عبدالستار ایدھی فائونڈیشن : آنکھوں دیکھا حال
خدمت خلق کا ایک عظیم ادارہ اور ہمارے لیے سبق کے پہلو
محمدجاوید اقبال، دلی
دنیابھر کے خدمت خلق کے کام کرنے والے اداروں میں سرفہرست نام عبدالستار ایدھی فائونڈیشن کا ہے۔ اس کا مرکزی دفتر کراچی ، پاکستان ہے۔ اس کی شاخیں پاکستان کے مختلف شہروں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس ٹرسٹ نے نہ صرف پاکستان بلکہ ایتھوپیا کے فاقہ زدہ علاقوں میں بھی اپنی خدمات انجام دی ہیں۔
فائونڈیشن کے فلاحی کاموں کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے تحت بیسیوں چھوٹے بڑے اسپتال قائم ہیں جہاں غریبوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے۔ کچھ اسپتال صرف بچوں کچھ مردوں اور کچھ خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔ اسی طرح پاگلوں کے علاج کے لیے بھی الگ الگ ادارے قائم ہیں یعنی بچوں کے عورتوں کے اور مردوں کے لیے الگ الگ اسپتال ہیں۔ اس ادارے کی کئی ہزار ایمبولینس ہیں ۔ کراچی میں اگر کوئی شخص کہیں سے فون کرے تو ۱۰؍منٹ کے اندر اندر ایمبولینس پہنچ جاتی ہے۔ اگر آپ پاکستان کے کسی مقام سے 155 نمبر پر فون کریں تو فوراً جواب ملے گا اور آپ کی مدد کے لیے تفصیل معلوم کی جائے گی۔کچھ ایمبولینس ایسی ہیں جو زخمی یا بیمار جانوروں کو اٹھالے جانے کے لیے مخصوص ہیں۔ بیمار جانوروں کے لیے الگ اسپتال ہیں۔
ایسی ڈسپنسریاں بھی قائم ہیں جہاں نفسیاتی مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔فائونڈیشن کے تحت ایسے یتیم خانے ہیں جہاں یتیم بچوں کی رہائش اور تعلیم کا معقول انتظام ہے۔اس ٹرسٹ کا ایک ادارہ وہ ہے جولاوارث لاشوں کو دفنانے کا کام کرتا ہے۔ ایسی لاوارث لاشیں جہاں ملتی ہے وہاں کے لوگ ایدھی ٹرسٹ کے دفتر فون کرتے ہیں ۔ ٹرسٹ کی ایمبولینس وہاں پہنچ کر لاش لے آتی ہے اور پھر اس کو باعزت طریقے سے دفنانے کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے۔
عبدالستار ایدھی گجرات کی میمن برادری سے تعلق رکھتے تھے۔وہ 1928 میں غیر منقسم ہندوستان کی ریاست گجرات میںپیدا ہوئے تھے۔وہ زیادہ تعلیم یافتہ آدمی نہیں تھے۔ بچپن میں ان کی والدہ دل کے مرض میں مبتلا تھیں کئی سال تک انھوں نے اپنی والدہ کی خدمت کی جب ایدھی کی عمر انیس (۱۹) سال تھی تو ان کی والدہ کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا۔اسی وقت سے ان کے دل میں یہ جذبہ بیدار ہوا کہ غریب لوگوں کے لیے اسپتال قائم کیا جائے۔ نفسیاتی مریضوں کو جس طرح پیٹ پیٹ کر علاج کیا جاتا تھا اس سے عبدالستار ایدھی کا دل پگھل جاتا تھا۔ ایسے منظر دیکھ کر وہ روپڑتے تھے۔ انھوں نے فیصلہ کرلیا کہ اگر اللہ نے توفیق اورنصرت فرمائی تو وہ غریب بیماروں کا مفت علاج کریں گے۔
