا یہ ترجمہ تنہائیوں میں رہ کر کیا۔ مولانا مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں کہ شاہ عبد القادر نے اسے چالیس سال مسجد میں معتکف میں رہ کر پورا کیا ہے یہاں تک کہ آپ کا جنازہ مسجد ہی سے نکلا ۔شاہ صاحب نے جو عظیم کام کیا ہے وہ ان شاء اللہ تاقیامت باقی رہے گا ۔
مولانامحمود حسن (1920ء-1851ء)کو مالٹا کے جیل میں دو سال تک قید رہنا پڑا۔ وہاں ان کا پیشتر وقت قرآن کی تلاوت اور مطالعہ میں گزرتا تھا ۔انہوں نے اسی جیل میں قرآن کاترجمہ مکمل کیا ۔مالٹا جیل کی تنہائیوں میں محبوس رہ کر ہی وہ ترجمہ قرآن کی تکمیل کر سکے۔اس کےعلاوہ سورۃ النساء تک حواشی بھی تحریر کیے تھے لیکن اسی دوران رہائی مل گئی ۔بعد میں اس تفسیر کو علامہ شبیر احمد عثمانی (1949ء-1887ء) نےمکمل کیا ۔ آج بھی اس ترجمہ اورتفسیر کو شہکار تفسیر ہونے کا درجہ حاصل ہے ۔
مولاناابوالکلام آزاد (1958-1888) کا سب سے اہم علمی کارنامہ ترجمان القرآن ہے ۔قرآن ان کےشب و روز کی فکر ونظر کا موضوع رہاہے ۔انہوں نے بھی تفسیر ترجمان القرآن کے اکثر حصے مختلف جیلوں کی تنہائیوں میں لکھے تھے ۔مولانا آزاد نے ایام اسیری کے دوران مولانا حبیب الرحمٰن خان شیروانی کے نام جو لاجواب خطوط لکھے وہ وہ بعد میں غبارِ خاطر کے نام سے شائع ہوئے تھے ان خطوط کی زبان و بیان اور تہذیب و شائستگی اپنی مثال آپ ہے۔غبار خاطر ادب کی ایک شاہکار چیز ہے ۔
مولانا مودودی (1979ء-1903ء) نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر تفہیم القرآن کو 1949ء میں ملتان سنٹرل جیل کی تنہائیوں میں مکمل کیا جب ان کو پنجاب سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتارکر کے ملتان کی سنٹرل جیل میں رکھا گیا تھا ۔اس کے علاوہ کئی مقالات مضامین جیل کی تنہائیوں میں قلم بند کیے ۔
سید قطب شہید (1966ء-1906ء) صاحبِ طرز ادیب، محقق اور مفکر تھے ۔انہیں زندگی کا ایک اہم حصہ قید و بندکی حالت میں گزارنا پڑا اور ایام اسیری کا زمانہ نہایت عزم و استقلال کےساتھ گزارا ۔ان کا ایک اہم کارنامہ تفسیر فی ظلال القرآن ہے ۔جیل کی تنہائیوں میں رہ کر انہوں نے اس کی تکمیل کی ۔جدید تفاسیر میں فی ظلال القرآن کو ایک اہم مقام حاصل ہے ۔مولانا امین احسن اصلاحی (1997ء-1904ء) رات کی تنہائیوں میں معروف تفسیر تدبر قرآن لکھتے تھے جبکہ انہیں ان تنہائیوں میں مچھر بھی خوب کاٹ رہے تھے ۔مولانا ضیاء الدین اصلاحی (2008ء-1937ء)رات کی تنہائیوں میں موم بتی کی روشنی میں لکھتے تھے اور ان کے دونوں پاوں پر مچھر کاٹتے رہتے اور اس تکلیف دہ صورت حال میں ہونے کے باوجود تحقیق و تصنیف کا کام جاری رہتا۔
مولانا محمد علی جوہر (1931ء-1878ء)امت کے حقیقی بہی خواہ اور قائد تھے .انہوں نے 1921ء میں خلافت کانفرنس میں انگریز حکومت کو زبردست تنقد کا نشانہ بنایاتھا جس کی بنیاد پر انہیں گرفتار کیا گیا.مولانا کو پہلے کراچی کی سنٹرل جیل میں رکھاگیا اوربعد میں بیجا پور کی جیل میں بھیج دیا گیا .مولانا جوہر نے جیل کی تنہائیوں کو خوب استعمال کر کے اپنے قلم کو ہر دم متحرک رکھا کیوں کہ وہ قلم کے بھی شہسوار تھے .انہوں نے جیل ہی میں خود نوشت سوانح حیات کو My Life :A Fragment کے عنوان سے ترتیب دیا. جیل کی ان ہی تنہائیوں میں کلام جوہر بھی تیار کیا۔مولانا ابو الحسن علی ندوی (1999ء-1914ء) نے اکثر کتابیں تہجد کے بعد ہی تنہائیوں میں لکھی تھیں ۔مولانا احمد رضا خان(1921ء-1856ء) اور مولانا اشرف علی تھانوی (1943ء-1863ء) بھی تہجد اور فجر کےبعد ہی تنہایوں میں رہ کر تصنیف و تالیف کا کام کرتے تھے .خرم مراد (1996ء-1932ء) لکھنے کا سلسلہ فجر کے بعد ہی شروع کرتے تھے اور یہی معمول علامہ یوسف القرضاوی (پ:1926ء) کاہے۔کیوں کہ یہ وقت لکھنے پڑھنے کے لیے نہایت پرسکون ہوتا ہے جس کا بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ہمیں بھی لاک ڈاؤن کی ان تنہائیوں میں رہ کر بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہم بھی آج کل گھر کی تنہائیوں میں وقت گزار رہے ہیں۔یہ ایام قرآن کو سمجھنے اور اس کا مطالعہ کرنے میں بہترین مواقع فراہم کرتے ہیں ۔آئیے! ہم بھی ان ایام میں قرآن اور اس کی تعلیمات سے اپنی زندگی اور اپنے گھر کو مزین کریں۔
ہم بھی آج کل گھر کی تنہائیوں میں وقت گزار رہے ہیں۔ یہ ایام قرآن کو سمجھنے اور اس کا مطالعہ کرنے میں بہترین مواقع فراہم کرتے ہیں