رمضان تک غزہ میں جنگ بندی کے امکانات معدوم

امریکی صدر بائیڈن نے کہا کہ جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنا مشکل

غزہ ،09 مارچ :۔

غزہ میں رمضان سے قبل جنگ بندی کی امیدیں اب معدوم ہوتی نظر آ رہی ہیں ۔فلسطینیوں کی جنہم بھری زندگی میں رمضان بھی راحت کی خبر نہیں بن رہی ہے ۔ایک بار پھر امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ رمضان کے آغاز تک غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنا "مشکل لگتا ہے۔

بائیڈن نے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا ’’کہ انہیں تشویش ہے کہ اگر غزہ میں جنگ بندی نہ ہوئی تو مشرقی یروشلم میں کشیدگی اور تشدد بڑھے گا۔‘‘دوسری جانب حماس نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کے اپنے مطالبات سے دستبردار نہیں ہو گی۔

حماس غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کو مکمل طور پر بند کرنے اور امداد، بے گھر لوگوں کے لیے پناہ گاہوں کا انتظام کرنے اور تعمیر نو کی کارروائیوں کے آغاز کا مطالبہ کرتی ہے۔

اس تناظر میں اخبار "اسرائیل ہیوم” نے کہا ہے کہ اسرائیلی حکام غزہ کی پٹی میں کچھ شہریوں کو مسلح کرنے پر بات کر رہے ہیں تاکہ پٹی کی طرف جانے والے امدادی قافلوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

اخبار نے کہا کہ یہ شہری حماس سمیت مسلح گروپوں سے منسلک نہیں ہوں گے تاہم ان کی شناخت ابھی واضح نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس معاملے پر فیصلہ ملتوی کر دیا۔اس سال رمضان کا مہینہ فلسطینیوں کے موجودہ حالات، غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جنگ اور مغربی کنارے پر عائد پابندیوں کی وجہ سے غیر معمولی طور پر خوف کی فضا میں آ رہا ہے۔ رمضان کے دوران مشرقی یروشلم اور فلسطین کے دوسرے علاقوں میں تشدد اور کشیدگی میں اضافے کے خدشات سے ہیں۔مغربی کنارے کے لوگ ہر سال یروشلم شہر جانے اور مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کے لیے رمضان کے مہینے کا انتظار کرتے ہیں لیکن غزہ پر جنگ اور اسرائیلی پابندیوں اور اقدامات کی وجہ سے یہ سال مختلف نظر آتا ہے۔