تقسیم ملک کے وقت وہ کراچی منتقل ہوگئے وہاں انھوں نے پہلے تخت پرکپڑے بیچنے کا کاروبار شروع کیا۔اس کے بعد کاروبار بڑھا اور کمیشن پر کپڑا بیچنے لگے۔ اس کے بعد اسپتال قائم کرنے کی کوشش کی ان کا خلوص اور خدمت خلق کا جذبہ رنگ لایا وہ غریب عوام کے دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ وہ غریبوں ،ناداروں اور بیماروں کی خدمت ٹوٹ کر کرتے تھے ۔ اللہ نے ان کے خلوص کو قبول فرمالیا ۔ ان کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔
آنکھوں دیکھا حال
تقریباً بیس سال پہلے میں نے کراچی کا سفر کیا۔ اس وقت عبدالستار ایدھی کا نام خدمت خلق کے کاموں کے لیے مشہور ہوچکا تھا ۔ میں اپنے ایک رشتہ دار کے ساتھ ٹرسٹ کے دفتر گیا تاکہ ان کے کاموں کو دیکھا جاسکے۔ میں جب وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا ان کے ہیڈ آفس پر بھیڑ لگی تھی لوگ لائن میں لگ کر اپنی اعانتیں جمع کرارہے تھے میں نے دفتر کے اوپر لگا بورڈ پڑھا۔ اُس پر لکھا ہوا تھا اگر کسی شخص نے ہمارے ادارہ کو چندہ دیا اور وہ ہمارے کام سے مطمئن نہیں ہے تو وہ اپنی گزشتہ دو سال تک دی ہوئی رقم واپس لے سکتا ہے۔ یہ ایک عجیب قسم کا بورڈ تھا۔
عبدالستار ایدھی کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ ان کو ہر شخص کا اعتماد حاصل تھا۔
ہم تھوڑی دیر بعد عبدالستار ایدھی صاحب سے ان کے دفتر میں ملے۔ وہ ایک پستہ قد سیدھے سادے عام سے آدمی تھے۔ خاکی رنگ کے لباس میں ملبوس بالوں والی ٹوپی میں ایک معمولی کرسی پر دراز تھے۔ ان کی اہلیہ محترمہ بلقیس جہاں بھی اُن کے قریب تشریف فرما تھیں۔ اُن کا لباس بھی خاکی رنگ کا تھا۔ان کے اخلاق، سادہ زندگی بے لوث طرز عمل سے ہر شخص متاثر ہوتا تھا۔ ان کی گفتگو سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ ان میاں بیوی کوانسانوں ہی سے نہیں، مخلوق خدا سے بے پناہ محبت ہے۔
انھوں نے بتایا کہ یہاں ان کے کئی ادارے ہیں ۔ ایک ادارہ میں جانوروں کا علاج ہوتا ہے دوسرا پاگل مردوں کے علاج کے لیے اورتیسرا پاگل عورتوں کا اسپتال ہے۔ میں نے کہاکیا پاگل عورتوں کی رہائش گاہ اور ان کا اسپتال دیکھا جاسکتا ہے؟ محترمہ بلقیس صاحبہ فوراً تیار ہوگئیں اور ہمیں ان پاگل عورتوں کی رہائش گاہ لے گئیں ۔ رہائش گاہ کا معقول انتظام خدمت گار خواتین بڑی محنت اور محبت سے ان بیمار عورتوں سے پیش آرہی تھیں۔ ایک خاص بات ہم نے یہ دیکھی کہ نوجوان پاگل لڑکیاں جو پاگل معلوم نہیں ہورہی تھیں بلقیس جہاں صاحبہ سے والہانہ محبت کرتی دکھائی دیں۔ سب امّی امّی کہہ کر پکارتی تھیں اور اپنے ساتھ اپنے کمرے میں لے جانے کے لیے اصرار کرتی تھیں۔ بہرحال یہ منظر کبھی بھلایا نہیں جاسکتا کہ انسان اگر دوسرے انسان سے محبت کرے، ان کے کام آئے اور ان کے درد و غم میں شریک ہو تو پاگل افراد بھی اپنے محسنوں سے ٹوٹ کر محبت کرنے لگتے ہیں۔
