عام انتخابات سے چند ہفتے قبل الیکشن کمشنر ارون گوئل کا استعفیٰ،حزب اختلاف کی جماعتوں نے اٹھائے سوال

نئی دہلی ،10مارچ :۔

ملک میں عام انتخابات کی تیاریوں کا سلسلہ عروج پر ہے،امکانات ہیں کہ چند ہفتوں بعد تاریخ کا اعلان کر دیا جائے گا۔ان تیاریوں کے درمیان حیران کن طریقے سےلوک سبھا انتخابات سے چند ہفتے قبل  الیکشن کمشنر ارون گوئل نے استعفیٰ دے دیا ہےاور اس پر مزید کہ ان کا استعفیٰ صدر جمہوریہ نے قبول کر لیا ہے۔

ان کا استعفیٰ ایسے وقت میں آیا ہے جب الیکشن کمیشن ( ای سی ) انتخابی تیاریوں کا جائزہ لینے کے لیے ملک بھر کا دورہ  کر رہا تھا اور توقع کی جا رہی تھی کہ لوک سبھا انتخابات کے شیڈول کا اعلان چند دنوں میں کیا جائے گا۔

الیکشن کمیشن آف انڈیا میں پہلے ہی ایک اسامی خالی تھی اور اب یہ تمام ذمہ داریاں صرف چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار کے پاس رہ جائے گی۔

الیکشن کمیشن کے اچانک استعفیٰ پر اپوزیشن  اوردیگر جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے متعدد خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا الیکشن کمشنر ارون گوئل پر حکمراں جماعت کی جانب سے دباؤ تھا،یہ دباؤ کیا ہو سکتا ہے ،تاریخ طے کرنے اور اپوزیشن کی حکومت والی ریاستوں میں انتخابی شیڈیول تیار کرنے کو لے کر کیا کسی طرح کا کوئی دباؤ تھا؟اچانک انتخاب سے عین قبل استعفیٰ دینا متعدد سوالات کھڑے کرتا ہے۔

ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ساکیت گوکھلے نے کہا کہ یہ بہت ہی تشویشناک ہے۔”اچانک اقدام میں، الیکشن کمشنر ارون گوئل نے   استعفیٰ دے دیا ہے۔ دوسرے الیکشن کمیشن کی پوسٹ خالی ہے۔ اب الیکشن کمیشن کے پاس صرف ایک چیف الیکشن کمشنر رہ گیا ہے۔ مودی حکومت نے ایک نیا قانون متعارف کرایا ہے جس کے تحت اب الیکشن کمشنرز کا تقرر پی ایم مودی اور ان کے منتخب کردہ 1 وزیر کے اکثریتی ووٹ سے کیا جائے گا۔ لہذا، 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے، مودی آج کے استعفیٰ کے بعد اب 3 میں سے 2 الیکشن کمشنروں کا تقرر کریں گے۔

کانگریس کے جنرل سکریٹری کے سی وینوگوپال کے مطابق، لوک سبھا انتخابات  سے عین قبل گوئل کا استعفیٰ انتہائی تشویشناک ہے۔

کانگریس لیڈر نے کہا: "یہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی صحت کے لیے گہری تشویش کی بات ہے کہ الیکشن کمشنر  لوک سبھا انتخابات کے قریب ارون گوئل نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ای سی آئی  جیسا آئینی ادارہ کس طرح کام کر رہا ہے اور جس طرح حکومت ان پر دباؤ ڈالتی ہے اس میں بالکل شفافیت نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا: "2019 کے انتخابات کے دوران  اشوک لواسا نے ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر پی ایم کو کلین چٹ کے خلاف اختلاف کیا تھا۔ بعد ازاں انہیں مسلسل پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت جمہوری روایات کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس کی وضاحت ہونی چاہیے، اورای سی آئی  کو ہر وقت مکمل طور پر غیر جانبدار ہونا چاہیے۔