عبدالستار ایدھی ٹرسٹ کی کامیابی کا راز ان کا بے لوث جذبہ خدمت ان کی انتظامی صلاحیت، سادگی ایمان داری میں مضمر ہے۔ ان کو ایسی ٹیم ملی ہوئی ہے جس کے اندر خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ ان کا شعبہ Ambulance ۲۴؍گھنٹے کام کرتا ہے۔ اس ادارے نے پوری دنیا میں شہرت حاصل کرلی ہے۔
عبدالستار ایدھی ان کی اہلیہ اور بیٹے بیٹیاں بھی رات دن اسی خدمت میں لگے ہوتے ہیں۔ ان کے اس رویہ ان کی چلت پھرت اور حسن اخلاق کو دیکھ کر سخت سے سخت دل انسان کا ہاتھ اپنی جیب کی طرف اُٹھ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہیڈ آفس پر ہر وقت اعانت دینے والوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے۔
شروع شروع میں عبدالستار ایدھی خود بھی ایمبولینس چلاتے تھے۔اور خدمت خلق کے کاموں میں رات دن مصروف رہتے تھے۔جب کاموں کا بار بڑھا تو انھوں نے یہ کام دوسرے والنٹیئرس کے سپرد کردیا۔
ان کا یہ ادارہ بغیر کسی تخصیص ہر ایک کی خدمت کے لیے تیار رہتا ہے ان کے پیش نظر انسانوں کی خدمت کرنا ہے۔ان کا یہ کام کسی خاص طبقہ اور مذہب کے لوگوں تک محدود نہیں ہے۔ ان سے کسی نے پوچھا آپ غیرمسلموں کی خدمت کیوں کرتے ہیں؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں اللہ کے بندوں کی خدمت کرتا ہوں یہ میرے مذہب کا تقاضہ ہے۔
عبدالستار ایدھی کے اس ادارہ اور خود ان حضرات کا جذبہ خدمت دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ اگر ایسے لوگ کسی جگہ جمع ہوکر سلیقہ سے کام کریں تو عوام و خواص پیسہ کی بارش کرنے کے لیے ہروقت تیار ہیں۔
عبدالستار ایدھی 2016 میں گردے فیل ہونے کی وجہ سے بیمار ہوگئے اور انتقال کرگئے۔ ان کو علاج کے لیے دوسرے ممالک نے پیش کش کی کہ وہ وہاں چلے جائیں لیکن انھوں نے اپنے ملک کے ہسپتال میں علاج کرانا پسند کیا۔اللہ ان کی مغفرت کرے۔کروڑوں مرد عورتوں اور بچوں نے ان کی مغفرت کی دعائیں کی ہیں۔
ان کو اپنے ملک اور غیرملکوں کے سیکڑوں انعامات سے سرفراز کیا گیا۔ اصل انعام تو انھیں اللہ کے گھر ہی ملنے والا ہے۔ ان کو اپنے ملک میں رحمت کے فرشتہ کا لقب دیا گیا۔
عبدالستار ایدھی سے معلوم کیا گیا کہ آپ نے تعلیم حاصل نہیں کی تو انھوں نے کہا کہ میں اپنی والدہ کی خدمت میں مصروف رہا۔ پھر کہا کہ لوگ اعلیٰ تعلیم تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن اچھے انسان نہیں بنتے ۔تعلیم کا مقصد اچھا انسان بننا، انسانوں سے محبت کرنا ان کے دکھ سکھ میں کام آنا ہے۔ اگر تعلیم حاصل کرکے آدمی اچھا انسان نہیں بنتا تو پھر وہ تعلیم کس کام کی۔
عبدالستار ایدھی کی زندگی سے ہم یہ سبق سیکھتے ہیں کہ ہمیں بھی کوئی نہ کوئی ایسا کام ضرور کرنا چاہیے جس سے دوسرے انسانوں کو فائدہ پہنچے۔ ہمیں نوجوانوں کو خدمت خلق کے کاموں کے لیے ابھارنا چاہیے۔ ایسی انجمنیں جو بغیر مذہب ملت آگے بڑھ کر یہ فریضہ انجام دیں۔¡¡
موبائل: 8860429904